async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: Mahnama Hashmat Ziya In urdu (48)

Tuesday, September 21, 2021

Mahnama Hashmat Ziya In urdu (48)

 سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا

 حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رضی المولیٰ عنہ


حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہراء ہیں۔سیدہ فاطمہ کی پیدائش ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکتالیسویں سال میں ہوئی۔اہل سیر کہتے ہیں کہ یہ قول ابوبکر رازی کا ہے اور یہ قول اس کے مخالف ہے جِسے ابن اسحاق نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کے بارے میں بیان کیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد اظہار نبوت سے قبل پیدا ہوئی ہیں۔بجز حضرت ابراہیم کے۔اس لیے کہ اس قول کے بموجب سیدہ فاطمہ کی ولادت بعد از نبوّت ایک سال بعد ہوئی ہے۔

ابن جوزی نے کہا کہ سیدہ فاطمہ کی ولادت اظہار نبوت سے پانچ سال پہلے ہے۔مشہور تر روایت یہی ہے ایک قول کے بموجب سیدہ فاطمہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں میں سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں اور ایک قول سے سیدہ رقیہ اور ایک قول سے ام کلثوم سب سے چھوٹی تھیں۔

سیدہ زہرا سیدة نساء العالمین اورسیدة نساء  اہل الجنة ہیں اور فاطمہ اس بنا پر نام رکھا گیا کہ حق تعالیٰ نے اُن کو اور ان کے محبین کو آتش دوزخ سے محفوظ رکھا ہے اور بتول اس بنا پر نام رکھا گیا کہ آپ اپنے زمانہ کی تمام عورتوں سے فضیلت دین اور حسن و جمال میں جدا ہیں اور ماسوی اللہ سے بےنیاز ہیں اور زہرا اس بنا پر کہ زہرت بہجت اور جمال میں کمال و مرتبہ میں ہیں اور زکیہ و راضیہ بھی آپ کا لقب ہیں سیدہ زہرا تمام لوگوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  راہ و روش اور صورت و سیرت اور کلام میں سب سے زیادہ مشابہ تھیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کریمہ تھی جب سیدہ فاطمہ آتیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لئے کھڑے ہو جاتے اور ان کا ہاتھ تھام لیتے اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے  اور اپنی جگہ پر ان کو بٹھاتے تھے۔اسی طرح جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے جاتے تو یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھڑی جو جاتیں اور آگے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک تھام لیتیں اور اپنی جگہ حضور کو بٹھاتیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عقد حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے ہجرت کے دوسرے سال رمضان مبارک میں غزوۂ بدر کی واپسی پر فرمایا بعض غزوۂ احد کے بعد کہتے ہیں اور ماہ ذی الحجہ میں شب عروسی واقع ہوئی۔ایک قول یہ ہے کہ ماہ رجب میں نکاح ہوا اور ایک قول سے ماہ صفر میں۔انعقاد نکاح بحکم الٰہی اور اس کی وحی سے تھا اور سیدہ کی عمر شریف پندرہ سال ساڑھے پانچ ماہ کی تھی اور حضرت علی مرتضیٰ کی عمر شریف اکیس سال پانچ ماہ تھی۔دیگر اقوال بھی ہیں۔نکاح کا قصہ ہجرت کے دوسرے سال کے واقعات میں بیان ہو چکا ہے۔سیدہ فاطمہ سے امام حسن،امام حسین،محسن،زینب،ام کلثوم اور رقیہ پیدا ہوئے۔محسن اور رقیہ عہد تفولیت میں ہی وفات پا گئے اور سیدہ زینب ،حضرت عبداللہ بن جعفر سے اور سیدہ ام کلثوم حضرت عمر بن الخطاب کی زوجیت میں آئیں اور ان کی اولاد باقی نہ رہی اگرچہ سیدہ ام کلثوم کا حضرت فاروق اعظم سے ایک فرزند پیدا ہوا اور اس کا نام زید تھا۔

صحیح حدیث میں آیا ہے کہا کہ فاطمۃ سیدۃ نساء اھل الجنۃ الحسن والحسین سید شباب اھل الجنۃ اور یہ روایت درجہ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاطمہ میرا جگر گوشہ ہے جس نے انہیں تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے بلا شبہ مجھ سے بغض رکھا۔نیز فرمایا: بے شک اللہ فاطمہ کے غصہ سے غضب فرماتا اور ان کی رضا سے خوش ہوتا ہے۔

اہل سیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ اور فاطمہ کو ایک فرش پر بیٹھا کر دونوں کی دلجوئی فرمائی۔حضرت علی مرتضیٰ نے عرض کیا '' یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو وہ مجھ سے زیادہ پیاری ہیں یا میں؟" حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ مجھے تم سے زیادہ پیاری ہیں اور تم ان سے زیادہ مجھے پیارے ہو۔"

سیدہ عائشہ کی یہ روایت صحت کو پہونچی ہے کہ فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف فرما تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن اقدس پر اونی چادر شریف تھی۔حسن بن علی آئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی چادر شریف میں لے لیا ان کے بعد حسین بن علی آئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی  چادر شریف میں لے لیا اور ان کے بعد سیدہ فاطمہ اور حضرت علی مرتضیٰ آئے حضور اکرم ‌نے ان کو بھی اپنی چادر شریف میں لے لیا اس وقت یہ آیت کریمہ پڑھی إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا


بلا شک و شبہ اللہ تعالیٰ ارادہ فرماتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے ناپاکی کو دور فرمائے اور تمہیں خوب پاک و ستھرا بنائے اور ان چاروں شخصوں کے بارے میں فرمایا میں اس سے جنگ کروں گا جو ان سے جنگ کرے گا اور میں اُن سے صلح کروں گا جو ان سے صلح کرے گا ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمہ کے گھر تشریف لائے اور ملاحظہ فرمایا کہ آپ اونٹ کے بالوں کا موٹا لباس پہنے بیٹھی ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو گئے اور فرمایا:' اے فاطمہ!آج تم دنیا کی تنگی و سختی پر صبر کرو تاکہ كل روز قیامت جنت کی نعمتیں تمہیں حاصل ہوں۔مروی ہے کہ ایک دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک سیدہ فاطمہ کے سینہ مبارک پر رکھ کر دعا مانگی اے خدا ان کو بھوک کی تکلیف سے نجات دے۔سیدہ فاطمہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد سے میں نے کبھی اپنے دل میں بھوک کی تکلیف محسوس نہ کی۔حدیث میں اس کا طویل قصہ مذکور ہے۔

حضرت ثوبان  سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں تشریف لے جاتے تو سب کے آخر میں سیدہ زہرا سے رخصت ہوتے اور جب سفر سے تشریف لاتے تو سب سے پہلے اپنے اہل بیت میں سے ان سے ملاقات فرماتے ان کے بعد ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے جاتے۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے محدّثین روایت کرتے ہیں کہ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آدمیوں میں سے کون حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا تھا فرمایا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پھر لوگوں نے پوچھا مردوں میں سے کون؟فرمایا ان کے شوہر یہ ہے حضرت صدیقہ کا انصاف،صدق حال اور اہل بیت نبوّت کے ساتھ ان کی مصادقت اسے یاد رکھنا چاہئے۔ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے لوگوں نے پوچھا کہ آدمیوں میں سے کون رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو پیارا تھا؟ فرمایا عائشہ!لوگوں نے پوچھا مردوں سے کون؟فرمایا ان کے والد ماجد سب سے زیادہ محبوب تھے۔سب ہی محبوب تھے لیکن حیثیتیں مختلف ہیں۔

امام حسن مجتبیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا ہے کہ وہ گھر کی مسجد کے محراب میں رات رات بھر نماز میں مشغول رہتیں یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی اور میں نے انہیں مسلمانوں اور مسلمان عورتوں کے حق میں بہت زیادہ دعا کرتے سنا۔انہوں نے اپنی ذات کے لیے کوئی دعا نہ مانگی میں نے عرض کیا: اے مادر مہربان!کیا سبب ہے کہ آپ اپنے لیے کوئی دعا نہیں مانگتیں؟فرمایا:"اے فرزند! اوّل الجوارثم الدار" پہلے ہمسایہ ہے پھر گھر ہے۔

حضرت عمر بن الخطاب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ ایک دن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے ان سے کہا خدا کی قسم فاطمہ رضی اللہ عنہا!میں نے کسی کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تم سے زیادہ محبوب نہ دیکھا اور قسم ہے خدا کی میں نے آپ کے والد ماجد کے بعد کسی شخص کو اپنے نزدیک آپ سے زیادہ محبوب نہ جانا۔

اہل بیت اطہار کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں کچھ تو مجمل' بعنوان اہل بیت ہیں اور کچھ مخصوص بہ امام حسن و حسین اور علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں چونکہ اس جگہ مقصود سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا تذکرہ ہے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے اور اہل بیت اطہار اور تفسیر آیت کر کریمہ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس کے معنی میں کلام بہت ہے جسے دوسری جگہوں میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہیں دیکھنا چاہیے۔(و بااللہ التوفیق)

وفات سیدہ زہرا رضی اللہ عنہا: فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی وفات شب سہ شنبہ تیسری ماہ رمضان ۱۱ھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ۶ ماہ بعد واقع ہوئی یہی قول مشہور و صحیح ہے اور بھی کئی قول ہیں لیکن وہ درجہ صحت سے دور ہیں اور بقیع شریف میں رات میں مدفون ہوئیں۔ان کی نماز جنازہ ایک قول سے حضرت علی اور ایک قول سے حضرت عباس نے پڑھی کہتے ہیں کہ دوسرے دن حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے حضرت علی مرتضیٰ سے شکایت کی کہ ہمیں کیوں نہ خبر کی ہم بھی نماز کا شرف پاتے۔حضرت علی مرتضیٰ نے عذر خواہی میں فرمایا میں نے فاطمہ کی وصیت کی بنا پر ایسا کیا کہ جب میں دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔تو رات میں دفن کرنا تاکہ نامحرموں کی آنکھیں میرے جنازہ پر نہ پڑیں لوگوں میں یہی مشہور ہے مگر روزة الاحباب وغیرہ میں یہ ہے اور روایتوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے جنازه کی نماز پڑھائی اور حضرت عثمان بن عفان و عبد الرحمن بن عوف اور زبیر بن العوام رضی اللہ عنہم بھی آئے اور یہ ذکر پہلے بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ضمن میں آخر میں کیا جا چکا ہے۔

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے محل دفن میں اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ آپ کا مرقد بقیع میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے قبہ میں ہیں جہاں تمام اہل بیت نبوّت آسودہ ہیں (اور بقیع کے تمام مزارات اور قبوں کو ملعون نجدیوں نے اپنے دور استبداد ۱۳۴۳ھ میں شہید کر دیا ہے(مترجم)اور بعض کا خیال یہ ہے کہ ان کا مدفن ان کے گھر میں ہی ہے جو کہ مسجد نبوی شریف میں ہے ان کا جنازہ گھر سے باہر نہ نکالا گیا آج بھی ان کی زیارت وہیں مشہور ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان کا مزار شریف بقیع کی مسجد میں ہے جو قبہ عباسی کے نام سے منسوب ہے اور شرقی کی جانب ہے۔امام غزالی نے بقیع کی زیارت  میں اس مسجد کا ذکر کیا ہے اور اس میں نماز پڑھنے کی وصیت کی ہے بعض اور حضرات نے بھی اس مسجد شریف کا ذکر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ وہ "بیت الحزن" کے نام سے معروف ہے کیوں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے غم و جدائی کی مصیبت کے زمانے میں لوگوں کی صحبت سے پریشان ہو کر تنہائی اختیار کر کے اس جگہ قیام پذیر ہو گئی تھیں نیز کہتے ہیں کہ اس جگہ ایک گھر ہے جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بقیع میں لیا تھا (واللہ اعلم) پہلا قول صحیح اور اخبار و آثار کے موافق ہے۔


مسعودی نے 'مروج الذہب' میں بیان کیا ہے کہ حضرت امام حسن،امام زین العابدین امام محمد باقر اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہم کی قبروں کی جگہ میں ایک پتھر پاتے ہیں جس میں لکھا ہوا ہے کہ هذا قبر فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدۃ نساء العلمین و قبر الحسن  بن علی حسین بن علی و جعفر بن محمد علیہم التحیه والسلام۔اس پتھر کا ظہور ۳۳۰ھ میں ہوا۔امام المسلمین سیدنا حسن بن علی مرتضیٰ کے دفن کے قصہ میں مروی ہے کہ اُنہوں نے وصیت کی تھی کہ اگر لوگ مزاحمت نہ کریں تو مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کرنا ورنہ بقیع میں اپنی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پہلو میں دفن کر دینا۔غرض یہ کہ آپ کی قبر شریف میں یہی جگہ مختار ہے محب طبری، ذخائر العقمی میں نقل کرتے ہیں کہ مجھے ایک مرد صالح نے جو میرے ساتھ خدا کے لئے اخوت رکھتا تھا خبر دی کہ جب شیخ ابو العاص مرسی جو کے شیخ ابو الحسن شاذلی کے شاگرد ہیں وہ بقیع کی زیارت کرتے تو وہ حضرت عباس کے قبہ کے آگے کھڑے ہو کر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر سلام پڑھتے تھے اور فرماتے کہ شیخ پر اسی جگہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قبر انور منکشف ہوئی ہے اور فرماتے ہیں کہ کشف میں حضرت شیخ کو ایک آیت کبریٰ ہے فرماتے ہیں کہ عرصہ دراز تک اس بنا پر کہ جو اعتقاد مجھے حضرت شیخ سے تھا اسی اعتقاد پر قائم رہا یہاں تک کہ میں نے وہ روایت ابن عبد البر سے امام حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے قضیہ میں منقول ہے دیکھی اس کے بعد شیخ نے جو کشف سے خبر دی تھی اس پر میرا اعتقاد زیادہ ہو گیا اور فرمایا کہ حدیث کی صحت مجھ پر شیخ کے کشف سے ثابت ہوئی اور حدیث کے مطابق حضرت شیخ کا کشف سچا ثابت ہوا۔(واللہ اعلم)

(مدارج النبوۃ، جلد٢، صفحہ ٥٣٤)

No comments:

Post a Comment