وہی ہے اول وہی ہے آخر
از :- حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہ ہی اوّل ہے وہ ہی آخر ہے وہ ہی ظاہر ہے وہ ہی چھپا ہوا اور وہ ہی ہر چیز جانتا ہے۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے مدارج النبوۃ کے خطبہ میں ارشاد فرمایا۔یہ آیت کریمہ حمد الٰہی بھی ہے اور نعت مصطفےٰ بھی علیہ الصلاۃ والسلام۔حضور سب سے اوّل ہیں اور سب سے پیچھے اور سب پر ظاہر اور سب سے چھپے ہوئے اور حضور ہر چیز کو جانتے ہیں اوّل تو اس طرح کے دنیا و آخرت ہر جگہ سب سے اوّل ہی ہیں،سب سے پہلے آپ کا نور پیدا ہوا اول ماخلق اللہ نوری جسما تو حضرت آدم علیہ السلام حضور علیہ السلام کے والد ہیں مگر حقیقتاً حضور علیہ السلام والدِ آدم ہیں بظاہر درخت سے پھول ہے مگر حقیقت میں پھول سے درخت ہے۔
ظاہر میں میرے نخل حقیقت میں میری اصل
اس گل کی یاد میں یہ صدا ابوالبشر کی ہے
اس باغ عالم کے حضور پھول ہیں صلی اللہ علیہ وسلم۔سب سے پہلے نبوت آپ کو عطا ہوئی خود فرماتے ہیں کنت نبیاوادم بین الطین والماء ہم اس وقت نبی تھے جب کے حضرت آدم اپنی آب و گل میں جلوہ گر تھے میثاق کے دن الست بربکم کے جواب میں سب سے پہلےبلی فرمانے والے حضور ہی ہیں،بروز قیامت سب سے پہلے آپ کی قبر انور کھولی جاوے گی،بروز قیامت اوّل حضور کو سجدہ کا حکم ملےگا سب سے پہلے حضور شفاعت فرمائیں گے اور شفاعت کا دروازہ حضور ہی کے دست اقدس پر کھلے گا۔اوّل حضور ہی جنت کا دروازہ کھلوائے گے اوّل حضور ہی جنت میں تشریف فرما ہوں گے،بعد میں تمام انبیاء ۔اوّل حضور ہی کی امت جنت میں جاوے گی بعد میں باقی امتیں۔غرض کے ہر جگہ اوّلیت کا سہرا ہر وقت ان کے ہی سر پر ہیں،اوّل دن یعنی جمعہ حضور ہی کو دیا گیا،اس قدر اوّلیت کے باوجود پھر سرکار صلی ﷲ علیہ وسلم آخر بھی ہیں۔سب سے آخر حضور کا ظہور ہوا۔خاتم النبین آپ ہی کا لقب ہوا۔سب سے آخر حضور ہی کو کتاب ملی۔سب سے آخر حضور ہی کا دین آیا،سب سے آخر دین یعنی قیامت تک حضور ہی کا دین باقی رکھا گیا۔
کیا خبر کتنے تارے کھلے چھپ گئے
پر نہ ڈوبے نہ ڈوبا ہمارا نبی
نمازِ اسری میں تھا یہ ہی سر،عیاں ہو معنی اوّل آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت پہلے کر گئے تھے
اب رہا ظاہر و باطن،حضور علیہ السلام سب پر ظاہر ہیں،اور ہمیشہ ظاہر،سب پر تو اس طرح ظاہر کے ان کو مسلمان جانیں،کافر پہچانیں،یعرفوفه کمہ یعرفون ابنا ءھم حضور کی معرفت کو بیٹے سے مثال تھی نہ کے باپ سے اس کی تین وجہ ہیں۔بیٹا اپنے باپ کو صرف لوگوں سے سن کر جانتا ہے،بلادلیل، مگر باپ اپنے بیٹے کو اپنے نکاح،قرار حمل،ولادت وغیرہ دلائل سے جانتا ہے۔کفار بھی حضور کو دلائل سے پہچانتے تھے نہ فقط سن کر بیٹا دنیا میں آکر باپ کو پہچانتا ہے۔مگر باپ ولادت سے پہلے ہی کفار بھی حضور کو ولادت پاک سے پہلے ہی جانتے تھے اور ان کی آمد کی دعائیں مانگتے تھے،نیز بچہ دنیا میں آکر فوراً نہیں پہچانتا بلکہ سمجھدار ہو کر، مگر باپ بیٹے کو اوّل ہی سے جانتا ہے۔حضور علیہ السلام کو بچپن ہی سے سارا عالم جانتا تھا کہ پہاڑ سلام کرتے تھے حجر خوشخبریاں دیتے تھے۔درخت سایہ کے لئے جھکتے تھے۔چاند باتیں کرتا تھا،کفار آپکی نبوت کی گواہیاں دیتے تھے۔
بالائے سرش ز ہوشمندی
مے تافت ستارہء بلندی
جانور جانیں،اونٹ سجدہ کریں،جنگل کے ہرن امن مانگیں،چاند و سورج جانیں کہ چاند تو اشارہ پاکر دو ٹکڑے ہو جائے اور سورج ڈوب کر لوٹ آوے جانتے ہیں کے اشارہ محبوب ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔فرش والے جانیں،عرش والے پہچانیں حضرت آدم آنکھ کھولتے ہی عرش اعظم پر رب کے نام کے ساتھ محبوب کا نام لکھا ہوا پائیں،جنت والے جانیں،دوزخ والے پہچانیں،جنت کے پتہ پتہ پر،حوروں کی آنکھوں میں غلمانوں کے سینے پر غرضکہ ہر جگہ لکھا ہوا ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔
خلد بریں میں ہر جگہ نام شہ انام ہے
خلد ہے ملک آپ کا صلی علی محمد
دوزخی بھی اقرار کریں قالو الم نك من المصلين وہ بھی جانیں گے کہ مخالفت سید الابرار ہم کو یہاں لائی غرضکہ جہاں اللہ کہ چرچا ہے وہاں رسول اللہ کا ذکر،تمام عالم میں آپ کا نور اور ہر جگہ آپ کا ظہور علیہ الصلاۃ والسلام۔پھر قیامت تک محبوب کی ہر ہر ادا سب کو معلوم۔زندگی پاک کی ایک ایک حالت کریمہ،ولادت پاک دودھ پینا،پرورش پانا،قبل نبوت کے واقعات،بعد نبوت اندرونی اور بیرونی زندگی پاک،چلنا پھرنا،کھانا پینا،سونا جاگنا،تبسّم فرمانا،گریہ وزاری کرنا غرضکہ زندگی پاک کا ہر شعبہ ہر وقت ہر جگہ ظاہر عرب میں ظاہر،عجم میں ظاہر،پنجاب میں ظاہر،کابل میں ظاہر کونسی جگہ ہے جہاں کتب حدیث نہ پہنچی ہو۔ظاہر تو ایسے مگر لطف یہ ہے کہ جیسے وہ ہیں ایسا کسی نے نہ جانا بجز پروردگار وہ شان ظہور تھی اور یہ شان بطون۔حافظ شیرازی کہتے ہیں
کس ندا نست کہ منزل گہ محبوب کجاست
ایں قدر ہست کہ ہاتگ جرسے مے آید
سنا ہے رہتے ہیں دولہا فقط مدینہ میں
غلط ہے وہ رہتے ہیں عاشقوں کے سینے میں
مولوی محد قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دیوبند قصائد قاسمی میں لکھتے ہیں
رہا جمال پہ تیرے حجاب بشریت
نہ جانا کون ہے کچھ بھی کسی نے بجز ستار
سوا خدا کے بھلا کوئی تجھ کو کیا جانے
تو شمس نور ہے شپر نمط اولو الابصار
غرضکہ دیدۂ انسان میں بشریت ظاہر ہوئی مگر حقیقت محمد یہ بجز پروردگار کوئی بھی نہیں جان سکا جس طرح کے سورج کو اس کے نور نے چھپا لیا کہ کوئی بھی اس کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکتا۔اسی طرح حضور انور علیہ السلام کی نورانیت پردہ بن گئی۔رب نے اس لیے نور فرمایا قدجاء کم من اللہ نور و کتب مبین یعنی اے مسلمانو! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نور اور کھلی ہوئی کتاب آئی۔اس کی بحث آگے آئے گی۔پانچویں صفت بیان ہوئی ھو بکل شئ علیم اور وہ محبوب علیہ السلام ہر چیز کو جاننے والے ہیں یعنی خالق کی ذات و صفات اور علوم ظاہر و باطن اور مخلوق کے اوّلین و آخرین کے سارے علم حضور علیہ السلام میں جمع ہیں اور مخلوق الٰہی میں فوق کل ذی علم علیم (ہر علم والے کے اوپر ایک بڑا عالم ہے)حضور ہی ہیں،جس آنکھ نے خالق عالم کو معراج میں دیکھا ہو مخلوق کس طرح اس سے چھپ سکتی ہے۔
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پی کروڑوں دُرود
صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و بارک و سلم۔
(شان حبیب الرحمٰن من آیات القرآن، صفحہ ١٧)
No comments:
Post a Comment