وقت کے ابھرے ہوئے سوال کا جواب
از:-پاسبان ملت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ
بہت سے حقیقت ناآشنا ،متعصب اور نادان سوال کرتے ہیں کہ مسلمان جنگجو ہے اور اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔اور ہمارا کہنا یہ ہے کہ تلوار سے نہیں بلکہ اخلاق محمدی سے پھیلا ہے۔
حضرات! آہنی تلوار سے سر قلم کیا جاتا ہے لیکن اخلاق کی تلوار سے دلوں کی دنیا فتح کی جاتی ہے۔ مصطفیٰ کے ہاتھوں میں لوہے کی تلوار نہیں ، بلکہ دلوں کی دنیا مسخر کرنے والی اخلاق کی تلوار تھی۔ جس کے سامنے آہنی تلوار کی دھار گوٹھل ہو جاتی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو سیدنا عمر قبول اسلام سے پہلے چراغِ نبوت کو گل کرنے ہی کے ارادے سے توتلوار لے کر پہنچے تھے لیکن ا بھی سیدنا عمر کی تلوار جنبش میں بھی نہ آئی تھی کہ اخلاق نبوت کی تلوار آگے بڑھ کر اپنا کام کر گئی۔ اور وہ تلوار جو پیغمبر کا خون چوسنے اورپینے کی غرض سے نیام سے باہر آچکی تھی وہ شرمسارہو کر نیام کے اندر چلی گئی۔
دوستو! میں یہ ایک ذیلی بات کہہ گیا ۔کہنا یہ ہے کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا ۔آپ اس سلسلے میں اسلام کا سب سے پہلا غزوہ ملاحظہ فرمائیں اور وہ ہے غزوہ بدر۔ آپ تاریخ کامطالعہ کرکے اس سے دریافت کیجئے کہ یہ جنگ کہاں ہوئی تھی تب آپ کو معلوم ہوگا کہ مدینہ سے قریب ۔
حضرات: اس جنگ کا مدینے سے قریب ہونا خود اس کی دلیل ہے کہ کفار مکہ مدینے پر چڑھائی کی غرض سے آئے تھے،خون خرابہ، قتل وغارت اورلوٹ مار کے ارادے سے نکلے تھے کسی کا سہاگ لوٹنے اور بچوں کو یتیم بنانے کی نیت سے آۓ تھے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس جنگ کو مدینہ سے نہیں مکہ کےقریب ہونا چاہیے تھا۔تب یہی الزام لشکر اسلام پر آتا اور ایسا نہیں ہے۔
لہذا اب آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ تلوار چلانا جرم ہے چلتی تلوار روکناجرم نہیں ہے کسی کے نشیمن میں آگ لگانا جرم ہے پانی کا چھڑکاؤ جرم نہیں۔ کسی ظالم و جابر کے مقابل اس کی مدافعت یہ تو ایک جمہوری و دستوری حق ہے جس پرنہ کبھی بندش لگائی گئ اور نہ کبھی پہرہ بیٹھایا جا سکتا ہے۔اگرغزوہ بدر میں تلوار چلی تو یہ قصور ان کا ہے جو مکہ سے سیکڑوں میل چل کے مدینہ پہنچے تھے۔
حیرت ہے! خطہ کس کی اور الزام کس کے سر ؟
لہذا معلوم ہوا کہ مسلمان جنگ جو اور لڑا کا نہیں بلکہ وہ ایک جارح کے مقابل صرف اپنی مدافعت کرتا ہے ۔ لہذا پہل ان کی ہے ہما ری نہیں ۔کسی کی پہل کے بعد اپنا دفاع کرنے والے کو جارح نہیں کہتے ۔
اور یہ کہنا کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے یہ بھی سراسر غلط اور بہتان ہے۔اس سلسلے میں سرکار کا پیغمبرانہ مزاج ملاحظہ فرمائیں:
سرکار صحابہ کو ہدایت فرماتے ہیں کہ وضو میں اتنا ہی پانی خرچ کیا جائے, جس قدر پانی کی ضرورت ہو ۔ورنہ خدا کے یہاں اس کے ایک ایک بوند کا محاسبہ ہوگا حتی کہ الفاظ حدیث یہاں تک ہیں ولو کان علی شط نھر جار یعنی اگرچہ دریا اور بہتی ندی کے کنارے ہی کیوں نہ وضو کرتے رہو۔
حضرات ! یہاں پہنچ کر میں آپ کی توجہ کا طلب گار ہوں کہ اللّٰہ کا ایک مخلص و پرہیز گار بندہ ،اللہ کے حضور میں جانے کے لیے وضو کر رہا ہے تو اتنے نیک کام اور نماز جیسی اہم عبادت کی ادائیگی میں اتنی سخت بندش لگا دی جا رہی ہے کہ آخرت میں قطرے قطرے کا حساب دینا ہوگا تو پھر مجھے کہہ لینے دیجئے کہ جس پیغمبر کی نگاہ میں میں بہتے ہوئے دریا کے پانی کی ایک ایک قطرے کی اتنی قیمت ہو ، تو آپ ہی بتائیں کہ پھر اس کی نظر میں انسانی خون کی کتنی قیمت ہوگی؟
بھلا وہ کب برداشت کر سکتا ہے کہ زمین پر خون ناحق گرایا جائے اےاللہ کے بندو ! خدا کی دی ہوئی عقل سے کام لو۔
حضرات ! اس فرمان نبوی سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس نبی کی نگاہ میں پانی اتنا قیمتی ہو ،اس کی نظر میں انسانی خون کا احترام کتنا اور کس قدر ہوگا؟
یہیں پر میں اس نکتہ کا اظہار بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اسلام کی جنگ کافر سے نہیں کفر سے ہے۔گویا ایک نظریہ سے، ایک فارمولےکا ایک فار ۔مولے سے،ایک آئین ودستور کا دوسرے آئین وہ دستور سے جنگ ہے۔
گویا ظلمت نور سے متصادم ہے
جہل، علم کے مقابلے میں
صفت آرا ہے اور باطل نے حق کو دعوت رزم دیا ہے
باطل دوئی پسند ہے حق لازوال ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول۔
(خطبات نظامی، صفحہ ١٢٧)
No comments:
Post a Comment