********** ١ **********
اسرار روزہ
از-امام المتکلمین علامہ نقی علی خان قادری علیہ الرحمۃ الرحمن
قال الله تعالى يا ايهاالذين امنو كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم
اے ایمان والوں فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسا فرض ہوا اگلوں پر اے عزیز کمال عظمت اور نہایت منزلت اس دولت بے نہایت کی اس آیت سراپا بشارت سے قیاس کر کہ پروردگار تقدس و تعالیٰ روزہ داروں کے ایمان کی گواہی دیتا ہےاور اُن کو ایمان والے کہتا ہے اور کمال عنایت و شفقت سے اپنے بندوں کی تسکین و تشفی کرتا ہے کہ یہ عبادت کچھ تمہیں پر فرض نہیں ہوئی بلکہ اگلی اُمتوں پر بھی فرض تھی بعض امم سابقہ پر روزہ ایام بیض اور یہود پر روزہ عاشورہ اور ہر شنبہ فرض اور نصاریٰ پر ماہ رمضان مقرر ہوا لیکن اس سال سردی یا گرمی بشدّت تھی لہٰذا انہوں نے روزہ شاق سمجھ کرموسم بہار میں روزے رکھے اور اس تبدیل کے کفارہ میں بیس اور زیادہ کئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں روزہ عبادت قدیمی ہے کوئی شریعت اس سے خالی نہیں یہ نہ سمجھو کہ یہ تکلیف نئی ہوئی بلکہ اگر نظر تعمق سے دیکھو تو فرضیت اس عبادتِ شاقہ کی اُمم سابقہ پر تمہاری ہی تسکین و تشفی واسطے تھی کہ عنایت الٰہی جو تمہارے حال پر روز ازل سے مبذول ہے مقتضی اس امر کی نہ ہوئی کہ ایسی تکلیف شاق اپنے محبوب کی اُمّت سراپا مرحمت پر یکبار گی مقرر کریں بلکہ واسطے فرضیت اس عبادت کے باقتضائے حکمت کاملہ ہزاروں خوبیاں اور بڑاںٔیاں اس امت کو اس کے عوض حاصل ہوئی یہ طریقہ قرار پایا کہ زمانہ آدم علیہ السلام سے عیسٰی علیہ السلام تک ہر مذہب و ملت میں یہ عبادت فرض کی تاکہ یہ امت مرحومہ اوروں کا حال سن کر بے تکلف اختیار کریں اور گرد ملال و کلفت اُن کے دامن ہمت پر نہ بیٹھے قاعدہ ہے۔
البلاء اذا عم خف
اور مثل مشہور ہے مرگ انبوہ جشنے دارد چناچہ یہ مضمون آیۃ کریمہ سے واقفان علم بدیع پر بخوبی ظاہر ۔
لعلکم تتقون :
تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو کہ اس بات سے مشق ریاضت اور نفس کشی کی حاصل ہوتی اور قوت و شہوت و غضب کہ اصل تمام گناہوں کی ہیں ضعیف ہو جاتی ہیں اس لیے کہ مدار شہوت و غضب کا قوت و مزاج اور متانت روح حیوانی پر ہے اور روح اغذیہ واشربہ سے متولد ہے پس ثقلیل طعام و شراب سے روح نرم اور رقیق ہو جاتی ہے اور بالاضطرار شہوت و غضب میں کمی آجاتی ہے۔
حدیث مشہور میں وارد جو جوان شہوت کو نہ روک سکے نہ نکاح کی استطاعت رکھے اُسے چاہیے کہ روزہ اختیار کرے کہ وہ اس کے لیے حکم خصی ہونے کا رکھتا ہے صوفیاء کرام فرماتے ہیں طالب خدا کو تین باتیں لازم نومہ غلبہ و کلام ضرورة و اکلہ فاقتہ بعضے دو دو تین تین دن اور بعض ایک ہفتہ کے بعد کھاتےہیں اور جب اشتیاق کا غلبہ ہوتا ہے چالیس دن نہیں کھاتے اس وقت پروردگار تقدّس و تعالیٰ ان کے باطن میں کلام فرماتا ہے جو انبیاء کے حق میں با اظہار واقع ہے اولیاء کے لیے با اسرار جائز ہے صاحب شریعت اہدیہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ فرماتے ہیں اپنے پیٹ بھوکے اور جگر پیاسے اور بدن ننگے رکھو کہ پروردگار تعالیٰ کو ظاہر و عیاں دیکھو جس نے دیکھا مطلب کو پہنچا اور جو کامیاب ہوا مقام فناوبقا سے برتر ہوا عبارت اس سے جہالت اور اشارت ضلالت ہے۔
قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل كان زهوقا
سید عالم ﷺ فرماتے ہیں شیطان خون کی مانند آدمی کے بدن میں رواں ہے راستہ اس پر تنگ کرو بھوک اور پیاس سے عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ہمیشہ جنّت کا دروازہ کوٹاکر، عرض کیا کاہے سے، فرمایا بھوک سے۔ اے عزیز تیرے کھانے سے خزانہ رزق مطلق کا کم نہ ہو جاوے گا لیکن پیٹ بھر کھانہ تجھے رب سے محجوب اور نفس کا پابند کر دےگا بھوکے رہنے سے صفائی قلب و رقت دل و لذت طاعت اور انکسار اور جوع دوزخ کی یاد اور کسر شہوت فرج اور قلت نوم حاصل ہوتی ہے اور اطاعت پر مواظبت ہاتھ آتی ہے اور تحصیل رزق اور کھانے پکانے کی دقّتوں سے فراغت اور خفت مونت و مشقت اور قلیل پر کفایت اور صدقہ دینے کی ہمت میسر ہوتی اور ہزاروں بیماریوں سے نجات رہتی ہے اور زیادہ کھانے سے سختی دل اور غفلت اور غلبہ شہوت اور سستی و کاہلی اور نیند اور تحصیل و ترتیب طعام کی مشقت اور اس کے مصائب میں ابتلا اور ذلت و خست پیدا ہوتی ہے ہر چند یہ عبادت کہ باعث کسر شہوت اور موجب روشنی قریحت ہے انسان کے حق میں ہر عبادت سے زیادہ مفید ہے اس واسطے کہ کسر نفس و شہوت سے مقصود اصلی تک پہونچ جاتا ہے اور کدورات سبعی و ظلمات بہیمی صفائی کلی حاصل ہو کر مقام کشف و وصول پر فائز ہوتا ہے اور حق تقویٰ کا کہ بہترین خصائل ہے اس کو حاصل ہوتا ہے مگر اکثر خلق پر کہ ہمت ان کی اس طلب سے قاصر ہے یہ عبادت مشقت کمال شاق گزرتی ہے اس واسطے اُن کی تشفی و تسلّی کے لیے ارشاد ہوتا ہے۔
ایاما معدودات
گنتی کے دن ہے کہ نہ بہت کم ہے جو کسر شہوت و غضب میں تاثیر معتدبہ نہ کریں اور نہ بہت زیادہ کہ اعتدال مزاج و قوت و طاعت میں خلل ڈالیں پس گھبرانا نہ چاہیے اور کمر ہمت مضبوط باندھئے کہ بہت جلد تمام ہو جویں گے اور یہ کلمہ کمال عنایت پروردگار پر دلالت کرتا ہے کہ اس ارحم الراحمین کو انتہا سے زیادہ دل جوئی امت کی منظور ہے جس طرح پدر شفیق اپنے فرزند عزیز کو مکتب میں بٹھاتا ہے اور تسکین و تسلّی دیتا ہے کہ اب تھوڑی دیر میں چھٹی مل جائےگی ۔ وہی قاعدہ و شفقت کا یہاں بھی مرعی ہے لیکن اس شفقت و عنایت کے ضمن میں تازیانہ خوف کا مارا گیا ہے کہ جب بادشاہ اپنے تابعین و رعایا کو کسی امر کا حکم دیتا ہے اور اس میں ہر طرح کی نرمی و آسانی کا لحاظ کر لیتا ہے تو کسی شخص کو گنجائش عذر باقی نہیں رہتی اور جو کوئی اس حکم میں سستی کرتا ہے موردعتاب ہوتا ہے سو اسی طرح بادشاہ علی الاطلاق نے اپنے بندوں کی ضعف ونا توانی پر نظر فرما کے مدت اس اس عبادت کی کمال توسط کے ساتھ اختیار کی اگر مانند نماز کے یہ عبادت تمام سال رہتی بندے تاب نہ لاتے با وجود اس عنایت کے اگر کوئی شامت نفس سے اس عبادت میں قصور کرے کمال عتاب و عذاب کا مستحق ہو جاوے کہ راہِ عذر کی اوّل ہی مسدود کر دی گئی اور کوئی دقیقہ نرمی و آسانی کا فر و گذاشت نہ ہوا مگر ایک امر باقی ہے کہ واسطے اس عبادت کے ایک مہینہ مقرر ہوا اور ضرور ہے کہ بعض مکلف ان دنوں بیمار ہو اور بعض سفر میں ان پر تعمیل اس حکم کی کمال دشوار ہے سو واسطے دفع اس عذر کے ارشاد ہوتا ہے :
جو شخص تم میں بیمار یا مسافر ہو وہ اور دنوں میں روزہ رکھ لے ۔ یہ آیت پروردگار کی کمال رحمت پر دلالت کرتی ہے کہ جب جناب غفور رحیم جل جلا لہ کو منظور نہ ہوا کہ بندگانِ گنہگار دو تکلیفوں میں گرفتار ہوں اور محنت سفر و مرض کے ساتھ مشقت روزہ کی جمع کریں تو اس کے رحم و کرم سے امید واثق ہے کہ روزہ داروں کو تکلیف دوزخ سے بھی محفوظ رکھے گا اور حرارت روزہ کے ساتھ گرمی جہنّم کی جمع نہ کرےگا اور جو شخص کہ بسبب ضعف و نا طاقتی کے ان دنوں میں روزہ نہیں رکھ سکتا اور اس سبب سے بڑھاپے سے روز بہ روز طاقت کم ہوتی ہے اور دنوں میں بھی ادا نہیں کرسکتا اگر طاقت رکھتا ہے بعوض ہر روزہ کے دو وقت ایک مسکین کو کھانا کھلادے خواہ دو آثار گندم (بوزن دہلی) ہر روزہ کے بدلے خیرات کرے ۔
اس لیئے اگر چہ خود ترک آب و غذا خدا کے واسطے نہیں کر سکتا مگر ایک مسلمان کو بھوک سے نجات دیتا ہے اور جو کچھ عبادت اس مسلمان سے بسبب کھانے اس غذا کے ہوگی اس میں دخل پیدا کرتا ہے اور اس وجہ سے مقدار خوراک ایک آدمی کی جبکہ اس نے صرف کی تو اس غذا سے دست تصرّف اپنا روکا اور نفس کو اس سے بعض رکھا تو گویا ایک مشابہت معنوی روزہ دار سے پیدا کی اور اگر اپنی رغبت و طبیعت سے ایک خوراک زیادہ دے تو اور بہتر ہے۔
فمن تطوع خیرا فہو خیرلہو
اور صدقہ دینے سے روزے رکھنا افضل و بہتر ہے یعنی معذور اگر روزہ رکھ لے تو اس صدقہ سے اس کے حق میں اولیٰ ہے ۔
و ان تصوموا خیر لکم ان کنتم تعلمون
روزہ رکھنا تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو اور اس کی بزرگی و فضیلت پر نظر کرو روزہ دل کی صفا اور جان کی ولا ہے پس کیا غم ہے اگر تن خاکی کے حق میں بلا ہے۔ بیہقی روایت کرتے ہیں پیغمبر خدا ﷺ فرماتے ہیں روزہ اور قرآن بندوں کی شفاعت کرینگے روزہ کہے گا الہی میں نے اسے کھانے پینے اور شہوتوں سے دن میں روکا مجھے اس کا شفیع کر اور قرآن کہے گا میں نے اسے رات کو سونے سے باز رکھا مجھے اس کا شفیع کر پاس حق جل مجدہ اُن کی شفاعت قبول فرما دیگا جامع ترمذی میں ہے فرماتے ہیں جو ایک دن خدا کی راہ میں روزہ رکھتا ہے خدائے تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے بیچ میں ایک ایسا خندق کر دیتا ہے جس قدر دور وہ زاغ جائے کہ بچپن سے اُڑا اور اُڑتے اُڑتے بڑھا ہو گیا اور مر کر گر پڑا اور روایت صحیحین میں ہے ستر برس کی راہ دوزخ سے دور کر دے اور فرماتے ہیں:
للصانم فرحتان فرو حةعندفطره عنده لقاءربه۔
اس واسطے کہ جب تخلق با خلاق اللہ یعنی یطعم ولا یطعم سے مرتبہ انسانیت ترک کر کے بحکم الٰہی ربك المنتهى طلب عالم تقدّس میں صبح سے شام تک بادیہ پیما رہتا ہے شام کو مرکب اس کا بحکم صفت بشر یہ چلنے سے عاری ہوکر محتاج آب و دانہ کا ہوتا ہے اس وقت جب کھلانے پلانے سے اس کی خبر لیتا ہے اور قوت راہ مقصود کی اس میں پاتا ہے ایک عجیب فرحت خوشی حاصل ہوتی ہے اور جب فرحت افطار کہ وسائل سلوک سے درجہ ہے بیان فرحت لقا کا اصلی ہے کون کر سکتا ہے جس نے دیکھا وہی لطف مزااس کا جانتا ہے اسی لیے کہتے ہے ہر عبادت کہ ثواب معین و مقدر ہے مگر بدلہ روزے کا عبادت واشارت سے ورا ہے۔ صحاح میں مروی ہے آدمی کا ہر عمل مضاعف ہوتا ہے یعنی ایک نیکی کو دس لکھتے ہے اور اس کا ثواب لکھتے ہیں یہاں تک بعض نیکیاں سات سو تک مضاعف ہوتی ہے مگر روزہ اس حکم سے مستثنی ہے۔ حق جل جلا لہ فرماتا ہے
الصوم لى ونا اجزى به
وہ خاص میرے واسطے ہے کہ بخلاف اور عبادات کے ریا کو اس میں دخل نہیں اور میں خود اس کی جزا دیتا ہوں ۔ بیہقی کہتے ہیں کسی نے سفیان بن عیینہ سے معنی اس حدیث کے پوچھے فرمایا حدیث صحیح و محکم تر ہے اور معنی اس کے یہ ہیں کہ جب قیامت کو آدمی سے خصم اس کے نزع کرینگے تمام اعمال نیک اپنے حقوق کے بدلے لے جاینگے جب نوبت روزے کی آئے گی حق تعالیٰ فرمائے گا اسے چھوڑ دو یہ خاص میرے واسطے ہے اور جو مطالبہ ذمّہ بندہ کے باقی ہوگا اپنے رحم و کرم سے خود کفایت فرمائے گا اہل حقوق کو راضی کرکے بندہ کو ان کے مطالبہ سے پاک کر دے گا اس وقت روزہ بندے کے ساتھ ہوگا اور بہشت میں لے جائے گا اور بیہقی کہتے ہیں مراد کثرت ثواب ہے جس کا ثواب خدا کی طرف مضاف ہوا اور ثواب دینے والا پروردگار ہے قدر اس کی کسے معلوم ہو اور کون اندازہ کر سکتا ہے۔ روزہ صبر ہے اسی لیے رمضان کو شہر الصبر فرمایا اور صبر کا ثواب بے انتہا ہے۔
وانمایوفی الصابرون اجرهم بغیر حساب
اور بعض کہتے ہیں اضافت ثواب اور روزے کی اپنی طرف واسطے تشریف و تکریم کے ہے مثل بیتی اور ارض اللّٰہ نا قتہ اللہ اور امثال ذلک کے یہ مطلب ریا کو کہ شرک اصغر ہے اس میں دخل نہیں اور سوا پروردگار جل جلا لہ کے کسی کے واسطے واقع نہ ہوئی کہ سجدہ و طواف و قربانی وغیرہا عبادات کفاراپنے بتوں کے واسطے بھی کرتے ہیں یا یہ مراد ہے کہ حقیقت روزہ میں کہ ترک اکل و شرب و جماع ہے نفس کو مطلقاً حظ نہیں بلکہ حقیقت اس کی حبس نفس ہے۔ بعض محققین فرماتے ہیں استغنا طعام و شراب سے ربوبیت ہے یعنی تمام اعمال بندوں کے مناسب اُن کے حال کے ہے بخلاف روزہ کے ہماری صفات سے مناسبت رکھتا ہے اور بعض روایات میں بصیغۂ مجھول وارد یعنی روزہ خاص میرے واسطے ہے مثل اور عبادات کے غرض اس سے ثواب بہشت و حور و قصور و نعیم جنّت نہیں بلکہ انا اجزی به میں خود روزہ کا بدلہ ہوں اور ثواب اس کا لقاء دیدار میرا ہے۔ اے عزیز دیکھ کیا مقام ہے اگر بندہ کو کہیں تو سگ درگاہ ہے شادی سے تمام عالم میں نہ سماۓاور فخر سے زمین و آسمان پر ناز کرے چہ جائیکہ فرماتے ہیں فعل تیرا میرا ہےاور بدلہ اس کا میری رویت و لقا ہے یہ وہی مقام ہے جو مقبولان حضرات و مقتولان تیغ محبت کے حق میں وارد ہے :
من قتله محبتى فدیة رويتى
دیت وارثان مقتول کو پہنچتی ہے اور یہ دیت خود اس کو ملتی ہے کہ وارث اپنے نفس مقتول کا وہی ہے شیخین روایت کرتے ہیں حضور سرور عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں بوئے دہن روزہ دار کی پروردگار کو مشک سے زیادہ پسند ہے اور روزہ آتش دوزخ سے سپر ہے۔ صحاح میں ہے بہشت کے آٹھ دروازے ہیں اُن میں ایک ریان ہے کہ سوا روزہ داروں کے کوئی اس میں نہ جا سکے گا اور جو اس دروازے میں داخل ہوگا کبھی پیاس اس کو نہ لگے گی۔ صحیح ابن خزیمہ میں وارد اُسے ایک شربت پلائیں گے کہ کبھی اسے تشنگی نہ ستائیگی صحاح ستہ میں مروی ہے جو شخص رمضان بھر بحکم ایمان و طلب ثواب روزے رکھے سب اگلے گناہ اس کے بخشے اور بعض سنن میں ہے سب گناہ اس کے معاف ہو۔نسائی وغیرہ راوی کہ روزہ دار کا چپ بیٹھنا بھی اوروں کی تسبیح کے حکم میں ہے فرمایا کہ روزہ دار کو پانچ بزرگیاں حاصل ہے افطار کے وقت ایک دعا خواہ مخواہ اس کی قبول ہوتی ہے۔ بیٹھنا اس کا اوروں کی تسبیح کے برابر ہے کہ اس کی سب ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں اور تمام عمل خیر کی ثواب و جزا معین ہے بخلاف روزہ کے ثواب اس کا بے انتہا ہے اور گناہ اس کے معاف نسائی و بیہقی و حاکم سیّدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ایسا عمل بتائیے کہ فائدہ اس کا بہت بڑا ہو فرمایا روزہ اختیار کر کہ اس کے مانند کوئی عمل نہیں۔
(جواہر البیان فی اسرار الارکان، صفحہ ٨٦)
No comments:
Post a Comment