بے مثال حسن و جمال
از- علامہ محمد شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ
اللّٰہ تبارک وتعالٰی نے اپنے پیارے حبیب علیہ الصلاۃ والسلام کو وہ حسن و جمال عطا فرمایا جس کی تعریف و توصیف سے زبان عاجز ہے۔ چہرہ مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حسن و جمال، خوبی و کمال کا مظہر ہے۔ آپ حُسنِ کُل ہیں اور حُسنِ یوسف حُسنِ محمّدی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی ایک تابش تھی اور دنیا بھر کے حسین و جمیل حُسنِ محمّد صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی ایک جھلک ہیں۔ حُسنِ بے مثال کا یہ عالم تھا کہ زبان کو عالمِ حیرت میں یہ کہنا پڑا۔
لم ارقبلہ ولا بعدہ مثلہ
ایسا حسین و جمیل تو نہ ان سے قبل دیکھا گیا اور نہ ان کے بعد۔
حسن ہے بے مثل صورت لاجواب
میں فدا تم آپ ہو اپنا جواب
حضرت ابو نعیم فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السّلام تمام انبیاء و مرسلین بلکہ تمام مخلوق سے زیادہ حُسنِ و جمال دئیے گئے تھے۔ مگر ہمارے نبی اللّٰہ کے حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو وہ حسن و جمال عطا ہوا جو کسی اور مخلوق کو عطا نہیں ہوا یوسف علیہ السلام کو حسن و جمال کا ایک جُز ملا تھا اور آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو حُسنِ کُل دیا گیا۔
(خصائص کبریٰ،جلد ٢، صفحہ ١٨٢)
اللّٰہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے۔
وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى
اس آیۂ کریمہ کی تفسیر میں بعض مفسرین فرماتے ہیں الضحٰی اشارہ ہے نور جمال مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف اور والّیل کنایہ ہے حضور پُرنور کے گیسوۓ عنبریں سے۔(خزائن العرفان)
اے کہ شرح ولضّحٰی آمد جمالِ روئے تو
نکتہ واللیل وصفِ زلفِ عنبر بوئے تو
حضرت عبد اللّٰہ بن رَواحہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ حضور سرورِ دو عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے وجود مبارک میں وحی الٰہی، معجزات اور دیگر دلائل نبوّت کا اثر ظہور نہ بھی ہوتا تو آپ کا چہرہ مبارک ہی آپ کی دلیلِ نبوّت کو کافی تھا۔ ( زرقانی علی المواہب ص ۷۶ جلد ۴)
حضرت عبد اللّٰہ بن سلام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ (جو یہودیوں کے بہت بڑے عالم تھے) فرماتے ہیں کہ جب حضور سیّد عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو لوگ کام کاج چھوڑ کر جلد جلد آپ کو دیکھنے آرہے تھے، میں بھی آیا۔
تو جب میں نے آپ کا چہرہ مبارک دیکھا تو میں نے جان لیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا نہیں ہے آپ اُس وقت فرما رہے تھے اے لوگوں سلامتی پھیلاؤ اور صلۂ رحمی یعنی اپنوں سے محبت کرو۔ بھوکوں کو کھانا کھلاؤ۔ اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں اللّٰہ کی
عبادت کرو اور سلامتی سے جنت میں جاؤ۔
حضرت براء بن عازب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔
کہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم صورت وسیرت میں تمام لوگوں سے زیادہ حسین و جمیل تھے۔
حضرت ابو قرصافہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں اور میری والدہ اور میری خالہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی بیعت کر کے واپس آئے تو میری والدہ اور میری خالہ نے کہا۔
ہم نے اس شخص کی مثل خوبصورت چہرے والا، پاکیزہ لباس والا، نرم اور میٹھے کلام والا کوئی نہیں دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ گفتگو کے وقت اس کے منہ سے نور نکلتا ہے۔
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور خوش رنگ تھے جس کسی نے بھی آپ کی توصیف کی اس نے آپ کو چودھویں کے چاند سے تشبیہہ دی۔ پسینہ کی بوند آپ کے چہرہ میں یوں معلوم ہوتی تھی جیسے موتی۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ
جب حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مسرور و شادماں ہو تے تو آپ کا چہرہ ایسا منور ہو جاتا کہ چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا۔
نہایہ ابن اثیر میں ہے۔
کہ جب حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مسرور و خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ مثل آئینے کے ہو جاتا کہ اس میں اشیاء کا عکس نظر آتا اور دیواریں آپ کے چہرہ میں نظر آجاتیں۔
جامع بن شداد فرماتے ہیں کہ مجھ کو طاریق بن عبد اللّٰہ نے بتایا کہ ہم مدینہ منورہ کے باہر اترے ہوئے تھے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ اس وقت ہم آپ کو جانتے نہیں تھے۔ ہمارے پاس ایک سرخ رنگ کا اونٹ تھا۔ آپ نے اس اونٹ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا۔ کیا تم اس کو بیچنا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا ہاں! فرمایا کیا قیمت ہے؟ ہم نے قیمت (کھجوروں کی مقدار) بتائی، آپ نے فرمایا منظور ہے، اور اونٹ کی مہار پکڑ کر چل پڑے اور ہمارے دیکھتے دیکھتے شہر میں داخل ہو گئے۔ ہم نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ ہم نے بہت برا کیا کہ ایک ناواقف آدمی جس کو ہم جانتے نہیں کون ہے کہاں کا رہنے والا ہے بلا قیمت وصُول کئے اونٹ دے دیا۔ ایک عورت جو ہمارے ساتھ ہودج میں بیٹھی ہوئی تھی بولی۔
خدا کی قسم میں نے اس شخص کو دیکھا ہے کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی مثل تھا تمہارے اونٹ کی قیمت کی میں ضامن ہوں ( کیونکہ مجھے یقین ہے کہ) وہ تمہارے ساتھ دھوکا نہیں کرےگا۔ جب شام کا وقت ہوا تو ایک آدمی آیا اور کہنے لگا کہ میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا بھیجا ہوا تمہاری طرف آیا ہوں۔ یہ کھجوریں ہیں ان سے خوب پیٹ بھر کر کھا بھی لو اور اپنی قیمت بھی پوری کر لو۔ تو ہم نے پیٹ بھر کھا بھی لیں اور قیمت بھی پوری کر لی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔
کہ میں نے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا یوں معلوم ہوتا کہ آفتاب آپ کے چہرہ میں چل رہا ہے۔
حضرت امام حسن بن حضرت علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں ابو ہند بن ابی ھالہ سے جو فصیح و بلیغ اور عرب کے علم و ادب اور وصف بیان کرنے میں بڑے مانے ہوئے تھے۔ آپ کے نور جمال کے اوصاف بیان کرنے کی درخواست کی تو انہوں نے
اس میں یہ بھی بیان کیا کہ آپ کا چہرہ مبارک چودھویں رات کے چاند جیسا روشن تھا۔
چاند سے منہ پہ تاباں درخشاں درود
نمک آگیں صباحت پہ لاکھوں سلام۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں چرخا کات رہی تھی اور حضور اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم میرے سامنے بیٹھے ہوئے اپنے جوتے کو پیوند لگا رہے تھے، آپ کی پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے تھے جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔ اس حسین منظر نے مجھ کو چرخہ کاتنے سے روک دیا۔ بس میں آپ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ نے فرمایا تجھے کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا آپ کی پیشانی مبارک پر پسینے کے قطرے ہیں جو نور کے ستارے معلوم ہوتے ہیں۔
اگر ابو کبیر ہذلی (عرب کا مشہور شاعر) آپ کو اس حالت میں دیکھ لیتا تو یقین کر لیتا کہ اس کے شعر کا مصداق آپ ہی ہیں کہ جب میں اس کے روئے مبارک کو دیکھتا ہوں تو اس کے رخساروں چمک مثلِ ہلال نظر آتی ہے۔
حضرت حسّان بن ثابت رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔
جب اندھیری رات میں آپ کی پیشانی ظاہر ہوتی تو تاریکی کے روشن چراغ کی مانند چمکتی۔
جس کے ماتھے شفاعت کا سہرا رہا
اس جبینِ سعادت پہ لاکھوں سلام
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے کسی نے پوچھا کیا حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا چہرہ تلوار کی طرح چمکیلا تھا؟ تو فرمایا۔
نہیں نہیں بلکہ حضور کا چہرہ تو آفتاب و ماہتاب جیسا تھا۔
حضرت انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔
حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا رنگ سفید روشن تھا پسینے کی بوند حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے چہرۂ اقدس پر ایسی نظر آتی جیسے موتی۔
حضرت ربیع بنت معوذ صحابیہ ہیں۔ ان سے حضرت عما ربن یاسر کے پوتے نے کہا حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا کچھ حلیہ بیان کیجئے تو انہوں نے فرمایا۔
اگر تو حضور کو دیکھ لیتا تو سمجھتا کہ سورج ہے چمکتا ہوا۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔ چاندنی رات تھی اور حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم حُلّۂ حمراء اوڑھے ہوئے لیٹے تھے۔ میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی حضور کے چہرۂ انور کو۔
بالآ خر میرا فیصلہ یہی تھا کہ حضور چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں۔
یہ جو مہر و مہ پہ ہے اطلاق آتا نور کا
بھیک تیرے نام کی ہے استعارہ نور کا
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں۔
میں اندر بیٹھی کچھ سی رہی تھی میرے ہاتھ سے سوئی گر گئی، ہر چند تلاش کی مگر اندھیرے کے سبب سے نہ ملی۔ پس حضور ماہِ مدینہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف لے آئے تو آپ کے رُخِ انور کی روشنی سے سارا کمرہ روشن ہو گیا اور سوئی چمکنے لگی تو مجھے اس کا پتہ چل گیا۔
سوزنِ گمشدہ ملتی ہے تبسّم سے تیرے
شام کو صبح بناتا ہے اُجالا تیرا
حقیقت یہ ہے کہ آپ کا پورا حُسن و جمال لوگوں پر ظاہر نہیں کیا گیا بلکہ پردہ میں رکھا گیا ورنہ کسی میں طاقت نہیں تھی کہ حُسنِ محمّدی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے جلووں کی تاب لا سکتا۔
شاہ ولی اللّہ محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد شاہ عبد الرحیم صاحب نے حضور اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللّٰہ یوسف علیہ السّلام کو دیکھ کر زنانِ مصر نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے اور بعض لوگ ان کو دیکھ کر مر جاتے تھے مگر آپ کو دیکھ کر کسی کی ایسی حالت نہیں ہوئی۔ تو حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا میرا جمال لوگوں کی آنکھوں سے اللّٰہ نے غیرت کی وجہ سے چھپا رکھا ہے اور اگر آشکار ہو جائے تو لوگوں کا حال اس سے بھی زیادہ ہو جو یوسف علیہ السّلام کو دیکھ کر ہوا تھا۔
یعنی فرمایا کہ میں اللّہ کا محبوب ہوں اور محب کی غیرتِ محبت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس کے محبوب کو سوائے اس کے اور کوئی نہ دیکھے، اس وجہ سے اللّٰہ تعالٰی نے میرے حُسن و جمال کو صرف اپنے دیکھنے کے لئے لوگوں کی نظروں سے چھپا رکھا ہے۔
علامہ قرطبی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ
حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا پورا حُسن و جمال ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا۔ اگر آپ کا پورا حُسن و جمال ظاہر کیا جاتا تو ہماری آنکھیں آپ کے دیدار کی طاقت نہ رکھتیں۔
اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو
(ذکر جمیل، صفحہ ٨٥)
No comments:
Post a Comment