تقریر منیر قلب
(قسط اول)
از-مظہر اعلی حضرت شیربیشۂ اہل سنت مولانا حشمت علی خان قادری رضوی علیہ الرحمہ
سجن پرشو دھارمک منشو مسلمان مترو اسلامک پترو سچّائی کے پسند کرنے والوں، مذہب کے فدائیوں اسلام کے شیدائیوں اس وقت اس سمے پر میں آپ کو کوئی بہت بڑا ویا کھیان دینے کے لیے نہیں آیا ہوں آپ کو کوئی طویل اپدش نہیں دونگا آپ کے سامنے کوئی مفصّل تقریر نہیں کرونگا۔ کیول اتنی سی بات ہے فقط یہ امر ہے کہ ادھرمیوں کے ہاتھوں جو دُکھ مسلمانوں پر آ رہے ہیں اور کفار کے جن جن مظالم نے اسلام کو نرغے میں لے لیا ہے اُن کو دیکھتے ہوئے میرے دل پر جو تکلیف ہے میرے من میں جو درد ہے وہ آپ کے سیوا میں بیان کروں۔ آہ ! ایک زمانہ تھا کہ عالم کی سلطنتیں ہمارے قدموں کے بوسے لینے کو اپنا فخر جانتی تھیں ۔شہنشاہان جہاں کے تاج ہمارے پير کے جوتوں سے ٹھکراتے تھے بڑے بڑے جبروت والے بادشاہوں کے تخت کو ہم نے اُلٹ دیا فرمانروایان عالم ہمارے فرمابردار تھے کشور کشایان جہاں ہمارے ہی بندہ فرماں تھے۔ پرتھوی کے راجا مہاراجہ اپنی پگڑیاں ہمارے چرنوں پر ڈالا کرتے تھے قیصر و کسری کے محل میں ہمارے ہی نعرہائے تکبیر نے زلزلہ ڈالدیا جدھر رخ کرتے تھے فتح و کامیابی ہمارے قدموں پر لوٹتی تھی کسی کافر کو اتنی جرأت نہ تھی کہ وہ ہمیں بری نگاہ سے دیکھ سکے۔ افسوس آج وہ وقت آ گیا پتھروں کے پجاری، پاخانہ اور پیشاب کو پوتر سمجھنے والے، ۳۳ کروڑ دیوتاؤں کے ماننے والے، اسلام و مسلمین کے مٹانے کو تیار ہیں، ان کے دعوے ہیں کہ ہندوستان کے ساڑھے سات کروڑ ملکش مسلمانوں کو جلد جلد ہندو بناڈالو اور اگر یہ ہندو نہ ہوں تو انہیں بھارت ورت(ہندوستان) سے نکال دو، وہ کہتے ہیں کہ ہم کعبہ کی چھت پر جا کر اوم کا جھنڈا گاڑیں گے۔ انہوں نے شدھی سبھائیں قائم کرلی ہیں۔ ہندو سبھائیں بنا ڈالی ہیں، کہیں چمار سبھا ہے کہیں گوجر سبھا ہے کہیں راجپوت سبھا ہے کہیں ذات پات توڑک منڈل ہے کہیں چُھوت چھات توڑک منڈل ہے، ہندو سنگھٹن ایک آندھی کی طرح ہندوستان کے ہر گوشے میں پھیل گیا ہے، ہر ہندو بچّے کی آنکھ میں مسلمان کو دیکھ کر خون اتر آیا ہے، ایک ایک مشرک جنا اسلام کے مٹانے پر تلا ہوا ہے، آگرہ، سہارنپور ، رائے بریلی، امرتسر ،گونڈہ ، جبلپور،پانی پت ،ضلع ایٹہ، شاہجہانپور ،میرٹھ، اجمیر مقدس وغیرہا مقامات پر، مسلمانوں پر مظالم توڑے گئے، اور مسلمانوں کی یہ حالت ہے کے پٹ جاتے ہیں، مار کھا لیتے ہیں، اللّٰہ اللّٰہ ایک مشرک کے ناپاک ہاتھوں سے کہ گوبر کا اپلا بھی اسکا معبود ہے اور بدلہ نہیں لے سکتے ہیں، اور بدلہ لینا تو درکنار فریاد بھی نہیں کر سکتے اور فریاد کریں بھی تو سننے والا کون۔
کفر کا دور ہے اسلام دبا جاتا ہے
المدد اے شہ دیں کفر مٹانے والے
اللہ اکبر آج پرستاران توحید واحد قدوس کے ماننے والے اس قدر کم ہمت ہو گئے، ایسے بزدل ہو گئے اتنے کمزور ہو گئے، اے مسلمانوں بہت سو چکے جاگو، خواب غفلت سے بیدار ہو سونے کا وقت گزر چکا اٹھو ہوشیار ہو ، ہم نے مانا کے تمہارے پاس تیر و تبر نہیں،تیغ و شمشیر نہیں، توپ و قفنگ نہیں بندوق رفل نہیں مگر تمہارے پاس اسلام کی حقانیت ہے تمہارے سینوں میں حق کی امانت ہے، جس کے سامنے تمام اہل باطل کی گردنیں خم ہے۔ تم ذرا جاگ تو جاؤ ہوشیار تو بنو پھر دیکھنا کہ تمہاری بے دست و پائی کس طرح اعدائے دین کے زور و مکر و فریب کے آہنی قلعوں پر برق خاتف بن کر گرتی ہے،اور کیونکر اُن کے پرخچّے اڑا دیتی ہے، یہ وہی پیارا اسلام ہے جس کی عالم افروز تجلّیاں اس آیت کریمہ میں دکھائی گئی ہے، جو میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ بیشک سچا دین اللّٰہ کے نزدیک اسلام ہے، عالم میں جتنے مذاھب ہیں دنیا میں جتنے دین ہیں سنسار میں جتنے دھرم ہیں جگ میں جتنے مت ہیں خواہ وہ وام مارگی ہوں یا جینی ہوں یا نوی ویدانتی ہوں یا شو مت ہوں يا وشنو مت ہوں یا چکران کت وشنو ہوں یا سناتن دھرم ہوں، یا برہموں سماج ہوں یا آریہ سماج ہوں یا مجوس، عیسائی یہودی ہوں، کسی کا مذہب کسی کا دھرم کسی کا دین خدائے تعالیٰ تک نہیں پہنچا سکتا،اگر کوئی مذہب خدا کے دربار تک ہماری رسائی کرا سکتا ہے تو وہ پیارا مذہب اسلام ہے اس وقت اسلام کے مقابلے پر جتنے مذہب(مت) آستین چڑھا کر اسلام سے مقابلے کے لیے آئے ہیں اُن کا اسلام سے مقابلہ کرکے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ خود ہی سمجھ لیں گے یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ خدا پاک ہے اس کا نام قدوس سبوح ہے وہ ممکنات کی ہر آلائش و گندگی سے منزہ و مبرا ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ پاک چیز سے دوسری چیز اُسی وقت فائدہ اٹھا سکتی ہے جبکہ وہ خود بھی پاک ہو تو کوئی مذہب پاک خدا تک ہمیں پہنچاے ضرور ہے کہ ہمیں بھی پاک کرنے کا ذمہ لے۔ آج اسلام کے مقابل ہر مذہب کو چیلنج ہے کہ وہ اپنے یہاں کے سو برس کے بڈھے كا مسلمانوں کے چار برس کے بچّے سے مقابلہ کرکے دیکھ لے کہ جو شخص سو برس تک وید کی تعلیم پر عمل کرتا رہا اس کے وید نے کیا نفع دیا اور اس ایک چار برس کے بچّے کو اسلام کیا فیض پہنچاتا ہے ہر مذہب کے عقلا مانتے ہے کے پاخانہ اور پیشاب نجس ہیں ناپاک ہیں اشدُھ ہیں اپوتر ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی انسان اس سے مستثنٰی نہیں ہر منش کو یہ دونوں چیز لگی ہوئی ہیں اور ہر شخص اپنے بدن سے جسم سے اپنے شریر سے ان دونوں چیزوں کو دور اور جدا اور الگ کرنے کی کوشش کرتا ہے اب دیکھنا چاہیئے چار برس کا بچہ کس طرح پاخانہ اور پشاب کو اپنے جسم سے دور کرتا ہے جب اس کو پیشاب کی ضرورت ہوتی ہے تو پہلے وہ ڈھیلا تلاش کرتا ہے پھر ایسی جگہ دیکھتا ہے جہاں اُس کو پیشاب کرتے ہوئے دوسرا نہ دیکھے اس لیے کے انسان کی فطرت میں حیا اور غیرت کا مادہ قدرت نے ودیعت فرما دیا ہے، اسلام نے اس کی حفاظت فرمائی اور ایک چار برس کے بچّے کو یہ تعلیم دی کہ وہ لوگوں کے سامنے بّیٹھکر پیشاب بھی نہ کرے جب اس قدر اُس کی غیرت کا لحاظ رکھا گیا تو بڑا ہو کر اس کو یہ ہمت کبھی نہ ہوگی کہ وہ نا محرم عورت کے سامنے اپنا جسم کھولے۔ اسلام نے زنا کا سدّ باب فرما دیا اب اس کو محفوظ مقام مل گیا تو وہ دیکھتا ہے کہ قبلہ کی طرف میری پیٹھ اور منہ نہ ہونے پائے جس کے طرف میں اپنے خدا کی عبادت کرتا ہوں اس طرف گندگی کی حالت میں منہ یا پیٹھ ہونا بےادبی ہے پھر وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ آگے کی زمین اونچی نہ ہو، کہ پیشاب لوٹ کر اُسی کو ناپاک نہ کردے یہ بھی خیال کرتا ہے کہ ہوا کے رخ میں نہ ہو کہ پیشاب اُڑ کر اُسی کے کپڑوں پر نہ پڑ جائے اب پیشاب سے فارغ ہو گیا تو اس نے ڈھیلا لے لیا اس لیے کے استنجا کرتے وقت اس کا ہاتھ ناپاک نہ ہو جب اسکو اطمینان ہو گیا تو پانی سے اس نے استنجا کرلیا اگر پاخانہ کی اس کو ضرورت ہوتی ہے پانچ یا ساتھ ڈھیلے لے کر بیت الخلا جاتا ہے پہلے بایاں پاؤں رکھتا ہے اس لیے کے دہنا پاؤں افضل ہے مسجد جانے کے لئے ہے پاخانہ میں اس کو پہلے داخل کرنا بےادبی ہے جانے سے پہلے وہ ایک دعا پڑھتا ہے اللھم انی اعوذبک من الخبث والخبائث یعنی میں ایک عاجز انسان ہوں نجاستوں میں مبتلا ہوں اے اللہ تو مجھے پاک کرےگا تو ہی میں پاک ہوں گا پاخانہ میں جا کر اتنا ہی جسم کھولتا ہے جس کی ضرورت ہے سر کو جھکائے ہوئے زمین پر نگاہ رکھتا ہے اس کی عاجزی اس کی ضعیف النبیانی اس کے پیش نظر ہے وہ اپنی شرم گاہ کو نہیں دیکھتا ہے تاکہ اس کے قوائے شہوانی میں ہیجان پیدا نہ ہو فارغ ہو کر ڈھیلے سے نجاست صاف کرتا ہے اور اس کے بعد پانی سے استنجا کرکے پہلے داہنا پاؤں نکال کر باہر آتا ہے کہ یہ جگہ اس قابل نہ تھی کہ کوئی اپنی خوشی سے جائے مجبوراً جانا پڑتا ہے اس وجہ سے یہاں سے جلد نکلنا چاہیے اس لیے پہلے اپنے داہنے پاؤں کو نکالتا ہے باہر نکل کر وہ پڑھتا ہے الحمدللہ الذی اذھب عن العذاب و عافانی یعنی اس خدا کا شکر ادا کرتا ہے جس نے اس نجاست سے اس کو پاک کردیا ہے۔ اب ویدک دھرم کے سو برس کے بڈھے کو دیکھیے اس کو پیشاب کی ضرورت ہوتی ہے نہ وہ ڈھیلا تلاش کرے گا، نہ پانی نہ پوشیدہ جگہ سب کے سامنے سڑک پر دھوتی کھول کر موت کے ویسے ہی کھڑا ہو جائےگا تولا جائے تو چھٹنکیوں میں اس کی دھوتی میں پیشاب ہو گا اس کو پاخانہ لگا ایک لُٹیا آدھی چھٹانک پانی لے کر چل دیا پاخانہ پھر کر اس پانی سے بجائے پاک کرنے کے اور لیس لیا اور اُسی ہاتھ سے لُٹیا چھوئی لُٹیا بھی ناپاک ہوئی وہی لٹیا لے کر کوئیں پر آئے زمین سے مٹی لے کر اب اُن کو اس سے غرض نہیں یہاں کسی نے موتا ہے یا آدمی نے پیشاب کیا ہے اس لٹیا کو سان لیا اور کنویں میں غڑپ کردیا سارا کنواں بھی ناپاک کردیا ، دیکھا یہ ہے ویدک دھرم کی تعلیم وید اپنے بهکت کو جس نے سو برس تک اس کی سیوا کی ہے اتنا بھی نہ بتا سکا کہ پاخانہ ،پیشاب شدھ ہے یا اشدھ پوتر ہے یا اپوتر پاک ہے يا ناپاک بخلاف مذہب اسلام کے کہ اس نے چار برس کے بچّے کو پاکی کا وہ نفیس طریقہ بتایا ہے جو ابھی آپ نے سنا ۔
میدان تبلیغ میں ایک آریہ نے مجھ سے اعتراض کیا تھا کہ ساری سرشتی پرمیشور کی طرف سے ہندو پیدا ہوتی ہے تم اس کی مسلمانی کرلیتے ہو میں نے کہا واه واہ پنڈت جی آپ نے بڑی کرپا کی اپنے دھرم کی حقیقت میرے سامنے بیان کردی آپ نے جتا دیا کہ ہندو دھرم ایسا پوتر ہے کہ اُسکی علامت لگانے کے لیے پرمیشور کو کوئی جگہ ہی مناسب نہ معلوم ہوئی سوا پیشاب کے مقام کے پنڈت جی اس پر بہت بگڑے کہنے لگے پرمیشور نے جس چیز کو جیسا پیدا کیا ہے اس کو ویسا ہی رکھنا چاہیے میں نے کہا جب آپ پیدا ہوئے تھے آپ کے نال بھی تو لگا تھا کیوں کاٹ کے پھینک دیا لگا رہنے دیتے پیچھے کی بجائے آگے دم رہنے دیتے وہ بھی پرمیشور ہی کا پیدا کیا ہوا تھا کہنے لگے وہ تو کاٹنے ہی کی چیز تھی۔میں نے کہا وہ کھال بھی کاٹنے ہی کی چیز تھی جناب آدمی جب پیشاب کرتا ہے تو کچھ قطرے اس کھال میں رہ جاتے ہیں جب چلتا ہے اور حرکت ہوتی ہے تو نکل کر اُسکی دھوتی اور پاجامہ کو ناپاک کر دیتے ہے اسلام چونکہ پاک ہے اور پاک خدا تک پہنچا دیتا ہے اس لیے اس نے بتایا کہ اس کھال کو کاٹ دو کہ تمہارے پیشاب کا راستہ صاف ہو جائے اور تمہارے کپڑے پاک رہیں اب آپ خود ہی فیصلہ کرلیں پنڈت جی خاموش ہو گئے یہ ہے اسلام کی حقانیت کہ وہ اس طرح اپنے حلقہ بگوشوں کو پاکی کی تعلیم دیتا ہے اور اُن کو پاک بنا کر پاکی کے طریقے پر چلا کر پاک خدا کی پاک بارگاہ تک پہنچا دیتا ہے عام مذاھب آئیں اور اسلام کی اس ایک ادا سے مقابلہ کر دیکھیں یہ ہے ان الدین عند اللہ الاسلام جس کو فرمایا گیا کہ بیشک پاک خدا سے پاک طریقے پر پاک کرکے ملا دینے والا دنیا جہان میں جگ سنسار میں اگر کوئی مت ہے اگر کوئی مذہب ہے اگر کوئی دھرم ہے کوئی دین ہے تو وہ ایک پیارا اسلام ہے۔
(تقریر منیر قلب، صفحہ ۲)
No comments:
Post a Comment