حضور شیر بیشۂ سنت اپنے مکتوبات کے آئینے میں
از-محقق عصر علامہ مفتی محمد فاران رضا خان صاحب حشمتی دامت برکاتہم العالیہ
"بتقاضائے محبت ہر تقریر و تحریر میں یہی کوشش رہتی کہ کسی نہ کسی نہج سے شاتمان خدا و رسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم کارد ہوجائے۔ اور الحب للہ و لرسولہ والبغض للہ ولرسولہ کی مناط نور و نجاح پر گامزن حضرات عالیہ کی غبار راہ ہی بن جائیں باقی اہل دنیا کی تحسین و تائید کی کسے پرواہ ہے ، تعریف و توصیف کی کسے چاہ ہے۔ اپنی فکر تویہ ہے ۔
فاش می گویم واز گفتہ خود دلشادم
بندہ عشقم واز ہر دو جہاں آزادم
حضور شیر بیشہ اہلسنت مظہر اعلی حضرت قدس سرہ کی ذات مبارک ان نفوس قدسیہ میں سے تھی جن کے لیل و نہار، خلوت و جلوت،
تحریر و تقریر صرف اور صرف تبلیغ دین و سنیت ہی کے خاطر ہوا کرتے تھے۔
اگر تحریر و تقریر "جلوت" کے معاملات وحالات کی عکاس ہوا کرتی ہیں تو خطوط ومکتوبات "خلوت" کے اسرار و رموز کے امین ہوا کرتے ہیں۔آخرالذکر نوعیت کی حضوصیت یہ ہے جس میں خاص اصحاب و احباب کو ہی محرم راز ہونے کا شرف حاصل ہوا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بغیر اجازت دوسرے کے خطوط پڑھنا روا نہیں۔
حضور شیر بیشہ اہل سنت قدس سرہ کے خطوط پڑھنے کے بعد آپ پر مثل مہر نیم روز یہ بات روشن و آشکار ہوجا ئیگی کہ جس طرح آپ جلوت میں تبلیغ دین متین کے تیئں نہایت سنجیدہ و متحرک تھے بغیر کسی کم و کاست کے اسی طرح آپ کے افکار و نظریات "خلوت" میں بھی تبلیغ دین کے اردگرد گھومتے نظر آتے ہیں۔
تشنگی کے باوجود دسترس میں ہوتے ہوئے بھی دراہم و نانیر کی بہتی گنگا و جمنا کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ بلکہ اپنے نفس کو قناعت کی حدود میں مقید رکھتے ہوئے وہ مال و زر جو طائر عشق کی پرواز میں کوتاہی کا سبب بنے اس سے مثل نجات غلیظہ سخت نفرت فرمائی ۔ یہ محض افسانہ نگاری نہیں بلکہ وہ حقیقت ہے۔ جس کو آپ بھی آئندہ اوراق میں ان مبارک خطوط کو پڑھنے کے بعد نہ صرف تسلیم کریں گے بلکہ اس مبلغ کے درد تبلیغ کو دیکھ کر جھوم اٹھیں گے۔
بات یہ ہے کہ حضور مظہر اعلی حضرت شیر بیشہ سنت نے ایک طویل عرصے بعد گھر کی ضروریات کے لئے محض دس روپیہ ارسال فرمائے جس کے بعد جناب مشکور حسن خاں صاحب علیہ الرحمہ ( جو کہ حضرت کے رشتہ میں برادر نسبتی تھے) نے خط ارسال کیا جس میں لکھا کہ " تم دونوں نے قلیوں کا کام کیا تھا جو دس روپیہ نصیب ہوئے" اس کے جواب میں حضور شیر بیشہ نے جو دل گراز کوائف تحریر فرمائے وہ صرف اشکبار آنکھوں ہی سے پڑھے جا سکتے ہیں۔آپ تحریر فرماتے ہیں:
"آپنے لکھا ہے کہ تم دونوں نے قلیوں کا کام کیا تھا جو دس روپیے نصیب ہوئے۔جی ہاں قلیوں کا کام بھی کرتے تو کچھ نہ کچھ آمدنی ہو جاتی ۔ بمبئی کا حال تو میں اپنے خط میں لکھ چکا ہوں کہ لوگوں نے اس لیے بلایا تھا کہ حکومت کافرہ برطانیہ اور مشرکین کے منشاء کے مطابق یہ فتوے دیدیا جائے کہ مسلمان مشرکین سے اس بات پر صلح کرلیں کہ علاوہ اوقات نماز دوسرے وقتوں میں مسجد سے بالکل متصل بھجن کیرتن اور بت پرستی کا مظاہرہ کیا کریں ۔ فرنگی محل کے مولوی قطب الدین نے اسی طرح کا فتویٰ دیدیا اور پانچ ہزار روپے لے کر چلتے بنے ۔میں نے بحمدہ تعالیٰ و بکرم حبیبہ علیہ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام پانچ ہزار روپے پر پیشاب کر دیا اور شریعت مطہرہ کے مطابق دیا کہ جو شخص ایک سیکنڈ کے لئے بھی کفر و بت پرستی پر راضی ہوگا بحکم شریعت وہ خود کافر ہو جائیگا۔ لہذا مسلمان مشرکین سے صلح ہر گز نہ کریں برطانیہ گورنمنٹ اگر اپنی جابرانہ قوت کی بنا پر مشرکین کو بھجن کی اجازت دے گی تو یہ اس کا ظلم وجور ہوگا۔ پھر اگر وہ مزاحمت کرنے والے مسلمان پر گولیاں برسائے تو مسلمانوں کو کبھی جائز نہیں کہ گولیوں کا سامنا کر کے مفت میں اپنی جانیں ضائع کریں۔ اگرچہ جو لوگ حرمت مسجد کی حفاظت کرتے ہوئے حکومت کافرہ برطانیہ کی گولیوں سے مارے گئے وہ سب مسلمان انشاء المولی تعالیٰ شہید ہوئے۔یہ فتویٰ دینے کے سبب میرے بلانے والے مجھ سے ناراض ہو گئے اور دس روپیے تو بڑی چیز ہیں دس پیسے بھی نہیں دئے حتیٰ کہ بمبئی سے گونڈل جانے تک کا کرایہ بھی نہ دیا مجبوراً گونڈل سے پچاس روپے منگاے اور کام چلایا۔
میں اگرچہ گناہگار ہوں سیہ کار ہوں لیکن حضور مرشد برحق امام اہل سنت سیدنا اعلیٰ حضرت قبلہ فاضل بریلوی رضی المولی تعالیٰ عنہ کی جوتیوں کے صدقے میں بحمدہ تعالیٰ دل میں یہ جذبہ ہے کہ ماں باپ بیوی بچے سب کی عزت و آبرو مذہب اہل سنت کی عزت و عظمت پر قربان ہو جائے۔دین کی خدمت سے جو کوئی مجھ کو روکتا ہے اس کی طرف سے میرے دل میں سخت تکلیف ہوتی ہے۔
اور میری دعا ہے کہ خدا و رسول جل جلالہ وعلیہ و علی آلہ الصلاۃ والسلام میری بیوی میرے بچوں کا اور خود میرا ایمان اس قدر مضبوط فرما دیں کہ ہم سب اپنی جان مال عزت و آبرو بیوی بچے شوہر ماں باپ سب کو خدا و رسول جل جلالہ وعلیہ و علی الہ الصلاۃ والسلام کی عزت و عظمت پر قربان کرتے رہیں آمین۔ (ماخوذ از مکتوب مبارک)
انکساری، جذبہ تبلیغ دین حق، ان کے نام پاک پر دل جان و مال آل و اولاد قربان کر دینے اور تج دینے کی تمنائے دل اور فکر مسلمین پر مشتمل یہ سطریں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں:
اہلسنت کا سہارا ہند میں بعد رضا
ہے ہمارا ہی پیا حشمت علی خاں قادری
حامیان حق جو تھے
ساکت عن الحق ہو گئے
پر نہ تو خامش ہوا حشمت علی خاں قادری
انکساری اس درجہ کی کہ عتابی تحریر رقم کرنے والا خود شرمندگی میں ڈوب جائے اور آپ ہی معافی کا طلب ہو جائے۔جذبہ تبلیغ دین حق یہ کہ ادھر گھر والے مقروض ہیں ادھر پانچ ہزار روپئے پر پیشاب کیا جا رہا ہے۔ نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کسی سیٹھ صاحب کی ناراضگی کا ہر اس۔سچ ہی تو کہا تھا سرکار کلاں حضرت علامہ سید شاہ مختار اشرف صاحب قبلہ اشرفی کچھوچھوی قدس سرہ نے کہ:
"جس کے ایمان کو بھری تجوریوں سے بھی خریدا نہ جا سکا، جو اعلان حق میں ہر لومتہ لائم سے ہمیشہ بے نیاز رہا،جو صرف اللّٰہ سے ڈرا اور کسی باطل قلم کی نوک یا باطل تلوار کی دھار نے دبانے میں کبھی کامیابی حاصل نہ کی، اس کے بارے میں میری تاثرات وہی ہیں جو ہرسنی صحیح العقیدہ کے ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو ان سے واقف ہو کر ان کے عقیدے کے موافق ہے وہی صحیح معنوں میں سنی ہے ،صحیح الایمان ہے۔ اور ان سے واقف ہوکر ان کا بد گو ہو وہ یقینا بد مذہب، بے دین ہے۔"
(مظہر اعلیٰ حضرت علامہ و مشائخ کی نظر میں ص ۳۹)
واہ رے سنت صدیقی (رضی اللہ عنہ) کو زندہ کرنے والے مجاہد تیرے جہاد فی سبیل اللہ کو سلام۔ سبحان اللہ تمنائے دل کو ماں باپ، بیوی بچے سب کی عزت و آبرو مذہب اہل سنت کی عزت و عظمت پر قربان ہو جائے ۔ اور وہ دعا فرمائی جس کی قبولیت آج دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔کہ فرماتے ہیں: "میری دعا یہ ہے کہ خدا و رسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم میری بیوی میرے بچے کا اور خود میرا ایمان اس قدر مضبوط فرما دیں کہ ہم سب اپنی جان و مال عزت و آبرو بیوی بچے شوہر ماں باپ سب کو خدا و رسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم کی عزت و عظمت پر قربان کرتے رہیں۔"
آپ کی اسی جلالت شان اور سطوت و عظمت کی بنیاد پر خلیفہ اعلی حضرت ملک العلماء حضرت مولانا مفتی محمد ظفیرالدین صاحب قبلہ بہاری قدس سرہُ القوی حضور مظہر اعلیٰ حضرت شیر بیشہ سنت قدس سرہُ العزیز کے لئے ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے ان قیمتی اور مبارک القابات سے مشرف فرماتے ہیں:
*"ناصر سنیت،کاسر بدعت،نمونئہ شدت حضرت عمر و اعلی حضرت"*
(پشت خاردر افتخار ص۱۴)
وہ کہتے تھے نبی کے نام پر مر مر کے جی لیں گے
نبی کے نام پر گر زہر بھی مل جائے پی لیں گے
پھر اس سب کے باوجود مسلمانوں کی وہ فکر کے خط کے مختصر مضمون میں بھی بمبئی کے مسلمانوں کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکے۔سچ ہے کہ وہ ذات متحرک نہیں بلکہ وہ تحریک تھی جس کے دستور احساسی میں صرف اور صرف مسلمانوں کی دینی و دنیوی فلاح و بہبودہی رقم تھی۔اسی تحریک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شہزادہ اعلی حضرت حضور سیدی مفتئ اعظم ہند قدس سرہ فرماتے ہیں:
"کہ وہی بیشہ اہلسنت کے شیر ہیں اور میدان حق گوئی کے مرد دلیر ہیں۔ انھوں نے در حقیقت تم پر مذہبی احسان کیا تھا کہ تم کو وہابی ہونے سے بچایا اورمیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ سو ڈیڑھ سو مولوی بھی مل کر وہ کام نہیں کر سکتے جو اللہ اور اس کے رسول کے فضل و کرم سے اکیلے مولانا حشمت علی( علیہ الرحمتہ و الرضوان )نے کیا ۔(بحوالہ ترجمان اہلسنت و نوری کرن بریلی شریف ستمبر ۱۹۶۰)
یوں تو میدان مناظرہ میں رونما ہونے والے حاضر جوابی کے واقعات کا نہ صرف یہ کہ ایک زمانہ مداح ہے بلکہ ان میں بہت سے واقعات آج بھی زبان زد خاص و عام ہیں۔ان تمام واقعات کا اگر احاطہ کیا جائے تو مستقل ایک ضخیم کتاب تیار ہو
جائے۔ مگر یہاں سردست صرف ان واقعات کو بیان کرنا مقصود جو حرمین طیبین کے موقع پر رونما ہوئے۔ اور خود حضور مظہر اعلیٰ حضرت شیر بیشہ اہلسنت علیہ الرحمۃ والرضوان نے اپنے خطوط میں تحریر فرمائے۔یہ تمام مباحث کوئی مستقل نہ تھے۔ بلکہ مقامات مقدسہ پر شرک و بدعت کی صدائیں بلند کرنے کے واسطے متعین نجدی عسکری یا دیگر سر پھروں کو درست کرنے کی خاطر بروقت عربی زبان ہی میں جو جوابات عنایت فرمائے وہ قابل دید ہیں۔
حضور شیر بیشہ اہل سنت اپنے جذبہ حق پسندی، حمایت مذہب اہل سنت اور اپنی شیرانہ صفت کے پیش نظر کسی بھی مردود نجدی کے خبیث اعتراض پر ساکت نہ رہ پاتے۔ اور برجستہ وہ محققانہ اور دنداں شکن جوابات ان نجدیوں، گستاخوں پر نازل فرماتے کہ ان خبثاء کی زبان گنگ ہو کر رہ جاتی۔ نتیجہ مبہوت ہو کر سب و شتم یا لڑائی پر آمادہ ہو جاتے۔ جس کا مشاہدہ ان خطوط کے مطالعے کے بعد آپ کو بخوبی ہوگا جو حضور شیر بیشہ سنت نے مکتہ المکرمہ سے تحریر فرمائے۔ ملاحظہ ہو:
پرسوں حنفی مصلی کے پاس بیٹھا ہوا کعبہ معظمہ کا دیدار کر رہا تھا مولانا سید قادری محی الدین صاحب زید مجدہم بھی پاس ہی بیٹھے تھے۔ اشراق کا وقت تھا کہ وہی جمعراتی بھوپالی و ہبڑا جس کو برادرم محمد صدیق صاحب قادری سلمہ الباری خوب اچھی طرح جانتے ہیں ایک مصری سنی مسلمان سے جھگڑنے لگا۔ سنی مسلمان مصری کہہ رہا تھا کہ ہم تو دراصل صرف حضور سیدالکونین صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم کے دربار اقدس کی حاضری کے لئے آئے ہیں کعبہ معظمہ اور اس کا حج تو حضور کے طفیل میں ہے ۔جمعراتی بھوپالی وہابی اس بے چارے مصری سے جھگڑا کرنے لگا کہ حدیث میں ہیں۔
لاتشدالر حال الا الی ثلثه مساجد کجاوے نہ کسے جائیں مگر صرف تین مسجدوں کی طرف مسجد حرام اور میری یہ مسجد اور مسجد اقصی۔ لہٰذا صرف مسجد نبوی کی حاضری اور اس میں نماز پڑھنے کی نیت سے مدینہ شریف جانا چاہئے کہ اس میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کے برابر ہے۔
مسجد نبوی کی حاضری کے ضمن میں روضہ مبارک کی زیارت ہو جائے گی۔ ورنہ قبر شریف کی زیارت سے سفر کرنا حدیث شریف کی رو سے جائز نہیں۔
وہ مصری سنی ناخواندہ کیا جواب دیتا ۔اس سگ بارگاہ رضوی سے رہا نہ گیا فوراً بول پڑا کہ اس حدیث شریف میں مستثنی مفرغ کا مستثنی منہ اگر مکان یا شئے رکھا جائے گا کہ لا تشدالر حال الی مکان اوالی شے الا الی ثلثة مساجد
تو تجارت کے لئے بلکہ جہادلا علاء کلمتہ اللہ کے لئے بلکہ کے طالب علم دین کے لئے بلکہ بالغرض حفاظت دین دارالحرب سے دارالاسلام کو ہجرت کے لئے سفر کرنا بھی حرام ۔بلکہ نجدیوں دیوبندیوں کے دھرم میں شرک ہوجائے گا۔ تو ثابت ہوگیا کہ اس حدیث شریف میں مستثنیٰ منہ ہرگز عام نہیں بلکہ مستثنی کی جنس ہی سے مسجد ہے۔ تقریر عبارت یوں ہے:
لا تشد الرحال الى مسجد الا الى ثلثة مساجد
یعنی کسی مسجد کی خاص زیارت یا اس میں نماز پڑھنے کی نیت سے دور دور سے سفر نہ کرو۔ سوا ان مسجدوں کے کہ مسجد ہونے کی حیثیت سے ہر مسجد برابر ہے۔ کسی مسجد میں کوئی خاص خصوصیت ثواب کے کم یا زیادہ ہونے کی حیثیت سے نہیں سوا ان تین مسجدوں کے کہ مسجد حرام میں ایک نماز کا لاکھ گنا، مسجد نبوی میں پچاس ہزار گنا اور مسجد اقصٰی میں پچیس ہزار گنا ثواب ہے۔ باقی تمام دنیا کی سب مسجدیں ثواب کے لحاظ سے برابر ہیں۔
جب حدیث شریف کے صرف یہی معنی ہیں اور یقیناً صرف یہی معنی ہیں تو محبوبان خدا علی ہم وعلیہم الصلاۃ والسلام والثنا کی قبور مقدسہ کی زیارت کے لئے سفر کرنا اس حدیث شریف سے کیونکر ناجائز ہو سکتا ہے۔ تم خود کہتے ہو کہ مسجد نبوی کی حاضری کی نیت سے سفر کرنا جائز ہے۔
تو اس کو مسجد الہی نہیں کہا بلکہ مسجد نبوی کہا یعنی نبی والی مسجد تو جس نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم کی طرف نسبت کی وجہ سے مسجد نبوی شریف کے لئےسفر کرنا جائز وثواب ہو گیا تو خود اس نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا کتنی بڑی عبادت الہیہ ہوگی؟
پھر میں نے بآواز بلند کہا:
سنتے ہو جی! یہ کعبہ معظمہ جس پر نظر کرنا سنی مسلمان کے لئے عبادت الہیہ ہے۔ہاں!ہاں! یہ کعبہ مقدسہ جس کا حج عمر میں ایک بار عاقل بالغ سنی مسلمان مستطیع پر فرض اعظم ہے۔اس کی حقیقت ایمان والوں کے نزدیک کیا ہے؟ میرے آقائے نعمت حضور اعلی حضرت قبلہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
کعبہ بھی ہے انہیں کی تجلی کا ایک ظل
روشن انہیں کے نور سے پتلی حجر کی ہے
ہوتے کہاں خلیل و بنا کعبہ و منى
لولاک والے صاحبی سب تیرے گھر کی ہے
صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی ابويه ابراھیم الخلیل و اسمعیل الجلیل و علی آلہ و الھما و سلم
ایک نجدی وہابی سے گفتگو میں میں نے یہ بھی کہا کہ محبوبان خدا علی سید ہم وعلیہم الصلاۃ والسلام والثنا کی یادگاریں شرک سمجھ کر اسلام میں سے اگر یکسر نکال دی جائیں۔ تو اسلام اسلام نہ رہے۔صفاو مروہ،مقام ابراہیم،میلین اخضرین،حجراسود، کعبہ معظمہ سب محبوبان الہی کی یادگاریں ہی تو ہیں حتیٰ کہ خود قرآن عظیم بھی اپنے منزل علیہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یادگار قائم کئے ہوئے ہے۔
مصلی مالکی کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہم چند بندگان رضوی جنتہ المعلیٰ شریف کا تذکرہ کررہے تھے کہ ہر قوم اپنے بزرگوں کی یادگاروں کی حفاظت کرتی ہے لیکن نجدی ایسی جاہل اور وحشی قوم ہے کہ جن آقا و مولی صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کا امتی ہونے کا ادعا کرتی ہے انہیں کی تاریخی مذہبی مقدس یادگاریں ایک ایک کرکے مٹا دیں۔ واحد قہار جل جلالہ ان کو بھی جلد مٹا کر اپنے کسی پیارے سنی مسلمان بندے کو خادم الحرمین الشریفین بنا دے پھر اس کو دین اسلام و مذہب اہلسنت واحکام شریعت کے مطابق حجاز مقدس کی خدمات کی توفیق بخشے۔آمین۔
ترے حبیب کا پیارا چمن کیا برباد
الہی نکلے یہ نجدی بلا مدینے سے
۔۔۔۔۔جاری
(مکتوبات مظہر اعلی حضرت،جلد اول)
No comments:
Post a Comment