حقیقی محبت
از:- امام احمد بن محمد قسطلانی رضی المولیٰ عنہ
وہ آیات جن میں اللّٰہ تعالٰی نے خود نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے دشمنوں کا رد کرکے آپ کی شان کو بلند فرمایا۔
ارشادِ خدا وندی ہے:
ن ۚ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ۰ مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ۰
قلم اور ان کے لکھے کی قسم تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں۔
اللہ تعالٰی نے یہ بات اس وقت ارشاد فرمائی جب مشرکین نے کہا:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِىۡ نُزِّلَ عَلَيۡهِ الذِّكۡرُ اِنَّكَ لَمَجۡنُوۡنٌؕ
اے وہ جن پر قرآن اترا بےشک تم مجنون نہیں۔
اللہ تعالٰی نے بذات خود کسی واسطہ کے بغیر آپ کے دشمنوں کو جواب دیا اور دوستوں کا طریقہ یہی ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی محب کسی سے سنتا ہے کہ وہ اس کے محبوب کو گالی دیا ہے تو وہ خود اس کی مدد کرتے ہوئے جواب دیتا ہے یہاں بھی اللّٰہ تعالٰی نے آپ کا مددگار بنتے ہوئے بذات خود جواب دیا کیونکہ اللّٰہ تعالٰی کی مدد زیادہ کامل اور آپ کے مقام کو زیادہ بلند کرنے والی ہے اور اللّٰہ تعالٰی کا رد کرنا آپ کے خود رد کرنے کے مقابلے میں زیادہ پنچہنے والا ہے اور آپ کی بزرگی کے دیوان میں زیادہ ثابت اور قائم ہونے والا ہے
تو اللّٰہ تعالٰی نے اپنی بڑی بڑی نشانیوں کی قسم کھاتے ہوئے اپنے رسول اپنے حبیب اور اپنے خلیل کی پاکیزگی بیان کرکے دشمنوں نے جو بہتان باندھا تھا اس کو جھوٹ قرار دیا۔ ارشاد فرمایا:
مَاۤ اَنۡتَ بِـنِعۡمَةِ رَبِّكَ بِمَجۡنُوۡنٍۚ ۰
تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں۔
اور عنقریب آپ کے وہ دشمن جو آپ کو جھٹلا تے ہیں انہیں معلوم ہو جائےگا کہ فتنے میں کون مبتلا ہے نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یا وہ لوگ؟ ان لوگوں اور دوسرے عقلمند لوگوں کو یہ بات دنیا ہی میں معلوم ہوگئ اور عالم برزخ میں ان کا علم بڑھ جائےگا اور آخرت میں مکمّل طور پر ظاہر ہو جائےگا حتٰی کہ اس بات کے علم میں سب لوگ برابر ہوں گے اور ارشاد خداوندی ہے:
وَ مَا صَاحِبُكُمۡ بِمَجۡنُوۡنٍۚ ۰
اور تمہارے صاحب مجنون نہیں۔
جب عاص بن وائل سہمی نے نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مسجد سے باہر تشریف لا رہے ہیں اور وہ داخل ہو رہا تھا باب بنو سہم کے پاس دونوں کی ملاقات ہوئی اور گفتگو بھی کی قریش کے سردار مسجد میں بیٹھے دیکھ رہے تھے عاص اندر داخل ہوا تو انہوں نے پوچھا تم کس آدمی سے باتیں کر رہے تھے؟ اس نے کہا اس ابتر (جس کی نسل باقی نہ رہی) سے (معاذ اللّٰہ)۔
حضور علیہ السلام کے بارے میں کہا اور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے صاحبزادے جو حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے تھے انتقال کر گئے تھے۔ اس پر اللّٰہ تعالٰی نے خود جواب دیتے ہوئے فرمایا۔
اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الۡاَبۡتَرُ۰
بےشک جو تمہارا دشمن ہے وہی ہر خیر سے محروم ہے۔
یعنی آپ کے دشمن اور آپ سے بغض رکھنے والے ہی ذلیل و حقیر ہے۔
جب مشرکین نے کہا:
اَ فۡتَـرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِب۰
کیا اللّٰہ تعالٰی پر اس نے جھوٹ باندھا۔
تو اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا:
بَلِ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَةِ فِى الۡعَذَابِ وَالضَّلٰلِ الۡبَعِيۡدِ۰
بلکہ وہ لوگ جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ
عذاب اور دور کی گمراہی میں ہیں۔
اور جب انہوں نے کہا:
لَسۡتَ مُرۡسَلًا۰
آپ رسول نہیں ہیں۔
تو اللّٰہ تعالٰی نے آپ کی طرف سے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
يٰسٓ ۚ ۰وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ۰اِنَّكَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَۙ۰
حکمت والے قرآن کی قسم! بےشک آپ مرسلین میں سے ہیں۔
اور جب انہوں نے کہا:
اَٮِٕنَّا لَتٰرِكُوۡۤا اٰلِهَـتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجۡـنُوۡنٍ ؕ ۰
کیا ہم اپنے معبودوں کو ایک شاعر مجنون کی وجہ سے چھوڑ دیں؟
اللّٰہ تعالٰی نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
بَلۡ جَآءَ بِالۡحَقِّ وَصَدَّقَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ۰
بلکہ آپ حق لے کر آئے اور آپ نے رسولوں کی تصدیق کی۔
تو اللّٰہ تعالٰی نے آپ کی تصدیق فرمائی۔
پھر آپ کے دشمن کے لئے عذاب کا ذکر کیا:
اِنَّكُمۡ لَذَآٮِٕقُوا الۡعَذَابِ الۡاَلِيۡمِۚ۰
بےشک تم درد ناک عذاب چکھنے والے ہو۔
اور جب انہوں نے کہا:
اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ شَاعِرٌ نَّتَـرَبَّصُ بِهٖ رَيۡبَ الۡمَنُوۡنِ۰
یا کہتے ہیں یہ شاعر ہیں ہمیں ان پر حوادث زمانہ کا انتظار ہے۔
تو اللّٰہ تعالٰی نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا عَلَّمۡنٰهُ الشِّعۡرَ وَمَا يَنۡۢبَغِىۡ لَهٗؕ اِنۡ هُوَ اِلَّا ذِكۡرٌ وَّقُرۡاٰنٌ مُّبِيۡنٌۙ۰
اور ہم نے ان کو شعر نہیں سکھائے اور نہ ہی یہ ان کے شایانِ شان ہیں یہ تو ذکر اور واضح قرآن ہے۔
اور جب اللّٰہ تعالٰی نے ان مشرکین کا یہ قول ذکر کیا:
اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اِفۡكٌ اۨفۡتَـرٰٮهُ وَاَعَانَهٗ عَلَيۡهِ قَوۡمٌ اٰخَرُوۡنَ ۛۚ ۰
یہ تو نہیں مگر ایک بہتان جو انہوں نے بنا لیا ہے اور اس پر اور لوگوں نے مدد دی۔
تو اللّٰہ تعالٰی نے ان کا نام کاذبین(جھوٹ بولنے والے) رکھا ارشاد فرمایا:
فَقَدۡ جَآءُوۡ ظُلۡمًا وَّزُوۡرًا ۛۚ ۰
بےشک وہ ظلم اور جھوٹ پر آئے۔
اور فرمایا:
قُلۡ اَنۡزَلَهُ الَّذِىۡ يَعۡلَمُ السِّرَّ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ
تم فرماؤ اسے تو اس نے اتارا ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر بات جانتا ہے۔
اور جب انہوں نے کہا کہ اس قرآن کو ان کی طرف شیطان القاء کرتا ہے تو اللّٰہ تعالٰی نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا تَنَزَّلَتۡ بِهِ الشَّيٰطِيۡنُ ۰
اور اس قرآن کو لےکر شیطان نہ اترے۔
اور جب ان پر پہلے لوگوں کی خبر پڑهی تو نضر بن حارث نے کہا:
لَوۡ نَشَآءُ لَـقُلۡنَا مِثۡلَ هٰذَٓا ۙ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَ۰
اگر ہم چاہتے تو ایسے ہم بھی کہہ دیتے یہ تو نہیں مگر اگلوں کے قصے۔
تو اللّٰہ تعالٰی نے ان کو جھٹلا تے ہوئے فرمایا:
قُلْ لَّٮِٕنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَالۡجِنُّ عَلٰٓى اَنۡ يَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا يَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِهٖ۰
تم فرماؤ اگر آدمی اور جن سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو اس کا مثل نہ لا سکیں۔
اور جب ولید بن مغیرہ نے کہا:
فَقَالَ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ يُّؤۡثَرُۙ۰اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا قَوۡلُ الۡبَشَرِؕ۰
یہ تو وہی جادو ہے اگلوں سے سیکھا یہ نہیں مگر آدمی کا کلام۔
تو اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا:
كَذٰلِكَ مَاۤ اَتَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا قَالُوۡا سَاحِرٌ اَوۡ مَجۡنُوۡنٌۚ۰
یونہی جب ان سے اگلوں کے پاس کوئی رسول تشریف لایا تو یہی بولے کہ جادوگر ہے یا دیوانہ۔
تو یوں نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو تسلی دی۔
اور جب مشرکین نے کہا حضرت محمد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو ان کے رب نے چھوڑ دیا ہے تو اللّٰہ تعالٰی نے ان کے رد میں فرمایا:
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰىؕ۰
تمہیں تمہارے رب نے نہ چھوڑا اور نہ مکروہ جانا۔
اور جب انہوں نے کہا:
مَالِ هٰذَا الرَّسُوۡلِ يَاۡكُلُ الطَّعَامَ وَيَمۡشِىۡ فِى الۡاَسۡوَاقِ۰
اور رسول کو کیا ہوا کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے؟
تو اللّٰہ تعالٰی نے فرمایا:
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَكَ مِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمۡ لَيَاۡكُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَيَمۡشُوۡنَ فِى الۡاَسۡوَاقِ ؕ ۰
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے سب ایسے ہی کھانا کھا تے اور بازاروں میں چلتے۔
اور جب اللّٰہ تعالٰی کے دشمنوں یہودیوں نے نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے نکاح اور ازواج مطہرات کی کثرت پر حسد کیا اور کہا کہ آپ کا کام تو صرف نکاح کرنا ہے تو اللّٰہ تعالٰی نے اپنے رسول صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے اور آپ کی دفاع میں ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا:
اَمۡ يَحۡسُدُوۡنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖۚ فَقَدۡ اٰتَيۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰهِيۡمَ الۡـكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاٰتَيۡنٰهُمۡ مُّلۡكًا عَظِيۡمًا
یا لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللّٰہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا تو ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بڑا ملک دیا۔
اور جب انہوں نے اس بات کو(عقل سے) بعید سمجھا کہ اللّٰہ تعالٰی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجے تو اللّٰہ تعالٰی نے ان کا یہ قول نقل کرتے ہوئے فرمایا:
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنۡ يُّؤۡمِنُوۡۤا اِذۡ جَآءَهُمُ الۡهُدٰٓى اِلَّاۤ اَنۡ قَالُـوۡۤا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوۡلًا۰
اور کس بات نے لوگوں کو ایمان لانے سے روکا جب ان کے پاس ہدایت آئی مگر اسی نے کہ بولے کیا اللّٰہ تعالٰی نے آدمی کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟
اور وہ اس بات سے جاہل تھے کہ ہم جنس ہونا انس پیدا کرتا ہے اور مخالف جنس سے مخالفت پیدا ہوتی ہے اللّٰہ تعالٰی نے ان کو جواب دیتے ہوئے فرمایا:
قُلْ لَّوۡ كَانَ فِى الۡاَرۡضِ مَلٰۤٮِٕكَةٌ يَّمۡشُوۡنَ مُطۡمَٮِٕنِّيۡنَ لَـنَزَّلۡنَا عَلَيۡهِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَـكًا رَّسُوۡلًا۰
تم فرماؤ اگر زمین میں فرشتے ہوتے چین سے چلتے تو ان پر آسمان سے ہم رسول بھی فرشتہ اتارتے۔
یعنی اگر یہ لوگ فرشتے ہوتے تو ضروری ہوتا کہ ان کا رسول بھی فرشتوں سے ہو لیکن جب اہل زمین انسان ہیں تو واجب ہے کہ ان کا رسول بھی بشر ہو۔
تو یہ نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا کتنا بڑا اعزاز ہے حالانکہ پہلے انبیاء کرام علیہم السلام اپنا دفاع خود کرتے اور دشمنوں کو جواب دیتے تھے جس طرح حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا:
يٰقَوۡمِ لَـيۡسَ بِىۡ ضَلٰلَةٌ۰
اے میری قوم مجھ میں گمراہی کچھ نہیں۔
اور حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:
لَـيۡسَ بِىۡ سَفَاهَةٌ۰
اے میری قوم مجھے بیوقوفی سے کیا تعلق ۔
اور اس طرح کی کئی مثالیں ہیں۔
(المواہب الدنیہ ، جلد ٢، صفحہ ٦٢٥)
No comments:
Post a Comment