فضائل اویس قرنی
از- امام ملا علی قاری رحمۃ ﷲ علیہ
{۱} بسند متواترہ سے آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"بےشک ایک آدمی خیر التابعین ہے اس کا نام اویس ہے"
{رواہ حاکم عن علی و احمد و ابن سعد عن عبد الرحمٰن اور ابو یعلی نے کہا یہ میں نے ایک صحابی سے روایت کی}۔
{۲} مسلم نے حضرت عمر (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) سے یہ الفاظ مذکورہ حدیث میں زیادہ کہے ہیں:
"اس کی والدہ ہے وہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔ اگر وہ اللّہ کی قسم اٹھا لے تو یقیناً اللّہ اس کو پورا فرماتا ہے۔ اور اس کو سفیدی (برص) کا داغ ہے پس اسے کہنا کہ تمہارے لیے بخشش کی دعا کرے"۔
{۳} اور ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
"بےشک ایک شخص تمہارے پاس یمن سے آئےگا اس کو "اویس" کہا جاتا ہے وہ یمن کو صرف اس لیے نہیں چھوڑتا کہ اس کی ایک والدہ ہے۔ پس اس کو برص تھی جب اس نے دعا کی اللّٰہ تعالٰی اس کو لے گیا مگر درہم کی مقدار میں داغ رہ گیا۔ پس تم میں سے جو کوئی اس سے ملے تو اس سے اپنی بخشش کی دعا کرواۓ۔"
{۴} ابن سعد نے ایک شخص سے مرسلاً روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: کہ
"اس امت میں میرا خلیل اویس قرنی ہے"۔
{۵} ابن عدی نے حضرت عبداللّہ بن عباس (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
"میری امت میں ایک شخص آئےگا کہ جس کا نام اویس بن عبد اللّٰہ القرنی ہوگا اور میری امت میں اس کی شفاعت مثل ربیعہ و مضر کے قبیلوں کے برابر ہوگی"۔
{٦} امام احمد نے کتاب الزھد میں اور ابو نعیم نے حلیہ میں محارب بن دثار اور سالم بن ابی الجعد سے روایت کی:
"میری امت میں سے وہ شخص ہے جو میری مسجد اور مصلے تک آنے کی طاقت نہیں رکھتا۔"
(ان میں حضرت اویس قرنی اور فرات بن حیان ہیں)
{٧} ابو یعلی نے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً روایت کی کہ:
"تابعین میں عنقریب ایک شخص قرن کا ہوگا اس کا نام "اویس بن عامر" ہوگا۔ اس کو ایک بیماری ہوگی وہ اللّٰہ تعالٰی سے دعا کریگا کہ اللّٰہ اس سے وہ بیماری لے جائے پس وہ کہےگا اے اللّٰہ اس کو میرے جسم سے دور کر دے اس نعمت کے صدقے جو تونے مجھ پر کی ہے۔
پس تم میں سے جو کوئی اسے پائے اور اس سے بخشش کی دعا کروا نے کی طاقت رکھتا ہو تو چاہیے کہ اس سے دعا کروالے۔"
{٨} ابن ابی شیبہ نے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے روایت کی:
"تم پر ایک شخص آۓ گا اس کو اویس کہا جائےگا اس کو برص ہوگی پس انہوں نے اللّٰہ سے دعا کی تو اس برص کو اس سے لے گیا پس تم میں سے جو اس کو ملے اس کو اپنے بارے میں استغفار کے لیے کہے"۔
{٩} خطیب بغدادی اور ابن عسا کرنے حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما سے روایت کی آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے عمر میری امت میں ان لوگوں کے بعد ایک شخص ہوگا جس کو اویس قرنی کہا جائےگا اس کے جسم میں بیماری (برص) ہوگی پس وہ اللّٰہ تعالٰی سے شفاء کی دعا کرےگا تو اللّٰہ تعالٰی اس کی بیماری کو لے جائےگا مگر اس کے ایک پہلو پر صرف توڑا سا داغ رہ جائےگا جب اس کو دیکھا جائےگا تو اللّٰہ یاد آئےگا جب تم اس کو ملو تو میرا سلام اس کو پہنچانا اور اس کو کہنا کہ وہ میرے لیے دعا کرے اس کے رب کا اس پر بڑا کرم ہے اپنی والدہ کے ساتھ صلۂ رحمی کرتا ہے۔ وہ میری امت کی قبیلہ ربیعہ اور مضر کی تعداد کے مطابق شفاعت کرے گا"۔
{۱۰} ابن سعد احمد مسلم عقیلی اور حاکم نے مستدرک میں حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی: ان الفاظ سے
"تمہارے پاس اویس بن عامر اہل یمن کی امداد کے ساتھ مراد قرن سے آئے گا اس کو برص ہوگی پس اس کو اس سے نجات مل جائےگی۔ مگر درہم کے برابر نشان رہ جائےگا۔ وہ اپنی والدہ کے ساتھ صلۂ رحمی کرے گا۔ اگر وہ اللّٰہ کی قسم اٹھاۓ گا۔ تو اللّٰہ اس کو پورا کر دے گا پس اگر تم میں سے کوئی اس کو مل کر دعا کر وا سکے تو ضرور ایسا کرے۔"
{١١} ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور حاکم نے مستدرک اور بیہقی اور ابن عسا کرنے امام حسن سے مرسلاً روایت کی:
"ایک شخص کی شفاعت سے میری امت میں سے قبیلہ ربیعہ اور مضر کی تعداد کے برابر جنت میں داخل ہوگی"۔
امام حسن نے فرمایا وہ شخص "اویس قرنی"ہیں۔
{١٢} طبرانی نے حضرت ابو امامہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً روایت کی:
میری امت میں سے قبیلہ ربیعہ و مضر کی گنتی کے مطابق لوگ ایک شخص کی شفاعت سے جنت میں جائیں گے اور ہر شخص اپنے اہل بیت سے اپنے عمل کے مطابق شفاعت کرے گا"۔
{۱۳} ابو نعیم نے حضرت ابو امامہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے ہی ان الفاظ کے ساتھ روایت کی:
"اس میں امت کے ایک شخص کی شفاعت سے قبیلہ ربیعہ و مضر کی تعداد کے مطابق میری امت کے جہنمی جہنم سے نجات پائیں گے۔"
یہ احادیث اس بات میں صریح ہیں کہ اویس قرنی تابعین کے افضل ترین تابعی ہیں ان احادیث میں صراحت ہے کہ کثرت ثواب کے لحاظ سے حضرت اویس قرنی تابعین سے افضل ہیں۔ جیسا کہ ان احادیث میں خیر التابعین کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔
اور یہ بات بعض ان حضرات کے اس قول کے خلاف ہے کہ اہل مدینہ کے تابعین میں سے افضل حضرت سعید بن المسیب ہیں اور اہل بصرہ میں سے حضرت حسن بصری۔امام مکحول اہل شام اور اہل کوفہ میں حضرت علقمہ افضل ہیں۔ تو یہ قول اس پر محصول ہے کہ وہ از روئے علم اپنے شہروں میں افضل ہیں۔ ( واللّٰہ تعالٰی اعلم)
{١٤} ابن سعد، مسلم، ابو عوانہ، رویانی، ابو یعلی، ابو نعیم اور بیہقی نے دلائل میں حضرت اسیر بن جابر سے روایت کی۔ انہوں نے فرمایا کہ:
جب ان کے پاس اہل یمن کی طرف سے امداد آئی تو آپ نے ان سے پوچھا: کیا تم میں "اویس بن عامر" ہے؟ یہاں تک کہ حضرت اویس بن عامر آئے۔
آپ نے فرمایا: تو اویس بن عامر ہے؟۔
تو فرمایا: ہاں۔
فرمایا: مراد سے پھر قرن سے؟
عرض کی: ہاں۔
فرمایا: تجھے برص تھی وہ چلی گئی سوائے درہم کی جگہ کے برابر؟۔
عرض کی: ہاں۔
فرمایا: تیری والدہ ہے؟۔
عرض کی: ہاں۔
تو آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے سنا ہے:
"تمہارے پاس اویس بن عامر اہل یمن سے امداد کے ساتھ مراد سے پھر قرن سے آئےگا۔ اس کو برص ہوگی وہ اس سے چلی جائے گی سوائے درہم کی مقدار کی جگہ کے اس کی والدہ ہوگی جس کے ساتھ وہ حسن سلوک کرےگا۔ اگر وہ قسم اٹھا لے تو اللّٰہ ضرور اس کو پورا فرمائےگا۔ اے عمر اگر ہو سکے تو اپنے بارے میں اس سے استغفار کروانا"۔
اے اویس میرے لیے استغفار کرو پس آپ نے استغفار کیا۔
تو آپ نے فرمایا: اب تو کہاں جانا چاہتا ہے؟۔
عرض کی: کوفہ۔
فرمایا: کیا وہاں کے گورنر کے نام تیرے لیے رقعہ لکھ دوں؟۔
عرض کی: میں لوگوں میں گمنام رہنا چاہتا ہوں۔
جب آئندہ سال حج کا وقت آیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے وہاں کے اشراف میں سے ایک شخص نے ملاقات کی۔ تو حضرت عمر نے اس سے حضرت اویس قرنی کے بارے میں پوچھا۔ تو اس نے کہا کہ میں نے اسے غربت کی حالات میں چھوڑا۔ حضرت عمر نے فرمایا: کہ میں نے نبی کریم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
" تمہارے پاس "اویس بن عامر" اہل یمن کی امداد کے ساتھ مراد سے پھر قرن سے آئےگا۔ اس کو برص کا نشان ہوگا۔ اس کی والدہ ہوگی جس کے ساتھ وہ حسن سلوک کرےگا۔ اگر وہ قسم اٹھا لیں تو اللّٰہ تعالٰی اس کی قسم پوری فرمائےگا۔ پس اگر تو اس سے ملے۔ تو اس سے دعا کروا لینا۔ پس اویس آیا۔ تو آپ نے فرمایا: میرے لیے بخشش کی دعا کر۔ اویس نے کہا: آپ مجھ سے زیادہ نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے قریب ہیں۔ آپ میرے لیے دعا فرمائیں۔ عرض کی: کیا آپ سے میرے چچا ملے فرمایا: ہاں۔ عرض کی: اس کے لیے استغفار کیجیے لوگ آپ کو پہچان گئے تو آپ خوش ہو گئے"۔
{۱۵} ابن سعد، ابو نعیم اور بیہقی نے "دلائل النبوۃ" اور ابن عسا کر نے حضرت اسیر بن جابر سے روایت کی جو کہ کوفہ کے محدث تھے آپ نے حدیث بیان کی جب حدیث سے فارغ ہوئے تو لوگ متفرق ہو گئے ایک گروہ تھا کہ اس میں ایک آدمی کلام کر رہا تھا۔ میں نے اس طرح کلام کرتے کسی کو نہیں سنا۔ میں اس طرف گیا۔ لیکن اس کو مفقود پایا۔
تو میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا: کیا تم اس آدمی کو پہچانتے ہو جو ہمارے پاس بیٹھا تھا؟
تو لوگوں میں سے ایک نے کہا: میں اسے جانتا ہوں۔ وہ اویس قرنی تھے۔
میں نے کہا: کہ تو ان کی قدر و منزلت جانتا ہے؟۔
اس نے کہا: ہاں۔
میں اس کے ساتھ چلا حتٰی کہ ہم ان کے حجرہ پر پہنچے پس وہ باہر نکلے۔
میں نے کہا: اے ۔میرے بھائی آپ ہمارے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے؟۔
کہا: ۔میرے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ میرے دوست میرا مذاق اڑا تے ہیں اور تکلیف دیتے ہیں۔
میں نے کہا: یہ چادر لیں اور اس کو اوڑھ لیں۔
اویس قرنی نے فرمایا: ایسہ نہ کر کیونکہ جب وہ مجھے دیکھیں گے تو تکلیف دیں گے۔
میرے اصرار پر انہوں نے چادر پہن لی اور ان پر ان کی طرف نکلے اور کہا: تم اس آدمی سے کیا چاہتے ہو کہ تم اسے تکلیف دیتے ہو کہ جو شخص کبھی ننگا اور کبھی ملبوس ہوتا ہے۔ پس انہوں نے میری زبان سختی سے پکڑی۔ اہل کوفہ نے ایک وفد حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی طرف بھیجا۔ اس وفد میں وہ شخص بھی تھا جو حضرت اویس قرنی کو مذاق کیا کرتا تھا۔ تو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: کہ تم میں کوئی شخص قرن کا رہنے والا ہے وہی شخص آگے بڑھا۔ تو حضرت عمر نے فرمایا: کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
تمہارے پاس ایک شخص یمن سے آئےگا۔ جس کو اویس قرنی کہا جائے گا۔ وہ یمن کو صرف اپنی والدہ کی وجہ سے نہیں چھوڑتا۔ اس کو برص ہے۔ تو اس نے اللّٰہ سے دعا کی تو برص چلی گئی مگر درہم کی مقدار کے برابر نشان اس میں ہے۔ پس تم میں سے جو کوئی اس کو ملے تو اس سے اپنے بارے میں استغفار کی درخواست کرے۔
پس وہ ہمارے پاس آیا۔
میں نے کہا: تو کہا سے آیا ہے؟
اس نے کہا: یمن سے۔
تمہارا نام کیا ہے؟
اس نے کہا: اویس۔
میں نے کہا: تو یمن میں کس کو چھوڑ کر آیا ہے؟۔
اس نے کہا: اپنی ماں کو۔
میں نے کہا: کیا تجھے برص تھی۔ تو نے دعا کی تو اللّٰہ اسے لے گیا؟۔
اس نے کہا: ہاں۔
میں نے کہا میرے لیے بخشش کی دعا مانگو۔
اس نے کہا: اے امیر المومنین کیا میرے جیسا آپ جیسے کے لیے دعا مانگے۔
میں نے کہا: اے میرے بھائی مجھ سے جدا نہ ہونا۔ میرے ساتھ ٹھہرنا۔
کیونکہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ تمہارے پاس کوفہ سے آئےگا۔
تو وہ شخص جو کوفہ سے آیا تھا اور حضرت اویس قرنی کو مذاق کیا کرتا تھا اور ان کی تحقیر کیا کرتا تھا۔
اس نے کہا: ایسا شخص ہم میں نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس کو پہچان تے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: وہ ایسا ایسا شخص ہے۔
اس نے کہا: اے امیر المومنین ہم میں ایک شخص ہے جس کو اویس کہتے ہیں۔ ہم اس کو مذاق کرتے ہیں۔
آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: تو نے دیکھا اور پہچانا نہیں اور ہم نے دیکھا نہیں لیکن ہم نے پا لیا۔
پس وہ شخص واپس آیا اور اپنے گھر آنے سے پہلے حضرت اویس کے پاس گیا۔
تو حضرت اویس نے فرمایا: یہ تیری عادت کیسی ہے تو نے ایسا کیوں کیا؟
تو اس نے کہا: میں نے حضرت عمر سے تمہارے بارے میں ایسا ایسا سنا ہے۔ پس اے اویس تو میرے لیے استغفار کر۔
حضرت اویس نے فرمایا: میں تیرے لیے دعا نہیں کرونگا۔ یہاں تک کہ یہ وعدہ نہ کرے کہ آئندہ سے تو مجھے مذاق نہیں کرے گا اور نہ ہی تو وہ بات لوگوں سے کرےگا جو کچھ تونے حضرت عمر سے سنا ہے۔
پس آپ نے اس کیلئے دعاِ مغفرت فرمائی۔
حضرت اسیر نے فرمایا: اس حالت میں حضرت اویس کوفہ میں مشہور ہو گئے۔
میں نے کہا: اے میرے بھائی کیا یہ عجیب بات آپ نے نہیں دیکھی جبکہ ہمیں شعور نہیں۔؟
فرمايا: میں یہ نہیں چاہتا جو لوگ چاہتے ہیں اور کوئی بندہ بھی نہیں چلتا مگر اس کے علم میں ہے، پھر جلدی جلدی وہاں سے چلے گئے"۔
{١٦} ابو نعیم نے "معرفتہ" اور بیہقی نے "دلائل النبوۃ" اور ابن عسا کرنے "تاریخ" میں حضرت صععہ بن معاویہ سے روایت کی:
" اویس بن عامر تابعین میں سے ایک شخص قرن کا ہے اور عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی کہ:
عنقریب تابعین میں سے ایک شخص قرن سے آئے گا اس کو اویس کہا جائے گا۔ اس کو برص ہوگی۔ جو اس کی دعا کی وجہ سے جاتی رہے گی۔ وہ یوں عرض کرےگا۔ " اے اللّٰہ میرے جسم میں اتنا نشان رہ جائے کہ جس کو دیکھ کر تیری نعمت کا ذکر کرتا رہوں پس تم میں سے جو کوئی اس سے مل سکے تو اس سے اپنے لیے بخشش کی دعا کروائے"۔
{۱۷} خطیب اور ابن عسا کرنے ایک بہت ضعیف روایت حضرت عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت کی۔ آپ نے فرمایا: کہ
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر!
میں نے عرض کی۔ لبیک و سعديک يا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔
اور مجھے خیال تھا کہ آپ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مجھے کسی اپنے کام کیلئے بھیجیں گے۔
فرمایا: اے عمر! ان لوگوں کے بعد میری امت میں ایک شخص ہوگا۔ جس کو اویس قرنی کہا جائے گا۔ اس کے جسم میں بیماری ہوگی اس نے دعا کی تو اللّٰہ تعالٰی ان کی بیماری لے گیا۔ سوائے اس ایک پہلو میں تھوڑے سے نشان کے۔ جب اسے دیکھا جائے تو اللّٰہ یاد آتا ہے۔ اگر وہ اللّٰہ کی قسم اٹھا لے تو رب تعالٰی اس کو اسی وقت پورا فرماتا ہے۔ وہ قبیلہ"ربیعہ و مضر" کی تعداد کے مطابق شفاعت کرے گا۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: میں اس شخص کو نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی زندگی میں ڈھونڈتا رہا لیکن نہ ڈھونڈ سکا پھر ۔ میں اس کو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی خلافت میں تلاش کرتا رہا لیکن نہ پا سکا۔ پھر اپنی خلافت کی ابتداء میں اس کو ڈھونڈ تا رہا۔ اسی حالت میں امداد آئی تو میں نے کہا کیا تم میں کوئی مراد اور قرن سے ہے۔ تم میں اویس قرنی ہے۔؟ ان لوگوں میں ایک شخص بولا: وہ میرا بھتیجا ہے۔ لیکن جس شخص کے بارے میں آپ پوچھ رہے ہیں وہ کوئی شان و شوکت والا ہوگا اور یہ شخص وہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اس کے بارے میں پوچھیں میں نے کہا: کیا تو اس کو ھالکین میں سے دیکھتا ہے۔ اس نے پھر وہی کلام دھرایا۔
بو سیدہ کپڑوں والا شخص ہے مجھے خیال گزرا کہ یہی اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ہے۔
میں نے کہا: اے اللّٰہ کے بندے تو اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ہے؟
اس نے کہا: کہ ہاں۔
میں نے کہا: کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے آپ کو سلام کہا ہے۔
اس نے کہا: رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم پر سلام اور اے امیر المومنین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ آپ پر بھی سلام۔
میں نے کہا: کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے آپ کو حکم دیا کہ تو میرے لیے دعا کر۔
میں نے اس کے ساتھ جس سال ملاقات کی اس کو اپنا تعارف کروایا اور اس نے اپنا تعارف مجھے کرایا۔
{۱۸} ابن عسا کرنے امام حسن سے روایت کی کہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
"میری امت سے ایک آدمی کی شفاعت کے ساتھ قبیلہ " ربیعہ و مفر" کی گنتی سے زیادہ لوگ جنت میں جائیں گے۔ اس شخص کا نام کیا ہے؟ کہا کیوں نہیں وہ "اویس قرنی" ہے۔ پھر کہا: اے عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اگر تو اس کو پائے تو میرا سلام اس کو پہنچا دینا اور اس سے کہنا کہ وہ تیرے لیے دعا کرے۔ خیال رہے کہ اس کو بیماری ہے تو اس نے دعا کی پس وہ اس سے اٹھا لی گئی پھر دعا کی تھوڑی سی بطور نشان۔ پھر وہ برص ہو گئی۔ پس جب حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا دور۔ آیا تو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اور جو حج کا موسم تھا ہر شخص بیٹھ جائے سوائے اہل قرن کے۔ سب بیٹھ گئے سوائے ایک شخص کے پس اس کو بلایا اور کہا: کیا تو جانتا ہے کہ تم میں ایک شخص ہے جس کا نام اویس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ہے؟
اس نے کہا: آپ اس سے کیا چاہتے ہیں۔ وہ شخص تو جنگلوں میں رہتا ہے۔ لوگوں سے نہیں ملتا۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اس کو میرا سلام دینا اور اس سے کہنا کہ وہ مجھے ملے۔
پس اس شخص نے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا پیغام حضرت اویس تک پہنچایا پس حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی حاضر ہوئے تو حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے پوچھا: کیا تو اویس ہے؟۔
اس نے کہا: ہاں! اے امیر المومنین۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: اللّٰہ اور اس کے رسول (عزوجل صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم) نے سچ فرمایا۔
کیا تجھے برص تھی تو تو منے اللّٰہ سے دعا کی تو وہ چلی گئی۔ پھر تو نے دعا کی تو اس سے نشانی کے طور پر واپس آئی۔؟
حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے کہا: ہاں۔ آپ کو کس نے خبر دی؟ اللّٰہ کی قسم! اس کی اطلاع سوائے اللّٰہ کے کسی کو بھی نہیں۔
حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: مجھے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے خبر دی اور مجھے حکم دیا کہ اس سے اپنے بارے میں دعا کروانا۔ اور فرمایا: میری امت کے ایک آدمی کی شفاعت کے ساتھ قبیلہ "۔ ربیعہ و مفر" کی تعداد سے زیادہ لوگ جنت میں جائے گے۔ پھر تمہارا نام لیا۔ پس حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر کے بارے میں دعا کی۔ اور پھر عرض کی۔ اے امیر المومنین! مجھے آپ سے ایک کام ہے وہ یہ کہ اس بات کو چھپائے رکھنا اور مجھے واپسی کی اجازت دے دیں۔ پس آپ نے ایسا ہی کیا۔
پس حضرت اویس قرنی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ہمیشہ ہی مخفی رہے۔ یہاں تک کہ "نہاوند" میں ایک جنگ میں شہید ہو گائے"۔
(المعدن العدنی فی فضائل اویس قرنی)
No comments:
Post a Comment