async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: Mahnama Hashmat Ziya in urdu (29)

Sunday, September 19, 2021

Mahnama Hashmat Ziya in urdu (29)

 خود پسندی کی مذمت اور آفات

از-حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رضی ﷲ عنہ


ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا 

 اور وہ سمجھتے تھے کہ اُن کے قلعے انہیں اللّٰہ تعالیٰ سے بچا لیں گے تو اللہ تعالی کا حکم ان کے پاس (وہاں سے) آیا جہاں سے اُن کا گمان بھی نہ تھا

اللہ تعالیٰ نے کفار کے اپنے قلعوں اور شوکت پر اترانے کا رد فرمایا

اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرمایا

وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا 

اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچّھا کام کر رہے ہیں

یہ بات بھی عمل پر اترانے کی طرف راجع ہے آدمی بعض اوقات اپنے غلط عمل پر اتراتا ہے جیسا کہ وہ اپنے اچھے عمل پر اتراتا ہے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ثلاث مھلکات شح مطاع وھوی متبع واعجاب المرء بنفسہ تین باتیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں لالچ جس کی اطاعت کی جائے خواہش جس کی پیروی کی جائے اور آدمی کا اپنے نفس پر اترانا۔ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اس اُمت کے آخرت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت  ثعلبہ رضی المولیٰ عنہ سے فرمایا: اذا رایت شحا مطاعا وھوی متبعا واعجاب کل ذی رای برایہ فعلیک نفسک جب تم دیکھو کہ لالچ کی اطاعت اور  خواہش کی پیروی کی جاتی ہے نیز ہر رائے دینے والا اپنی ہی رائے کو پسند کرتا ہے تو (اس وقت)اپنی فکر کرو۔


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں دو باتوں میں ہلاکت ہے ایک نا اُمیدی اور دوسری خودپسندی۔ آپ نے ان دو باتوں کو جمع فرمایا کیونکہ سعادت کا حصول ،کوشش طلب، محنت اور ارادے کے بغیر ناممکن ہے۔ نا اُمید آدمی کوشش نہیں کرتا اور نہ ہی طلب کرتا ہے جب کہ خود پسند شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ خوش بخت ہے اور اپنی مراد کے حصول میں کامیاب ہو چکا ہے اس لیے وہ کوشش نہیں کرتا اور جو کچھ موجود یا محال ہو اس کی طلب نہیں۔ خودپسندی میں مبتلا آدمی کے اعتقاد کے مطابق اسے سعادت حاصل ہوتی ہے اور مایوس و نا اُمید شخص کے نزدیک سعادت کا حصول محال ہوتا ہے اس لیے انہوں نے دونوں باتوں کو اکٹھا کیا۔

ارشاد خداوندی ہے، فلا تزکوا انفسکم  یعنی اپنی پاکیزگی بیان نہ کرو۔ حضرت ابن جریج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ جب تم اچھے عمل کرو یہ نہ کہو کہ میں نے عمل کیا۔ حضرت زید بن اسلم رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں اپنے نفس کو نیکوکار قرار نہ دو یعنی یہ عقیدہ نہ رکھو کہ وہ نیکوکار ہے کیونکہ یہ خودپسندی ہے۔


حضرت مطرف رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر میں رات سو کر اور صبح مزامت کے ساتھ گزاروں تو یہ بات مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ رات عبادت میں کھڑے ہو کر صبح خودپسندی میں گزاروں۔نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا :لو لم تذنبوا لخشیت علیکم ما ھوا اکبر من ذلک العجب العجب اگر تم سے گناہ سرزد نہ ہو تو مجھے تم پر اس سے بھی بڑے جرم کا خطرہ ہے اور وہ خودپسندی ہے(دو بار فرمایا)

حضرت بشر بن منصور رحمہ اللہ اُن لوگوں میں سے تھے جن کو دیکھ کر اللّٰہ تعالٰی اور آخرت کا گھر یاد آتا تھا کیونکہ وہ عبادت کی پابندی کرتے تھے چنانچہ آپ نے ایک دن طویل نماز پڑھی ایک شخص پیچھے کھڑا دیکھ رہا تھا حضرت بشر کو معلوم ہو گیا آپ نے نماز سے سلام پھیرا تو فرمایا جو کچھ تم نے مجھ سے دیکھا ہے اس سے تمہیں تعجب نہیں ہونا چاہئے کیونکہ شیطان لعنتی نے فرشتوں کے ہمراہ ایک طویل عرصے تک اللّٰہ تعالٰی کی عبادت کی پھر اس کا جو انجام ہوا وہ واضح ہے۔ اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے پوچھا گیا آدمی گناہگار کب ہوتا ہے؟آپ نے فرمایا جب اُسے یہ گمان ہو کہ وہ نیکوکار ہے۔


جان لو ! خودپسندی کی آفات بہت زیادہ ہے کیونکہ خود پسندی تکبر کی دعوت دیتی ہے کیونکہ یہ تکبر کے اسباب میں سے ایک سبب ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے پس خودپسندی سے تکبر پیدا ہوتا ہے اور تکبر سے بےشمار آفات جنم لیتی ہیں جیسا کہ یہ بات مخفی نہیں ہے۔ یہ تو بندوں کے ساتھ معاملہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس طرح ہے کہ خودپسندی گناہوں کو بھول جانے اور نظر انداز کرنے کی دعوت دیتی ہے چنانچہ وہ بعض گناہوں کو بالکل ہی بھول جاتا ہے کیونکہ وہ اُن کی تلاش سے بے نیاز ہو جاتا ہے لہٰذا وہ بھلا دیئےآ جاتے ہیں اور جن گناہوں کو یاد رکھتا ہے اُن کو بھی  معمولی جانتا ہے اور ان کو کوئی اہمیت نہ دینے کی وجہ سے اُن کے تدارک کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اسے یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بخش دیئے جائیں گے۔ لیکن عبادات اور اعمال صالحہ کو بہت بڑا سمجھتا ہے ان پر خوش ہوتا اور ان کی بجا آوری کو اللہ تعالٰی پر احسان جانتا ہے اور توفیق عمل کی صورت میں ملنے والی نعمت خداوندی کو بھول جاتا ہے پھر جب خود پسندی کا شکار ہوتا ہے تو اس کی آفات سے اندھا ہو جاتا ہے اور جو آدمی اعمال کی آفات سے غافل ہوتا ہے اس کی زیادہ محنت ضائع ہو جاتی ہے کیونکہ ظاہری اعمال جب تک خالص اور آمیزش سے پاک نہ ہو نفع بخش نہیں ہوتے اور آفات کی جستجو وہ آدمی کرتا ہے جس پر خودپسندی کی بجائے خوف غالب ہوتا ہے اور خود پسند آدمی اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر مغرور ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر اور اس کے عذاب سے بے خوف ہوتا ہے اور اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اسے اللّٰہ تعالٰی کے ہاں ایک مقام حاصل ہے نیز وہ اپنے اعمال کے ذریعے اللہ تعالٰی پر احسان جتاتا ہے حالانکہ یہ توفیق اعمال اللّٰہ تعالٰی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور اس کہ عطیات میں سے ایک عطیہ ہے لیکن خودپسندی کی وجہ سے وہ اپنی ذات کی تعریف کرتا اور اس کی پاکیزگی ظاہر کرتا ہے اور جب وہ اپنی رائے، عمل اور عقل پر اتراتا ہے تو فائدہ حاصل کرنے مشورہ لینے اور پوچھنے سے باز رہتا ہے اور یوں اپنے آپ پر اور اپنی رائے پر بھروسہ کرتا ہے  وہ کسی بڑے عالم سے پوچھنا اچّھا نہیں سمجھتا اور بعض اوقات اپنی غلط رائے پر اتراتا ہے جو اس کے دل میں گزرتی ہے اور اس بات پر خوش ہوتا ہے کہ اس کے دل میں یہ خیال آیا اور دوسرے کی آراء کو پسند نہیں کرتا اسی لیے اپنی رائے پر اصرار کرتا ہے کسی نصیحت کرنے والے کی نصیحت نہیں سنتا اور نہ ہی کسی واعظ کا وعظ سنتا ہے بلکہ دوسروں کو یوں دیکھتا ہے کہ گویا وہ جاھل ہے اور اپنی خطا پر ڈٹ جاتا ہے اگر اس کی رائے کسی دنیوی معاملے میں ہو اسے اس پر یقین ہوتا ہے اور اگر اخروی معاملے بالخصوص عقائد سے متعلق ہو تو اس کے باعث تباہ ہو جاتا ہے اور اگر وہ اپنے نفس پر تہمت لگاتا ، اپنی رائے پر اعتماد نہ کرتا ، نور قرآن سے روشنی حاصل کرتا، علماء دین سے مدد لیتا، علم کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف رہتا اور اہل بصیرت سے مسلسل پوچھتا رہتا تو یہ بات اسے حق تک پہنچاتی۔

تو یہ بات اور اس طرح کے دیگر امور خود پسندی کی آفات میں سے ہیں اسی لیے خودپسندی ہلاک کرنے والے امور میں سے ہے اور سب سے بڑی آفت یہ ہے کہ وہ کوشش میں کوتاہی کرتا ہے کیونکہ اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ کامیاب ہو چکا ہے اور اب اسے عمل کی ضرورت نہیں حلانکہ یہ واضح ہلاکت ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ہے ہم اللہ تعالٰی سے اس کی اطاعت کے لیے حسن توفیق کا سوال کرتے ہے


(احیاء العلوم جلد ۳، صفحہ ۸۳۰)

No comments:

Post a Comment