*💫ارشاداتِ اِمام ربّانی💫*
از - *✨خلیفہ اعلٰی حضرت ابوالبرکات علامہ سیّد احمد قادری علیہ الرحمہ✨*
https://chat.whatsapp.com/F5jagAa4Oxd5EIV7kn0OwW
1)نجات کا حاصل ہونا صرف اسی پر موقوف ہے۔کہ تمام افعال و اقوال و اصول و فروع اہلسنت و جماعت کثر ھم اللہ تعالی کااتباع کیا جائے اور صرف یہی ایک فرقہ جنتی ہے۔اہلسنت و جماعت کے سوا جس قدر فرقے ہیں سب جہنمی ہیں۔آج اس بات کو کوئی جانے یا نہ جانے کل قیامت کے دن ہر ایک شخص اس بات کو جان لے گا مگر اس وقت کا جاننا کچھ نفع نہ دےگا۔
۲) محض زبان سے کلمہ شہادت پڑھ لینا مسلمان ہونے کے لئے ہرگز کافی نہیں۔تمام ضروریات دین کو سچا ماننے اور کفر وہ کفار کے ساتھ نفرت وہ بیزاری رکھنے سے آدمی مسلمان ہوگا۔
۳) جو شخص تمام ضروریات دین پر ایمان رکھنے کا دعوی کرے۔لیکن کفر و کفار کے ساتھ نفرت و بیزاری نہ رکھے وہ درحقیقت مرتد ہے۔اس کا حکم منافق کا حکم ہے۔
۴) جب تک خدا اور رسول جل جلالہٗ و صلی اللہ تعال علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی نہ رکھی جائے اس وقت تک خدا اور رسول کے ساتھ محبت نہیں ہو سکتی جل جلالہٗ و صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم۔ یہی پر یہ کہنا ٹھیک ہے ۔
تولی بے تبری نیست ممکن۔
۵) میری نظر میں اللّٰہ تبارک وتعالیٰ کےدشمنوں کے ساتھ نفرت و عداوت رکھنے کے برابر اس کو راضی کرنے والا کوئی عمل نہیں ۔
۶) حدیث قدسی میں ہے کہ حضور سیدنا محمد رسول صلی اللّٰہ تعالی علیہ و آلہ وسلم نے اللّٰہ تبارک و تعالی سے عرض کی۔اللھم انت وما انا وما سواک تزکت لاجلک یعنی اے اللہ تو ہی ہے اور میں نہیں ہوں اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نےتیرے لیے چھوڑ دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے فرمایا یا محمد اناوانت وماسواک خلقت لاجلک یعنی اے محبوب میں ہوں اور تو ہے اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے ہی لیے پیدا کیا۔
۷)اللہ عزوجل نے اپنے محبوب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ارشاد فرمایا۔
لولاک لما خلقت الا فلاک لولاک لمااظھرت الربو بیة۔ یعنی اے محبوب اگر تم کو پیدا کرنا منظور نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔اگر تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں اپنا رب ہونا بھی ظاہر نہ کرتا۔
۸) مجھے اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اس لیے محبت ہے کہ وہ محمد مصطفیٰ کا رب ہے۔ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
۹) حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کرام کے ساتھ محبت کا فرض ہونا نقص قطعی سے ثابت ہے۔اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی دعوت الی الحق و تبلیغ اسلام کی اجرت امت پر یہی قرار دی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی قرابت داروں کے ساتھ محبت کی جائے۔
۱۰) حضوراکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو نیکی کے ساتھ یاد کرنا چاہیے۔ اور حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم ہی کی وجہ سےان کے ساتھ محبت رکھنی چاہیے۔ان کے ساتھ محبت حضور ہی کے ساتھ محبت ہے۔ان کے ساتھ عداوت حضور ہی کے ساتھ عداوت ہے۔ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم۔
۱۱) جو لوگ کلمہ پڑھتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن صاحبہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں ان کو
کافر کہا ہے۔ لیغیظ بھم الکفار۔
۱۲) انبیاء اولیاء کی پاک روحوں کو عرش سے فرش تک ہر جگہ برابر کی نسبت ہوتی ہیں۔کوئ چیز ان سے نزدیک و دور نہیں۔
۱۳) اکمل اولیاء اللّٰہ کو اللّٰہ تبارک و تعالٰیٰ یہ قدرت عطا فرماتا ہے کہ وہ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں۔
۱۴) حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی امت کے اولیاء کرام کا طواف کرنے کے لیے کعبہ معظمہ حاضر ہوتا ہے اور ان سے برکتیں حاصل کرتا ہے۔
۱۵) حضور پر نور سیدنا غوث اعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ، کو اللہ تبارک و تعالی نے یہ قدرت عطا فرمائی ہے۔کہ جو قضا لوح محفوظ میں بشکل مبرم لکھی ہوئی ہو۔ اوراس کی تعلیق صرف علم خداوندی میں ہو۔ ایسی قضا میں بھی باذں اللّٰہ تصرف فرما سکتے ہیں۔
۱۶) حضور پر نور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ مبارک سے جتنے اولیاء،ابدال ۔اقطاب اوتاد نقباء نجباء غوث یامجدد ہوں گے۔سب فیضان ولایت و برکات طریقت حاصل کرنے میں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے محتاج ہوں گے۔ بغیر ان کے واسطے اور وسیلے کے قیامت تک کوئی شخص ولی نہیں ہو سکتا۔
۱۷) مقلد کو یہ جائز نہیں کہ اپنے امام کی رائے کے خلاف قرآن اعظم وحدیث شریف سے احکام شرعیہ خود نکال کر ان پر عمل کرنے لگے ۔مقلدوں کے لئے یہی ضروری ہے کہ جس امام کی تقلید کر رہے ہیں۔اسی کے مذہب کا مفتی بہ قول معلوم کر کے اسی پر عمل کریں۔
۱۸)کفار و منافقین پر جہاد اور سختی کرنا ضروریات دین سے ہے۔ کافروں منافقوں کی جس قدر عزت کی جائے گی اسی قدر اسلام کی ذلت ہوگی۔
۱۹) مسلمان کہلانے والے بدمذہب کی صحبت کھلے ہوئے کافر کی صحبت سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔
۲۰) اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو جو خلق عظیم کے ساتھ موصوف ہیں۔ کافروں اور منافقوں پر جہاد کرنے اور سختی فرمانے کا حکم دیا ہے۔
یایھاالنبی جاھدالکفارو المنفقین واغلظ علیہم تو ثابت ہوا کہ کفار اور منافقین پر سختی کرنا بھی خلق ظیم ہے۔
۲۱) اسلام کی عزت کفر کی ذلت پر اور مسلمانوں کی عزت کافروں کی ذلت پر موقوف ہے۔ جس نے کافروں کی عزت کی۔ اس نے مسلمانوں کو ذلیل کیا۔کافروں اور منافقوں کو کتوں کی طرح دور رکھنا چاہیے۔
۲۲) خدااورسول کے دشمنوں کے ساتھ میل جول بہت بڑا گناہ ہے۔خدا اور رسول کے دشمنوں کے ساتھ دوستی و الفت خدا و رسول کی دشمنی و عداوت تک پہنچا دیتی ہے۔ جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
۲۳) ایک شخص اسی گمان میں رہتا ہے کہ وہ مسلمان ہے اور اللہ و رسول پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن نہیں جانتا کہ اس قسم کے برے عمال (یعنی خدا و رسول کے دشمنوں کے ساتھ دوستانے یارانے) اس کے اسلام وایمان کو بالکل فنا کر دیتے ہیں۔
۲۴) اہل کفر کے ساتھ بغض وعنادر کھنادولت اسلام کے حاصل ہونے کی علامت ہے۔
۲۵)حضور اقدس علیہ و الصلوۃ والسلام کے ساتھ کمال محبت کی علامت یہ ہے۔ کہ حضور کے دشمنوں کے ساتھ کمال بغض رکھیں۔ اور ان کی شریعت کے مخالفوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کریں۔
۲۶)محبت کے اندر پالیسی اور چاپلوسی اور جائز نہیں ۔ کیونکہ محب اپنے محبوب کا دیوانہ ہوتا ہے ۔وہ اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا۔ کہ اس کے محبوب کی مخالفت کی جائے ۔وہ اپنے محبوب کے مخالفوں کے ساتھ کسی طرح بھی صلح پسند نہیں کرتا۔
۲۷) دو محبتیں جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہوں ایک قلب میں اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔ کفار کے ساتھ جو خدا و رسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہیں دشمن ہونا چاہیے اور ان کی ذلت و خواری میں کوشش کرنا چاہیےاور کسی طرح بھی ان کو عزت نہیں دینا چاہیے۔اور ان بدبختوں کو اپنی مجلس میں آنے نہیں دینا چاہیے۔اور ان سے انس و محبت نہیں کرنا چاہیے۔اور ان کے ساتھ سختی و شدت کا طریقہ برتنا چاہیے۔
۲۸)اور جہاں تک ہو سکے کسی بات میں ان کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہیے اور اگر بالفرض ان سے کوئی ضرورت پڑ جائے توجس طرح انسان ناگواری اور مجبوری سے بیت الخلاء جاتا ہے اسی طرح ان سے اپنی ضرورت پوری کرنا چاہیے۔
۲۹) حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ تک پہنچانے والا راستہ یہی ہے۔ اگر اس راستہ کو چھوڑ دیا جائے تو اس پاک جناب تک پہچنا دشوار ہے۔ ہاۓ افسوس
ہاۓ پہنچوں کس طرح تاکوئےیار
راہ میں ہیں پر خطر کوہ اور غار
*(رسائل و مناظرے ابوالبرکات،صفحہ ۶۲۷)*
*(ماخوذ از ماہنامہ حشمت ضیا ✨)*