async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD

Tuesday, September 14, 2021

Mahnama Hashmat Ziya in urdu (11)

 مقدس بارگاہوں کے درودیوار چومنا

از- امام اہلسنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ

علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ بزرگوں کی قبر پر جانے کے وقت دروازے کی چوکھٹ چومنا اور پھر باوجود تعظیم اس پر پیر رکھ کے اندر جانا کیسا ہے؟ بینوا توجروا

 اصل کلی یہ ہے کہ تعظیم ہر منتسب بارگاہ کبریا علی الخصوص محبوبان خدا انحائے تعظیم حضرت عزت جل وعلا ہے۔

قال اللہ تعالٰی : ومن یعظم حرمت ﷲ فھو خیر لہ عندربہ ۔


جو اللہ تعالٰی کی حرمتوں کی تعظیم کرے تووہ بہتر ہے اس کے لئے اس کے پروردگار کے یہاں۔


 وقال تعالٰی : ومن یعظم شعائر ﷲ فانھا من تقوی القلوب 


جو اللہ کے شعاروں کی تعظیم کرے وہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہیں۔



رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :۔

بوڑھے مسلمان اور عالم باعمل اور حاکم عادل کی تعظیمیں اللہ تعالٰی کی تعظیم سے ہیں۔ (اسے ابوداؤد نے ابوموسٰی الاشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسند حسن روایت کیا۔ )


اور علمائے کرام قدیما وحدیثافقہا وحدیثا تصریحات فرماتے ہیں کہ حرمۃالمسلم حیا ومیتا سواء،

مسلمان زندہ ومردہ کی حرمت یکساں ہے، ولہذا علماء نے وصیت فرمائی کہ قبر سے اتنا ہی قریب ہوجتنا زندگی دنیامیں صاحب قبر سے قریب ہوسکتا ہے اس سے زیادہ آگے نہ جائے،


عالمگیریہ میں ہے :

فی التہذیب یستحب زیارۃ القبور وکیفیۃ الزیارۃ کزیارۃ ذٰلک المیت فی حیاتہ من القرب والبعد کذا فی خزانہ الفتاوٰی ۔

تہذیب میں ہے زیارت قبورمستحب ہے۔ زیارت کی کیفیت یہ ہے کہ  جتنا قرب وبعد میت کی زندگی میں اس کی زیارت کے لئے ہوتا تھا بعد مرگ بھی اتناہی ہو، خزانہ الفتاوٰی میں یونہی ہے۔


اور شک نہیں کہ تعظیم وتوہین کا مدار عرف وعادت پر ہے


کما حققہ خاتمۃ المحققین سیدنا الوالد قدس سرہ فی اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد


 (جیسا کہ خاتمۃ المحققین سیدنا الوالد قدس سرہ نے


_اصول الرشاد لقمع مبانی الفساد_ میں اس کی تحقیق کی ہے)۔ تو جس کی تعظیم شرعا مطلوب ہے وہاں جو جو افعال وطرق حسب عرف وعادت قوم کئے جاتے ہیں اسی مطلوب شرعی کی تحت میں داخل ہوں گے جب تک کسی خاص فعل سے نہی شرعی نہ ثابت ہو، جیسے سجدہ یا قبر کی طرف نماز کہ یہ شرعا ممنوع ہیں۔


و لہذا امام محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر،  پھر علامہ ابن سندھی نے لباب میں اور ان کے سوا اور علمائے کرام نے زیارت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں فرمایا 


کلمہ کان ادخل فی الادب والاجلال کان حسناً

جو کچھ تعظیم واجلال میں زیادہ داخل ہوں خوب ہے۔


ابن حجر مکی نے جوہر منظم میں فرمایا :


تعظیم النبی صلی تعالٰی علیہ وسلم بجمیع انواع التعظیم التی لیس فیہا مشارکۃ اﷲ تعالٰی فی الالوھیۃ امر مستحسن عند من نور اﷲ ابصارھم 


نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ان جمیع اقسام تعظیم کے ساتھ جس میں حضرت عزت سے الوہیت میں شریک کرنا لازم نہ آئے امرمستحسن ہے ان سب کے نزدیک جن کی آنکھیں اللہ تعالٰی نے روشن کی ہیں یعنی جنھیں نور ایمان بخشا ہے۔


ومن لم یجعل ﷲ لہ نورا فمالہ من نور 

اور جسے اللہ نور نہ دے اس کے لئے کہیں نور نہیں۔ 

جب یہ اصل کلی معلوم ہو ہوگئی حکم صور مسئولہ منکشف ہوگیا آستانہ بوسی پر یہ اعتراض کہ اول چومیں گے پھر پاؤں رکھ کر جائیں گے محض نادانی ہے کعبہ معظمہ ومسجد حرام شریف میں بھی یہی صورت ہے اور ضرورت ایک دوسرے کے منافی نہیں۔

منسک متوسط میں ہے :


ثم یأتی الملتزم ویأتی الباب ویقبل العقبۃ ویدعو  ود خل البیت۔ الخ۔


طواف کرنے والا ملتزم پر آئے اور دروازے پر آکر چوکھٹ کو بوسہ دے اور دعا کرکے اندر داخل ہو۔ الخ 


مسلک متقسط میں ہے :


ان یدخل المسجد من باب السلام حافیا وزاد فی کنز العباد ویقبل عتبتہ (ملخصا)


مسجد حرام میں باب السلام سے ننگے پاؤں داخل ہو، کنز العباد میں یہ لفظ زائد ہے اور بوسہ دے چوکھٹ کو، ملخصا۔


اور شک نہیں کہ آستانہ بوسی عرفا انحائے تعظیم سے ہے اور شرعا اس سے منع ثابت نہیں تو حکم جوازچاہئے،


اقول وباﷲ التوفیق


 (میں اللہ تعالٰی کی توفیق سے کہتاہوں۔) مگریہاں ایک دقیقہ انیقہ اور ہے جس پر اطلاع نہیں ہوتی مگر بتوفیق حضرت عزت عزجلالہ شرع مطہرہ کا قاعدہ عظیمہ وجلیلہ معروفہ ومشہورہ ہے کہ


_الامور بمقاصد ھا_


 (امور میں مقاصد کا اعتبار ہے۔ )


رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:


انما الاعمال بالنیات وانکا لکل امری مانوی 


اعمال نیات کے ساتھ ہیں اور ہر شخص کو وہی حاصل ہوگا جس کی وہ نیت کرے۔ 


انحنا یعنی جھکنے او رپیٹھ دوہری کرنے سے کسی کی تعظیم شرعا مکروہ ہے اور جب بقدر رکوع یا اس سے زائد ہو تو کراہت سخت واشد ہے۔


حدیث میں ہے :


قال رجل یارسول ﷲ الرجل منا یلقی اخاہ اوصدیقہ اینحنی لہ قال لا الحدیث، رواہ الترمذی وابن ماجۃ عن انس رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔


ایک صحابی نے عرض کی یا رسول ﷲ! ہم اپنے کسی بھائی یا دوست کو ملتے ہیں تو کیا ملاقات میں اس کے لئے جھکا جائے تو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں۔ الحدیث، اس کو ترمذی نے اور ابن ماجہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ 


عالمگیری میں ہے :


الانحناء للسلطان اولغیرہ مکروہ لانہ یشبہ فعل المجوس کذا فی جواھر الاخلاطی، ویکرہ الانحناء عندالتحیۃ وبہ وردالنھی کذا فی التمرتاشی، تجوز الخدمۃ لغیرہ اﷲ تعالٰی بالقیام واخذ الیدین والانحناء و لایجوز السجود الا ﷲ تعالٰی کذا فی الغرائب۔ انتہٰی قلت وکان محمل ھذا علی ما اذا لم یبلغ الرکوع فیکرہ تنزیھا وھو یجامع الجواز کما نصوا علیہ واﷲ تعالٰی اعلم۔


سلطان وغیرہ کے لئے جھکنا مکروہ ہے کیونکہ یہ عمل مجوس کے فعل کے مشابہ ہے جیسا کہ جواہر الاخلاطی میں ہے۔ اور سلام کے وقت جھکنا مکروہ ہے اس پر نہی وار دہے۔ جیسا کہ تمرتاشی میں ہے۔ غیر اللہ کی تعظیم کے لئے قیام، مصافحہ، اور جھکنا جائز ہے ہاں سجدہ سوائے اللہ تعالٰی کے کسی کےلئے جائز نہیں ہے۔ یوں غرائب میں ہے میں کہتاہوں اس قیام کا محمل وہ قیام ہے جو رکوع کی حدتک نہ ہو کیونکہ یہ مکروہ تنزیہی ہے۔ یہ کراہت جواز کوجامع ہے جیسا کہ فقہاء نے اس پر نص فرمائی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ 


مگر محل ممانعت یہی ہےکہ نفس انحاء ہے مقصود اصل غرض تعظیم ہو۔


کما ھو مفاد قولہ اینحنی لہ، وفحوی قولھم عندا لتحیۃ، ویعطیہ الحصر فی قولھم بہ وردالنھی۔


جیسا کہ سائل کے قول __کیا اس کے لئے جھکے__ اور فقہاء کے قول __عندالتحیۃ__سے مفاد اور ان کے قول __بہ وردالنھی__ نے اس کا حصر دیا ہے۔ 


اور اگر مقصود کوئی اور فعل ہے اور انحناء خود مقصود نہیں بلکہ اس فعل کا محض وسیلہ وذریعہ ہے تو ہر گز ممانعت نہیں


وھو اظھر من ان یظھر


 ( یہ ظاہر سے اظھر ہے۔ ) عالم دین یا سلطان عادل کی خدمت کے لئے اس کا گھوڑا باندھنا یا کھول کر حاضر لانا یا بچھونا کرنا، یا وضو کرانا، پاؤں دھلانا یا اس کا جوتا اٹھانا یا مجلس سے اٹھتے وقت اس کی جوتیاں سیدھی کرنا،یہ سب افعال تعظیم وتکریم ہی ہیں اور ان کے لئے جھکنا ضرور مگر انحناء زنہار ممنوع نہیں کہ مقصود ان افعال سے تعظیم ہے نہ جھکنے سے، یہاں تک کہ اگر بے جھکے یہ افعال ممکن ہو جھکنا نہ ہوگا۔


حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بستر مبارک بچھانا، وضو کرانا، حضور جب مجلس میں تشریف رکھیں نعلین اقدس اٹھاکر اپنے پاس رکھنا جب تشریف لے چلے حاضر لاکر سامنے رکھنا، یہ دونوں جہان کی عزتیں مبارک، معزز خدمتیں بارگاہ رسالت ہے۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سپرد تھی، بخاری شریف میں حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے :


اولیس عندکم ابن ام عبد صاحب النعلین والوسادۃ والمطھرۃ ۔


کیا تمھارے ہاں نعلین اور بستر، طہارت والے ابن ام عبد (عبداللہ بن مسعود) موجود نہیں۔ 


مرقاۃ میں ہے :


قال القاضی یرید بہ انہ کان یخدم الرسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ویلازمہ فی الحالات کلھا فیصاحبہ فی المجالس ویأخذ نعلہ ویضعھا اذا جلس وحین نھض ویکون معہ فی الخلوات فیسوی مضجعہ ویضع وسادتہ اذا ارادان ینام ویھی لہ طہورہ ویحمل معہ المطھرۃ اذا قام الی الوضوع۔


قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی نے فرمایا : مراد یہ ہےکہ حضرت عبداللہ ابن مسعود حضور کی خدمت میں تمام وقت حاضر رہتے تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مجلسوں میں ساتھ رہ کر آپ کے نعل مبارک اٹھاتے اور رکھتے جب تشریف فرما ہوتے اور مجلس سے اٹھتے اور تخلیہ میں آپ کے ساتھ رہتے آپ کے بستر مبارک کو درست بچھاتے اور تکیہ رکھتے جب آپ نے آرام فرمانا ہوتا اور طہارت کا انتظام کرتے اور آپ کے ہمراہ لوٹا لے جاتے جب آپ قضائے حاجت کے لئے باہر تشریف لے جاتے۔


اور سب سے اظہر وازہر وہ حدیثیں ہیں جن میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے قدم مبارک چومنا وارد فقیر نے یہ حدیثیں اپنے فتاوٰی میں جمع کردی ہیں، از انجملہ حدیث وفد عبدالقیس کہ امام بخاری نے ادب مفرد اور ابوداؤد نے سنن میں حضرت زارع بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی:


فجعلنا نتبادر فنقبل ید رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ورجلہ۔


ہم ایک دوسرے سے بڑھ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پاؤں چومتے تھے 


ظاہر ہے کہ پاؤں چومنے کے لئے تو زمین تک جھکنا ہوگا مگر سیدعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جائز رکھا کہ مقصود بوسہ قدم سے تعظیم ہے نہ کہ نفس انحناء، یہی سر نفیس ہے کہ علماء کرام نے تحیت ومجرا کےلئے زمین بوسی کو حرام بتایا کہ اس میں جھکنے ہی سے تعظیم کی جاتی ہے یہاں تک کہ زمین کو منہ لگادیا۔


عالمگیریہ میں ہے :


من سجد للسطان علی وجہ التحیۃ او قبل الارض بین یدیہ لایکفر ولکن یاثم لارتکابہ الکبیرۃ وھوالمختار کذا فی جواہر الاخلاطی وفی الجامع الصغیر تقبیل الارض بین یدی العظیم حرام وان الفاعل والراضی، اثم کذا فی التاتارخانیہ،وتقبیل الارض بین یدی العلماء والزھاد فعل الجھال والفاعل والراضی اٰثمان کذا فی الغرائب۔ انتہی باختصار،


جس نے سلطان کی سلامی کے لئے سجدہ کیا یا زمین کو بوسہ دیا کافر نہ ہوگا، لیکن کبیرہ گناہ کے ارتکاب کی بناء پر گنہگار ضرور ہوگا پس یہی مختار ہےجیسا کہ جواہر الاخلاطی میں ہے۔ اور جامع صغیر میں ہے عظیم (سلطان) کے سامنے زمین کو بوسہ دینا حرام ہے۔ جبکہ یہ کام کرنے والا اور اس پر خوش ہونے والا گنہگار ہوگا، یوں تاتارخانیہ میں ہے  اور علماء اور زاہد لوگوں کے سامنے زمین کو بوسہ دینا جہالت ہے۔ ایسا کرنے والے اور اس پر خوش ہونے والے سب گنہگار ہوں گے جیسا کہ غرائب میں ہے انتہی باختصار


اور علماء کبار بے نکیروانکار زمین مدینہ طیبہ کو بوسہ دینے اور اس کی خاک پرمنہ اور رخسار ملنے کی قسمیں کھاتے ہیں اور ممکن ہو تو وہاں آنکھوں اور سر سے چلنے کی تمنائیں فرماتے ہیں اور اسی کو واجب بلکہ پورے واجب سے بھی کم بتاتے ہیں کہ یہاں تعظیم بالانحناء مقصود نہیں بلکہ براہ محبت بطور تبرک اس زمین پاک کو بوسہ دینا اس کی خاک سے چہرہ نورانی کرنا بن پڑے تو پاؤں رکھنے سے اس عظمت والے مقام کو بچانا،


اما م اجل قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں فرماتے ہیں :


وجدیرلمواطن اشتملت تربتھا علی جسد الشریف ومواقف سید المرسلین و متبوأ خاتم النبیین واول ارض مس جلد المصطفٰی ترابھا ان تعظم عرصاتھا وتتنسم نفحاتھا وتتقبل ربوعھا و جدارتھا


 وعلیّ عھد ان ملات محاجری


من تلکم الجدرات والعرصات


لاعفرن مصون شیبی بینھما


 من کثرۃ التقبیل والرشفات 


 مختصرا۔


یعنی لائق ہے ان موضع کو جن کی زمین جسم پاک سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر مشتمل ہے۔ سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی قیام گاہیں خاتم النبیین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جائے قرار اور پہلی وہ زمین جس کی مٹی نے جسم پاک مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے مس کیا کہ اس کے میدانوں کی تعظیم کی جائے اور  اس کی مہکتی ہوئی خوشبوئیں سونگھی  جائیں اور منزلیں اور دیواریں چومی جائیں۔ اور مجھ پر عہد ہے کہ اپنی آنکھوں کے گوشے ان دیواروں اور میدانوں سے بھروں گا، خدا کی قسم میں اپنی سفید داڑھی کہ گرد وغبار سے بچائی جاتی ہے ان میدانوں میں کثرت بوسہ بازی سے ضرور خاک آلودہ کروں گا۔ مختصرا۔


علامہ سندھی تلمیذ امام ابن الہمام نے لباب المناسک میں فرمایا :

اذا وقع بصرہ علی طیبۃ المطیبۃ واشجارھا العطرۃ دعا بخیرالدارین وصلی وسلم علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم والاحسن ان ینزل عن راحلتہ بقربھا، ویمشی باکیا حافیا ان اطاق تواضعا ﷲ ورسولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وکلما کان ادخل فی الادب والاجلال کان حسنا بل لو مشی ھناک  علی احداقہ و بذل المجھود من تذللہ وتواضعہ کان بعض الواجب بل لم یف بمعشار عشرہ ۔ اللھم صلی وسلم وبارک علیہ وعلی الہ وصحبہ کما ینبغی لاداء حقہ العظیم اٰمین۔


یعنی جب مدینہ طیبہ اور اس کے مہکتے ہوئے درختوں پر نظر پڑے دونوں جہان کی بھلائی مانگے، اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے صلٰوۃ و سلام عرض کرے اور بہتر یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے قریب سواری سے اترے اور ہوسکے تو روتا ہوابرہنہ پاچلے اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  کے واسطے تواضع کے لئے اور جو کچھ ادب و تعظیم میں زیادہ دخل رکھے خوب ہے بلکہ وہاں آنکھوں کے بل چلے اور تذلل وفروتنی میں پوری کوشش خرچ کردے تو واجب کا ایک حصہ ہو بلکہ سوواں بھی ادا نہ ہوا۔ یا اللہ! صلوٰۃ وسلام اور برکت ہوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کی آل واصحاب پر کما حقہ۔ آمین۔


امام احمد قسطلانی صاحب ارشاد الساری شرح صحیح بخاری مواہب شریف میں امام حافظ الحدیث فقیہ علامہ ابوعبداللہ محمد بن رشید سے نقل فرماتے ہیں  : سفر مدینہ طیبہ میں میرے رفیق ابوعبداللہ وزیر ابن القاسم بن الحکم ساتھ تھے ان کی آنکھیں دکھتی تھیں جب میقات مدینہ طیبہ پرآئے ہم سواریوں سے اتر لئے، پیادہ چلتے ہیں انھیں آثار شفا نظر آئے، فورا حسب حال ارشاد کیا: ؎


وبالتراب منہا اذا کحلنا جفوننا     شفینا فلا بأ سا نخاف ولا کربا

نسح سجال الدمع فی عرصاتہ      ونلثم من حب لواطئہ الترابا 


جب اس کی خاک کا ہم نے سر مہ لگایا شفاء پائی تو اب کسی شدت وتکلیف کا اندیشہ نہیں ہم آنسوؤں کے ڈول اس کے میدانوں میں بہاتے ہیں اور اس زمین پر چلنے  والے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی محبت میں خاک کو چومتے ہیں۔



پھر خود اپنے حال میں فرماتے ہیں جب ہم مدینہ طیبہ کے قریب پہنچے اور سب اہل قافلہ پیادہ ہوئے میں نے کہا: 


اتیتک زائرا  ووددت انی     جعلت سواد عینی امتطیہ

ومالی  لا  اسیر علی المآتی     الی قبر رسول اﷲ فیہ 


میں زیارت کے لئے حضور میں حاضر ہوا اور تمنا تھی کہ اپنے آنکھ کی پتلی پر اس راہ میں چلوں اور کیوں نہ چلوں آنکھوں کے بل اس مزار پاک کی طرف جس میں رسول اللہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جلوہ فرمائیں۔


علامہ شہاب الدین خفاجی مصری نسیم الریاض شفاء قاضی عیاض میں فرماتے ہیں :


کان الشیخ احمد بن الرفاعی کل عام یرسل مع الحجاج السلام علی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فلما زارہ وقف تجاہ مرقدہ وانشد: 

فی حالۃ البعد روحی کنت ارسلھا    تقبل الارض عنی فھی نائبتی

وھذہ نوبۃ الاشباح قد حضرت         فامدد یدیک لکی تحظی بھا شفتی

فقیل ان الید الشریفۃ بدت لہ فقبلھا         فھنیئا لہ ثم ھنیئا ۔


یعنی امام اجل قطب اکمل حضرت سید احمد رفاعی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہر سال حاجیوں کے ہاتھ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر سلام عرض کربھیجتے ،جب خود حاضر آئے مزار اقدس کے سامنے کھڑے ہوئے اور عرض کی:


__میں جب دور تھا تو اپنی روح بھیج دیتا کہ میری طر ف سے زمین کو بوسہ دے تو وہ میری نائب تھی، اور اب باری بدن کی ہے۔ کہ جسم خود حاضر ہے دست مبارک عطا ہو کہ میرے لب اس سے بہرہ پائیں۔ کہا گیا کہ دست اقدس ان کے لئے ظاہر ہوا انھوں نے بوسہ دیا تو بہت بہت مبارکی ہو ان کو۔


علامہ احمد بن مقری فتح المتعال میں فرماتے ہیں جب امام اجل علامہ تقی الملۃ والدین ابوالحسن علی سبکی ملک شام میں بعد وفات امام اجل ابو زکریا مدرسہ جلیلہ اشرفیہ میں دارالحدیث کےدرس دینے پر مقرر ہوئے فرمایا:


وفی دارالحدیث لطیف معنی     الی بسط لھا اصبو واٰوی


لعلی ان امس بحر وجھی     مکانا مسہ قدم النواوی 


_دارالحدیث میں ایک معنی لطیف ہے میں اس کے بستروں کی طرف میل کرتااور قرار پکڑتاہوں شاید میرا چہرا لگ جائے اس جگہ پر جہاں امام نوری کے قدم چھوگئے ہوں۔



خلاصہ امر یہ قرار پایا کہ اگر آستانہ بلند ہو کہ بے جھکے بوسہ دے سکے تو بلا شبہ اجازت ہے۔ اور اگر  پست خصوصا زمین دوز ہو تو اگر ولی زندہ یا مزار سامنے ہے اس کے مجرے کی نیت سے جھک کر بوسہ دیا تو ناجائز ہے۔ اور اگر محض بنظر تبرک وحب اپنے ہی نفس انحنا سے تعظیم مقصود نہ ہو تو کچھ حرج نہیں،


ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ تعالٰی ولی التوفیق


 (یوں تحقیق چاہئے اللہ تعالٰی ہی توفیق کا مالک ہے۔ ت) پھر بھی عالم متقدا اور اسی طرح پیر اور اس شخص کو جس کے کچھ اتباع ہوں کہ  اس کے افعال کا اتباع کریں اسے مناسب ہے کہ اپنے عوام متبعین کے سامنے نہ کرے مبادا وہ فرق نیت پر آگاہ نہ ہوں اور اس کے فعل کو سند جان کر بے محل بجالائیں، ایسی حالت میں صرف اس قدر کافی ہے کہ آستانہ کو ہاتھ لگا کر اپنی آنکھوں اور منہ پھیرلے جس طرح عبداللہ بن عمر غیرہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم منبر انور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے،


شفاء شریف میں ہے :


روی ابن عمرو اضعایدہ علی مقعبد النبی صلی ﷲتعالٰی علیہ وسلم المنبر ثم وضعھا علی وجہ، وعن ابن قسیط والعتبی کان اصحاب النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذا خلا المسجد حسوا امّانۃ المنبر التی تلی القبر بمیامنھم ثم استقبلوا القبلۃ یدعون 


مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما منبر پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بیھٹنے کی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھتے پھر اپنے چہرے پر ہاتھ کو رکھتے۔ ابن قسیط او رعتبی سے مروی ہے۔ کہ صحابہ کرام جب مسجد نبوی میں داخل ہوتے تو قبر انور کے کناروں کو اپنے دائیں ہاتھ سے مس کرتے اور پھر قبلہ رو ہوکر دعا کرتے۔ 


یہ دونوں حدیثیں امام ابن سعد نے کاب الطبقات میں روایت کیں


کما فی مناھل الصفا فی تخریج احادیث الشفاء


 (جیسا کہ مناہل الصفا فی احادیث الشفا میں ہے۔)


علامہ خفاجی نسیم الریاض میں فرماتے ہیں :


وھذا یدل علی جوز التبرک بالانبیاء والصالھین واٰثارھم ومایتعلق بھم مالم یؤد الی فتنۃ اوفساد عقیدۃ و علی ھذا یحمل ماروی عن ابن عمر (عہ) رضی اﷲ تعالٰی عنہ من انہ قطع الشجرۃ التی واقعت تحتھا البیعۃ لئلا یفتتن بھا الناس لقرب عھدھم بالجاھلیۃ فلامنافاۃ بینھما ولاعبرۃ بمن انکر مثلہ من جھلۃ عصر نا وفی معناہ انشدوا  


امر علی الدیار لیلٰی     اقبل ذاالجدار  وذاالجدارا


وصاحب الدیار شغفن قلبی    ولکن حب من سکن الدیارا 


واﷲ تعالٰی اعلم۔


یہ واقعہ اس بات پر دال ہے کہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام اور صلحاء اور ان کے آثار اور متعلقات سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے جبکہ فتنہ اور عقیدے کے فسا د کا احتمال نہ ہو اسی معنی پر محمول ہے جو عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے بیعت رضوان والے درخت کو کاٹ دیا تاکہ نومسلم لوگ اس درخت کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں تو تبرک کے جواز اور درخت کٹوانے میں منافات نہیں ہے اور ہمارے زمانے کے جاہلوں کا جو ایسے امور کا انکار کرتے ہیں کوئی اعتبار نہیں اہل محبت آثار کے متعلق شعر کہتے ہیں


میں خاص دیار پر جو لیلٰی کا دیا رہے گزرتاہوں، میں اس  دیوار اور اس دیوار کو بوسہ دیتاہوں، دیار والے میرے دل میں گھر کر چکے ہیں لیکن دیار میں رہنے والوں سے محبت ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

(فتاویٰ رضویہ شریف،جلد ٢٢، صفحہ ٣٦٦)