یزید کی موت
از- علامہ ابو الحسنات سید محمد احمد قادری علیہ الرحمہ
فرماتے ہیں، "یہ قصہ ایک ایسا قصہ ہے ہر آنکھ اس کی طرف نظر اٹھا رہی ہے۔ ہر کان اس کے سننے کو روا ہے۔لہٰذا سنیئے کہ کیونکر مرا اور کس ذلت سے دنیا سے جہنم پہنچا ۔
ایک روایت میں ہے کے سرحون بن منصور یزید کا بہت پیارا مصاحب تھا۔ معاملات عشق و فسق میں یہ دونوں شریک رہتے تھے۔ کبھی کبھی رقابت بھی ہو جاتی تھی۔ سیر و شکار سے بہت زیادہ شوق تھا۔ ابتدائی زمانہ میں عبیداللہ بن زیاد ساتھ رہا۔ اور زمانہ حکومت میں سرحون بن منصور۔ ایک بار شکار کو سرحون کے ساتھ جا رہا تھا۔ ایک راہب رومی النسل کی لڑکی پر اسکی نظر پڑی۔ دلدادہ فریفتہ ہو گیا۔ اور اس کی جستجو اور فکرِ استحصال میں روزانہ اس کنیسہ تک آتا۔ ایک روز لڑکی نہا کر بال خشک کر رہی تھی۔ یزید دیوانہ ہو کر اسے پکارنے لگا۔ اس رومی النسل حسینہ راہب زادی نے دیکھا اور سوچا کے جیسے کتا چاند پر بھوکتا ہے۔ خبیث میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔ اور یہ وہی بے وفا بےایمان ہے۔ جس نے اپنے نبی کے نواسے کا پاس نہ کیا اور بے رحمی سے شہید کیا۔اس کو کسی ذریعہ سے جان سے مارنا ضروری ہے۔ورنہ حکومت اس کے ہاتھ میں ہے۔ کہیں کچھ گل نہ کھلا دے۔ اپنے باپ سے سب قصّہ کہا ۔اور اپنا ارادہ ظاہر کیا۔باپ نے کہا۔ اچھا جو تیری مرضی۔
اس کے بعد پھر جب یزید آیا تو اسے اشارہ سے کہا۔ کہ سرحون بن منصور کو ساتھ نہ لا۔جب میں تُجھ سے ملوں۔شهوت پرست ۔نا عاقبت اندیش دوسرے دن تنہا یہاں تک آیا۔ اس لڑکی نے گھوڑا کس رکھا تھا۔ یزید کے آتے ہی تلوار دامن قبا میں دبائی اور سوار ہو کر اسکے ساتھ ہولی۔ یہاں تک کہ قریب حمص دشت حوارین میں لے گئی۔ یہاں تک کہ ٹھنڈی ہوا نے اس کے نشے کو بہت ہی بڑھا دیا۔بدمست تھا۔یہ لڑکی پیچھے ہوئی اور نظر بچا کر اس زور سے وار کیا کے گر گیا۔پھر سینے پر چڑھ کر کہنے لگی۔ بےایمان ! اب اپنے مددگاروں کو بلا۔ظالم تُجھ سے تیرے نبی کے نواسوں پر رحم نہ ہوا۔ اُن سے بیوفائی کی۔ تیری طرف سے کون اُمید وفا کر سکتا ہے۔ٹھہر اب تیرا خون پیے لیتی ہوں۔ یہ کہ کر اسکے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔ تین چار روز تک یہ لاش چیل کوؤں کی دعوت میں رہی پھر پتہ لگاتے لگاتے اس کے ہوا خواہ پہنچے اور وہی اس کو دفن کر آئے۔
عقد الفرید طبری وغیرہ میں یوں ہے کے شراب نوشی نے اس کو بہت خراب کردیا تھا۔ پھیپھڑے بالکل بیکار ہو چکے تھے۔ اس پر طرّہ یہ کے کتے اس کے اردگرد رہتے۔ اُن سے کھیلا کرتے۔ زناکار اول درجہ کا تھا۔ غرض کے چند امراض کبدی میں مبتلا ہو کر دست پھرتا مرگیا اور بیرون دمشق دفن ہوا۔
اور علامہ ابو اسحاق اسفرائنی اپنی کتاب نورالعین فی مشہد الحسین میں اسکی موت یوں تحریر فرماتے ہیں کہ یزید ایک ہزار سواروں کے ساتھ شکار کو گیا۔ اور تلاش شکار میں جاتے جاتے دمشق سے دو دن کی راہ پر دور نکل آیا۔ اسے ایک ہرن نظر پڑا۔ اس نے اپنا گھوڑا اس کے پیچھے ڈال دیا۔ یہاں تک کہ لق و دق میدان میں آ پہنچا ۔ہرن تو غائب ہو گیا۔ اور اس کو پیاس نے ستایا۔ مگر کہتا کس سے لشکری سب دور رو گئے۔ آخر پیاس کی بےچینی سے واصل جہنم ہوا۔ اور اسکے پیچھے پیچھے اس کے دس جانثار بھاگے دیوانہ وار آ رہے تھے۔ وہ بھی جب یہاں آپہنچے تو انہیں بھی پیاس نے ٹرپا کر جہنم پہنچا دیا۔ اب لشکری اس کی تلاش کرتے کرتے یہاں آئے تو یہ بھی سب کے سب اسی طرح ہلاک ہوئے اور جب سے اب تک اس جنگل کا نام وادی جہنم ہے۔ والله تعالٰی اعلم۔
بچے کھچے یزیدی متعدد قسم کے عذاب میں مبتلا کیے گئے۔ حرملہ بن کامل جس نے علی اصغر کا حلقوم تشنہ چھیدا تھا۔ اس عذاب میں مبتلا کیا گیا کے اس کا اگلا رخ شکم کی جانب سے ہر وقت جلتا رہتا اور پچھلا پشت کی جانب سے عذاب ز محریر میں مبتلا ہوا۔ پشت کی طرف وہ آگ جلاتا اور آگے ہر وقت پنکھا کرتا۔ پیاس کی یہ شدت بڑھی کے ہر وقت پانی پیتا رہتا۔مگر پیاس نہ بجھتی۔ آخر اس مصیبت سے مارا گیا۔
جابر بن یزید ازدی جس نے عمامہ مبارک لیا تھا۔ مخبوط الحواس ہو گیا۔ موریوں سے پانی پیتا اور گوبر کھاتا ہوا مرا۔ جعونہ حضرمی جس نے پیراہن مبارک اتار کر پہنا تھا۔کوڑھ میں مبتلا ہوا اور سڑ سڑ کر مرا۔ عبدالرحمن بن حصین بھی مبروص ہوا ۔اسود بن حظلہ جس نے تلوار لی تھی جذام میں مرا۔ شمر کے قتل ہوتے وقت سور کی شکل ہوئی۔ خولی بن یزید جب تک قتل نہ ہوا اس وقت تک اس پر مؤکلان عذاب مستولی ہوئے۔روزانہ شب کو اسے اوندھا لٹکاتے اور نیچے آگ جلاتے۔پھر مختار کے ہاتھ سے جہنم پہنچایا گیا ۔نعوذباللہ من غضب الجبار ۔
(اوراق غم،صفحہ۔٥٥٠)