رد عقلیت
از- امام المتکلمین علامہ نقی علی خان قادری رضی المولیٰ عنہ
فرقۂ اولیٰ نے اپنی عقل ناقص کو امام بنایا ہے اور زعم فاسد میں عقل کل بن بیٹھا ہے۔ مسئلہ جبر و قدر۔ اور مشاجرات صحابہ۔ اور ان کے امثال میں دخل بے جا۔ اور آیات متشابہات و احکام غیر معقول المعنی۔ اور خدا کی باریک حکمتوں میں۔ اور اسرار میں جن کا سمجھنا ہرکس و نا کس کا کام نہیں فکر بیہودہ کرتے ہیں۔ اور جو بات سمجھ میں نہیں آتی اس سے صاف منکر ہو جاتے ہیں۔
ہر چند کہ عقل مدار تکلیف اور انسان و دیگر انواع حیوان میں مابہ الامتیاز ہے۔ مگر افراد انسانیہ اس میں متفاوت۔ عقل انبیا علیہم السلام عقل عوام سے بالبداہۃ ازید و اکمل ہے۔ بلکہ عوام میں بھی تفاوت بین۔ خصوصاً جب اس کے ساتھ علم و تجربہ بھی شامل ہو۔ ایسے شخص کی بات دوسرے واجب التسلیم اور اس کے کام میں دخل دینا فضول سمجھتے ہیں۔
لہٰذا طبیب کے کہنے پر بلا دریافت مزاج و خاصیت دوا۔ اور بدوں تشخیص مرض بے تأمل عمل کرتے ہیں۔ اسی طرح نور نبوّت کے حضور سر جھکا دیں۔ جو ارشاد ہو بے چوں چرا بجا لاویں۔ اپنی عقل کو دخل نہ دیں اور جو نہ بتایا اس کی فکر میں نہ پڑیں کہ نہ بتانا بھی حکمت ہے گو سمجھ میں نہ آئے۔ وہ حکیم مطلق ہے۔ فضول و عبث کو اس کے سرا پردۂ حکمت کے پاس گزر نہیں۔
واللہ یعلم و انتم لاتعلمون
ترجمہ: اور اللہ جانتا اور تم نہیں جانتے۔
کس تصریح سے فرماتے ہیں ہم جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔ اسی جگہ سے کہتے ہیں "لا ادری" آدھا علم ہے۔
وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
ترجمہ: اور پختہ علم والے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے۔
یہ آیت صاف صریح خبر دیتی ہے کہ دانش مند ایسی باتوں میں جو شرع نے نہ بتائیں خوض نہیں کرتے۔ اور انہیں اس حیثیت سے کہ مولی کی باتیں ہیں مانتے ہیں۔ اگرچہ عقل ان کی حقیقت نہ دریافت کرے۔ شیطان نے حکم الٰہی میں دخل دیا۔ کہ آدمی خاک اور میں آگ سے پیدا ہوا۔ مجھے اس کے سامنے جھکنا زیب نہیں دیتا۔ اس حال کو پہونچا۔
احکام غیر معقول المعنی کی ایک حکمت
علماء فرماتے ہیں:۔
احکام غیر معقول المعنی میں کچھ حکمت نہ ہو،یہی کافی ہے۔ کہ کون بندہ خالص ہمارا حکم اس نظر سے کہ ہمارا حکم ہے مانتا ہے۔ اور کون سرکش متمرد شیطان کی طرح چون و چرا کرتا ہے۔ جس نے عقل کو مدار شرع ٹھرایا۔ کہ جس بات کو عقل اس کی نہ پہونچے شک اور تردد کو جگہ دے وہ بندہ عقل اور شیطان کا ساتھی ہے۔
توحید و رسالت کے دلائل دیکھے اور خدا و رسول پر کامل حاصل کرے۔ اس وقت کوئی شک و تردد نہ رہے گا۔ اور جو کچھ پیغمبر نے مالک حقیقی کی طرف سے پہونچایا بے تردد و تشویش قبول کرے گا۔
جس عامی کا ایمان ناقص اور خدا و رسول پر یقین کامل نہیں۔ شیطان اسے سادہ لوح اور احمق پاکر مسئلہ جبر و قدر و آیات متشابہات، و حقیقت روح و عدد مؤکلان دوزخ و مشاجرات صحابہ و مسح سرورمی جمار کے بھید اور اسی قسم کے احکام و اسرار کے حوض میں مبتلا کرتا ہے۔ تاکہ الحاد و زندقہ و جبر و قدر و خروج و رفض و تشبیہ و تعطیل کی کھائی میں ھلاک کرے۔ وہ نادان اس کے دام فریب میں آکر ان باتوں میں فکر بیہودہ کرتا ہے۔
قہر تو یہ ہے۔ جب کوئی صنعت انسانی سمجھ میں نہیں آتی، کہتا ہے: صانع کے کمال میں شک نہیں۔ گو میں بدوں اس کے کہ مدت تک اس کی شاگردی کروں۔ اور شروع سے حسب قاعدہ سیکھوں حقیقت اس صنعت کی کما ینبغی نہیں دریافت کر سکتا۔ اور اسرار شرعیہ کی نسبت اسقدر اعتقاد بھی گوارا نہیں۔
جو اسرار شریعت و حقائق طریقت، علما و مشائخ نے ہزار ریاضت تخلیہ کے بعد حاصل کئے۔ بایں عقل و دانش بلا محنت و مشقت سمجھا چاہتا ہے۔ اور ان کے ساتھ ایسے امور میں بھی کہ اولیائے رحمت و مجتہدین ملت کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ دست اندازی کرتا ہے۔
اگر شوق ادراک ہے، علوم دین کی تحصیل میں کوشش اور مجاہدہ و ریاضت میں سعی کر اس سے بہت بھید منکشف ہو جاویں گے۔ اور جو قابل انکشاف نہیں ان کی نسبت یہ اعتقاد جم جاوے گا کہ یہ اسرار میری سمجھ سے ورا ہیں۔ یہ کیا ضرور ہے کہ خدا کے سب بھید اور اس کے سب احکام کے اسرار مجھے معلوم ہو جاویں۔ بلکہ نہ معلوم ہونا ضروری ہے۔ ورنہ علم الہی سے ایک طرح کی مساوات لازم آوے۔
انسان اللہ تعالٰی کے سب افعال و احکام کی۔۔۔۔۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر افعال خضر اور اقوال چوپان کی حقیقت کو نہ پہونچے۔ ہر کس و ناکس خدا کے سب افعال و احکام کے بھید کب سمجھ سکے جو میوہ حضرت مریم کو عطا ہوا، زکریا علیہ السلام کو زبان تک مزا اس کا نہ پہونچا۔ اور جو سر ابو البشر علیہ السلام پر ظاہر ہوا، ملائکہ کرام باوجود تجرد تام اس سے آگاہ نہ ہوئے۔ آخر بہزار عجز قصور فہم کا اعتراف کیا۔
سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ
ترجمہ: پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تونے ہمیں سکھایا ہے تو ہی علم و حکمت والا ہے۔
اللہ تعالٰی کی چند مخلوقات کے عجائب
اے عزیز! اس کی ادنٰی مخلوق میں اس قدر عجائب و غرائب اور حکمتیں اور اسرار مودع ہیں کہ نفوس قدسیہ اور عقول کاملہ۔ کہ ظلمات مادیہ اور کدورات جسمانیہ سے منزہ ہیں، ادراک سے قاصر، اور دانایان عالم اور عقلائے جہاں ان کے دریافت سے عاجز۔
زہے صنع نہاں و آشکارا
کہ کس راجز خموشی نیست یارا
چیونٹی جسے تو اضعف مخلوقات اور احقر موجودات جانتا ہے بزبان حال کہتی ہے۔
اے غافل نقاش ازل کی حکمت و صنعت مجھ میں دیکھ۔ کہ مجھ جیسی نا چیز باوجود صغر جثہ ہاتھ پاؤں عنایت کئے۔ اور اس چھوٹے سر میں بہت غرفے بنائے کسی میں قوت ذائقہ اور کسی میں باصرہ رکھی۔ اور جو چیزیں تحصیل غذا اور عقل و ہضم کے لئے درکار ہیں سب عنایت فرمائیں۔ وہ ناک مجھے دی کہ دور سے ہر چیز کی بو سونگ لیتی ہوں۔ اور وہ قدرت مجھے بخشی کہ جس جگہ تو کھانا رکھتا ہے پہونچ کر بفراغ خاطر نوش کرتی ہوں۔ تو زراعت کرتا ہے میں کھاتی ہوں۔ تو نفیس کھانے پکاتا ہے میں نوش کرتی ہوں۔ تو تمام عالم کو اپنے لئے مخلوق جانتا ہے اور میں کہتی ہوں خدا نے تجھ سی مخلوق بے نظیر کو میری خدمت کے لئے پیدا کیا۔
اسی طرح ہر مخلوق اس کی صفت و ثنا کرتی ہے۔ اور کمال صنعت و حکمت کی گواہی دیتی ہے۔ مگر سننے والا اور سمجھنے والا کہاں؟
وہ خود فرماتا ہے:
وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ
ترجمہ: اور کوئی چیز نہیں جو اسے سراہتی ہوئی اس کی پاکی نہ بولے ہاں تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔
ایک ہری لکڑی سے آگ نکلتی ہے۔ اور باوجود حرارت و یبوست طبعی کے اسے خشک نہیں کر سکتی۔ اور باہر نکلنے کے بعد جلا دیتی ہے۔ جزبِ مقناطیس و اسہال ثمانیہ کے سبب میں سب عقلا حیران۔ اور شمع و پروانہ، و گل و بلبل کے معاملے میں ایک عالم متحیر۔ عقل کیا چیز ہے کہ حکیم مطلق کی سب حکمتیں اور اس کے سب احکام کہ بھید کما ینبغی دریافت کر سکے۔
عقل کی ذمّہ داری کیا ہے؟
عقل کا کام ان احکام میں یہ ہے۔ کہ کان لگا کر سنے کیا حکم آتا ہے۔ اور طریق تعمیل کیا ہے۔ نا یہ کہ کیوں حکم دیا۔ اور اس میں کیا فائدہ ہے؟
جو خوان نعمت پاوے اور اس فکر میں پڑے۔ کہ یہ کھانا کس طرح اور کس جگہ اور کس برتن میں پکا۔ یہاں تک کہ لوگ کھا جاویں۔ اور وہ منہ دیکھتا رہ جاوے۔ اس سے زیادہ احمق کون ہے؟
زیں خرد بے گانہ می با ید شدن
دست در دیوا نگی باید زدن
آز مودم عقل دور اندیش را
بعد زیں دیوانہ خوانم خویش را
اظہر اشیاء اپنی ذات و صفات ہیں۔ اور علم انکا حضوری۔ مگر حقیقت و ماہیت ان کی عوام کو معلوم نہیں ہوتی۔ بلکہ اکابر علمائے میزان نے بھی تحدید اعیان عسیر سمجھی۔
عیال نہ شد کہ چرا آمد کجا بودم
دریغ و دردکہ غافل ذکار خويشتنم
بھلا جس عقل پر اعتماد کرتا ہے اس کی حقیقت بتا کیا ہے؟ جب وہ اپنی حقیقت نہیں جانتی خدا کی باریک حکمتیں کب جانے گی۔
خواجہ ابو القاسم فرماتے ہیں۔
جو اپنی عقل پر اعتماد کرتا ہے جہل مرکب میں مبتلا ہے۔ کہ کچھ نہیں جانتا آپ کو دانا سمجھتا ہے۔ خصوصاً امر دین میں اسے حاکم ٹھرانا۔ اور جس امر شرعی کو عقل اپنی ادراک نہ کرے نہ ماننا۔ حکم شاہی بدوں منظوری اس کے ادنٰی نوکر کے رد کرنا۔ عقل کیا چیز ہے کہ حکم خدا و رسول میں دخل دے۔
مصطفٰی اندر میاں آنگہ کسے گو ید باعقل
آفتاب اندر جہاں آنگہ کسے جو ید سہا
صوفیاء کرام فرماتے ہیں:
مراد عقل اوّل سے جس کی نسبت "اوّل ما خلق اللہ العقل" داردے حقیقت محمدی اور روح مبارک اس جناب کی ہے۔ کہ عالم قدس میں مربی ارواح تھے اور جوہر بدن سے متعلق ہوکر ہدایت و ارشاد عالم میں مشغول ہوئے۔ پس عقول انسانیہ اس عالم اور اس عالم میں اسی فیض حاصل کرتی ہیں۔ جیسے زرے آفتاب سے کہ جب وہ نکلتا ہے یہ چمکتے ہیں۔ اور ظاہر کہ عکس اصل سے معارض نہیں ہوتا۔ اسی لئے ہزاروں عقلا نور نبوّت کے معارضہ سے عاجز آئے۔
وہب ابن منبہ کہتے ہیں:
میں نے اکہتر کتابوں میں لکھا دیکھا۔ کہ عقل سارے جہان کی عقل محمدی سے وہ نسبت رکھتی ہے جیسے ایک دانہ ریت کا ریگستان دنیا سے۔
(ھدایۃ البریۃ الی الشریعۃالاحمدیہ)
No comments:
Post a Comment