async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: Mahnama Hashmat Ziya In Urdu (54)

Tuesday, September 21, 2021

Mahnama Hashmat Ziya In Urdu (54)

 سیف الفقیہ الباسل (قسط اول)

جانشین مظہر اعلی حضرت وارث علوم شیر بیشۂ اہلسنت ابوالمظفر محمد مشاہد رضا خان صاحب حشمتی علیہ الرحمہ


کیا فرماتے ہیں علمائے اہل سنت اس مسئلے میں کہ ایک عالم اہل سنت نے اپنے مضمون میں ایک ہندوستانی حکومت کی لسٹ میں مسلم آبادی جو صحیح العقیدہ مسلمانوں کے ساتھ بدعقیدہ و مرتد و گمراہوں پر مشتمل ہے۔ ان سب کو اپنا رویہ بدلنے اور باہمی طور پر متحد و متفق ہو جانے کا مشورہ دیا ہے، وہ لکھتے ہیں: ہندوستانی تیس کروڑ امت (جس میں بدعقیده و گمراہ بھی شامل ہیں) اگر اپنے رویہ کو بدل دے اور باہمی طور پر متحد و متفق ہو جائے تو بہت جلد اس ملک کا منظر نامہ تبدیل ہو سکتا ہے... الخ۔ آگے لکھتے ہیں: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ۔(ترجمہ کے بعد لکھتے ہیں) اگر امت مسلمہ اس ارشاد مبارکہ کی عامل ہو جائے تو مذہب سے لے کر سیاست تک، حیات سے لے کر ممات تک اور دنیا سے لےکر آخرت تک ہر محاذ پر کامیابی اس کے قدم چومے گی۔۔۔۔۔۔الخ۔ پھر آگے لکھا: اے خدائے پاک کی وحدانیت پر یقین رکھنے والو! اٹھو اتحاد کی چادر جہان اسلام پر تان دو۔ 

اخوت و مساوات کا عملا مظاہرہ کرو اور باہمی انتشار و افتراق و اختلاف کو مٹا کر اللّٰہ کی رسّی مضبوطی سے تھام لو۔ بےشک دنیا و آخرت میں عزت و کامیابی تمہارے لیے ہی ہے۔۔۔۔۔الخ۔ کیا قرآن و حدیث کی روشنی میں اس عالم اہل سنت کے اقوال درست ہیں؟ کیا حکومت کی فہرست میں ہندوستان تیس کروڑ آبادی جس کو حکومت بنام مسلم شمار کرتی ہے جس میں صحیح العقیدہ سُنّی مسلمان، قادیانی، رافضی، بوہرہ، خوجہ، وہابی، دیوبندی، نیچری، صلح کلی وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ ان سے صحیح العقیدہ سُنّی مسلمانوں کا اتحاد ممکن ہے؟ جبکہ مضمون نگار نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اتحاد مذہب سے لے کر سیاست تک، حیات سے لے کر ممات تک، دنیا سے لے کر آخرت تک کام آئےگا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرما کر صحیح رہنمائی فرمائیں۔


المستفتی: حاجی احمد عمر ڈوسا قادری اشرفی برکاتی رضوی حشمتی، منیش مارکیٹ، ممبئی


باسمہ سبحانہ وتعالی

اللہ رب محمد صلی علیہ وسلم

وعلی ذویہ و صحبہ ابد الدھور وکرما


الحمدللہ الذی ھدانا الی الصراط المستقیم والصلوۃ والسلام علی حبیبہ الذی اظھر الطریق المبین و علی آلہ وصحبہ اھل الرشد والھدایۃ والیقین الا سیما فی الفتن فی کل الزمان والحین اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔


الجواب بعون الملک الوہاب: سوال میں جس سُنّی عالم کہلانے والے کا مضمون نقل کیا گیا ہے وہ اگر فرقہ باطلہ کے عقائد کفریہ قطعیہ یقینیہ جانتا ہے(جو اس میں درج ہو رہے ہیں) پھر ان کو مسلمان جانتا ہے تو وہ خود اپنے اس مضمون سے اولاً نہ عالم، نہ مومن، نہ مسلمان، بلکہ مرتد کافر ہو گیا۔


سوال مذکور میں جس معجون مرکب و معجون نجس کا ذکر کیا گیا ہے اس کو ردّ کرنے کے لیے تفصیلاً ایک کتاب کی ضرورت ہے لیکن یہاں اختصار وا ایجاز کے ساتھ ضبطِ تحریر کر رہا ہوں۔ یہ عالم اہل سنت کہلانے والا بے دین توحید کا دعویدار تو ہے۔ پھر یہ بتائے کہ روافض میں ایک فرقہ نصیری جو حضرت مولاۓ کائنات علی مرتضٰی کرم اللّہ تعالٰی وجہہ الکریم کو خدا کہتا ہے اور اس پر ایک شعر بھی ایک مشاعرہ میں پڑھا گیا۔


لوگ بے وجہ نصیری کو برا کہتے ہیں

کچھ تو دیکھا ہے علی کو جو خدا کہتے ہیں

العیاذ باللہ تعالیٰ

بتائے یہ بے دین عالم اہل سنت کہلانے والا ادّعاے وحدانیت کہاں گیا فرقہ نصیریہ کے سامنے؟ کیا حضور خاتم النبیین عالم ماکان وما یکون صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والوں اور حضور کے  پیچھے نماز پڑھنے والوں  کو حضور سرورِ عالم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے نام لے کر مسجد سے نہ نکالا؟ بایں طور اخرج یا ابن فلاں اخرج یا ابن فلاں منافقین کو، کلمہ پڑھنے والوں کو،  رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے پیچھے پانچ وقت نماز پڑھنے والوں کو مسجد سے نکل دیا گیا، اس کا دعویٰ اتحاد کہاں باقی رہا۔ خاکساری مرتد عنایت اللّہ مشرقی تحریکِ خاکساری کا بانی کیا اس كا قائل نہیں کہ نماز، روزہ، حج، زکوۃ، کوئی بھی ضروری نہیں، صرف اسلام میں جہاد ضروری ہے۔ اور وہ لکھتا ہے کہ جو بھی حج کرنے جاتے ہیں، وہ لوگ بت پرستی کرتے ہیں اور مسلمانوں سے خدا راضی نہیں ہے۔ انگریزوں، عیسائیوں سے خدا راضی ہے کہ اس نے انگریزوں کو حکومت دے دی اور زمین کا بادشاہ بنا دیا۔


اب بتائے سُنّی عالم کہلانے والا بے دین ایسے کلمہ پڑھنے والوں کو جو احکام اسلامی کو، فرائض اسلام کو غیر ضروری بتائے اور قوانین اسلام کا استہزاء کرنے والوں کو اور تمام مومنین کو جو حج کرنے جاتے ہیں ان کو بت پرست بتانے والے کو ساتھ لے کر اور اس کو مسلمان گردان کر خود کافر مرتد ہوا یا نہیں؟ اور وہ روافض جو خدا کی وحدانیت کے قائل ہی نہیں اور قرآن عظیم کو خدا کی کتاب نہ مان کر بیاض عثمانی مانتے ہے اور موجودہ قرآن عظیم کو محرّف کہتے ہیں تو اس دعویٰ بر بنیاد توحید، باطل محض ہوا یا نہیں؟ جب عقیدۂ توحید وقرآن ہی باقی نہیں تو یہ سُنّی عالم کہلانے والا نام نہاد عالمِ اہل سنت کو مشرکین سے اتحاد کرنے میں اور مشرک بننے میں کیا چیز سدّ راہ‌ ہے۔ اور پھر "کل الناس و کل المخلوق متحد" پر عمل کرنے میں کیا پس و پیش ہے، قرآن کی آیتیں بے محل پڑھ کر تحریف معنوی کی ہے، یہ آیت وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا‌  مو منین کے لیے ہے اور نماز و روزہ و زکوۃ، خدا کی وحدانیت و ایمان جن کا منکر  کافر و مرتد ہے، ہرگز مو من نہیں۔ اور وہ کافر مرتد مو من نہیں۔ تو ان کے ساتھ اتحاد نہیں ہے بلکہ کفر و اسلام متحد کرنے کا کفری منصوبہ ہے۔ العیاذ باللہ تعالیٰ منہ۔


اتحاد باطل کی دعوت دینے والا مسجد ضرار کا واقعہ بھول گیا۔ قرآن عظیم کا یہ اعلان ذیشان جو عظمتِ مصطفٰی علیہ الصلاۃ و السلام پر شاہد عدل ہے اور منافقین و مرتدین و بے دینوں پر برقِ خدا وندی  وَالَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا وَّكُفۡرًا ۔۔۔الخ۔


ترجمہ: اور وہ جنہوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچا  نے کو اور کفر کے سبب۔

وہ مسجد کلمہ پڑھنے والوں نے بنائی، نماز، روزہ اور زکوۃ دینے والوں نے بنائی، داڑھی والوں نے بنائی، احکام اسلامی ادا کرنے والوں نے بنائی، اسلامی صورت اور ظاہری حال بھی اسلامی مگر غیب داں نبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے ان بد باطن منافقین کی بنائی ہوئی مسجد کو ڈھا دینے کا حکم دیا اور حسب الحکم ڈھا کر جلا دی گئی۔

سُنّی عالم کہلانے والا اب بھی نہ بیدار ہوگا تو کب ہوگا؟ اگر منافقین، مرتدین اور بے دینوں سے اتحاد روا ہوتا تو مسجد ضرار کا واقعہ پیش نہ آتا۔ ہادئ کائنات صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکوۃ دینا، احکام اسلامی ادا کرنا، اسلامی صورت بنانا نہ دیکھا اور وہ مسجد جو مسجد نہ تھی بلکہ منافقین کا اڈہ تھا، اس نام نہاد مسجد کو ڈھا دینے کا حکم دیا۔ بتاؤ اتحاد کہاں باقی رہا۔ تمام فرقہاۓ باطلہ سے اتحاد، اتحاد باطل ہوا یا نہیں؟ پھر بھی یہ بد باطن سُنّی عالم کہلانے والا نام نہاد فرقوں سے اتحادِ باطل کی دعوت دے۔ العیاذ باللہ تعالٰی منہ۔

مرتد، بددین خاکساریوں کے کفریات تفصیلاً دیکھنے کے لیے اہل سنت و جماعت کی کتب مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے اور "حکم جبار بر خاکسار" کا مطالعہ کریں۔ اور مرتد بے دین مشرقی کو اس کے کردارِ بد اطوار اور نظریات کفریہ اس کی کتاب"تذکرہ" میں دیکھیں۔ مرتدین زمانہ رافضیوں کے فرقہ باطلہ کے عقائدِ کفریہ کی تفصیلی معمولات کے لیے محدث عبد العزیز دہلوی علیہ الرحمہ کی کتاب "تحفۂ اثنا عشریہ" کا مطالعہ کریں اور "آیات بینات" اور نصیحۃ الشیعہ" وغیرہ کا مطالعہ کریں۔


وہ سُنّی عالم کہلانے والا مدعئ اتحاد بر بناۓ توحید قرآن عظیم کا وہ روشن بیان پڑھ لے کہ دل میں عشق مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی شمع روشن ہو اور ایمان کی امان پائے اور دیکھے کہ فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا یہ زرّیں کارنامہ جو خرمن اتحاد باطل پر برق شرر بار ہے۔ آقائے کائنات صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں ایک مسلمان اور یہودی کے کھیت کے پانی سے متعلق جھگڑا تھا۔ ان دونوں نے اپنے معاملہ کو جانِ عدل و انصاف سرورِ عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو فیصلہ فرمایا، وہ یہودی کے حق میں ہوا۔ اس مسلمان نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے تالیفِ قلوب کے لیے یہودی کے حق میں فیصلہ فرما دیا ہے۔ حالانکہ فیصلہ میرے حق میں ہونا چائیے تھا۔ لہٰذا اس نے یہودی سے کہا، اس معاملہ کو ہم حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں پیش کریں گے۔ یہودی نے کہا، جب آپ کے آقا سرورِ کائنات صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فیصلہ فرما دیا تو اب اور کسی سے فیصلہ لینے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر وہ مسلمان کہلانے والے نے اس معاملے کو حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے؟ تو یہودی میں عرض کیا: حضور! آپ کی بارگاہ میں حاضر ہونے سے پہلے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو چکے ہیں۔ اور وہاں سے فیصلہ میرے حق میں ہوا ہے ۔انہیں تسلیم نہیں۔ دوبارہ آپ کی بارگاہ میں حاضر  آئے۔ اتنا سننا تھا کہ فاروق اعظم (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) کا تیور بدل گیا۔ مکان کے اندر تشریف لے گئے۔ باہر آئے تو ہاتھ میں تلوار تھی اور اس نام نہاد مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ فرمایا، جو بارگاہ رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے ہو کر میرے پاس فیصلہ لینے آئے اس کے لیے عمر کا یہی فیصلہ ہے۔ پورے شہر مدینہ میں ایک شور برپا ہو گیا کہ عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا۔ یہ خبر تاجدارِ کائنات صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو پہنچائی گئی کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ایک مسلمان کو قتل کردیا۔حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو بلا کر دریافت کیا۔کیا تم نے ایک مسلمان کو قتل کردیا ہے؟ حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم عمر نے کسی مسلمان کو نہیں قتل کیا ہے اور اللّٰہ رب العزت جلّ جلالہ نے جو وحی نازل ہونے والی تھی

حضرت سیّدنا عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی زبان پر جاری فرما دی اور آپ نے فرمایا:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوۡكَ فِيۡمَا شَجَرَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا  (سورۃ النساء، آیت/۶۵)


ترجمۂ رضویہ: تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں آپ کو حاکم نہ بنائیں۔ پھر جو کچھ تم حکم فرماؤ اپنے دلوں میں اس سے رکاوٹ نہ پائیں۔ اور جی سے مان لیں۔

یہ آیت کریمہ سنی عالم کہلانے والے کی دعوت اتحاد باطل پر سیف براں ہے۔ اتحاد باطل کی دعوت دینے والا سبق سیکھے ، عقل کے ناخن لے۔ اس واقعہ نے اتحاد باطل کی دھجیاں بکھیر دیں۔ اتحاد باطل کے ناپاک منصوبے کو تار تار کردیا۔

(اتحاد باطل کی بیخ کنی،صفحہ ٨)

No comments:

Post a Comment