تقریر منیر قلب (قسط دوم)
از:- مظہر اعلی حضرت مناظر اعظم ہند حضرت علامہ مولانا حشمت علی خان قادری رضوی علیہ الرحمہ۔
پانچویں دلیل ملاحظہ کیجئے۔یہ تو اسلام کا دعویٰ ہے کہ میں حق اور سچا مذہب ہوں میں ستیہ دھرم اور پرم دھرم ہوں جومنش جو آدمی مجھے نہ قبول کرے مجھے نہ گرہن کرے مجھے چھوڑ دے مجھے تیاگ دے وہ کافر،ملحد،ناستک،ادھرمی ہے جہنّم،دوزخ،گھورنرک میں پڑے گا۔مگر ہر دعوے کے لئے گواہ ہونے ضرور ہیں اسلام بھی اپنے دعوے کی سچائی پر قرآن پاک کو گواہ پیش کرتا ہے اب ذرا قرآن اور وید کا مقابلہ کر ایک دیکھیے اوّل تو ویدوں میں کس قدر تغیر و تبدیل ہوا ہے پنڈت دیانند ستیارتھ پرکاش گیارہویں سملاس صفحہ ۳۷۰ پر اس بات کا اقراری ہے کہ رگوید کی اکیس شاخیں تھیں یجروید کی ایک سو ایک سام وید کی ایک ہزار تھرووید کی نو ان میں سے تھوڑی ملتی ہیں بقیہ گم ہو گئی ہیں لیجئے جس کتاب کو ایشوری گیان کہا جاتا ہے اسی کا ٹھکانہ نہیں رہا یہ معلوم ہی نہیں ہو سکتا کہ کتنا ان میں سے کم ہوا ہے اور کتنا زائد۔دوسری بات یہ ہے کہ آج تمام عالم کے آریوں کو چیلنج ہے آئیں اور اپنے ویدوں کی اگنی وایو دیتہ انگرا تک سند تو بیان کریں کہ ان رشیوں سے ان آریوں تک کس کس ذریعہ کس کس وسیلے سے وید پہنچے اور وہ وسائل معتبر تھے یہ غیر معتبر مگر بحمدہ تعالیٰ کسی میں یہ ہمت نہ ہے نہ ہو سکتی ہے کے ویدوں کی رشیوں تک سند پیش کر سکے بخلاف قرآن عظیم کے آج بفضلہ تعالیٰ ہر عالم دین ہر قاری قرآن پاک کی سند اپنے استاد سے لے کر حضور اقدس سید عالم صلے اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک بلکہ خود رب العلمین جل جلالہ تک بیان کر سکتا ہے اور ے بتا سکتا ہے کے فلاں نے فلاں سے پڑھا اور اس نے فلاں سے پڑھا حتٰی کہ اس نے حضور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اور حضور نے جبرئیل امین علیہ السلام سے اور انہوں نے رب العلمین سے۔پھر حفاظت کا طریقہ وہ رکھا ہے کہ دنیا زمانہ سے نرالا پتھر ٹوٹ سکتے ہیں کاغذ گل سکتا ہے لکڑی کے ٹکڑے جل سکتے ہیں لوہا،پیتل یا اور دھات زمین کھا سکتی ہے مگر قرآن پاک ان سب سے علاوہ سینوں میں محفوظ رکھا گیا جہاں نہ چور چرا سکے نہ ڈاکو لوٹ سکے پھر اسکے جلوے دیکھیے تو عالم کے اقتار وا اکناف کو منور کر رکھا ہے مسلمان تو مسلمان کفار کے گھروں میں بھی موجود ہے ترجمے اس کے اردو، فارسی،پشتو،پنجابی،بنگالی،گجراتی،بھاشا،سنسکرت،انگریزی،جرمنی،لاطینی،ترکی غرض ہر زبان میں موجود ہیں بخلاف وید کے کہ اب تک اپنی کال کوٹھری سے باہر نکالی ہی نہیں آریہ دھرم کے موافق اس کا صحیح ترجمہ اب تک کسی زبان میں ہوا ہی نہیں۔پھر قرآن مقدس کی اشاعت دیکھیے تو وہ بھی اپنی نرالی شان،انوکھی آن رکھتی ہے اوّل تو ہر مسلمان پر ہر روز پانچ وقت بیس رکعتوں میں قرآن عظیم کا کچھ حصہ پڑھنا فرض فرما دیا سنتیں اور نفل اس کہ علاوہ ہیں اور پھر سال بھر میں ایک خاص مہینہ اس کی اشاعت کے لیے مقرر کر دیا گیا جس کا نام رمضان مبارک ہے۔اللہ اللہ اس مبارک مہینے کی آمد کا مسلمان کس شوق کیسے ذوق سے انتظار کرتا ہیں ۲۹ شعبان ہے مغرب کا وقت ہے مسلمان اس شوق میں کہ قرآن پاک سننے کا زمانہ آگیا ہے مطلع پر نگاہیں دوڑا رہے ہیں اور مثل تلاش محبوب گمشدہ ہلال رمضان کی جستجو میں نہایت بیقراری کے ساتھ نظریں آسمان پر چکر لگا رہی ہیں کہ یکبارگی چاند نظر آیا اور بیساخطہ سب کی زبان سے نکل گیا "چاند مبارک" اب کیا تھا چہل پہل ہونے لگیں دھومیں مچ گئیں تمنّائے مزے پر ہیں امنگیں جوش پر ہیں قرآن پاک سننے کا شوق ہے کہ بڑے سے لے کر چھوٹے تک بوڑھے سے لے کر بچے تک ہر ایک کے دل کا چین اور جان کا آرام ہے۔اب اسلام کا حکم ہے کہ دن کو روزہ رکھو کھانے پینے جماع غرض نفسانی لذات ثلاثہ سے باز رہو کہ تمہارا قلب پاک ہو جائے اس میں روحانیت پیدا ہو اس کے بعد قرآن پاک سنو تاکہ اس کے فیوض و انوار سے مستنیر و مستفیض ہو سکو شام کا وقت ہے دن بھر کے بھوکے پیاسوں تھکے ہاروں نے روزہ کھولا ہے کچھ تھوڑا سے کھایا پیا ہے نفس کہتا ہے ذرا آرام کرو چار پائی پر لیٹے ہے جی اٹھنے کو نہیں چاہتا کہ ناگاہ موذن اذان دیتا ہے آرام و راحت پر لات مار کر نفس کو ملامت کرتے ہوئے قرآن پاک کے عاشق دوڑے چلے جارہے ہیں کلام ربّانی کا عشق ہے کہ اپنے متوالوں کو بیتاب کیے ہوئے ہے دربار الٰہی تک لیے جارہا ہے اب مسجد میں پہنچے اسلام نے حکم دیا کہ پہلے وضو کرو یعنی پاک ہو لو پھر فرض ادا کرو کہ اس کی روحانیت سے تمہارا قلب منور ہو جائے اور پھر دو سنتیں پڑھو اس پیارے آقائے نامدار کردگار سرکار ابد قرار مالک و مختار شہنشاہ تاجدار سیدنا محمد رسول اللہ صلے اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی یاد میں جن کے مبارک ہاتھوں سے یہ قرآن تمہیں ملا۔اب اس کے بعد ایک امام کھڑا ہوتا ہے تمام مقتدی اس کے پیچھے خداوند قددس کے حضور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اب سبوح قدوس کا فرمان شہنشاہ مقتدر کا کلام پڑھا جارہا ہے اس کے بندے حضور قلب سے مودب ہاتھ باندھے کھڑے ہوئے سن رہے ہیں اب اس وقت نہ انہیں اپنی اولاد کو خیال ہے نہ مال کا نے اپنے اعزاز اقربا کا۔قرآن ہے اور ان اور ان کی ایمان کے جان ہے اور جان کا ایمان ہے۔ایک مہینے میں اگر شمار کیا جائے تو اسلامی دنیا میں لاکھوں بلکہ کروڑوں قرآن پاک ختم ہو جاتے ہیں العظمة لله کیا کوئی مذہب اسلام کے مقابل اپنے کتاب کی اپنے ماننے والوں کی ایسی جلالت و سطوت ایسی اشاعت بتا سکتا ہے۔حاشا۔یہ ہے ان الدین عند اللہ السلام کہ اگر کوئی مذہب عالمگیر ہو کر دنیا میں آیا ہے تو وہ ایک پیارا مذہب اسلام ہے قرآن پاک میں کمی بیشی ہونا تو درکنار ایک نقطہ کی کمی زیادتی اپنے مقام سے تغیّر تبدیل نہ کبھی ہوا نہ ہو سکتا ہے یہ ہے ان الدین عند اللہ السلام اگر کوئی مذہب الٰہی فرمان کو اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے تو وہ ایک پیارا مذہب اسلام ہے۔چھٹی دلیل سنیے۔ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں کسی آدمی سے بات نہیں کرنا چاہتا ہوں نہ پنڈت جو بولیں نے مولوی صاحب میں دونوں کی کتابوں سے سوال کرتا ہوں جس کی کتاب میرے جواب دے دے گی میں میں اسی کو مانوں گا۔اب وہ وید سے پوچھتا ہے وید بھگوان آپ ہمیں اپدیش دیجئے آپ ہمیں بتائیے کہ آپ کس کا کلام ہے تو وید کے اندر کہیں اس کا ذکر ہے نہیں کہ وید ایشوری الہام ہے وید مہاراج خاموش ہیں وہ پوچھتا ہے آپ کی حقانیت پر کیا دلیل ہے تو وید خاموش وہ پوچھتا ہے جیسے آپ پہلے تھے ویسے ہی اب ہیں یا کچھ فرق ہو گیا ہے تو وید خاموش مگر پنڈت دیانند اپنے وید کو خاموش دیکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ ہاں ویدوں کی بہت سی شاخیں گم ہو گئی ہیں جن کا پتا نہیں وہ پوچھتا ہے آپ کس پر نازل ہوئے تو وید خاموش وہ پوچھتا ہے جس پر آپ اُترے اس کے اوصاف بیان کیجئے تو وید خاموش۔وہ پوچھتا ہے آپ کی باتیں یقینی ہے يا اُن میں شک بھی ہی سکتا ہے تو وید خاموش وہ پوچھتا ہے آپ سنسار میں کس کارن سے کس لیے پدھارے ہے تو وید خاموش وہ پوچھتا ہے ہم اپنے پرمیشور کی پوجا کیسے کرے تو وہ خاموش وہ پوچھتا ہے کہ کون سا مذہب کون سا دین سچا ہے تو وید خاموش وہ پوچھتا ہے جو لوگ آپ کو مانیں تو اُن کو کیا ملے گا اور جو نہ مانیں تو اُن کو کیا سزا بھگتنی ہوگی تو وید خاموش غرض وید میں کسی بات کا ذکر نہیں نام نہیں وہ شخص خوشامد کرتے کرتے متی کرتے کرتے پیاں پڑتے پڑتے ہاتھ جوڑتے جوڑتے تھک گیا مگر وید بھگوان کی چپ نہ ٹوٹنی تھی نہ ٹوٹی۔اب وہ وید سے مایوس ہو کر قرآن پاک کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے اے پیارے قرآن آپ ہمیں بتائیے کہ آپ کس کا کلام ہے تو وہ فرماتا ہے تنزیل من رب العالمین میں رب العلمین کا اُتارا ہوا اس کا کلام ہوں وہ پوچھتا ہے کہ آپ کی حقانیت پر کیا دلیل ہے تو وہ فرماتا ہے وانکنتم فی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی دنیا میں دو ہے قسم کی چیزیں ہیں ایک انسان کی بنائی ہوئی ایک خدا کی پیدا کے ہوئی انسان کی بنائی ہوئی چیز خواہ وہ کوئی کلام ہو یہ کمال غرض اس کا مثل انسان بنا سکتا ہے اور کو انسان آدمی کی بنائی ہوئی چیز کے بے مثل ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا اور اگر کرے گا تو فوراً دوسرا انسان اس کے مثل بنا کر اس کے دعوے کو غلط ثابت کر دیگا۔غالب ہو زبان اردو کا
No comments:
Post a Comment