اخلاص
حضرت ابوالقاسم عبد الکریم ھوازن قشیری رضی المولیٰ عنہ
از:-
ارشادِ خداوندی ہے۔
اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُؕ
ہاں خالص الله ہی کی بندگی ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ثلاث لا یغل علیھن قلب مسلم اخلاص العمل لله و مناصحة ولاۃ الامور ولزوم جماعة المسلمین۔
ترجمہ:
تین باتوں پر مسلمانوں کے دل میں خیانت پیدا نہیں ہوتی (1) الله کے لیے خالص عمل کرنا(2) اپنے حکام کی خیر خواہی کرنا(3) مسلمانوں کی جماعت کا ساتھ دینا۔
اخلاص کی تعریف
اخلاص یہ ہے کہ ارادے کے ساتھ صرف الله کے لیے عبادت کی جائے یعنی وہ عبادت کے ذریعے الله کا قرب حاصل کرے کوئی اور مقصد نہ ہو، نہ تو مخلوق کے لیے بناؤٹ ہو نہ لوگوں سے تعریف کی خواہش ہو اور نہ ہی لوگوں سے تعریف کروانے کی محبت ہو بلکہ الله کے قرب کے علاوہ کوئی دوسری بات پیش نظر نہ ہو۔
یہ کہنا بھی درست ہے کہ مخلوق کی نگاہوں سے اپنے فعل کو پاک رکھنے کا نام اخلاص ہے۔
اور یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ لوگوں کی نگاہوں سے بچنے کا نام اخلاص ہے۔
ایک مستند حدیث شریف میں ہے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے خبر دی اور وہ الله سے کہتے ہیں کہ الله نے فرمایا:
الاخلاص سر من سری استود عته قلب من احببته من عبادی۔
ترجمہ: اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے میں جس بندے سے محبت کرتا ہوں اسے اس کے دل میں رکھ دیتا ہوں۔
اخلاص الله کے رازوں سے راز ہے
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اخلاص کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :(( سر من سری استود عته قلب من احببته من عبادی)) یہ میرے رازوں میں سے ایک راز ہے جس کو میں نے اس کے دل میں رکھا ہے جس سے محبت کرتا ہوں۔
اخلاص کے بارے اقوال
حضرت استاذ ابو علی دقاق علیہ رحمہ فرماتے ہیں: اخلاص : مخلوق کی نگاہوں سے پچنے کا نام ہے اور صدق نفس کو اعمال دکھانے سے بچنے کو کہتے ہیں۔ پس مخلص ریا کار نہیں ہوتا اور صادق خود پسند نہیں ہوتا۔
حضرت ذوالنون مصری علیہ رحمہ فرماتے ہیں اخلاص صرف صداقت اور اس پر صبر کے ذریعے مکمل ہوتا ہے۔ اور صدق اس صورت میں پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے کہ اس میں اخلاص ہو اور اس پر مداومت اختیار کی جائے۔
حضرت ابو یعقوب سوسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جب لوگ اپنے اخلاص میں اخلاص کا مشاہدہ کریں تو ان کا اخلاص بھی اخلاص کا محتاج ہوتا ہے۔
حضرت ذالنون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں تین باتیں اخلاص کی علامت میں سے ہیں۔
(1)استواء المدح والذم من العامة
ترجمہ : بندے کے نزدیک عوام کی طرف سے مدح اور مذمت ایک جیسی ہے۔
(2) نسیان رویة الاعمال فی الاعمال
ترجمہ : اعمال میں اپنے اعمال کو دیکھنا بھول جائے۔
(3)نسیان اقتضاء ثواب العمل فی الآخرة
ترجمہ آخرت میں اعمال کا ثواب چاہنے کو بھی بھول جائے۔
حضرت ابو عثمان مغربی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اخلاص یہ ہے کہ کسی حالت میں نفس کا حصہ نہ پایا جائے۔ یہ عوام کا اخلاص ہے۔ خاص لوگوں کا اخلاص وہ ہے جو الله کی طرف سے ان پر جاری ہو ان کے اپنے ذریعے سے نہ ہو۔ ان سے عباداتِ ظاہر ہوتی ہیں لیکن ان کا ان میں ذاتی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی طرف سے ریا کاری ہوتی ہے اور نہ وہ ان کو شمار میں لاتے ہیں۔ یہ خاص لوگوں کا اخلاص ہے۔
حضرت ابو بکر دقاق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:ہر مخلص کے اخلاص کا نقصان اپنے اخلاص کو مد نظر رکھنا ہے جب الله اس کے اخلاص کو خالص کرنا چاہتا ہے تو وہ اس سے اخلاص کے دیکھنے کو بھی ساقط کر دیتا ہے لہذا وہ مخلَص(جس کو اخلاص عطا کیا گیا ہو) مخلِص نہیں۔
حضرت سھل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں (لا یعرف الریاء الا مخلص) ریا کی پہچان صرف مخلص کو ہوتی ہے۔
حضرت ابو سعید خراز علیہ الرحمہ فرماتے ہیں(ریاء العارفین افضَل من اخلاص المریدین) عارف لوگوں کا ریا مریدین کے اخلاص سے افضل ہوتا ہے۔
حضرت ذوالنون علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اخلاص وہ چیز ہے جو انسان کو دشمن کے خراب کرنے سے بچاتا ہے۔
حضرت ابو عثمان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اخلاص یہ ہے کہ مخلوق کو دکھانا بھول جائے اور ہمیشہ خالق کے فضل کو دیکھے۔
حضرت حذیفہ مرعشی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اخلاص یہ ہے کہ بندے کے افعال ظاہر و باطن میں برابر ہو۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اخلاص وہ ہے جس سے حق سبحانہ کا ارادہ کیا جائے اور اس کے ساتھ حق کا قصد کیا جائے۔
کہا گیا ہے کہ اعمال کو دیکھنے سے آنکھوں کو بند کرنے کا نام اخلاص ہے۔
حضرت سر سقطی رضی الله عنہ فرماتے ہیں (من تزین للناس بمالیس فیه سقط من عین الله تعالی)
ترجمہ : جو شخص لوگوں کے لیے اس چیز کے ساتھ زینت ظاہر کرے جو اس میں نہیں وہ الله کی نظروں سے گر جاتا ہے۔
حضرت فضیل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں لوگوں کے لیے عمل کو چھوڑ دینا ریا ہے۔ لوگوں کے لیے عمل کرنا شرک(شرکِ خفی) ہے۔ اور اخلاص یہ ہے کہ الله تمھیں ان دونوں باتوں سے بچائے۔
حضرت جنید بغدادی رضی الله عنہ فرماتے ہیں اخلاص الله اور بندے کے درمیان ایک راز ہے اسے فرشتہ بھی نہیں جانتا کہ لکھ دے اور نہ شیطان جانتا ہے کہ خرابی پیدا کرے اور نہ خواہشِ نفس کو اس کا علم ہوتا ہے کہ اسے اپنی طرف مائل کرے۔
حضرت رویم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اعمال میں اخلاص یہ ہے کہ عمل کرنے والا دونوں جہانوں میں اس بدلہ نہ چاہے اور نہ ہی دونوں فرشتوں (کراماً کاتبین) سے کوئی حصہ چاہے۔
حضرت سہل بن عبد الله سے پوچھا گیا(ای شئیء اشد علی النفس؟) کہ نفس پر کونسی چیز زیادہ سخت ہے؟ تو انہوں نے فرمایا (الاخلاص لانه لیس لھا فیھا نصیب) اخلاص کیونکہ اس میں نفس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
کسی اور بزرگ سے اخلاص کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : اخلاص یہ ہے کہ تم اپنے عمل پر الله کے سوا کسی کو گواہ نہ بناؤ۔
مخلص قلیل ہیں
کسی بزرگ نے فرمایا : میں جمعہ کے دن نماز سے پہلے حضرت سہل بن عبدالله علیہ الرحمہ کے پاس ان کے گھر گیا تو میں نے گھر میں سانپ دیکھا۔میں ایک پاؤں بڑھاتا تو ایک پاؤں پیچھے کرتا۔
انہوں نے فرمایا:
داخل ہو جاؤ انسان اس وقت تک حقیقت ایمان کو نہیں پہنچتا جب تک وہ دنیا کی کسی بھی چیز سے ڈرتا ہو۔ پھر پوچھا کیا تو جمعہ کی نماز پڑھنا چاہتا ہے؟
فرماتے ہیں : میں نے کہا ہمارے اور مسجد کے درمیان ایک دن رات کی مسافت ہے ۔ پس انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا ، تھوڑی دیر بعد میں نے مسجد کو دیکھا پس ہم اس میں داخل ہوئے اور نمازِ جمعہ ادا کی۔ پھر باہر نکلے تو آپ کھڑے ہوکر لوگوں کو
دیکھتے رہے وہ نکل رہے تھے۔ فرمایا (اھل لا اله الا الله کثیر والمخلصون منھم قلیل ) لا اله الا الله والے بہت لوگ ہیں لیکن ان میں مخلص تھوڑے ہیں۔
حضرت مکحول علیہ الرحمہ سے مروی ہے فرماتے ہیں جو بندہ چالیس (40) دن تک اخلاص سے عبادت کرتا رہے اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر پھوٹنے لگتے ہیں۔
حضرت یوسف بن حسین علیہ الرحمہ فرماتے ہیں دنیا میں سب سے کم یاب چیز اخلاص ہے میں نے کئی بار اپنے دل سے ریا کو نکالنے کی کوشش کی مگر وہ کسی نہ کسی رنگ میں ظاہر ہو جاتی۔
حضرت ابو سلیمان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں جب بندہ مخلص ہو جائے تو اس سے وسوسوں کی کثرت اور ریا ختم ہو جاتی ہے۔
(رسالہ قشیریہ، صفحہ ٣٧٩)
No comments:
Post a Comment