توبۂ صحیحہ شرعیہ
از:- مجدد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ
سرکار اعلی حضرت قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں
سچی توبہ اللہ عزوجل نے وہ نفیس شیئ بنائی ہے کہ ہر گناہ کے ازالہ کو کافی ووافی ہے۔ کوئی گناہ ایسانہیں کہ سچی توبہ کے بعد باقی رہے یہاں تک کہ شرک وکفر، سچی توبہ کے یہ معنی ہیں کہ گناہ پر اس لئے کہ وہ اس کے رب عزوجل کی نافرمانی تھی نادم وپشیمان ہو کر فورا چھوڑدے اور آئندہ کبھی اس گناہ کے پاس نہ جانے کا سچے دل سے پورا عزم کرے جو چارہ کار اس کی تلافی کا اپنے ہاتھ میں ہو بجالائے۔الخ
(فتاوی رضویہ شریف ،جلد ٢١ ، صفحہ١٢١ )
اک اور جگہ فرماتے ہیں؛
اور جہاں والی شرع نہ ہو جیسے ہمارے بلاد، وہاں یہ لوگ تعزیر سے محفوظی پر خوش نہ ہوں کہ یہ خوشی اُن کے گناہ کو ہزار چند کردے گی،بلکہ اس سے ڈریں جس کی حکومت ہرجگہ ہے اور ہر وقت ہر بات پر قادر ہے اور اسی کی طرف پھرکر جانا ہے۔فوراً صدقِ دل سے تائب ہوں، اورجیسے یہ معصیّت اعلانیہ کی توبہ بھی بالاعلان کریں۔
قال رسول ﷲصلی ﷲتعالٰی علیہ وسلم اذا عملت سیئۃ فاحدث عند ھاتوبۃ السربالسر والعلانیۃ با لعلانیۃ خرجہ الامام احمد فی الزھد والطبرانی فی المعجم الکبیر عن معاذبن جبل رضی اﷲتعالیٰ عنہ باسنادحسن۔
رسول ﷲصلّی ﷲتعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کوئی بُرائی کرو تو اس پر توبہ کرو، اگر گناہ خفیہ ہے تو توبہ بھی خفیہ طور پر کی جائے اور اگر گناہ اعلانیہ ہے توتوبہ بھی اعلانیہ کی جائے۔ اسے امام احمد نے زہد میں اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں حضرت معاذ بن جبل رضی ﷲتعالیٰ عنہ سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
(فتاوی رضویہ شریف ،جلد ١٠ ، صفحہ٣٥٥ )
اعلانیہ توبہ کی حکمتیں بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں،
تحقیق حق یہ ہے کہ وہ گناہ جو خلق پربھی ظاہر ہو جس طرح خود اس کے لئے وہ تعلق ہیں ایک بندے اور خدامیں کہ اللہ عزوجل کی نافرمانی کی اس کا ثمرہ حق جل وعلا کی معاذاللہ ناراضی اس کے عذاب منقطع یا ابدی کا استحقاق دوسرا بندے اور خلق میں کہ مسلمانوں کے نزدیک وہ آثم وظالم یا گمراہ کافربحسب حیثیت گناہ ٹھہرے اور اس کے لائق سلام وکلام وتعظیم وکرام واقتدائے نماز وغیرہاامور ومعاملات میں اس کے ساتھ انھیں برتاکرنا ہو۔ یوہیں اس سے توبہ کے لئے بھی دو رخ ہیں، ایک جانب خدا، اس کا رکن اعظم بصدق دل اس گناہ سے ندامت ہے فی الحال اس کا ترک اور اس کے آثار کامٹانا اورآئندہ کبھی نہ کرنے کا یہ صحیح عزم، یہ سب باتیں سچی پشیمانی کو لازم ہیں۔ ولہذا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
الندم توبۃ
ندامت توبہ ہےیعنی وہی سچی صادقہ ندامت کہ بقیہ ارکان توبہ کو مستلزم ہے اسی کا نام تو بۃ السر ہے۔ دوسرا جانب خلق کہ جس طرح ان پر گناہ ظاہر ہوا اور ان کے قلوب میں اس کی طرف سے کشیدگی پیدا ہوئی اور معاملات میں اس کے ساتھ اس کے گناہ کے لائق انھیں احکام دئے گئے اسی طرح ان پر اس کی توبہ ورجوع ظاہر ہو کہ ان کے دل اس سے صاف ہوں اور احکام حالت برأت کی طرف مراجعت کریں یہ توبہ علانیہ ہے توبہ سر سے تو کوئی گناہ خالی نہیں ہوسکتا اور گناہ علانیہ کے لئے شرع نے توبہ علانیہ کاحکم دیا ہے امام احمد کتاب الزہد میں بسند حسن اور طبرانی معجم الکبیراور بیہقی شعب الایمان میں بسند جید سیدنا معاذ بن جبل سے اور دیلمی مسند الفردوس میں انس بن مالک سے موصولا اور امام احمد زہد میں عطار بن یسار سے مرسلا بالفاظ عدیدہ مطولہ ومختصرہ راوی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
علیک بتقوی ﷲ عزوجل مااستطعت و اذکر ﷲ عزوجل عند کل حجر وشجر واذا علمت سیئۃ فاحدث عندھا تو بۃ السر بالسر والعلانیۃ بالعلانیۃ ۔ ھذا لفظ احمد عن معاذ وفی مرسلہ من قولہ اذا عملت سیئۃ الحدیث۔ ولفظ الدیلمی اذا احد ثت ذنبا فاحدث عند توبۃ ان سرا فسر وان علانیۃ فعلانیۃ ۔
اللہ عزوجل سے تقوی لازم رکھ اور ہر پتھر اور پیڑ کے پاس اللہ کی یاد کر، اور جب کوئی گناہ کرے اس وقت توبہ لا۔ خفیہ کی خفیہ اور آشکارا کی آشکارا۔ (یہ حضرت معاذ کے حوالے سے مسند احمد کے الفاظ ہیں اور مسند احمد کی مرسل حدیث میںان کے
قول اذا عملت
(الحدیث) تک الفاظ میں اور محدث دیلمی کے الفاظ ہیں) جب تجھ سے نیا گناہ ہو تو فورا نئی توبہ کر۔ نہاں کی نہاں، اور عیاں کی عیاں۔
اقول: وباﷲ التوفیق (اللہ تعالٰی کی عطا کردہ توفیق ہی سے میں کہتاہوں۔) اس حکم میں بکثرت حکمتیں ہیں:
اول اصلاح ذات بین کا حکم ہے یعنی آپس میں صفائی اور صلح رکھو، یہ گناہ علانیہ میں توبہ علانیہ ہی پر موقوف کہ جب مسلمان اس کے گناہ سے آگاہ ہوئے اگر توبہ سے واقف نہ ہوں تو ان کے قلوب اس سے ویسے ہی رہیں گے جیسے قبل توبہ تھے۔
دوم جب وہ اسے برا سمجھے ہوئے ہیں تو اس کے ساتھ وہی معاملات بعد وتنفر رکھیں گے جو بدون کے ساتھ درکار ہیں علی الخصوص بد مذہب لوگ جیسا زید کا حال ہے یہ بہت برکات سے محرومی کا باعث ہوگا۔
سوم جب یہ واقع میں تائب ہولے اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔
گناہ سے توبہ کرنے والا ایساہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔
تو اب مسلمانوں کے وہ معاملات نظر بواقع بیجا ہوں گے اور انھیں اس بیجا پر خود یہ شخص حامل ہوا کہ اگر اپنی توبہ کا اعلان کردیتاہے تو کیوں وہ معاملات رہتے تو لازم ہوا کہ انھیں مطلع کردے جیسے کسی کے کپڑے میں نجاست ہو اور وہ مطلع نہیں تو جاننے والے پر اسے خبر دینی ضروری ہے۔
چہارم ایسے گناہوں میں جو بددینی ہے جیسے صورت مسئولہ میں زید کے وہ کلمات خبیثہ ان میں ایک اور سخت آفت کا اندیشہ ہے کہ اگر یہ مرگیا اور مسلمانوں پر اس کی توبہ ظاہر نہیں اور بد مذہب کی مذمت اس کے مرنے پر بھی جائز بلکہ کبھی شرعا واجب ہے تو اہل سنت اسے برا اور بددین اور گمراہ کہیں گے اور ان کے سید ومولٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے انھیں زمین میں اللہ عزوجل گواہ بتادیا ہے آسمان میں اس کے گواہ ملائکہ ہیں اور زمین میں اہلسنت تو ان کی گواہی سے اس پر سخت ضرر کا خوف ہے اور وہ خود اس میں تقصیر وار ہے کہ اعلان توبہ سے ان کا قلب صاف نہ کردیا، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف فرما تھے ایک جنازہ گزرا حاضرین نے اس کی تعریف کی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم نے فرمایا:
__وجبت__
واجب ہوگئی، ایک دوسرا جنازہ گزرا اس کی مذمت کی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: __وجبت__ واجب ہوگئی، امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کی : یا رسول اللہ کیا واجب ہوگئی۔ فرمایا:
ھذا اثنیتم علیہ خیرا فوجبت لہ الجنۃ و ھذا اثنیتم علیہ شرا فوجبت لہ النار انتم شہداء ﷲ فی الارض ۔رواہ احمد والشیخان عن انس رضی ﷲ تعالٰی عنہ۔
پہلے کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی، دوسرے کی مذمت کی اس کے لئے دوزخ واجب ہوگئی، تم اللہ تعالٰی کے گواہ ہو زمین میں، (امام احمد،بخاری اورمسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالہ سے اسے روایت کیا۔
اور یہ نہ بھی ہو تو اتنا ضرور ہے کہ علماء وصلحاء اہلسنت اس کی تجہیز میں شرکت اور اس کے جنازہ پر نماز سے احتراز کریں گے شفاعت اخیار سے محروم رہے گا، یہ شناعت کیا کم ہے، والعیاذ باﷲ تعالٰی (اللہ کی پناہ۔ )
پنجم اصل یہ کہ گناہ علانیہ دوہرا گناہ ہے کہ اعلان گناہ دوہرا گناہ بلکہ اس گناہ سے بھی بدتر گناہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
کل امتی معافی الاالمجاہرین، رواہ الشیخان عن ابی ھریرۃ والطبرانی فی الاوسط عن ابی قتادۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔
میری سب امت عافیت میں ہے سوائے ان کے جو گناہ آشکاراکرتے ہیں (بخاری ومسلم نے حضرت بوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے اور امام طبرانی نے الاوسط میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالہے سے اسے روایت کیا ہے
نیز حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :
لایزال العذاب مکشوفا عن العباد لما استتروا بمعاصی ﷲ فاذا اعلنوھا استر جبوا عذاب النار، رواہ فی مسند الفردوس عن المغیرۃ بن شعبۃ رضی ﷲ تعالٰی عنہ۔
ہمیشہ اللہ کا عذاب بندوں سے دور رہے گا جبکہ وہ اللہ تعالٰی کی نافرمانیوں کو ڈھانپیں اور چھپائیں گے پھر جب علانیہ گناہ اور نافرمانیاں کریں گے تو وہ عذاب کے مستحق اور سزا وار ہوجائیں گے محدث دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے روایت کیا۔
اعلان پر باعث نفس کہ جرأت وجسارت وسرکشی وبے حیائی اور مرض کا علاج ضد سے ہوتاہے جب مسلمانوں کے مجمع میں اپنی ندامت وپشیمانی ظاہر کرے گا اور اپنے قول یا فعل یا عقیدہ کی بدی وشناعت پر اقرار لائے گا تو اس سے جو انکساری پیداہوگا اس سرکشی کی دواہو گا، فکر حاضر میں اس وقت اتنی حکمتیں خیال میں آئیں اور شریعت مطہرہ کی حکمتوں کو کون حصر کرسکتاہے ان میں اکثر وجوہ یہ ہوتاہے کہ جن جن لوگوں کے سامنے گناہ کیا ہے ان سب کے مواجدہ میں توبہ کرے مگر یہ کثرت مجمع کی حالت میں مطلقا اور بعض صورتیں ویسے بھی حرج سے خالی نہیں اور حرج مدفوع بالنص ہے تاہم اس قدر ضرور چاہئے کہ مجمع توبہ مجمع گناہ کے مشابہ ہو سب میں ادنٰی درجہ کا اعلان اگر چہ دو کے سامنے بھی حاصل ہوسکتاہے۔
کما اجاب علماؤنا تمسک الامام مالک فی اشتراط الاعلان بحدیث اعلنوا النکاح ان من اشہد فقد اعلن کما فی مختصر الکرخی ومبسوط الامام محرر المذھب وغیرھما۔
جیساکہ ہمارے علماء کرام نے حضرت امام مالک کو ان کے استدلال سے جواب دیا کیونکہ امام مالک نے حدیث
اعلنوا النکاح
(لوگو! نکاح کا اعلان کیا کرو) سے نکاح کے لئے اسے شرط قرار دیا ہے ہمارے ائمہ نے فرمایا: جو شخص نکاح پر گواہ بنائیگا تو بلاشبہہ اس نے نکاح کا اعلان کردیا۔(گویا حدیث میں اعلان سے تشہیر مراد ہے۔ مترجم) جیسا کہ مختصر کرخی اور مذہب تحریر کرنے والے امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مبسوط اور ان دو کے علاوہ دوسری کتابوں میں مذکورہے۔
مگر وہ مقاصد شرح یہاں بے مشاکلت ومشابہت حاصل نہ ہوں گے ولہذا علامہ مناوی نے فیض القدیر میں اس حدیث کی شرح میں لکھا :
احدث عندھاتوبۃ تجانسہا مع رعایۃ المقابلۃ وتحقق المشاکلۃ ۱؎ اھ مختصراً۔
گناہ کے ہوتے ہی ایسی نئی توبہ کریں جو اس گناہ کی مجانس (اس کی مثل) ہو باوجود یکہ اس میں رعایت مقابلہ وتحقق مشاکلت ہو( مختصرا عبارت مکمل ہوئی)۔
سو کے سامنے گناہ کیا اور ایک گوشہ میں دو کے آگے اظہار توبہ کردیا تو اس کا اشتہار مثل اشتہار گناہ نہ ہوا اور وہ فوائد کہ مطلوب تھے پورے نہ ہوئے بلکہ حقیقۃ وہ مرض کہ باعث اعلان تھا توبہ میں کمی اعلان پر بھی وہی باعث ہے کہ گناہ تو دل کھول کر مجمع کثیر میں کرلیا اور اپنی خطا پر اقرار کرتے عار آتی ہے چپکے سے دو تین کے سامنے کہہ لیا وہ انکساری کہ مطلوب شرع تھا حاصل ہونا درکنار ہنوز خود داری واستنکاف باقی ہے اورجب واقع ایسا ہو تو حاشا توبہ سر کی بھی خبر نہیں کہ وہ ندامت صادقہ چاہتی ہے اور اس کا خلوص مانع استنکاف، پھر انصاف کیجئے تو اس کا یہ کہنا کہ میں نے توبہ کرلی ہے اور اس مجمع میں توبہ نہ کرنا خود بھی اسی خود داری واستنکاف کی خبر دے رہا ہے ورنہ گزشتہ توبہ کا قصہ پیش کرنا گواہوں کے نام گنانا ان سے تحقیقات پر موقوف رکھنا مگر یہ جھگڑا آسان تھا یا مسلمانوں کے سامنے یہ دو حروف کہہ لینا کہ الہٰی! میں نے اپنے ان ناپاک اقوال سے توبہ کی، پھر یہاں ایک نکتہ اور ہے اس کے ساتھ بندوں کے معاملے تین قسم ہیںِ ایک یہ کہ گناہ کی اس کی سزا دی جائے اس پر یہاں قدرت کہاں ، دوسرے یہ کہ اس کے ارتباط واختلاط سے تحفظ وتحرز کیا جائے کہ بد مذہب کا ضرر سخت معتذر ہوتاہے، تیسرے یہ کہ اس کی تعظیم وتکریم مثل قبول شہادت و اقتدائے نماز وغیرہ سے احتراز کریں، فاسق و بدمذہب کے اظہار توبہ کرنے سے قسم اول تو فورا موقوف ہوجاتی ہے
الا فی بعض صورت مستثنیات مذکورۃ فی الدر وغیرہ
(مگر بعض ان صورتوں میں جو درمختاروغیرہ میں مذکورہیں۔ ) مگر دو قسم باقی ہنوز باقی رہتی ہیں یہاں تک کہ اس کی صلاح حال ظاہر ہو اور مسلمان اس کے صدق توبہ پر اطمنان حاصل ہو اس لیے کہ بہت عیار اپنے بچاؤ اور مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے زبانی توبہ کرلیتے ہیں اور قلب میں وہی فساد بھرا ہواہے۔ عراق میں ایک شخص صبیغ بن عسل تمیمی کے سر میں کچھ خیالات بد مذہبی گھومنے لگے، امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حضور عرضی حاضر کی گئی طلبی کاحکم صادر فرمایا وہ حاضر ہوا امیر المومنین نے کھجور کی شاخیں جمع کررکھیں اور اسے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا فرمایا تو کون ہے؟ کہا میں عبداللہ صبیغ ہوں، فرمایا اور میں عبداللہ عمر ہوں اور ان شاخوں سے مارنا شروع کیا کہ خون بہنے لگا پھر قید خانے بھیج دی ، جب زخم اچھے ہوئے پھر بلایا اور ویسا ہی مارا پھر قید کردیا سہ بارہ پھر ایسا ہی کیا یہاں تک کہ وہ بولا یا امیر المومنین! واللہ اب وہ ہوا میرے سر سے نکل گئی، امیر المومنین نے اسے حاکم یمن حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس بھیج دیا اور حکم فرمایا کہ کوئی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے وہ جدھر گزرتا اگر سو آدمی بیٹھے ہوتے سب متفرق ہوجاتے یہاں تک کہ ابوموسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرضی بھیجی کہ یا امیر المومنین! اب اس کا حال صلاح پر ہے اس وقت مسلمانوں کو ان کے پاس بیٹھنے کی اجازت فرمائی، دارمی سنن اور نصر مقدسی وابوالقاسم اصبہانی دونوں کتاب الحجہ ابن الابناری کتاب المصارف اور لالکائی کتاب السنۃ اور ابن عساکر تاریخ دمشق میں سلیمان بن یسار سے راوی :
رجل من بنی تمیم یقال لہ صبیغ بن عسل قدم المدینۃ وکان عندہ کتب فکان یسأل عن متشابہ القراٰن فبلغ ذٰلک عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ فبعث الیہ وقد اعدلہ عراجین النحل فلما دخل علیہ قال من انت قال انا عبدﷲ صبیغ قال عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہ وانا عبدﷲ عمر واوما الیہ فجعل یضربہ بتلک العراجین فما زال بضربہ حتی فما زال یضربہ حتی شجہ وجعل الدم یسیل علی وجہہ فقال حسبک یا امیر المومنین وﷲ فقد ذھب الذی اجد فی رأسی ۔ ولنصر وابن عساکر عن ابی عثمان النہدی عن صبیغ کتب یعنی امیرالمومنین الی اھل البصرۃ ان لاتجالسوا صبیغا قال ابوعثمٰن فلوجاء ونحن مائۃ لتفرقناعنہ ۔
قبیلہ بنی تمیم کا ایک شخص جس کو __صبیغ بن عسل__ کہا جاتاتھا مدینہ منورہ آیا اس کے پاس کچھ کتابیں تھیں اور قرآن مجید کے متشابہات کے بارے میں پوچھتا تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے ایک آدمی بھیج کر اسے اپنے ہاں بلالیا اور اس کے لئے کھجوروں کی چند بڑی ٹہنیاں تیار رکھیں جب وہ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا، میں عبداللہ صبیغ ہوں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: میں اللہ تعالٰی کا بندہ عمر ہوں، پھر اس کی طرف بڑھے اور ان ٹہنیوں سے اسے مارنے لگے اسے مسلسل مارتے رہے یہاں تک کہ وہ زخمی ہوگیا اور اس کے چہرے پر خون بہنے لگا، اس نے کہا بس بھی کریں کافی ہوگیا ہے امیر المومنین ! خد ا کی قسم میں اپنے دماغ میں جو کچھ پاتا تھا وہ نکل گیا ہے یعنی ختم ہوگیا ہے نصر مقدسی اور ابن عساکر نے ابوعثمان نہدی کے حوالے سے صبیغ سے روایت کی، امیر المومنین نے اہل بصرہ کو لکھا کہ وہ صبیغ کے پاس نہ بیٹھاکریں، چنانچہ ابو عثمان نے بیان کیا (کہ اس حکم کے بعد لوگوں کی یہ حالت ہوگئی کہ) اگر وہ شخص آتا او رہم ایک سو کی تعداد میں موجود ہوتے تو ہم ادھر ادھر بکھر جاتے،
پھر صحت توبہ پر اطمینان کتنی مدت میں حاصل ہوتاہے صحیح یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی مدت متعین نہیں کرسکتے جب اس شخص کی حالت کے لحاظ سے اطمینان ہوجائے کہ اب اس کی اصطلاح ہوگئی اس وقت اس سے دو قسم اخیر کے معاملات بر طرف ہوں گے،
فتاوٰی امام قاضی خاں پھر فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے :
الفاسق اذا تاب لاتقبل شہادتہ مالم یمض علیہ زمان یظہر علیہ اثر التوبۃ والصحیح ان ذٰلک مفوض الی رائی القاضی ۔
بدکردار جب تائب ہوجائے تب بھی اس کی شہادت مقبول نہ ہوگی جب تک کہ کچھ زمانہ بیت جائے تاکہ اس پر توبہ کے آثار ہوجائیں، اور صحیح یہ ہے کہ یہ مسئلہ قاضی کی رائے پر منحصر ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ بات نظر بحالات مختلف ہوجاتی ہے ایک سادہ دل راست گو سے کوئی گناہ ہوا اس نے توبہ کی اس کے صدقہ پر جلد اطمینان ہوجائے گا اور دروغ گو مکار کی توبہ کااعتبار نہ کریں گے اگر چہ ہزار مجمع میں تائب ہو،
امام اجل ملک العلماء ابو بکر مسعودکاشانی قدس سرہ، الربانی بدائع میں فرماتے ہیں : المعروف بالکذب لاعدالۃ لہ ولا تقبل شہادتہ ابدا وان تاب بخلاف من وقع فی الکذب سہوا اوابتلی بہ مرۃ ثم تاب وﷲ تعالٰی اعلم۔
جو کوئی دروغ گوئی یعنی جھوٹ بولنے میں مشہور ہو تو اس کے لئے کوئی عدالت نہیں لہذا کبھی بھی اس کی شہادت مقبول نہیں ہوسکتی اگر چہ تائب ہوجائے بخلاف اس شخص کے جس نے بھول کر جھوٹ کہہ دیا یا کبھی کبھار اس سے غلط بیان ہوگئی پھر اس نے توبہ کرڈالی
(فتاوی رضویہ شریف ،جلد ٢١ ، صفحہ ١٤١ )
کچھ قلمکار اپنی کتابوں میں گمراہ کن باتیں لکھتے چھاپتے بیچتے ہیں ایسی کتابوں کے بارے میں فرماتے ہیں
اور ضرور ہے کہ جس طرح کتاب چھاپ کر اِن کفریات و ضلالات کی اشاعت کی یوں ہی اِن سے بّری اوراپنی توبہ کا اعلان کرے کہ آشکارا گناہ کی توبہ بھی آشکارا ہوتی ہے۔ امام احمد کتاب الزہد، اور طبرانی معجم کبیر میں سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، حضور سیدنا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اذا عملت سیّئۃ فاحدث عندھا توبۃ، السّر بالسّروالعلانیۃ بالعلانیۃ
جب تو کوئی گناہ کرے تو فوراً تو بہ بجالا، پوشیدہ کی پوشیدہ اور ظاہر کی ظاہر۔
ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ اب اس کی اِشاعت سے باز رہے۔ اور جس قدر جلدیں باقی ہوں، جَلادے اور حتی الوسع اُس کے اِخمادِ نا رو اِماتتِ اذکار میں سعی کرے کہ منکر باطلِ اسی کے قابل،
قال ﷲ تعالٰی :
انّ الذین یُحبّون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین اٰمنوالھم عذابالیمالدنیا والاخرۃ وﷲ یعلم وانتم لاتعلمون
بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ بے حیائی پھیلے مسلمانوں میں، اُن کے لیے دکھ کی مار ہے دنیا و آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
سُبحٰن اﷲ !
اشاعتِ فاحشہ پر یہ ہائل وعید____ پھر اشاعتِ کفر کس قدر شدید____
والعیاذ باللہ العلی الحمید
(فتاویٰ رضویہ شریف، جلد ٢٧، صفحہ ١٨٥)
No comments:
Post a Comment