async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: Mahnama Hashmat Ziya In Urdu (61)

Tuesday, September 21, 2021

Mahnama Hashmat Ziya In Urdu (61)

 سیف فقیہ الباسل (قسط دوم)

از- جانشین مظہر اعلی حضرت قطب الوقت حضرت مشاہد رضا خان صاحب حشمتی علیہ الرحمہ


خلیفۂ اول امیرالمومنین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے دور خلافت میں منکر ین زکوۃ سے جہاد فرمایا، جبکہ وہ منکرین زکوۃ تمام ضروریات دین کو مانتے تھے۔ نماز ، روزہ، حج کے پابند تھے ۔ زکوۃ کا انکار بھی انہوں نے کیا تو مطلقاً نہ کیا، بلکہ اس تاویل کے ساتھ کہ قرآن پاک میں آیا ہے:’’خـذ مـن أمـوالـهـم صـدقة“ ترجمہ: لیجیے مومنوں کے مالوں سے صدقہ یعنی زکٰوۃ۔


تو ان منکرین زکوۃ نے یہ تاویل کی کہ زکوۃ لینے کا حکم حضورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو تھا۔ اس کے مخاطب حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔لہذاوہ دنیا سے تشریف لے گئے ۔اب زکوۃ لینے کاحق کسی کونہیں ہے ۔اب زکوۃ منسوخ ہوگئی ۔ حضرت خلیفۂ اول امیرالمومنین (رضی الله تعالی عنہ ) نے تلوار بلند فرمائی اور منکرین زکوۃ سے جہاد کی تیاری فرمائی۔ دیگر صحابہ کرام نے عرض کیا، اے امیرالمومنین ! اس وقت حالات نازک ہیں ،عساکر مسلمین دشمنان اسلام سے بیرونی ممالک میں جہاد میں مصروف ہیں ۔ اب یہ اندرون خانه اس وقت ان منکرین زکوة سے جہاد کرنا مناسب نہیں ۔لہذا یہ جہاد منکرین زکوۃ سے حکمت عملی اور دینی سیاست کی بنا پر ملتوی کیا جائے ۔ تو امیرالمومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ تمہاری مصلحت التوی چاہتی ہے،تمہاری حکمت دنیاوی عوارض کو دیکھ رہی ہے ۔ مگر میں تنہا ہی تلوار لے کر ان سے جہاد کروں گا ۔ جب تک میرے ہاتھ میں اونٹ کی لگام ہے اور ایک رسی بھی زکوۃ کے مد سے باقی رہے گی ۔ یہاں تک کہ وہ رجوع کریں ۔ آپ نے ان سے جہادفرمایا اور منکرین زکوۃ نے رجوع کیا۔ اس واقعہ کوجلیل القدرصحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں :لما توفى النبي صلى الله تعالى عليه وسلم واسـتـخـلف أبو بكر بعدة و كفر من كفر من العرب قال عمر بن الخطاب لابي بكر كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسـلـم أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله فمن قال لا إله إلا الـلـه عـصـم مـنـى ماله و نفسه إلا بحقه وحسابه على الله فقال أبو بكر والله لا قاتلن من فرق بين الصلوة والزكوة فإن الزكوة حقى المال والله لو منعوني عقالا كانوا يؤذونها إلى رسول الله ملال لقاتلتهم على منعها قال عمر فوالله ما هو إلا رأيت أن الله شرح صدر أبي بكر للقتال فعرفت أنه الحق.

یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان فانی سے تشریف لے گئے اور سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوۓ تو کچھ عرب مرتد ہو گئے ۔ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پر جہاد کا ارادہ کیا تو حضرت سید نا عمر فاروق (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے خلیفۂ اول سے عرض کیا، یا امیرالمومنین ! آپ کیوں کر ان سے جہادکریں گے ۔حالانکہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جہاد با کفار کا حکم دیا ہے ۔اس وقت تک کہ لوگ لا إلـه الا اللہ کہہ لیں یعنی تمام ضروریات دین پرایمان لے آئیں ۔ تو جو ایمان لے آیا اس نے اپنی جان و مال کو مجھ سے محفوظ کر لیا۔مگر اسلام کے معاملہ میں اور حساب اس کا اللہ تعالی کے قبضۂ قدرت میں ہے ۔ تو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا خدا کی قسم میں ضرور ضرور اس شخص پر جہاد کروں گا جو نماز اور زکوۃ میں فرق کرے کیوں کہ نماز عبادت بدنی ہے اور زکوۃ عبادت مالی ہے۔ خدا کی قسم اگر وہ اس رسی کو بھی روکیں گے جو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے زمانہ ظاہری میں مدزکوۃ میں دیتے تھے تو اس کے لیے بھی میں ان سے ضرور جہاد کروں گا۔حضرت سید نا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم میں نے دیکھا کہ اللہ تعالی نے جہاد کے لیے ابو بکر صدیق (رضی اللہ تعالی عنہ) کا سینہ کھول دیا ہے اور میں نے پہچان لیا ہے کہ وہی حق ہے جو آپ کی رائے ہے۔ 

دوسری روایت میں رذین نے حضرت سید نا فاروق اعظم ( رضی اللہ تعالی عنہ)سے روایت کی ہے امیرالمومنین حضرت سید نا فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) سے فرماتے ہیں:لما قبض رسـول الـلـه ال إرتدت العرب وقالوا لا نؤدى زكوة فقال لو منعوني عـقـالا تـجـاهـدتـهـم عـلـيـه فقلت يا خليفة رسول الله ما تالف الناس وارفق بهم فقال لي أجبار في الجاهلية وخوار في الإسلام إنه قد انقطع الوحي وتم الدين وأنا حي.

یعنی جب رسول اللہﷺ ظاہر دنیا سے تشریف لے گئے ، کچھ عرب مرتد ہو گئے ۔انہوں نے کہا کہ ہم زکٰوۃ نہیں ادا کریں گے ۔ تو حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا کہ مدزکوۃ میں ایک رسی بھی باقی رہ جائے گی تو اس کے لیے بھی ان پر جہاد کروں گا۔ تو حضرت عمر فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اے امیرالمومنین رسول اللہ کے خلیفۂ برحق ! ان لوگوں کے ساتھ نرمی و مہربانی کیجئے تو سیدناصدیق اکبر(رضی اللہ تعالی عنہ) نے مجھ کوفرمایا کیا زمانۂ جاہلیت میں تم بہت سخت بہادر تھے اور اسلام لاکر بزدل و پلپلے ہوگئے تحقیق وحی ربانی ختم ہو چکی اور دین اسلام مکمل ہو گیا۔ کیا میرے زندہ رہتے ہوئے اس میں کچھ کم کیا جا سکتا ہے۔

سنی عالم کہلانے والا،تیس کروڑ آبادی پرغرور گھمنڈ کرنے والا ، مرتدین زمانہ کے ساتھ اتحاد باطل کی دعوت دینے والا یہ بتاۓ کہ حضرت امیرالمومنین خلیفۂ برحق صدیق اکبر راز دار شریعت معلم سیاست ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالی عنہ) نے ان سے جہاد فرمایا جو کلمہ طيبه لا الـه الا الـلـه پڑھنے والے تھے،نماز پڑھنے والے، روزہ رکھنے والے تھے ،ضروریات دین کو مانتے تھے، زکوۃ کا مطلقاً انکار نہ کرتے تھے بلکہ تاویل کے ساتھ زکوۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ ان پر شدت و غلظت کی،حتٰی کہ تلوار میان سے کھینچ لی اور ایسے نازک حالات میں جب مسلمانوں کے لشکر بیرونی ممالک میں کفار سے مصروف جنگ تھے ۔ خارجہ پالیسی پر نظر کرتے ہوئے داخلہ پالیسی میں سیاسی مصلحت پر نرمی ،مہربانی اور اتحاد نہ فرمایا۔ اور یہ ثابت کر دکھایا کہ اسلام کی حقانیت یہی ہے کہ کم وزیادہ کی مقدار پر نظر نہ کر تے ہوئے مرتدین سے اتحادنہیں کیا جا سکتا ہے۔ امیرالمونین نے فرمایا کہ اگر تمام کے تمام لوگ ایک جانب ہوں اور میں تنہا، تب بھی ان منکرین زکوۃ سے قتال و جہاد کروں گا۔ خلیفہ برحق تو تنہا بھی ہوکر منکرین زکوۃ سے اتحاد نہ فرمائیں، یہ سنی عالم کہلانے والا عقل کا اندھا ، دل کا گندہ مرتدین زمانہ سے اتحاد باطل کی دعوت دے۔ العیاذ باللہ تعالی۔

ایک انگریزی مؤرخ اپنی کتاب میں اس واقعہ کو لکھنے کے بعد لکھتا ہے کہ خلیفۃالمسلمین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ زریں کار نامہ تاریخ اسلام کا ایساعظیم کارنامہ ہے جس کی وجہ سے دین اسلام آج بھی اپنے اصلی روپ میں صحیح خد وخال میں موجود ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قوانین اسلام تغیر و تبدل سے محفوظ۔اور کسی کو یہ جرأت بے جا نہیں کہ دین میں باطل سیاست کی آمیزش کرے۔

 متقدمین اہل حق علماۓ کرام وائمہ دین نے خلیفہ اول رضی اللہ تعالی عنہ کے اسی کردار و اسوہ حسنہ کو اپنے اپنے دور میں مشعل راہ بنا کر عمل کیا۔ دیکھئے قدریوں، جبریوں، معتزلیوں،مرجیہ کو جب کہ ان کی تکفیر کلامی نہیں ہوئی ہے،صرف گمراہ بددین کہا گیا ہے ۔ حالانکہ یہ سب نماز ، روزہ و حج و زکٰوۃ تمام احکام دین اور ضروریات دین کے قائل تھے، ان کو اہل حق سے نکالا ، ان سے ترک تعلق کیا اور ترک موالات ہی پرعمل ہوا۔ اور خلیفۂ اول کے اسی اسوۂ حسنہ پر اس دور متاخرین میں عمل کیا گیا۔اور قادیانیوں ، خاکساریوں ، چکڑالویوں، وہابیوں، بہائیوں، دیوبندیوں ، غیر مقلدوں اور بے دینوں کے ساتھ ترک موالات پر عمل ہوا۔ کفار اصلی کے ساتھ تو کچھ مراعات ہماری شریعت نے دی ہے مگر ان مرتدین کے احکام اس کے برعکس جداگانہ ہیں۔ یعنی ان سے سلام کلام ،ان کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا اور کسی بھی طرح کے مراسم رکھنا قطعاً قطعاً جائز نہیں ۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے کسی نے آ کر عرضی کی ،فلاں شخص نے آپ کو سلام کیا ہے ۔فرمایا: لا تقرأ مني السلام فإني سمعت أنه أحدث۔

ترجمہ: میری طرف سے اس کو سلام نہ کہنا میں نے سنا ہے کہ اس نے کچھ بدمذہبی نکالی ہے۔

اپنے کو سنی عالم کہلانے والا دل کی آنکھیں کھولے اوراگر غیرت ایمانی کی رمق ہے تو تاریخ اسلام کے اس روشن باب کا مطالعہ کرے کہ جنگ بدر جو رمضان شریف میں ہوئی صرف تین سو تیرہ (۳۱۳ ) مجاہدین اسلام، پیارے مصطفی علیہ الحیۃ والثناء کے غلام جو بے سروسامانی کے عالم میں تھے،کسی کے تن پر صحیح کپڑے تک نہ تھے کسی کے تن پر تہبند ہے تو قمیض نہیں کسی کے ہاتھ میں کھجور کی چھڑی ہے۔ اگر کسی کے ہاتھ میں تلوار ہے تو برہنہ بدن ہے،صرف تہبند زیب تن ہے، نہ ڈھال ہے نہ زرہ کسی کے ہاتھ میں نیزہ ہے تو اور کوئی سامان میسر نہیں ، نہ جنگ کے لیے کوئی معقول آلات جنگ ہیں، نہ کوئی تیاری حتٰی کہ پیٹ بھر غذا بھی میسر نہیں۔ یہ تھا جنگ کا ظاہری حال اور اس عالم میں رسول کائنات ﷺ پر پروانہ وار نثار ہونے والے، اپنی جان و مال اور آبرو قربان کرنے والے اپنے آقا کے دیوانے اور پیارے صرف اور صرف تین سو تیرہ مجاہدین اور ادھر ہزار ہا ہزار کا جم غفیر جو ہر طرح سے آلات جنگ سے مسلح تھے ۔لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ یہ تین سو تیرہ ہی غالب ومظفرومنصور ہوئے ۔ اور فرش گیتی پر رونما ہونے والے اس عبرت ناک منظر کو دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جنہوں نے تعداد پر ، اسلحہ پر، مادیات کے بھروسہ پر غرور وگھمنڈ کیا تھا ، طاغوتی طاقتیں متحد ہو کر نہتے سرفروشان اسلام کے سامنے صف آرا ہوئیں ۔شکست و ہزیمت ان کا مقدر بنی۔ 

بتاۓ وہ سنی عالم کہلانے والا تیسں کروڑ کی آبادی کو مرتدین ، بےدین کو متحد کرکے دنیا وآخرت کی کامیابی کا خواب دیکھنے والا تاریخ اسلام کے اس روشن باب کو بھول گیا۔ کیا تم بےایمانوں، بددینوں اور مرتدین زمانہ سے اتحاد باطل کر کے کامیابی چاہتے ہو؟ کیا قرآن عظیم کا ایمان افروز مژدۂ جاں فزا یاد نہیں؟ قرآن عظیم فرمارہا ہے :ولا تهنوا ولا تحزنوا و انتم الأعلون إن كنتم مؤمنين۔

ترجمہ: اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تمہیں غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو۔ 

(سورۂ آل عمران ، آیت ۱۳۹ )


اور آیت کریمہ کا کھلا ہوا مظاہرہ ہوا: كم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة باذن اللہ۔ ترجمہ: کہ بارہا کم جماعت غالب آئی زیادہ گروہ پراللہ کے حکم سے ۔ 

( سورۃ البقرہ ، آیت/۲۴۹ )


(اتحاد باطل کی بیخ کنی، صفحہ ١٤)

No comments:

Post a Comment