پردے کی ابتدا کب ہوئی؟
از :- شیخ الاسلام ابوالفیض سید قلندر علی سہروردی علیہ الرحمہ۔
مندرجہ بالا تمہید کے بعد مجھے یہ بتانا ہے کہ آیا پردہ شریعت اسلامیہ کی رو سے واجب ہے۔۔یا۔۔جیسا کے ترقی نسواں کے جدید حامی دعویٰ کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں پردہ غیر اقوام کی تقلید سے رائج ہو گیا ہے،وہ صحیح ہے؟غور سے دیکھا جائے تو اس بحث کے چار۴ پہلو ہیں:
۱- زن و مرد کے نامحرمانہ اختلاط کی تاحد امکان ممانعت۔
۲- عورتوں کا گھریلو زندگی سے مختص ہونا اور گھروں میں بیٹھنا۔
۳- پردے کے لیے برقع پہننا۔۔یا۔۔چادر اوڑھنا۔
۴- مردوں کا عورتوں پر حاکم ہونا۔
زن و مرد کی نامحرمانہ اختلاط کی ممانعت کا دوسرا نام پردہ ہے۔ اسلام سے پہلے عرب بھی عورتوں کے متعلق اسی جہالت و تاریکی کا شکار تھا جس کا آج یہاں کا اسلامیات سے ناواقف طبقہ اظہار کر رہا ہے۔
پردہ کا سب سے ابتدائی حکم ۵ھ میں نازل ہوا۔جب حضور علیہ السلام نے ام المومنین حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عقد کیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہوا۔۔کہ مومن بغیر اذن کے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حرم سرائے میں داخل نہ ہوں اور ضروریات کے لیے پس پردہ سوال کریں۔۔۔جس کی تکمیل و تعمیل کے لیے حضور علیہ السلام نے تمام ازواج مطہرات کے دروازوں پر پردے ڈلوا دیے اور غیر محرموں کو اندر آنے سے منع فرما دیا۔چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ بن عبیداللہ کو جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چچازاد بھائی تھے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملنے سے روکا تھا،جس پر وہ ناراض ہو گیا۔اس حکم کے بعد ازواج مطہرات باہر نہیں نکلتی تھیں اور کشف چہرہ (یعنی منہ کھلا رکھنے)کی ممانعت تو ہو ہی چکی تھی،اب اظہار شخصیت کی بھی اجازت نہ رہی۔
آج ہمارے بعض محققین جن کو بےپردگی کی حمایت میں قلم اٹھانا ہوتا ہے،بڑے شد و مد سے یہ لکھ دیتے ہیں کہ اسلام میں چہرے اور ہاتھوں کے سوا پردہ ہے،مروجہ پردہ کا جواز مطلق ثابت نہیں بلکہ ' کشف وجہ ' یعنی چہرہ کھلا رکھنے کے دلائل موجود ہیں،وغیرہ وغیرہ۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔سورہ نور کے چوتھے رکوع میں آیت حجاب تلاوت کیجئے سمجھ آجائے گی کہ ' پردۂ شرع ' کا مفہوم کیا ہے اور چہرہ داخل ستر ہے۔۔یا۔۔نہیں۔سرکار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوتا ہے : اے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) ! مومن مردوں سے فرما دیجئے کہ اپنی نگاہیں عورتوں پر پڑنے سے روکیں،اور اپنی شرم گاہوں کو محفوظ رکھیں۔یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔وہ جو کچھ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔اور اے رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ایمان والی عورتوں سے فرما دیجئے کہ اپنی نگاہیں مردوں پر پڑنے سے روکیں اور اپنی شرم گاہیں محفوظ رکھیں،وہ اپنا حسن ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہر کے سامنے۔۔یا۔۔اپنے شوہر کے بیٹوں کے سامنے۔۔یا۔۔اپنے بھائی۔۔یا۔۔اپنے بھتیجوں کے اور بھانجوں کے سامنے۔۔یا۔۔اپنے گھر کی عورتوں کے سامنے۔۔یا۔۔ اپنے لونڈی غلاموں کے سامنے جن سے ان کی خواہش کا امکان نہیں۔۔یا۔۔ ایسے بچے ماتحتوں کے سامنے۔۔یا۔۔ایسے ماتحت مردوں کے سامنے جو عورتوں کی خفیہ باتوں سے واقف نہیں ہو چکے۔اور وہ اس طرح پاؤں مار کر بھی نہ چلیں جس سے ان کا مخفی حسن ظاہر ہو جائے۔اس آیت میں حسن کا مفہوم ظاہر ہے جس میں ہاتھ پاؤں منہ اور جسم کا سارا سانچہ شامل ہے۔ورنہ نامحرموں کے سامنے اگر ہاتھ پاؤں اور منہ کھلے رکھنے کی اجازت ہوتی تو پھر وہ کون سا حسن باقی رہ جاتا ہے جس کی باپ بیٹے بھائی بھتیجے اور بھانجے اور نوکرانیاں وغیرہ کو دیکھنے کی خصوصیت سے اجازت دی گئی ہے۔چہرہ آنکھیں رخسارے اور رنگت ہی تو فتنہ کہ باعث ہیں،اگر یہ کھلے رکھنے کی اجازت ہے تو پھر پردے کے معنی ہی فوت ہو جاتے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کے آیت۔۔۔(یدنین علیھین۔۔)کے تحت میں اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے لئے گھروں سے نکلیں تو اپنے چہروں کو سر کے اوپر سے چادروں کے ساتھ ڈھانک لیا کریں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔اسی کی تائید میں حضرت فاطمہ بنت منذر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم حج کے احرام کی حالت میں بھی اپنے چہرے ڈھانپ لیا کرتی تھیں اور حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا بھی ہمارے ساتھ تھیں۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم احرام باندھے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتی تھیں،پس جب کوئی ہمیں سوار راستہ میں ملتا تو ہم چادروں کو سروں کے اوپر سے اپنے چہروں پر لٹکا لیتی تھیں،پھر جب وہ گزر جاتا تو ہم چادروں کو اوپر اٹھا لیتی تھیں۔
بعض لوگوں نے قرآنی' حسن ' کا مفہوم زیورات اور سنگار لیا ہے کہ اس کو بھی چھپائیں مگر جو اس سے نہ چھپ سکے،کیا انمل اور بے جوڑ بات ہے کہ جس زیور اور سنگار سے چہرہ کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے،اس کو تو چھپایا جائے اور چہرہ کو ننگا رکھا جائے کے کیونکہ وہ داخل ' حسن ' نہیں۔۔۔ علیٰ ھذا القیاس۔' جو اس سے نہ چھپ سکے اور کھلا رہ جائے '...کا مطلب بھی ظاہر ہے کہ برقع اگر ہو خوبصورت اور کپڑے کی چھڑک بھڑک ہو نہایت جاذب نگاہ تو برقع اوڑھ لینے کے بعد بھی قد و قامت اور چال ڈھال جسم کی بناوٹ اور برقع کی موزونیت کا جو نقشہ نظروں سے چھپانا ناممکن ہے اس کی اجازت ہے۔ورنہ جس کو خدا نے استطاعت دے رکھی ہے وہ تو ڈیوڑھی سے ڈولی۔۔یا۔۔موٹر اور ٹانگہ تک بھی پردے تان کر کھلا رہ جانے کا بھی کوئی امکان باقی نہیں رہنے دیتے،اور اب سے پہلے مسلم خواتین جو پردہ و حجاب کو اپنی عفت و عصمت کا بیش بہا خزانہ و زیور سمجھتی تھیں،یونہی ڈولیوں میں اعزا و اقارب کے ہاں جاتی آتی تھیں۔اور یہی طریقہ شادی بیاہ ماتم و تعزیت کی تقریبات میں بھی جاری ہوتا تھا۔اگرچہ مغرب پرستی کی وبا بعض اونچے گھرانوں اور افسر نما مسلمانوں میں داخل ہو چکی تھی،مگر وہاں بھی نمائش حسن و جمال اور آرائش خد و خال میں دور موجودہ کی حیا سوز عریانی نہ تھی۔بہر حال۔۔۔' جو کھلا رہ جائے ' کا ترجمہ یہ کرنا کہ۔۔۔جتنا کھلا رہ جائے۔۔۔ایک ایسی لغویت بنی کہ جس کی حد شاید سارا لباس اُتار کر بھی ختم نہ ہو۔ ظاہر ہے۔۔۔کہ جو کھلا رہ جائے۔۔۔کی معقول تشریح یہی ہے۔۔۔کے اتنا کھلا رہ جانا جس کو ڈھانپنا کسی مزید تکلیف کا محتاج بنا دے،اس کے چھپانے کا چارہ نہ ہو۔اب یہ چارہ بھی ہر ایک کی حیثیت اور استطاعت پر مبنی ہے۔ذی حیثیت و مالدار بند گاڑیوں میں جائیں گے،اور غریب برقع پہن کر سڑک پر چلنے پر مجبور ہوں گے۔
ہاں! عہد نبوت کی ایک اور اصلاحی صورت بھی قابل ذکر ہے جو ممکن ہے بےپردگی کے حامی کو دلیل کا کام دے سکے،لہٰذا اس کا بیان کر دینا بھی غیر ضروری نہیں معلوم ہوتا۔یعنی اس وقت مستورات بیت الخلا اور نماز کے لیے گھر سے دو ۲ وقت نکلا کرتی تھیں، کیونکہ اُن دِنوں میں مکانوں پر بیت الخلا نہیں بنائے جاتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ عورتوں کو قضائے حاجت کے لئے باہر جانے سے روکا جائے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے کے مطابق پردہ کا حکم آگیا۔پھر سورہ نور کی آیات پردہ نازل ہونے پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو جو باہر نکلنے کی اجازت فرما رکھی تھی،اس سے بھی منع فرما دیا۔بیت الخلا گھروں گھروں میں بنائے گئے،جس کا ذکر بُخاری اور مسلم میں ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان میں بیت الخلا بننے کا آتا ہے۔
بعض لوگ جنگوں اور دیگر مختلف ضروری سفروں میں مستورات کی شمولیت سے یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ وہ بے پردہ شامل ہوتی تھیں۔مگر یہ ایک خیالی نقشہ سامنے رکھ کر تاویل کی جاتی ہے۔ورنہ وہ اس وقت کی فضا اور حالات سے واقف ہوں یہ تکلف نہ کریں۔یاد رہے کہ اُمہات المومنین اور صحابیات نزول آیات حجاب کے بعد کبھی بے نقاب جنگوں اور سفروں میں شریک نہیں ہوئیں،بلکہ ان کو ہودج میں سوار کیا جاتا تھا جہاں منہ ڈھانپے جانے کے علاوہ ان کے کپڑے اور وجود بھی پوشیدہ رہتا تھا۔غزوات کے بیان میں اس کی تمام تصریح موجود ہے۔اس وقت پر نگاہ ڈالیے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے جاتے ہیں اور مسلمانوں کو کئی اہم کام ایسے پیش آتے ہیں جن میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا کے مشورے کی اہمیت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے،مثلاً: خلافت کی بحث،سقیفہ بنی ساعدہ کا مشورہ،بنی ہاشم کا مشورہ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ اور دیگر اختلافی مسائل۔مگر اُمہات المومنین تشریف لے جاکر بے پردہ شریک نہیں ہوئیں،بلکہ صحابہ نے خود ان کی خدمت میں حاضر ہو کر بالواسطہ۔۔یا۔۔بلا واسطہ پس پردہ مشورہ طلب کیا ہے۔یہی کیفیت جنگ جمل میں حضرت صدیقہ رضی المولیٰ عنہا کی تھی۔
(دختر ملت، صفحہ ٣٠)
No comments:
Post a Comment