ایک پراسرار فتویٰ
از- شہزادۂ اعلی حضرت مفتی اعظم ہند حضرت علامہ مصطفی رضا خان رضی المولیٰ عنہ
سوال : فلم یعنی باکس کوپ دیکھنا جائز ہے یا ناجائز کیونکہ ان دنوں ایک حج فلم تیار ہو کر کلکتہ میں آیا ہوا ہے جس کو بتایا گیا ہے کہ علمائے عرب و مصر نے جائز قرار دیا ہے اور شاہانِ عرب و مصر نے خود دیکھا ہے اور پسند کیا ہے دنیائے اسلام کو بڑی اہمیت کے ساتھ دیکھنے کا شوق دلایا ہے اس لیے عام مسلمانوں میں اس کی شورش پیدا ہے کہ جب علمائے عرب و مصر نے جائز کیا ہے تو پھر اس فلم کا دیکھنا کیسے ناجائز ہو سکتا ہے امیدوار ہیں کہ احکامِ خداوند جل و علا و فرمانِ مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم سے ہم مسلمانوں کو آگاہ فرما کر فعل نا مشروع سے بچائیں گے؟
الجواب ۔ الله الله کیا زمانہ ہے کسے آج یہ وہم کہ مسلمانوں کو سنیما جیسی چیز کے حرام و گناہ ہونے میں شک ہوگا کسے خطرہ تھا کہ اس تماشے کے جواز کا خواب انھیں نظر آئے گا یہ وہم جاگے گا کسے اندیشہ تھا کہ ایسے بدکام جسے خواص و عوام مطلقاً گناہ و حرام جانتے مانتے ہیں کبھی اسے اگرچہ اس میں کہیں کے خواص بھی مبتلا ہو جائیں جنھیں مبتلا سنیں ہی نہیں خود اپنی آنکھوں دیکھیں ۔جائز سمجھا جائے گا کسے یہ خیال تھا کہ کوئی بد لگام اس گانے بجانے اور تصاویر نچانے کا تماشہ دیکھنے دکھانے کو جائز سمجھے سمجھائے گا وہ بھی اس دلیل ذلیل سے کہ فلاں جگہ کے عوام ہی نہیں خواص بھی اس میں مبتلا بتائے جاتے ہیں کسے یہ گمان تھا کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ سمجھ والا بھی ۔ شریعت، کہیں کے مولوی کہلانے والے حاکموں بادشاہوں کے قول فعل کا نام رکھے گا کہ وہ جو کہیں کریں جائز و حلال ہوگا کیسے نا جائز و حرام ہوگا.
اب تک مسلمان تو یہی سمجھتے تھے کہ جاہل سے زیادہ عالم عوام سے زیادہ خواص پر ارتکابِ گناہ سے اشد الزام ہوتا ہے رذیل سے زیادہ شریف ارتکاب گناہ پر مورد الزام و مطعون و ملام ہوا کرتا تھا یہ نہ جانتے تھے کہ اب زمانہ ایسا آگیا کہ لوگ مولوی کہلانے والوں اور بادشاہوں کے ایسے ناجائز قول و فعل کو سن کے بجائے اس کے کہ انھیں اشد ملزم سمجھیں ان پر اشد طعن کریں انھیں سخت مطعون ملام ٹھہرائیں ان کے اس قول و فعل کو دلیل جواز بنا لیں گے العیاذباالله تعالی وہ بھی ایسا نجس قول جس سے مسلمانوں کے دین کو ہنسی کھیل بنا لینے والوں کی امداد و اعانت ہو۔ حج مسلمانوں کے دین مقدس کا رکن ہے اس کا تماشا بنانا دین کو ہنسی کھیل بنانا نہیں ہے تو کیا ہے(فاانالله و انا اليه راجعون ولاحول ولا قوۃ الا با لله العلي العظيم)۔ سنیما دیکھنا تو ویسے بھی حرام ہے اور حج فلم کا تماشہ دیکھنا حرام در حرام اشد اخبث کام ہے حج فلم کے ساتھ راضی ہونا اپنے دین کو ہنسی کھیل بنا لینے پر راضی ہونا ہے اس سے اخبث اور اشد نجس بدتر کام اور کیا ہوگا۔ گانے بجانے کی حرمت پر تصاویر کی نا جوازی کے متعلق اگر تفصیل دیکھنی ہو تو عطایاالقدیر اور التجیر رسائلِ اعلٰی حضرت قدس سرہ ملاحظہ کریں۔
بعض لوگ خوشامد میں بادشاہوں حاکموں کے سامنے ایسے ہو جاتے ہیں کہ وہ دن کو رات کہیں تو یہ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانا ضروری خیال کرتے ہیں جو وہ کریں گے ان کے خوشامد میں یہ بھی ویسا ہی کر گزرتے ہیں جنھیں فرمایا گیا (الناس على دین ملوكهم) بادشاہ کے دین کا لوگوں پر اثر پڑتا ہے لوگ بادشاہ دین کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں مگر یہ آج تک غالباََ نہ ہوا تھا کہ محض ان کے قول و فعل کو دلیل جواز ٹھہرایا گیا ہو اور شریعت ان کے ہاتھ میں یا ان کے قول و فعل کے تابع سمجھی گئی ہو۔ اب جو نہ ہو کم ہے پھر اخباری اشتہاری پروپیگنڈہ کسے معلوم نہیں عرب و مصر کے علماء کا نام بدنام کیا جاتا ہے ہرگز علماء ایسی خبیث بات نہیں کہہ سکتے ہرگز ایسی شنیع امر سے راضی نہیں ہو سکتے ہرگز ایسے نجس کام کو پسند نہیں کر سکتے۔علما کو بد نام کرنے والے بدنام کنندہ نکونام چند ہندوستان ہی میں نہیں ہیں ہر جگہ ہیں یہاں ہندوستان ہی میں دیکھو ایسے لوگ برساتی حشرات الارض کی طرح پھیلے ہوئے ہیں ۔ کیسے کیسے اجہل آج کل مولانا اور علامہ بنے ہوئے ہیں ہر لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا پہلے تو فریب دہی کو بڑے بڑے عمامے اور لمبے چوڑے جبے درکار ہوتے تھے اب تو چورن والوں کی طرح زبان کھول لی یا ٹھیٹھروں میں نوکری کر لی اور وہاں سے تقریر میں کچھ مہارت اور گانے کی مشق پیدا کر لی اور مولیٰنا ہوا اور بڑے سے بڑا مولانا ہونا ہوا تو جیل کی ہوا کھالی اور علامہ کی ڈگری کے لیے تو اتنا بھی ضروری نہیں گھر بیٹھے علامہ بن جاتا ہے اخباروں میں اوندھے سیدھے مضمون لکھے اور اپنے نام کے ساتھ علامہ کا لفظ خود ہی لکھ دے اپنے آدمی سے لکھوایا کرے دو چار آدمی ایسے بنا لیے جو علامہ علامہ کہا کریں ہندوستان بھر میں علامہ مشہور ہو جائے گا۔(ولاحول ولاقوة الا بالله۔
اگر یہ واقعہ ہے کہ مصر کے کچھ لوگوں نے حج فلم کے ساتھ اظہارِ رضا کیا اسے جائز بتایا ہے تو وہ ایسے مولانا اور ایسے ہی علامہ ہیں ۔ ہرگز کسی عالمِ دین کی یہ ناپاک حرکت یہ نجس قول نہیں ہو سکتا۔ یہاں دلی کے ایک مشہور عام رسوا بین الخواص والعوام ہستی بھی تو سنیما کی فلموں کو دیکھتی اور اس کے تعریفیں لکھتی اور چھاپتی ہے۔ ایسے ہی مصر کے بعض عبد الدنیا والدرہم دین سے آزاد جاہلوں نے حج فلم کو پسند کیا اور دیکھا دکھایا ہوگا اور بالفرض اگر دنیا بھر کے خواص و عوام کسی ایسے حرام کا ارتکاب اور اسے پسند کریں تو کیا اس سے وہ حرام جائز ہو جائے گا ہرگز نہیں۔
(فتاویٰ مصطفویہ شریف،صفحہ ٥١٥)
No comments:
Post a Comment