تعظیم آثار و نقوش مبارکہ
از:- خلیفۂ اعلی حضرت و تاج الفحول مولانا محمد عمرالدین صاحب سنی حنفی قادری ہزاروی علیہ الرحمہ
جو چیز در اصل ذی تعظیم و تکریم ہے، اُس کی مثال و مشابہ کی بھی تعظیم و تکریم (بشر طیکہ اُس کی مثال کی ممانعت میں نصوص نہ وارد ہوئے ہوں، جیسے: تصویر جاندار کی اور نیز اُس مثال کو خاص فجّار و فسّاق نے لہو و لعب کے لیے نہ ایجاد کیا ہو، ) صحابہ و تابعین و ائمہ دین فقہا و محدّثین کرتے چلے آئے ہیں۔
مولانا شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی "فتاویٰ" میں فرماتے ہیں:
{حضرت کابس بن ربیعہ ہمراہیوں کے ساتھ، حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے پاس آئے تو ان کی حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ مشابہتِ صوری کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ان کی تعظیم کے لیے، عجلت میں، اپنے تخت سے اٹھے اور حضرت کابس کو تخت پر بٹھایا اور خود با ادب ہو کر بیٹھ گئے اور تمام تر تعظیم و توقیر کے ساتھ ان کو رخصت کیا اور خود "مرغاب" کے مقام تک ان کو رخصت کرنے گئے۔}
دیکھو! ایک گونہ قلیل مشابہت حضرت کابس کو حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ تھی، مماثلت نہ تھی، حضرت معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ جو حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے ہزار جان سے شیدائی و فدائی تھے، کیسے بےتاب و بے اختیار ہو کر حضرت کابس کے لیے تعظیماً و تکریماً کھڑے ہو گئے اور اُن کو تخت پر اپنی جائے پر بٹھایا اور آپ اُن کے روبرو کیسے مؤدب ہو کر بیٹھے۔ یہ سچّی محبت کا تقاضا تھا کہ جس کو کسی کے ساتھ سچّی محبت ہوتی ہے، اس کے آثار منسوبہ سے اُس کو اصلی محبوب یاد پڑتا ہے اور وہ اُن آثار کو دیکھ کر اصلی محبوب کو یاد کرتا ہے؛ چنانچہ سچّی حقیقی محبت حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی صحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم اجمعین میں تھی کہ وہ کسی چیز کی حضور کے ساتھ تھوڑی نسبت بھی دیکھتے تھے، تو اُن کو اصل محبوب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یاد آجاتے تھے، جیسا کہ حضرت کابس کو حضرت انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ دیکھتے، تو اُن کو حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم یاد آجاتے تھے اور بے اختیار ہو کر رو پڑتے تھے۔
"مواہیب لدنیہ" جلد دوم، صفحہ ۱۶۴ میں ہے:
وکان أنس، اذارآہ،بکی۔الخ
حضرت انس، حضرت کابس کو دیکھتے، تو رو پڑتے تھے۔
ایسی ہی محبت حضور صلی اللّہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ تابعین و تبع تابعین کو تھی۔
علامہ قسطلانی "مواہب" میں فرماتے ہیں۔
{حضرت یحیی بن قاسم کے جسم میں مہرِ نبوّت کی جگہ پر کبوتری کے انڈے کے برابر مہرِ نبوّت کی طرح ابھرا ہوا (گوشت کا ٹکڑا) تھا اور جب آپ غسل کے لیے حمام میں تشریف لاتے اور لوگ آپ کو دیکھتے تو حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود پڑھتے اور آپ کے پاس لوگوں کا ہجوم ہو جاتا، وہ تبرکاً آپ کی پشت مبارک کو بوسہ دیتے اور اسی وجہ سے آپ " شبیہ رسول" کے لقب سے مشہور تھے۔}
اور شیخ محقق و محدّثِ ہند حضرت شاہ عبد الحق دہلوی رحمتہ اللّہ تعالٰی علیہ "مدارج النبوہ" میں فرماتے ہیں:
{اہلِ بیتِ کرام کے ایک فرد جن کا نام یحیی بن قاسم بن محمد اور شبیہ رسول کے لقب سے مشہور تھے، کیوں کہ ( اُن کے جسم میں ) مہرِ نبوّت کے مقام پر کبوتری کے انڈے کی طرح کا ایک ٹکڑا تھا جو مہرِ نبوّت سے مشابہ تھا۔ اُن کا حال یہ تھا کہ جب وہ غسل کے لیے حمام میں تشریف لاتے تو لوگ انہیں دیکھ کر حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم پر درود بھیجنے لگتے اور اُن کے پاس لوگوں کا ہجوم ہو جاتا اور تبرکاً اُن کی پشت مبارک کو بوسہ دیتے۔}
دیکھو! زمانہ اتباع تابعین کا تھا، صرف حضرت یحیی کی پشت مبارک پر ایک گوشت کا ٹکڑا تھا، جو حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی مہرِ نبوّت کے مشابہ تھا،
اُس کو حضور کے ہزاراں ہزار شیدائی و فدائی کیسے دوڑ دوڑ کر تعظیماً و تکریماً چومتے تھے، یہ بھی اُس سچّی محبت کا تقاضا تھا۔ اُس سچّی محبت کا تقاضا ہے کہ کاغذی تمثال و تصویر نعل مبارک حضور سرور عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم اور اُس کی تحقیق و تفصیل سیکڑوں ائمہ دین، فقہا و محدّثین نے اپنے کتب و رسائل میں لکھی ہے اور دوسرے ائمہ نے اُن رسائل کی جن میں اس تمثال و تصویر کی تحقیق درج تھی، قراۃً و سماعاً، ادراک سے سندیں حاصل کیں اور اس تمثال کی برکت سے ہزاروں حاجت مندوں کی حاجتیں روا ہوئیں، جن کو اُن ائمہ نے نہایت تحقیق و تفصیلِ انیق سے اپنی کتاب میں ذکر کیا۔ علامہ قسطلانی " مواہب لدنیہ" میں فرما تے ہیں کہ امام ابو یمن رحمتہ اللّہ تعالٰی علیہ نے حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی نعل مبارک کی مثال و تصویر کی تفصیل میں ایک جز کا رسالہ تحریر فرمایا ہے اور اس رسالہ کو میں نے اپنے استادوں سے قراءۃً و سماعاً روایت کیا ہے اور اس کی سند لی ہے اور امام ابو یمن کے سوا امام ابو اسحاق ابراہیم بن محمد، جو مشہور ابن الحاج ہیں {اور اند لس میں اہلِ مریہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں} اس کی تفصیل میں ایک کتاب لکھی ہے اور بہت فوائد اور برکت جو اس کے وسیلہ سے لوگوں کو حاصل ہوئے، معتبر سندوں سے ذکر کئے ہیں۔
{نعلین مبارک کی فضیلت اور اس کا نفع و برکت جس کا تجربہ کیا گیا} ایک اُن میں سے یہ ہے کہ { ابو جعفر احمد بن عبد المجید نے ذکر کیا اور وہ ایک نیک شخص تھے، فرماتے ہیں: } ایک طالب علم کو میں نے نعل مبارک کی مثال کاغذ پر لکھ کردی، ایک روز اُس نے مجھے آکر کہا کہ گزشتہ شب کو میں نے اس مثالِ نعل مبارک کی عجیب برکت دیکھی، میری عورت کو سخت درد پیدا ہوا، میں نے اس مثالِ نعل مبارک کو درد کی جگہ رکھ کر دعا کی کہ الٰہی! اس کے صاحب کی برکت سے اس کا درد اچھا کر۔ میرا یہ دعا کرنا ہی تھا کہ اُسی وقت اللّٰہ تعالٰی نے میری عورت کو تندرست کر دیا۔
اور {ابو اسحاق کہتے ہیں: ابو القاسم بن محمد نے فرمایا:} اُس کی مجرّب برکتوں میں سے یہ ہے کہ اگر اس کو کوئی اپنے پاس رکھے تو کسی شریر کی شرارت اور دشمن کی خباثت اثر نہ کرے گی اور وہ اُن سے امن میں رہے گا اور اگر کوئی حاملہ عورت اُس کو اپنے سیدھے ہاتھ میں پکڑے اور اُس کو درد زہ ہو تو اس کی برکت سے فوراً اچھی ہو جاتی ہے۔
اور اگر اُن علمائے کرام کے اقوال سے تسلی نہ ہو تو دیکھو! خود مولوی عبد الحی نعل مبارک کی مثال و تصویر کی تعظیم و تکریم اپنی کتاب "غایۃ المقال" میں کس زور و شور سے اگلے اور پچھلے علماء و عظماے امتِ محمدیہ علی صاحبھا الصّلاۃ والسلام کے اقوال سے ثابت کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
{ترجمہ: جان لیجئے! اس امت کے کثیر علماے سلف و خلف حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے نعل مبارک کی مثال و تصویر (کی تعظیم) کو بیان کرتے رہے، علماے مغرب میں سے امام ابو بکر بن العربی، الحافظ ابو الربیع بن سالم الکلاعی، الكاتب ابو عبداللّٰہ، ابو عبداللّٰہ بن رشید الفہری، ابو عبداللّٰہ محمد بن جابر الوادی، خطیب الخطباء ابو عبداللّٰہ بن مرزوق التلمسانی، ابن البراء التونسی،ابو اسحاق ابراہیم بن الحاج اند لسی المغربی (اور ابن عساکر نے نعلِ پاک کی شبیہ کو اند لسی سے ہی لیا)، ابن ابی الخصال، ابن عبد اللّٰہ مراکشی وغر ہم اور علمائے مشرق میں سے الحافظ ابو القاسم بن عساکر (جن کی اس مسئلہ میں مستقل کتاب ہے)، ان کے شاگرد بدر، الحافظ زین الدین عراقی، ان کے صاحبزادے ابو زرعہ، السراج بلقینی، الشیخ یوسف مالکی، الحافظ السخاوی اور ان کے معاصر سیوطی اور قسطلانی وغرہم ہیں اور اس مسئلہ میں اہلِ مغرب معتمد علیہم ہیں اور اہلِ مشرق میں سے ابن عساکر معتمد علیہ ہیں، چونکہ ان کے بعد جو بھی آیا اُس نے ان کی اتباع کی ہے اور ابنِ عساکر نے صرف ابن الحاج المغربی سے ہی دلیل لی ہے۔ یہ تمام بحث ان علما کے بارے میں ہے جو پانچ سو سن ہجری کے بعد کے ہیں اور اس سے پہلے اس مسئلہ میں اہلِ مشرق کی طرف رجوع کیا جاتا۔}
اور علامہ مقری کے چند اقوال اس کی تعظیم و تکریم میں نقل کرکے لکھتے ہیں:
{ترجمہ: اگر رسولِ کریم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نعل مبارک کی لمبائی، چوڑائی اور اس کی کیفیت و مثال کو جاننا چاہتا ہے تو " فتح المتعال" کی طرف رجوع کر؛ کیوں کہ امام مقری - اللّٰہ تعالٰی ان کو جزائے خیر دے - نے اس کتاب میں شبیۂ نعل نبوی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں چھ مختلف اقوال بیان فرمائے ہیں اور اس مسئلہ کو انتہائی شرح و بسط سے بیان کیا ہے، لہذا اس مسئلہ پر مزید بحث کی حاجت نہیں ہے۔}
اور یہاں تک اُس کی تعظیم و تکریم میں زور دیا کہ اُس کو چومنا اور اس کو سر اور آنکھوں پر رکھنا بھی بہت علما سے نقل کیا۔ لکھتے ہیں:
{ترجمہ: کیا موجودگی کی صورت میں نعل نبوی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اور عدم موجودگی کی صورت میں شبیہ نعل مبارک کو چومنا، ہاتھوں سے چھونا اور سر پر رکھنا وغیرہ جائز ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مداح علما و عظما نے ان امور کی ترغیب دلائی ہے اور نعل مصطفوی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اور اس کی شبیہ کے چومنے کو جائز قرار دیا ہے۔ حافظ زین الدین عراقی نے " الفیتہ السیرۃ" میں اسی طرح فرمایا۔۔۔۔اور شیخ فتح الحلبی جو معاصرِ علامہ مقری ہیں,۔۔۔۔علامہ مقری۔۔۔۔شیخ فتح اللّہ،۔۔۔سید محمد بن موسی الحسینی۔۔۔الما لکی معاصرِ مقری۔۔۔۔اور محمد بن فرج السبتی نے بھی یہی فرمایا۔۔۔}
اور بعدِ نقل، ان اقوال علامہ زین الدین عراقی استاد حافظ ابن حجر عسقلانی وغیرہ علماء و عظما کے، لکھتے ہیں:
یعنی، ان تمام علماء و عظما کے اقوال سے مثالِ نعال کو چومنا اور اس کو منہ پر ملنا تبرّک و تعظیم سے ثابت ہوا۔
اور اسی میں بعدِ نقلِ اقوال شازہ بعض مالکیہ کے، جس سے کراہتِ تقبیل مفہوم ہوتی تھی، اس کے خلاف اور تقبيل کی تائید میں لکھتے ہیں:
یعنی ہمارے جماہیر ائمہ حنفیہ نے ذکر کیا ہے کہ جائز ہے ہاتھ چومنا عالم اور سلطان عادل کا، بطور تعظیم و تبرّک کے اور اُن کے سوا دوسرے کا ہاتھ چومنا جب جائز ہے کہ اُس کے اسلام کی تعظیم کا قصد کرے اور اسی طرح پاؤں چومنا بھی مرد صالح کا، بطورِ تبرک کے جائز ہے اور بعض نے کہا کہ چومنا پانچ قسم {کا} ہے:
اوّل: چھوٹے بچے کا گال چومنا محبت سے
دوسرا: اپنے بچوں کو چومنا رحمت سے
تیسرا: اپنے بھائی کی پیشانی چومنا شفقت سے
چوتھا: عورت یا لونڈی کا منہ چومنا شہوت سے
پانچواں: مسلمانوں کا ہاتھ چومنا چومنا تحیّت سے
اور بعض نے ایک تقبیل زائد کی ہے، یعنی حجرِ اسود اور چوکھٹِ کعبہ معظّمہ کا چومنا بھی دیانت میں داخل ہے۔
قرآن شریف کے چومنے میں اختلاف ہے مگر چومنا راجح ہے کہ حضرت سیّدنا امیر المومنین عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ہر صبح کو قرآن شریف چومتے تھے۔اسی طرح سیّدنا امیر المومنین عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ قرآن مجید کو چوم کر منہ پر رکھتے تھے۔
اور {بعض شوافع نے ذکر کیا ہے کہ} روٹی کا چومنا بدعت حسنہ ہے، ہمارے بعض ائمہ حنفیہ کے نزدیک {بھی}،یہ تمام وہ امور ہیں، جن کے چومنے کی علماء نے صراحت کی ہے۔
اگرچہ انصاف پسند طبائع اسی قدر اقوال و افعالِ صحابہ و اتباع تابعین و دیگر آئمہ کرام و اولیاۓ عظیم تاآن کہ خود مولوی عبد الحی لکھنوی کے اقوال سے بھی روضہ مقدّسہ و کعبہ معظّمہ کے مثال مبارک کی تعظیم و تکریم ثابت ہوگئی اور اُس کی تعظیم و تکریم میں کچھ کلام نہ رہا ہوگا، مگر ہٹ دھرم اشخاص کے واسطے، خاص روضہ مقدّسہ و مزار مبارک کی مثال و نقشہ مبارک کی تعظیم کرنا اور اُس کو چومنا اور اسے دیکھ کر اصل روضہ مقدّسہ کو یاد کرنا اور اپنا شوق بڑھانا بھی چند علمائے کرام سے ثابت کیا جاتا ہے۔
علامہ عبد المجید رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اپنی کتاب "المرتجی بالقبول خدمۃ قدم الرسول"
(جس کی تقریظیں علمائے مکہ معظّمہ و مدرّسین و مفتیانِ حرم مکی نے نہایت زور شور سے لکھی ہیں۔ شیخ علمائے حنفیہ مکہ معظّمہ و رئیس مدرسینِ حرم مکی مولانا شیخ عبد اللّٰہ سراج رحمتہ اللّٰہ تعالٰی علیہ جو مولوی عبد الحی کے والد ماجد و استاذ ممجد مولانا عبد الحلیم صاحب کے استاذ الاستاذ ہیں، اُس کی تقریظ میں فرماتے ہیں:
یعنی، بعد حمد و صلوۃ کے! پس میں مطلع ہوا اس کتاب بڑی پر، پس پایا میں نے اس کو اچھی بناوٹ میں، اعلی درجہ کا موتی اور واسطے طالبِ مثالِ نعل مبارک کے بہت بڑا ہادی، تمسک کرنے والا بہت بڑی مضبوط چیز سے تمسک کرنے والا ہے اور چلنے والا بیچ راہ تبرّک لینے اس مثال نعل مبارک کے، نہ بھولے اور نہ تھکے اور جو اس سے منہ پھیرے، وہ آگ کا نعل پہنایا جائے اور دوزخ کے اندھے گڑھے میں ڈالا جائے۔
اس طرح مولانا شیخ احمد دمیاطی مصری مدرّس حرم مکی و مولانا سید عبد اللّٰہ میر غنی الحنفی مکہ معظّمہ از طرف سلطان روم (نے) بھی اس کی تقریظیں لکھی ہیں۔
کہا صاحب "دلائل الخیرات" نے بیچ شرح کبیر کے کہ البتہ میں نے ذکر کیا تصویر روضہ مقدّسہ کی باتباع امام شیخ تاج الدین فاکہانی کے، اس واسطے کہ انہوں نے اپنی کتاب "فجر منیر" میں ایک باب باندھا ہے، بیچ تصویر قبور مقدّسہ کے اور کہا انہوں نے کہ فائدہ اس تصویر کا یہ ہے کہ جس شخص کو اصل روضہ مقدّسہ کی زیارت میسر نہ ہوئ ہو، اُس کو چاہیۓ کہ اس نقشہ کی زیارت کرے اور اس کو شوقِ دل سے بوسہ دے؛ اس واسطے کہ یہ نقشہ مبارک اُس اصل روضہ مقدّسہ کے قائم مقام ہے، جس طرح مثل نعل مبارک اور تصویر اُس کی اصل نعل مبارک کے قائم مقام ہے، منافع اور فوائد میں، ساتھ شہادت تجربہ صحیح کے اور واسطے اسی کے اُس کی تعظیم و تکریم ائمہ دین فقہا و محدثین نے اس قدر کی کہ جس قدر اصل کی کی اور اس کی مثال اور تصویر میں بہت اشعار انہوں نے کہے اور اس کے خواص ذکر کئے نہایت تجربہ سے، تمام ہوئی عبارت شرح کی۔ مصنّف کہتے ہیں: ہمارا مدّعا حاصل ہو گیا کہ نقشہ کی تعظیم و تکریم کرنا ائمہ دیں کے کلام سے پوری طرح ثابت ہو گیا۔
اور "مزرع الحسنات شرح دلائل الخیرات" میں ہے:
{اس مقام پر قبور شریفہ کی مثل و شبیہ کے ذکر کا فائدہ یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کا اس شبیہ کی زیارت کرنا جو اصل روضۂ مقدّسہ کی زیارت کی قدرت نہیں رکھتا اور محب و مشتاق شخص کا اس مبارک صورت کا مشاہدہ کرنا اور بوسہ دینا انتہاۓ محبت اور ذوق و شوق کی بے قراری سے ہے اور اکثر بزرگانِ دین نے اس صورت و شبیہ کے بےشمار خواص و برکات بیان فرمائے ہیں اور ان کو پرکھا ہے۔}
بناءً علیہ جس کو حضور اقدس صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ سچّی حقیقی محبت ہے۔ وہ آپ کے روضہ مقدّسہ کے نقشہ کی تعظیم و تکریم کرے گا۔ اسی طرح جس کو کعبہ معظّمہ کے ساتھ محبت ہے۔ وہ اس کے نقشہ کی بھی تعظیم کرے گا۔ جس طرح حضرت معاویہ و حضرت انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما حضرت کابس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے اور ہزاروں اتباع تابعین حضرت یحیی کی تعظیم کرتے اور اُن کی پشت مبارک کو تعظیماً چومتے تھے۔
(فتوی العلماء بتعظیم آثار العظماء،مجموعۂ رسائل ہزاروی صفحہ ١٤١)
No comments:
Post a Comment