async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: May 2022

Monday, May 30, 2022

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (66)

نواسۂ رسول حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما
از- امام ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی شافعی رضی المولیٰ عنہ

نواسۂ رسول حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما جنّتی نو جوانوں کے سردار، لوگوں کے محبوب، صاحبِ حکمت اور اللّٰہ عجزوجل کے مقرّب ہیں۔ آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے روشن و مرتب کلام میں صوفیانہ جھلک پائی جاتی ہے۔ نیز آپ بلند مقام اور پاکیزہ اخلاق کے مالک تھے۔

علمائے تصوّف فرماتے ہیں: عمدہ و فصیح گفتگو کرنے اور معاملات کو خوش اسلوبی سے پایۂ تکمیل پہنچا نے کانام تصوّف ہے۔ 

سیّدنا امام حسن رضی اللّٰہ عنہ کا مقام و مرتبہ:

حضرت سیدنا امام حسن بصری علیہِ رحمتہ اللّٰہ القوی فرماتے ہیں: حضرت سیدنا ابو بکر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے مجھے ایک حدیث بیان کی اللّٰہ عز وجل کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھا رہے تھے کہ حالتِ سجدہ میں حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما جو ابھی چھوٹے تھے تشریف لے آئے اور سرکار صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مبارک پیٹھ یا گردن پر چڑھ بیٹھے۔ آپ نے انہیں آہستہ سے اوپر اٹھایا۔ جب نماز مکمل کر لی تو صحابۂ کرام رضوان اللّٰہ تعالٰی علیہم اجمعین نے عرض کی: " یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم! اس بچے سے آپ اس انداز سے پیش آتے ہیں کہ کسی اور سے ایسا سلوک نہیں فرماتے؟ ارشاد فرمایا: یہ میرا پھول ہے اور بےشک میرا یہ بیٹا سیّد (سردار) ہے اور امید ہے کہ اللّٰہ عز وجل اسکے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہ میں صلح کروائے گا۔

وہ حسن کو بھی محبوب رکھے:
حضرت سیدنا ادی بن ثابت علیہ رحمۃ اللّٰہ الواحد بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا براء رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو فرماتے سنا: میں نے دیکھا کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو کندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں اور ارشاد فرما رہے ہیں: " جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ حسن سے بھی محبت کرے"۔

محبوب سرکار:
حضرتِ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو دیکھتا تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ کیونکہ ایک دن (میں نے دیکھا کہ) آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور پیارے مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی مبارک گود میں بیٹھ گئے اور داڑھی مبارک کو سہلانے لگے، حضور نبی پاک صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے انکا منہ کھولا اور اپنی مقدس زبان ان کے منہ میں ڈال دی اور تین مرتبہ فرمایا: اے اللہ عز وجل! میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ۔"

سیدنا حسن کا علمی مقام:
حضرتِ سیدنا حارث رحمتہ اللّٰہ تعالٰی الوارث فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے اپنے صاحبزادے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے چند چیزوں کے بارے میں پوچھا۔

استفسار : اے بیٹے! راست روی (یعنی سچّائی و دیانتداری) کیا ہے؟
عرض: اے ابا جان! راست روی بھلائی کے ذریعے برائی کو دور کرنے کا نام ہے۔ 

استفسار: عزت و بلندئ مرتبہ کس چیز میں ہے؟
عرض: رشتہ داروں اور قبیلوں کے ساتھ بھلائی و تعاون کرنے میں۔ 

استفسار : مروّت کیا ہے؟
عرض: پاک دامنی‌‌ اور مال کی اصلاح و درستی۔

استفسار: شفقت و مہربانی کس میں ہے؟
عرض: قناعت اختیار کرنے اور کسی کو حقیر و ذلیل نہ جاننے میں۔

استفسار: ملامت کیا ہے؟
عرض: خود کو محفوظ رکھنا اور دوسرے کو ذلیل و رسوا کرنا۔ 

استفسار: سخاوت کیا ہے؟
عرض: تنگدستی اور خوش حالی میں خرچ کرنا۔

استفسار: بخل کیا ہے؟
عرض: جو پاس میں موجود ہو اسے باعث عزت سمجھنا اور جسے خرچ کردیا اسے ضائع خیال کرنا۔

استفسار: بھائی چارہ کیا ہے؟
عرض: خوشحالی اور مصیبت و پریشانی میں غمگساری کرنا۔

استفسار: بزدلی کیا ہے؟ 
عرض: دوست پر جرأت مندی کا مظاہرہ کرنا اور دشمن سے بھاگنا۔

استفسار: غنیمت کیا ہے؟
عرض: تقویٰ و پرہیزگاری میں رغبت رکھنا اور دنیا سے بے رغبتی اختیار کرنا ہی خوش گوار غنیمت ہے۔

استفسار: حلم (بردباری) کیا ہے؟
عرض: غصہ پی جانا اور نفس کو قابو میں رکھنا۔

استفسار: تونگری کیا ہے؟
عرض: اللّٰہ عز وجل نے جو مقدر میں لکھ دیا ہے نفس کا اس پر راضی رہنا اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو اور اصل تونگری نفس کا غنی ہونا ہے۔

استفسار: فقر کیا ہے؟
عرض: نفس کا ہر چیز کے معا ملے میں حریص ہونا۔

استفسار: بہادری کیا ہے؟
عرض: سخت لڑائی کے وقت طاقت کا مظاہرہ کرنا اور طاقتوروں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنما۔

استفسار: ذلت کس چیز میں ہے؟
عرض: سچّائی کا سامنا کرتے وقت گھبرا جانے میں۔

استفسار: عاجزی و بےبسی کی علامت کیا ہے؟
عرض: داڑھی کے ساتھ کھیلنا اور گفتگو کے دوران کثرت سے تھو تھو کرنا۔

استفسار: دلیری کس میں ہے؟
عرض: ہم پلہ لوگوں کی موافقت کرنے میں۔

استفسار: تکلیف و مشقت کیا ہے؟
عرض: لا یعنی (یعنی فضول) گفتگو کرنا۔

استفسار: بزرگی کیا ہے؟
عرض: نقصان کرنے والے کو کچھ عطا کرنا اور قصوروار کو معاف کردینا۔

استفسار: عقل کیا ہے؟
عرض: حاصل شدہ کو یاد رکھنا۔

استفسار: جہالت کیا ہے؟
عرض: دشمن کے سامنے بلند آواز سے گفتگو کرنا۔

استفسار: رفعت و بلندی کس چیز میں ہے؟
عرض: نیکی کرنے اور برائی چھوڑ دینے میں۔

استفسار: احتیاط کس میں ہے؟
عرض: بردباری اختیار کرنے اور حاکموں کے ساتھ نرمی سے پیش آنے میں۔

استفسار: بے وقوفی کیا ہے؟
عرض: کم ظرف لوگوں کی اتباع کرنا اور گمراہوں کی صحبت اختیار کرنا۔

استفسار: غفلت کیا ہے؟
عرض: بزرگی چھوڑ کر برائی کی پیروی کرنا۔

استفسار: محرومی کیا ہے؟
عرض: حصہ ملنے پر انکار کر دینا۔

استفسار: سردار کون ہے؟
عرض: جو اپنے مال کے معاملے میں بے فقر اور عزت کے معاملے میں لاپرواہ ہو، اگر برا بھلا کہا جائے تو جواب نہ دے اور خاندان کے معاملے میں غمگین و پریشان رہتا ہو۔ 

امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم نے فرمایا ہے: میں نے اللہ عز وجل کے پیارے حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا کہ "جہالت سے زیادہ سخت فقر کوئی نہیں اور عقل سے بڑھ کر کوئی مال نہیں"۔

خیر خواہِ اُمت
حضرتِ سیدنا جبیر بن نفیر رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے عرض کی: " لوگ کہتے ہیں کہ آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ خلافت کے خواہش مند ہیں؟" فرمایا " بلا شبہ عرب کے تمام قبائل میری دسترس میں تھے میں جس سے جنگ کرتا وہ بھی کرتے اور جس سے صلح کرتا وہ بھی کرتے لیکن میں نے رضائے الٰہی کے حصول اور اُمتِ محمدیہ کے خون کی حفاظت کی خاطر خلافت چھوڑ دی۔"

حضرتِ سیدنا امام شعبی علیہِ رحمتہ اللّٰہ الولی فرماتے ہیں جب حضرت سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے حضرتِ سیدنا امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے (مسلمانوں کی خیر خواہی کے خاطر) کسی پسندیدہ چیز پر صلح کی تھی اس وقت میں وہاں حاضر تھا۔ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے کہا: " کھڑے ہوکر لوگوں کو بتا دیجئے کہ آپ خلافت سے دستبر دار ہو گئے ہیں اور اسے میرے سپرد کر دیا ہے۔" حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کھڑے ہوئے اللّٰہ عز وجل کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: "بےشک سب سے بڑی عقل مندی پرہیزگاری اور سب سے بڑی حماقت فسق و فجور ہے۔ جس معاملے (یعنی خلافت) میں میرا اور حضرتِ سیدنا امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا اختلاف رہا ہے یا تو یہ اس کے زیادہ حق دار ہیں یا ان کی بنسبت میں زیادہ حقدار ہوں، لہٰذا اصلاحِ اُمتِ اور لوگوں کے خون کی حفاظت کی خاطر میں خلافت سے دست بردار ہوتا ہوں اور میں یہ جانتا ہوں کہ خلافت تمہارے لئے باعثِ فتنہ اور کچھ مدت کے لئے سامان دنیا ہے۔"

حضرتِ سیدنا ابان بن طفیل رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرتِ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کو حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے یہ فرماتے سنا کہ " بظاہر تو تم دنیا میں رہو لیکن دل آخرت (کی تیاری) میں مشغول رہے۔"

٢٠ بار پیدل مکہ مکرمہ کی حاضری:
حضرتِ سیدنا محمد بن علی علیہ رحمۃ اللّٰہ الولی فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: " مجھے حیا آتی ہے کہ میں اپنے رب عز وجل سے اس حال میں ملاقات کروں کہ اس کے گھر کی طرف کبھی نہ چلا ہوں۔" چنانچہ (اسی جذبہ کے تحت) آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ ٢٠ بار مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما   سے پیدل مكہ مکرمہ زادھا اللہ شرفا و تعظیما کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے۔

سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی سخاوت:
حضرتِ سیدنا علی بن یزید بن جدعان علیہ رحمۃ اللّٰہ الحنان فرماتے ہیں کہ "حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے دو مرتبہ اپنا سارا مال اور تین مرتبہ آدھا مال راہ خدا میں صدقہ کیا حتی کہ  ایک جوتا اور ایک موزہ صدقہ کردیا اور ایک جوتا اور ایک موزہ رکھ لیا۔"
حضرتِ سیدنا قرّہ بن خالد علیہ رحمتہ اللّٰہ الواحد فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرتِ سیدنا محمد بن سیرین علیہِ رحمتہ اللّٰہ المبین کے گھر کھانا کھایا۔ جب سیر ہوگیا تو ہاتھ روک لیا اور رومال سے ہاتھ صاف کر لئے تو انہیں فرمایا: "حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ "کھانا کوئی قابل قدر چیز نہیں کہ اس پر قسم دی جائے۔"

حق مہر ١٠٠ کنیزیں 
حضرتِ سیدنا امام محمد بن سیرین علیہِ رحمتہ اللّٰہ المبین فرماتے ہیں کہ "حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے ایک عورت سے نکاح کیا تو حق مہر میں ایسی ١٠٠ کنیزیں دیں جن میں سے ہر ایک کے پاس ایک ہزار درہم تھے۔"

حضرتِ سیدنا حسن بن سعد علیہِ رحمتہ اللّٰہ الواحد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے دو عورتوں کو (طلاق دی تو) ٢٠ ہزار درہم اور شہد کے مشکیزے بطور تحفہ بھیجے۔ ایک نے کہا: " جدا ہونے والے دوست کی طرف سے بہت کم عطیہ ملا ہے۔" راوی فرماتے ہیں: "میرا خیال ہے کہ کہنے والی حنفیہ تھی۔"

وقتِ وصال:
حضرتِ سیدنا عمیر بن اسحاق علیہ رحمۃ اللّٰہ الرزاق فرماتے ہیں کہ میں ایک شخص کے ساتھ حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی عیادت کے لئے حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: "اے فلاں! مجھ سے سوال کر۔" اس نے عرض کی: "اللّٰہ عز وجل کی قسم ! میں اس وقت تک آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے سوال نہیں کروں گا جب تک کہ آپ صحت ياب نہ ہو جائیں۔" چناچہ، حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ اندر تشریف لے گۓ۔ کچھ دیر بعد واپس تشرف لائے اور فرمایا: "کچھ مانگ لو اس سے قبل کہ مجھ سے کچھ نہ مانگ سکو۔" اس شخص نے عرض کی: " آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ صحت یاب ہوجائیں گے تو مانگ لوں گا۔" فرمایا: "مجھے اپنے قریبی لوگوں سے بہت سی تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا اور مجھے بار بار زہر دیا گیا۔ لیکن اس مرتبہ جو زہر دیا گیا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا زہر نہیں دیا گیا۔" راوی فرماتے ہیں: پھر میں اگلے روز خدمت میں حاضر ہوا تو آپ آخری سانسیں لے رہے تھے اور حضرتِ سیدنا امام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سرہانے بیٹھے پوچھ رہے تھے کہ"اے میرے بھائی! آپ کو زہر کس نے دیا؟" حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے فرمایا: "اس لئے پوچھ رہے ہو کہ اسے قتل کردو؟" کہا: "ہاں!" فرمایا: "جس کے بارے میں میرا گمان ہے (کہ اس نے مجھے زہر دیا ہے) اللّٰہ عز وجل اس سے خوب بدلہ لینے والا اور سخت سزا دینے والا ہے لیکن اگر اس کے بارے میں محض میرا خیال ہے تو مجھے یہ پسند نہیں کہ میری وجہ سے کسی بے گناہ کو قتل کیا جائے۔ پھر آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
حضرتِ سیدنا رقبہ بن مصقلہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب حضرتِ سیدنا امام حسن رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے وصال کا وقت قریب آیا تو فرمایا: "مجھے صحن میں لے جاؤ تاکہ عجائبات سماویہ میں غور کر سکوں۔" چنانچہ جب صحن میں لایا گیا تو بارگاہ الٰہی میں عرض کی: "اے اللہ عز وجل! میں اپنے نفس کو تیری بارگاہ میں باعث اجر و ثواب سمجھتا ہوں کیونکہ (وقتِ نزاع) مجھ پر لوگوں سے زیادہ باعثِ مشقت ہے۔" آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں کہ جن کے ساتھ اللّٰہ عز وجل نے احسان والا معاملہ فرمایا کیونکہ وہ خود کو اللہ عز وجل کے ہاں باعثِ اجر و ثواب سمجھتے تھے۔
(حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، جلد ثالث ،صفحہ ٦٢)