صدر العلما پیکر حلم و بردباری
امین شریعت حضرت علامہ سبطین رضا خاں صاحب(علیہ الرحمۃ الرحمن) برادر اکبر حضرت صدر العلما
آہ! مظہر مفتی اعظم،برادر عزیز مولانا تحسین رضا خاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی اچانک رحلت سے جو صدمۂ جانکاہ دل و دماغ کو پہنچا ہے وہ مدتوں بھلایا نہ جا سکے گا یہ ایک ایسا زخم ہے جس کا اندمال جلد ممکن نہیں۔اپنی مسلسل علالت و کمزوری کے باعث سمجھ تو یہ رہا تھا کے بھائیوں میں بڑا ہونے کی وجہ سے دنیا سے جانے میں بھی پہلا نمبر میرا ہی رہےگا مگر مشیت ایزدی کچھ اور ہی تھی جو ۱۸ رجب المرجب ١٤٢٨ ھ کو ظاہر ہوئی۔"انا للہ وانا الیہ راجعون۔"
ادھر امام احمد رضا اکیڈمی بریلی کی جانب سے بذریعہ مولانا صغیر اختر مصباحی کا خط آیا کہ اُن کے حالات پر کچھ لکھوں مگر اپنا حال تو یہ ہے کہ قلم اٹھانے سے پہلے دل بیٹھ جاتا ہے، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہے مگر ان کی محبت کا جذبہ دل کو ابھارتا کہ جیسے بھی کچھ ہو لکھوں ضرور،کبھی بچپن کی یاد ستاتی ہے کبھی زمانۂ طالبِ علمی کا خیال آتا ہے جب ہم دونوں ساتھ پڑھتے تھے،اور تقریباً پانچ چھ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا،اس کے بعد شیخ الحدیث محدث اعظم پاکستان کی دعوت پر ایک سال کے لئے پاکستان چلے گئے تھے،کبھی ان کی سادگی طبع،سادہ لوحی،تواضع و انکساری،حلم و بردباری،متانت و سنجیدگی،زہد و تقویٰ و پرہیزگاری،خلق خدا کی خدمت کا جذبۂ بے کراں۔ برخلاف اس کے اخلاق رذیلہ،ریاکاری و دکھاوا،تکبّر و غرور سے دوری برتی۔ان کی پاکیزہ زندگی کی سیکڑوں باتوں کا رہ رہ کر خیال آتا ہے۔
ان کی علمی صلاحیت و قابلیت،پڑھانے کا انداز (اندازِ تفہیم) تو یہ ان کے بےشمار تلامذہ ہی بتا سکے گے کہ جنہوں نے ان کے سامنے زانوئے ادب طےکئے،ہم تو جانتے ہے کہ ان کی زندگی کا بہترین مشغلہ پڑھنا پڑھانا ہے جو زمانۂ طالبِ علمی سے آخر تک جاری رہا۔ "ذلك فضل الله يوتيه من يشاء"
اب آخر میں اپنے پیارے بھائی کے خلوص و محبت اور قلبی لگاؤ کا جو انہیں مجھ سے تھا،اور مجھے اُن سے تھا اس کا کچھ تذکرہ کروں۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقّت و محبت جو اسلامی اخلاق کا ایک زریں حصہ ہے اگر آج بھی مسلمان اس پر عمل کرے تو مسلمانوں میں گھر گھر جو خانہ جنگی چھڑی ہوئی ہے،وہ یکسر ختم ہو جائے۔اور اتفاق و اتحاد کی فضا پیدا ہو جائے،میں ان سے عمر میں بڑا ہوں مگر مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ مجھ سے علم میں بڑے تھے۔ "ذلك فضل الله يوتيه من يشاء"
اس کے باوجود کوئی بات ان سے کہتا تو مان لیتے،پڑھانے کے زمانے میں انہیں منطق و فلسفہ سے بہت دلچسپی تھی اور ایک عرصہ تک یہی پڑھاتے رہے، میں نے کہا کہ اب اسے چھوڑو،اب دوسرے فنون نیز تفسیر و حدیث وفقہ بھی پڑھاؤ،تو انہوں نے اس طرف توجہ دی،اور اس سے انہیں اتنی دلچسپی بڑھی کہ نہ صرف مدرسہ میں پڑھاتے بلکہ محلہ کی بڑی مسجد میں ہر جمہ کو بعد فجر درس قرآن و حدیث کا سلسلہ شروع کروایا جو آخر تک جاری رہا،پچیس سال تک پابندی سے درس دیا جس میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہو کر فیضیاب ہوتے رہے۔
مدرسہ سے ان دنوں تنخواه کم ملتی تھی،میں نے مشورہ دیا کہ کتب خانہ کھول دو تو گھبرائے کہ کون سنبھالے گا کون چلائے گا،میں اُن دِنوں ناگپور میں تھا وہاں سے کچھ کتابیں خرید کر پارسل سے بھجوا دیں تو مجبوراً راضی ہو گئے اور کتب خانہ بنام مکتبۂ مشرق قائم کر دیا۔انہیں دِنوں قاری عرفان الحق آگئے،جو ان کے شریکِ کار ہو گئے،اور وہ مکتبہ آج تک چل رہا ہے،خدا کا فضل ہے کہ ہم بھائیوں میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا،اور ہوا بھی تو ختم ہو گیا،مکان و زمین کی تقسیم پر اکثر بھائیوں میں اختلاف ہو جاتا ہے،مگر اس مرحلے سے بھی باآسانی گزر گئے،والد صاحب کے انتقال کے بعد جب انہوں نے مکان کی تقسیم کے لیے مجھے لکھا تو میں نے لکھ دیا کے تم دونوں بھائی تقسیم کرلو اور جو میرے حصے میں آئے چھوڑ دو،چنانچہ ایسا ہی ہوا،میں باہر رہا اور مکان کی تقسیم ہو گئی،مزید برآں میرے مکان کی تعمیر کا مسئلہ سامنے آیا باہر رہنے کی وجہ سے میرے لیے یہ امر مشکل تھا کے میں یہاں رہ کر مکان تعمیر کرواؤں،یہ کام بھی انہوں نے اپنے ذمہ لے لیا،اور اپنی نگرانی میں یہ کام بھی کرادیا،ان کی محبت اور سعادت مندی کا یہ حال تھا کہ چھوٹے چھوٹے کام ان کے سپرد کر دیتا اور وہ بخوشی انجام دیتے ٦٣ء سے باہر رہتا ہوں۔ مدھ پردیش جس کا ایک حصہ اب چھتیس گڑھ کہلاتا ہے،حضرت مفتی اعظم کے ایماء پر جو عالم خواب میں فرمایا تھا،وہاں جانا ہوا اور آج بھی وہی رہتا ہوں۔
برادر عزیز اور یہ ناچیز اتفاق سے قد و قامت نیز شکل و صورت میں یکساں تھے کہ اگر میرا لباس وہ پہن لیتے یامیں اُن کے کپڑے پہنتا تو دیکھنے والے کو امتیاز مشکل ہوتا کہ کسی دوسرے کا لباس ہے، اس زمانے میں کئی بار ایسا ہوا کے ضرورت پڑنے پر انہیں لکھ دیا کہ کپڑے سلوا کر بھیج دو تو اپنے ناپ کے سلوا کر مطلوبہ کپڑے بھیج دیے ،شکل و صورت میں مشابہت اس درجہ کہ ان سے کوئی صاحب کسی کام کے لیے کہتے اور کچھ دنوں بعد میں انہیں مل جاتا تو وہ مجھ سے دریافت کرنے لگتے،کہ فلاں کام کرنے کے لئے آپ سے کہا تھا اس کا کیا رہا۔یہی معاملہ ان کے ساتھ ہوتا ایسا اکثر ہوا۔ اس زمانے میں فون اور موبائل کا چلن نہیں تھا،خط و کتابت ہوا کرتی تھی،کبھی وہ لکھتے کبھی میں لکھتا،خط کے شروع میں آداب و القاب اور سلام کے بعد یہ ضرور لکھتے کہ بہت دِنوں سے آپ لوگوں کی خیریت معلوم نہیں ہوئی،فکر ہے،افسوس! کہ وہ فکر کرنے والا نہ رہا اور اپنی فکر ہم لوگوں کے لئے چھوڑ گیا،وقت رخصت خدا ہی جانے ان پر کیا گزری،اور اب کس حال میں ہے،لیکن میرا وجدان کہتا ہے کے وہ گئے نہیں ہیں بلکہ مدینہ کی پُر فضا بہاروں میں کھو گئے، اس لیے کے بہت پہلے اپنی ایک نعت کے مطلع میں کہا تھا
مدینہ سامنے ہے بس ابھی پہنچا میں دم بھر میں
تجسّس کروٹیں کیوں لے رہا قلب مضطر میں
دعا ہے کے مولیٰ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
غم زدہ دل شکستہ،سبطین رضا غفرلہ ۹ شعبان المعظم ۱٤٢٨ھ
(صدر العلماء محدث بریلوی نمبر،صفحہ ١١)
No comments:
Post a Comment