جماعت اسلامی کے تعلق سے سرکار مفتی اعظم کا ایک نایاب فتویٰ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائل ذیل میں کہ
وہابی،دیوبندی،مرکزی جماعت اسلامی کے عقائد کے اشخاص کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟مفصل جواب بموجب شرع عنایت فرمائیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں نماز اللّٰہ کی ہے سب کے پیچھے ہو جاتی ہے۔ایسا کہنا کیا دُرست ہے؟ اگر نہیں تو ان لوگوں کے لیے کیا حکم ہے؟ مذکورہ بالا عقائد کے حافظ کے پیچھے تراویح میں قرآن شریف سننا کیسا؟
عبدالخالق
بریلی شریف
الجواب :-کسی بدمذہب کو امام بنانا حرام ہے۔اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ،کوئی نماز ہو فرض یا نفل جو نماز اس کے پیچھے پڑھی گئی ہے اسے پھر پڑھنا لازم۔بدمذہب تو بدمذہب ہے کسی سنی صحیح العقیدہ فاسق معلن کو امام بنانے،اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا اور جو نماز فاسق معلن کے پیچھے پڑی گئی ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔فاسق کے امام بنانے سے بدمذہب کا امام بنانا اور بھی اشد ہے۔تبیین الحقائق وغیرہ میں تصریح فرمائی "لوقدموا فاسقایاثمون"اگر کسی فاسق کو مقدم کریں گے،آگے بڑھائیں گے گنہگار ہوں گے۔اس کی وجہ یہ بتائی " لان فی تقديمه تعظیمه و قد و جب علیہم اهانته شرعاً۔" کہ اس کی تقدیم میں اس کی تعظیم ہے(یہ حکم شرعی کا الٹ ہے خود سمجھو کہ حکم شرعی کیا ہے)حدیث میں ہے "اذا مدح الفاسق غضب الرب و اهتز لذلك العرش۔"جب فاسق کی مدح کی جاتی ہے تو رب تبارک وتعالی غضب فرماتا ہے اور اس کے سبب عرش الٰہی لرز جاتا ہے۔درمختار میں ہے"کل صلاۃ ادیت مع کراهة التحریم تجب اعاد تھا" جو نماز کراہت تحریم کے ساتھ ادا کی گئی ہو اس کا اعادہ واجب۔بھلا جس کے پاس بیٹھنے کی اجازت نہ ہو کے اس کی صحبت بد برا اثر کرے گی تو اسے امام بنانا کیسا؟قرآن عظیم فرماتا ہے:"و اما ینسینك الشيطن فلا تقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين."اور اگر تجھے شیطان بھلا دے تو یاد آنے پر ظالموں کے ساتھ نہ بیٹھ۔علامہ عارف باللہ سیدی ملا احمد جیون قدس سرہ اس آیت شریفہ کے نیچے تحریر فرماتے ہیں:تفسیرات احمدیہ،ص ۲۲۶،مطبوعہ دہلی میں "القوم الظالمین المبتدع و الفاسق و الکافر و القعود مع کلہم ممتنع"قوم الظالمین عام ہے بدمذہب اور فاسق اور کافر کو اور ان سب کے ساتھ مجالست ممنوع ہے۔مبتدع (بدمذہب)کی تعظیم و توقیر کی نسبت حدیث شریف کا ارشاد ہے"من وقر صاحب بدعة فقد اعان علی ھدم الاسلام"جو کسی بدعتی،وہابی،دیوبندی،مودودی،تبلیغی،قادیانی،رافضی،نیچری وغیرہ کی تعظیم کرے گا تو بہت ہی اشد خطرناک ہے۔اس سے میل جول ہی پر خطر ہے۔واجب الحذر ہے۔قال تعالیٰ ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار۔بدمذہب سے نرمی برتنے ،اس کا اکرام کرنے،اس سے بکشادہ روئی ملنے پر حدیث شریف میں ارشاد فرمایا: من الان له و اکرمه اولقیه ببشر فقد استخف بما انزل علی محمد صلی تعالیٰ علیه و سلم۔جو اسے جھڑکے،جو اس کی اہانت کرے اس کے لئے حدیث میں ہے: من انتہر صاحب بدعة ملا اللہ قلبه امنا و ایمانا ۔ایسے کو مژدہ ہےکہ خدا اس کے دل کو امن اور ایمان سے پر فرما دےگا ۔من اهان صاحب بدعة امنه اللہ یوم الفزع الاکبر ۔اسے قیامت کے دن امان ملنے کی خوشخبری ہے کے اہوال قیامت سے مامون ہوگا۔بدمذہبوں کو حدیث میں دوزخیوں کا کتا فرمایا ہے۔حدیث میں ہے: اصحاب البدع کلاب اھل النار۔مبتدع دوزخیوں کے کتے ہیں۔بدمذہب کو امام بنانا کیسا؟اس کا حکم تو بغض و اہانت ہے۔مسجد سے روکنا۔اس میں فتنہ کہ اندیشہ ہے تو حکومت سے چارہ جوئی کرنا،اسے مسجد سے رکوانا بلکہ ممکن ہو تو شہر بدر کرانا یہ احکام ہیں۔درمختار میں ہے یمنع منه کل مؤذ ولو بلسانه۔تو جو ایسا ہے جسے مسجد میں آنے سے روکنے کا حکم ہوا،جسے شہر بدر کروانے کا حکم ہوا ہے اگر یہ ممکن ہے تو اسے امام بنانا کیسی اوندھی مت کی الٹی بات از قبیل واہیات ہے۔مبتدع جو اپنی بدعت کی طرف داعی ہو،جو اپنی بدمذہبى کا پرچار کرتا ہو،اس سے احتراز سے بھی زیادہ اوکد ہے،اس کا ضرر اس کے ضرر سے اشد ہے۔امام حجۃالاسلام غزالی قدس سرہ العالی احیاء میں فرماتے ہیں:اما المبتدع ففی صحبته خطر لسرايةالدعوة والعدى يشومها اليه فاالمبتدع مستحق للهجو والمقاطعة.اسی میں دوسری جگہ فرماتے ہیں: المبتدع الذی یدعوا الی بدعته فان کانت البدعة بحیث یکفر بھا فامرہ اشد من الزمی لانه لایقر بجزیة ولا یسامح بعقد ذمة وان کان ممن لا یکفر به فامره بینه و بین اللہ اخف من امر الکافر لا محالة و لکن الامرفی الانکار علیه اشد منه علی الکافر لان شر الکافر غیر متعد فان المسلمین أعتقد أن کفرہ فلا یلتفتون الی قوله اذ لا یدعی لنفسه الاسلام و اعتقاد الحق۔اما المبتدع الذی ید عوالا البدعة و يزعم ان مایدعو الیه حق فھو سبب لغواية الخلق فشره متعد فالا ستحباب فى اظهار بغضه و معاد اته والانقطاع عنه و تحقيره والتشنيع عليه ببدعة و تنفير الناس عنه اشد.اور وہ بدمذہب بددین جس کی بدمذہبی حد کفر کو پہنچی ہو جیسے قادیانی اور رافضی اور وہابی وغیرہ اس کے پیچھے نماز باطل ایسی جیسے کسی ہندو یا مجوسی وغیرہ کے پیچھے،ایسوں کے لیے حدیث میں ارشاد ہے:لا تجالسوهم ولا تواکلوهم ولا تشاربوهم ولا تناکحوهم واذا مرضوا فلا یعود وھم و اذاماتاوافلا تشہد وهم ولا تصلو علیہم ولا تصلوا معہم اوکما قال علیه الصلاۃ والسلام۔ابن ماجہ میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ہے: قال رسول اللہ صلی تعالیٰ علیه و سلم لا یقبل اللہ لصاحب بدعة صوما ولا صلاۃ ولا صدقة ولا حجاولا عمرةولا جہادا ولا صدقا ولا عد لا یخرج من السلام کما تخرج شعرة من العجین۔وہابی کا دھرم ہے کے وہی مومن و موحد ہے۔اس کے سوا جو ہے وہ کافر و مشرک ہے حتی کے اللہ و رسول جل و علی و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی اس کے دھرم پر مشرک اور مشرک گر۔اس اجمال کی تفصیل کے لئے اعلیحضرت مجدد دین و ملت سیدنا الوالد الماجد قدس سرہ العزیز کی تصانیف مبارکہ خصوصاً رسالہ شریفہ الامن والعلی جس کا دوسرا نام ہے: اکمال الطامعه علی شرك سوی بلامور العامه ملاحظہ کریں۔
وہابی دھرم کی پستکیں کتاب التوحید،تقویۃالایمان،بہشتی زیور،اصلاح الرسوم اور وہابیہ کے اس بارے میں برساتی حشرات الارض کی طرح رسالے اور اب مودودی کی کتابیں دیکھیے۔روز روشن کی طرح صاف صاف یہی نظر آئےگا کہ وہابی ہی مسلمان ہے اور سب مشرک،ابوجہل اور وہ شرک میں برابر ،آج کے مسلمانوں ہی پر عنایت نہیں بلکہ تیرہ سو برس سے یہی حال ہے،مودودی کی کتابوں میں وہی کتاب التوحید اور تقویت الایمانی شرک پھیلا ہوا ہے۔مودودی کے نزدیک جاہلیت جسے وہ کفر جانتا ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد ہی میں اسلام میں گھس آئی۔اس کی کتابوں میں یہ ملے گا کہ گزشتہ تیرہ صدی کے مسلمان مشرک،بدعتی،خوش عقیدہ جاہلیت خالصۃ جاہلیت راہبہ،جاہلیت مشرکانہ کے پابند تھے۔مودودی کے نزدیک دین اسلام صرف اسلامی نظام کو عملاً نافذ کرنے کا نام ہے۔مودودی کی ایک عبارت نمونہ کے لیے ملاحظہ کیجئے جس سے روشن ہے کہ سارے عالم کے لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان بتاتے ہیں،در حقیقت مشرک ہیں۔تجدید احیاء دین،ص۱۵,۱۶،مطبوعہ رامپور "ایک طرف مشرکانہ پوجا پاٹ کی جگہ فاتحہ،زیارت،نیاز،نذر،عرس،صندل چڑھاوے،نشان،علم،تعزیے اور اسی قسم کے دوسرے مذہبی اعمال کی ایک نئی شریعت تصنیف کر لی گئی،دوسری طرف بغیر کسی ثبوت علمی کے ان بزرگوں کو ولادت،وفات،ظہور و غیاب،کرامات و خوراق،اختیارات و تصرفات اور اللہ تعالیٰ کے یہاں ان کے تقربات کی کیفیات کے متعلق پوری میتھالوجی ہوگئی۔جو بت پرست مشرکین کی میتھالوجی سے لگا کھا سکتی ہے،تیسری طرف توسل استمداد روحانی اور اکتساب فیض وغیرہ ناموں کے خوشنما پردوں میں وہ سب معاملات جو اللہ اور بندوں کے درمیان ہوتے ہیں ان بزرگوں کے نام ہو گئے اور عملاً وہی حالت قائم ہو گئی جو اللہ کے ماننے والے مشرکین کے ہاں ہے جن کے نزدیک بادشاہ عالم انسان کی رسائی سے دور ہے۔اور انسان کی زندگی سے تعلق رکھنے والے سب امور نیچے کے اہلکاروں ہی سے وابستہ ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ان کے ہاں اہلکار اعلانیہ،الہ،دیوتا،اوتار یا ابن اللہ کہلاتے ہیں اور یہ انہیں غوث و قطب ،ابدال،اولیاءاور اہل اللہ وغیرہ الفاظ کے پردوں میں چھپاتے ہیں."
مردودی کی تنقیحات مطبوعہ تعلیمی پرنٹنگ پریس لاہور کا صفحہ ۱۴۳ دیکھیے۔قوم مسلم پر خاص عنایات ملاحظہ فرمائیے۔
"آپ ذرا اس قوم کی حالت پر نظر ڈالیے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے،نفاق اور بدعقیدگی کی کون سی قسم ایسی ہے جس کا انسان تصور کر سکتا ہو اور وہ مسلمانوں میں موجود نہ ہوں۔اسلامی جماعت کے نظام میں وہ لوگ بھی شامل ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیم سے ناواقف ہیں اور اب تک جاہلیت کے عقائد پر جمے ہوئے ہیں اور وہ بھی ہیں جو اسلام کے اساسی اصولوں میں شک رکھتے ہیں اور شکوک کا اعلانیہ تبلیغ کرتے ہیں۔وہ بھی ہیں جو علی الاعلان انکار کرتے ہیں۔و بھی ہیں جو اسلامی عقائد اور شعار کا کھلم کھلا مذاق اڑاتے ہیں۔وہ بھی ہیں جو اعلانیہ مذہب اور مذہبیت سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔وہ بھی ہیں جو خدا و رسول کی تعلیمات کے مقابلے میں کفار سے حاصل کیے ہوئے تخیلات و افکار کو ترجیح دیتے ہیں۔وہ بھی ہیں جو خدا و رسول کے قانون پر جاہلیت کی رسوم یا کفار کے قانون کو مقدم رکھتے ہیں۔وہ بھی ہیں جو خدا اور رسول کے دشمنوں کو خوش کرنے کے لئے شعائر اسلامی کی توہین کرتے ہیں۔وہ بھی ہیں جو اپنے چھوٹے سے فائدے کی خاطر اسلام کے مصالح کو بڑے سے بڑے نقصان پہنچانے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں۔وہ بھی ہیں جو اسلام کے مقابلے میں کفر کا ساتھ دیتے ہیں۔اسلام کے اعراض کے خلاف کفار کی خدمت کرتے ہیں اور اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ان کو اتنا بھی عزیز نہیں کہ اسکی خاطر وہ ایک بال برابر نقصان گوارا کرسکیں،راسخ الايمان اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کی ایک نہایت ہی قلیل جماعت کو چھوڑ کر اس قوم کی بہت بڑی اکثریت اس قسم کے منافق اور فاسق العقیدہ لوگوں پر مشتمل ہے۔"
مودودی کہتا ہے:
اسلام کی صورت کو تصوف کے ماننے والوں نے مسخ کر دیا ہے۔اس تصوف کو مٹانا اتنا ہی ضروری ہے جیسا مغربی تہذیب جاہلیت جدیدہ کو مٹانا،تصوف کو بے میٹے خدا کا دین قائم ہی نہیں ہو سکتا۔جو پیروں ولیوں کو مانتے ہیں سب کی دماغی حالت گھٹیا قسم کی ہوتی ہے۔صوفیوں کے احزاب اعمال اور اوراد و وظائف اسلام کی مخالفت اور جاہلیت ہیں خانقاہی اسلام دین اسلام نہیں،سراسر جاہلیت راہبہ و مشرکانہ ہے۔"
مودودی مسلمانوں کے اس نماز روزے کو قرآن خوانی کو عبادت ہی نہیں جانتا وہ کہتا ہے:
آپ سمجھتے ہیں کے ہاتھ باندھ کر قبلہ رو کھڑا ہونا،گھٹنوں پر ہاتھ ٹیکنا،اور زمین پر ہاتھ ٹیک کر سجدہ کرنا بس یہی چند افعال و حرکات بجائے خود عبادت ہیں۔آپ سمجھتے ہیں کے رمضان کی پہلی تاریخ سے شوّال کا چاند نکلنے تک روزانہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہنے کا نام عبادت ہے،آپ سمجھتے ہیں کے قرآن مجید کے چند رکوع زبان سے پڑھ دینے کا نام عبادت ہے۔غرض آپ نے چند افعال کی ظاہری شکلوں کا نام عبادت رکھ چھوڑا ہے لیکن اس کی اصل حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جس عبادت کے لئے آپ کو پیدا کیا ہے اور جس کا آپ کو حکم دیا ہے وہ کچھ اور ہی چیز ہے۔"
مودودی کے نزدیک یہ افعال ،نماز،روزہ،قرآن خوانی عبادت نہیں،نہ ان کے لئے تمہیں خدا نے پیدا کیا ہے،نہ اس کا حکم دیا،وہابی،قادیانی،رافضی،چکڑالوی سب ہی مسلمانوں کو کافر جانتے ہیں،رافضی تو گنتی کے چند صحابہ کے سوا جب سے اب تک کے سارے کے سارے مسلمانوں کو کافر جانتا ہے۔قادیانی ان سب کو جو اسے نبی نہ مانے کافر بتاتا ہے،یونہی چکڑالوی بھی،اور چّکڑالوی تو پانچ نمازوں ہی کا منکر ہے۔صرف تین مانتا ہے۔حدیث کا مطلق منکر ہے۔حدیث پر عمل کو شرک ٹھہراتا ہے۔گزشتہ تمام صدیوں کے علماء کو جاہل،عجمی سازش میں پھنس کر احادیث کے غیر یقینی مجموعہ پر عمل کی تبلیغ کرنے والا بتاتا ہے۔وہ کہتا ہے سنت کو بالکل ترک کر دینا چاہئے۔مسلمانوں کے یہ گروہ اور ان کی یہ لڑائیاں سب اسی سنت کی رہینِ منّت ہیں۔گروہ وہابیہ اللہ عزوجل کو جھوٹ بولنے اور ہر عیب سے ملوث ہو سکنے پر قادر ٹھہراتا ہے۔اور رسول کی شان میں طرح طرح کی کھلی کھلی گستاخیاں کرتا ہے۔یونہی قادیانی انبیاء کی شان میں گستاخ ان کے معجزوں کو مسمر یزم کہتا ہے۔والعياذبالله تعالى۔
خدا کی شان میں گستاخی کرے،رسولوں کی توہین کرے،قرآن کو نہ مانے،بیاض مثالی کہے،قرآن میں کمی و بیشی کا قائل ہو،حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو نبوت کا اہل نہ مانے،مولیٰ علی کو اہل جانے،جبریل کو غلط کار بتائے کہ نبوت خدا نے بھیجی تھی مولیٰ علی کے لئے جبریل نے غلطی کی دے گئے حضور علیہ الصلا ۃ و السلام کو،پانچوں نمازوں کا قائل نہ ہو،تین ہی مانے،بلکہ جو نماز ،روزے،قرآن خوانی کو عبادت ہی نہ جانے صرف کہہ دے کہ،"خدا نے جس عبادت کے لئے تمہیں پیدا کیا اور جس کا حکم دیا وہ اور ہی چیز ہے" تمہیں مسلمان ہی نہ جانے،کچھ بھی کرے کچھ بھی بکے نماز ان سب کے پیچھے ہو جاتی ہے؟؟۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ والعیاذ باللہ تعالیٰ۔اللہ تعالٰی ایسوں کے لئے فرمائے: ذرھم فی خو فہم یلعبون۔رسول فرمائیں:لاتجالسوهم ان کے پاس نہ بیٹھو،لا تواکلوهم ولا تشاربوھم۔ان کے ساتھ کچھ کھاؤ پیو نہیں۔ولاتناکحوهم ان سے شادی بیاہ نہ کرو۔و اذا مرضوا فلا تعدوهم وہ بیمار پڑے تو ان کی بیمار پرسی نہ کرو۔ و اذا ماتوا فلا تشهدوھم وہ مر جائیں تو ان کے جنازے پر مت جاؤ۔ولا تصلوا علیہم ان کی نماز جنازہ نہ پڑھو۔ولا تصلوا معہم نہ ان کے ساتھ نماز پڑھو،اور یہ کہنے والا کہے نہیں جی نماز تو سب کے پیچھے ہو جاتی ہے،نماز تو اللہ کی ہے۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔سوال کے اور سب نمبروں کا جواب اس میں آگیا۔
سوال - معين امام کی بلا اجازت نماز پڑھانا کیسا ہے؟
جواب - امام معين کی بلا اجازت امامت کی جرأت نہیں کرنا چاہئے۔
سوال - مذکورہ بالا عقائد کے لوگوں کی کمیٹی جلسہ وغیرہ میں جانا اور ان کی کتابیں پڑھنا ان کے مدرسے میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا کیسا ہے؟جوابات بموجب شرع شریف مع مہر و دستخط مرحمت فرمائیے۔
جواب - اس سوال کا جواب بھی واضح ہے،ایسوں کا وعظ سننا ایسوں کی کتابیں پڑھنا بھی حرام ہے اور بچوں کو ان سے تعلیم دلوانا بھی حرام ہے۔
حضرت سیدنا امام غزالی کے متقدمین ایضال سے یہاں کچھ نقل کر دینا مناسب،فرماتے ہیں:"جو فلاسفہ کی کتابوں اخوان الصفا وغیرہ کا مطالعہ کرے گا ان میں اسرار نبوت کلام صوفیہ کرام پائے گا جو فلاسفہ نے اپنی تحریروں میں کیا ہے تو وہ قبول کرےگا ان کے دل میں فلاسفہ سے خوش عقیدگی پیدا ہوگی نتیجہ یہ نکلے گا کہ احکام شرع و احکام تصوف کو فلاسفہ آڑ بنا کر باطل مسائل کی تبلیغ کرتے ہیں۔آہستہ آہستہ اس کے دل میں اترتے رہیں گے اور یہ حق عقائد باطلہ کو قبول کرتا رہےگا اس لئے میں کہتا ہوں کہ عامۂ اہل اسلام میں ان کی کتابوں کا مطالعہ کرتا پایا جائے اسے فوری تنبیہہ سختی سے باز رکھنے کی ضرورت ہے اور میں پہلے بتا چکا ہوں جس طرح دریا کے پھسلتے کناروں سے ناسمجھ کو روکنا ضروری ہے جو تیرنا نہیں جانتا اسی طرح کم علم کو ایسی کتابوں سے بچانا ہم پر واجب ہے۔اور جس طرح بچوں کو سانپ چھونے سے روک دینا آپ ضروری سمجھتے ہیں اسی طرح ایسے کلمات سننے سے کانوں کو بچانا،بلکہ جس طرح مداری ناسمجھ بچوں کے سامنے سانپ کو ہاتھ نہیں لگاتا کے کہیں بچے اس کی ریس نہ کرنے لگیں اور بچوں کے سامنے خود بھی سانپ سے خوف کھاتا ہے اور بچوں کو خوف دلاتا ہے اسی طرح عالم مقتدا پر یہ فرض ہے کہ وہ عوام کے سامنے نہ خود ایسی کتابیں دیکھے نہ دیکھنے دے۔ضرور ہے کہ ایسی مکائد پر انہیں متنبہ کرتا رہے"الخ۔
مختصراً اسی میں ایک اور جگہ اس سے اوپر فرمایا:
تعجب خیز امر یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی سمجھ پر کامل اعتماد رکھتے اور کہتے ہیں کہ"ہم اپنے علم و عقل سے حق و باطل میں تمیز و ہدایت و گمراہی میں فرق کر سکتے ہیں تو اگر ہم ان باطل پرستوں کی تحریریں دیکھیں تو ہم پر ان کا کیا اثر ہوگا"یہ محض ان کا خیال خام ہے۔ایسے کم علموں اور ناواقفوں کو ہرگز اس کی اجازت نہ دی جائے کے وہ بد دین بدمذہب کی تحریر کا مطالعہ کریں۔واللہ تعالی اعلم
فقیر مصطفےٰ رضا غفرلہ
(ماہنامہ نوری کرن ۱۹۶۲)
No comments:
Post a Comment