async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD

Thursday, September 16, 2021

Mahnama Hashmat Ziya in urdu (13)

 از:-امام ضیاءالدین ابی عبداللہ محمد بن عبدالواحد حنبلی رضي الله عنه



شیخین پر تبرا کرنے والے کا انجام :

حضرت خلف بن تمیم کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابو الخصیب بشیر کو فرماتےہوئے سنا کہ میں ایک دولت مند تاجر تھا اور کسری کے شہر مدائن میں رہتا تھا یہ ابن ہبیرہ کے زمانے کی بات ہے۔ان کا بیان ہے کہ ایک مزدور نے آکر مجھے بتایا کہ مدائن کے ایک مسافر خانے میں ایک شخص کی موت ہو گئی ہے، اس کے پاس کفن نہیں ہے، یہ سن کر میں چل پڑا یہاں تک کہ مسافر خانے میں پہنچ گیا، تو مجھے ایک میت کے پاس لے جایا گیا جو کپڑے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اس کے پیٹ پر ایک اینٹ تھی، اس کے پاس اس کے ساتھیوں کی ایک جماعت تھی، انہوں نے مجھے اس کی عبادت اور بزرگی کے بارے میں بتایا، تو میں نے کفن وغیرہ خریدنے کے لئے ایک شخص کو بھیجا، اور گور کن کو قبر کھودنے کے لئے بھیجا ہم نے اس کے لیے اینٹوں کا انتظام کیا اور غسل دینے کے لئے پانی گرم کرنے لگے، اسی درمیان وہ اٹھ بیٹھا اور اس کے پیٹ سے اینٹ گر گئی اور وہ چلانے لگا: ہائے تباہی ! ہائے بربادی ! ہائے آتش جہنّم ! یہ دیکھ کر اس کے ساتھی اس سے دور ہو گئے، میں نے اس کے قریب جا کر اس کا بازو پکڑ کر ہلایا اور پوچھا: تم نے کیا دیکھا؟ کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ میں کوفہ کے مشائخ کی صحبت میں رہا کرتا تھا، انہوں نے مجھے اپنے دین میں داخل کر لیا جس میں حضرت ابو بکر و عمر کی شان میں گستاخی اور تبرا کیا جاتا تھا، میں نے کہا استغِرُاللہ ، دوبارہ ایسا مت کرنا، اس نے جواب دیا: 


مجھے فائدہ نہ ہوگا کیوں کہ مجھے جہنّم میں میرے ٹھکانے تک لے جایا گیا میں نے اسے دیکھا اور مجھ سے کہا گیا کہ تم اپنے ساتھیوں کے پاس واپس جاؤ اور جو کچھ تم نے دیکھا ہے انہیں بتاؤ پھر اپنی حالت پر لوٹ آنا ۔

جیسے ہی اس کی بات پوری ہوئی وہ مردہ ہو کر گر پڑا۔ پھر میں  انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ کفن لایا گیا اور میں نے کفن لے لیا اور کھڑے ہو کر کہا کہ میں نہ تو اسے کفن دوں گا نہ غسل اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھوں گا ، پھر واپس چلا آیا ، بعد میں مجھے معلوم ہوا جو لوگ اس کے ساتھ تھے۔ اس کے ہم خیال تھے اور اس کے غسل ، دفن اور نماز جنازہ کے ذمّہ دار تھے، حضرت خلف کا بیان ہے کہ میں نے کہا اے ابو الحضیب ! یہ جو بات آپ نے بتائی اس وقت آپ حاضر تھے؟ انہوں نے کہا میری نگاہوں نے اُسےدیکھا ، میرے کانوں نے اُسے سنا اور میں اُسے لوگوں تک پہنچاؤں گا۔


شیخین کا گستاخ خنزیر بن گیا:

محیاہ تیمی کہتے ہیں کہ قبیلۂ عک کے موذن نے مجھ سے بیان کیا کہ میں اپنے چچا کے ساتھ مکران گیا تھا۔ ہمارے ساتھ ایک شخص اور تھا جو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کی شان میں گستاخی کرتا تھا، ہم نے اسے منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا۔ پھر ہم نے کہا ہم سے الگ ہو جاؤ۔ چناچہ وہ الگ ہو گیا۔جب روانگی کا وقت قریب آیا تو ہمیں ندامت ہوئی ، میں نے کہا کاش وہ کوفہ جانے تک ہمارے ساتھ رہتا ، پھر اس کے ایک غلام سے ملاقات ہوئی ہم نے اس سے کہا کہ اپنے آقا سے کہہ  دینا ہمارے پاس واپس آجائے اس نے کہا میرے آقا کے ساتھ ایک بہت بڑا حادثہ پیش آ گیا ہے،اس کے دونوں ہاتھ خنزیر کے ہاتھوں کی طرح ہو گئے ہیں۔ 

راوی کا بیان ہے کہ ہم نے اس کے پاس جا کر کہا کہ ہماری طرف لوٹ آؤ ، اس نے کہا کہ میرے ساتھ ایک بہت بڑا حادثہ ہو گیا ہے ، پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ نکالےمیں نے دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ خنزیر کی طرح ہو گئے ہیں۔پھر وہ ہمارے ساتھ ہو گیا یہاں تک کہ ہم شہر سے متصّل ایک گاؤں پہنچے جہاں بہت سے خنزیر تھے جب اس نے انہیں دیکھا تو ایک زور دار چیخ ماری اور اچھل پڑا اس کی صورت خنزیر کی طرح ہو گئی پھر وہ ہم سے روپوش ہو گیا اور ہم اس کے غلام اور سازو سامان کے ساتھ کوفہ چلے آئے۔


ایک گستاخ رافضی کا انجام :

ابو محمد خراسانی کا بیان ہے کہ خراسان میں ایک بادشاہ تھا، اس کا ایک عبادت گزار خادم تھا، جب حج کی تیاری ہونے لگی تو اس نے اپنے آقا سے حج کی اجازت مانگی ، لیکن اس نے اجازت نہ دی، خادم نے کہا میں نے آپ سے اللّٰہ و رسول کی اطاعت کی اجازت مانگی ہے ، اس نے کہا میں نہیں دیتا: میری ایک ضرورت کی ذمہ داری لے لو، اگر ایسا کرو تو اجازت دوں گا۔ ورنہ اجازت نہیں دوں گا۔ خادم نے کہا بتائیے۔ اس نے کہا میں تمہارے ہمراہ اونٹنی، بار بردار اونٹ خدام اور کچھ لوگوں کو بھیجوں گا ، جب تم روضہ رسول پہنچ جانا تو کہنا: یا رسول اللہ میرے آقا نے کہا ہے کہ میں آپ کے ساتھ آرام کرنے والے دونوں ساتھیوں سے بیزار ہوں، خادم کا بیان ہے کہ میں نے کہا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر ۔جب کہ میرا رب خوب جانتا ہے کہ میرے دل میں کیا تھا۔ پھر میں مدینہ منورہ پہنچا ، فوراً روضہ رسول حاضری دی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما کی بارگاہ میں سلام پیش کیا، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں یہ برا پیغام پہنچانے میں شرم آ رہی تھی ، پھر میں روضہ رسول کے مقابل مسجد نبوی شریف میں سو گیا،میری آنکھ لگ گئی،میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا قبر انور کی دیوار کھل گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے ، آپ سبز کپڑے زیب تن فرمائے ہوئے تھے۔ اور آپ کے سامنے مشک کی خوشبو پھوٹ رہی تھی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی داہنی جانب تھے۔اُن کے جسم پر سبز لباس تھا ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بائیں جانب تھے وہ بھی سبز لباس زیب تن فرمائے ہوئے تھے، نبی کریم ﷺ مجھ سے فرما رہے تھے: اے ہوشیار شخص! کیا ہوا تو نے پیغام نہیں پہنچایا ؟

میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ کے دونوں ساتھیوں کے بارے میں اپنے آقا کی بات بتانے میں شرم آ رہی تھی ، پھر حضور نے مجھ سے فرمایا کہ یاد رکھو، جب تم حج کرو گے اور انشاء اللہ بخیر و عافیت خراسان پہنچو گے ۔ خراسان پہنچنا تو اس سے کہہ دینا کہ نبی کریم ﷺ نے تیرے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ و رسول اس شخص سے بیزار ہیں جو ان دونوں حضرات سے بیزار ہے۔ سمجھ گئے میں نے عرض کیا: ہاں، یا رسول اللہ ﷺ پھر فرمایا کہ یاد رکھنا وہ تمہارے پہنچنے کے چوتھے ہی دن مر جائیگا، سمجھ گئے؟میں نے عرض کیا ہاں،پھر فرمایا یاد رکھوکہ اس کے چہرے پر مرنے سے پہلے ایک پھوڑا نکلے گا، بات سمجھ میں آئی؟ میں نے کہا ہاں یا رسول اللہ ﷺ  ! اس کے بعد میری نیند کھل گئی اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیامجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی زیارت نصیب ہوئی اور اللہ نے مجھے برا پیغام پہنچانے سے بچا لیا، میں نے حج کیا اور بخیر و عافیت خراسان پہنچا اور اپنے آقا کے پاس بیش قیمت تحائف لے کر گیا،دو دنوں تک اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی،تیسرے دن پوچھا کہ تم نے میری ضرورت کے متعلق کچھ کیا؟میں نے کہا:ہاں، اس نے کہا: پھر کیا ہوا ؟ میں کہا میرے آقا آپ جواب نہیں سن سکتے، اس نے کہا: بیان تو کرو۔میں نے سارا واقعہ بیان کر دیا، اور جب اس بات پر پہنچا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاہے کہ اس سے جاکر کہہ دینا کہ اللہ و رسول اس شخص سے بیزار ہیں جو ان دونوں حضرات سے بیزاری کا اظہار کرے ، اس نے ہنس کر کہا کہ ہم ان سے بیزار اور وہ ہم سے بیزار ، اب سکون ملا، میں نے اپنے دل میں کہا اے دشمنِ خدا! بہت جلد تجھے پتہ چل جائے گا،میرے پہنچنے کے چوتھے دن اس کے چہرے پر ایک تکلیف دہ پھوڑا نکلا، چنانچہ وہ ظہر کی نماز بھی نہ پڑھ سکا کہ اس کی وفات ہو گئی اور ہم نے اسے دفن کر دیا۔


حضرت عبدالوہاب بن علی نے ایک شخص کے بارے میں بیان کیا کہ جب میں حج کے ارادے سے نکلا تو اس نے مجھ سے کہا کہ بارگاہ رسالت میں میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ آپ کے ساتھ ہونے والے دونوں(حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) نہ ہوتے تو میں آپ کی زیارت کے لیے آتا۔

راوی کا بیان ہے کہ جب میں مدینہ منورہ پہنچا اور روضہ رسول کی زیارت سے فارغ ہوا تو اس کی یہ بات بیان کر دی۔ پھر خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی آپ نے مجھ سے فرمایا کہ یہ اُسترا دیکھو میں نے دیکھا، حضور نے اس کا وزن کیا تو مجھے معلوم ہو گیا کہ اس کا وزن کتنا ہے۔پھر اس  شخص کے پاس تشریف لے گئے جس نے پیغام بھیجا تھا اور اُسے ذبح کر دیا۔ جب میں اس بستی میں آیا جہاں وہ شخص رہتا تھا تو چیخ و پکار کی آواز سنی، بستی والوں کے پاس ہتھیار تھے، میں نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ انہوں نے بتایا اسی رات فلاح شخص کو ذبح کر دیا گیا ہے اور اسے بنی فلاح (قبیلے کانام لے کر کہا) نے ہی قتل کیا ہے، میں نے کہا مجھے دکھاؤ، پھر میں اس کے پاس گیا وہ ذبح کر دیا گیا تھا اور وہ اُسترا جو رسول اللہ ﷺ کے پاس تھا اس کے قریب رکھا ہوا تھا، میں نے ان لوگوں سے کہا اسے نبی کریم ﷺ نے ذبح کیا ہے اور اُن سے سارا واقعہ بیان کر دیا، پھر میں نے ابو محمد سے پوچھا یہ واقعہ کہا پیش آیا تھا؟ اُنہوں نے بتایا کہ عسقلان کے ساحل پر۔


حیان نحوی کا بیان ہے کہ میرا ایک ساتھی تھا جو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو برا بھلا کہتا تھا، میں اسے روکتا تو وہ بھڑک جاتا، پھر میں اس کے پاس سے اٹھ کر چلا آتا، ایک روز اس نے اُن دونوں حضرات کو برا بھلا کہا میں ناراض ہو کر چلا آیا، اور اس کی اس بات سے غم زدہ ہو گیا تھا، کیونکہ میں اس کا مناسب جواب نہیں دے پایا تھا، پھر میں سو گیا،خواب میں آقائے کائنات ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی ایسا لگا کی آپ تشریف لا رہے ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا ایک ساتھی ہے جو ان دونوں حضرات کے بارے میں مجھے تکلیف دیتا ہے میں اُسے روکتا ہوں تو وہ بھڑک جاتا ہے اور پہلے سے زیادہ اذیت دینے لگتا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کی طرف متوجہ ہوئے جو قریب ہی تھا  اور فرمایا کہ اسے جاکر ذبح کر دو، وہ شخص چلا گیا۔

صبح ہوئی تو میں نے سوچا کہ یہ ایک خواب تھا اگر جاکر اس شخص کو اس کی خبر دونگا تو شاید وہ باز آجائے۔ اس ارادے سے چل پڑا، جب اس کے دروازے کے قریب پہنچا تو چیخ و پکار سنی۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہوا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ فلاح شخص ذبح کر دیا گیا ہے۔


شہد کی مکھیوں نے نوچ ڈالا:

حضرت عمار بن سیف ضبی کے چچا ابوالحباب کا بیان ہے کہ ہم سمندری غزوے میں تھے، ہمارے سپہ سالار موسی بن کعب تھے، کشتی میں ہمارے ساتھ کوفہ کا ایک شخص تھا جس کی کنیت ابوالحجاج تھی وہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو گالیاں دینے لگا، ہم نے اسے روکا اور منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا، پھر ہم نے ایک سمندری جزیرے میں لنگر ڈال دیا اور نماز ظہر ادا کرنے کے لئے ادھر اُدھر منتشر ہو گئے، ہمارے ایک ساتھی نے کہا ابوالحجاج کی خبر لو، اُسے شہد کی مکھیوں نے نوچ ڈالا ہے، پھر وہ ہمیں ابوالحجاج کے پاس لے گیا جو مر چکا تھا، اُسے شہد کی مکھیوں نے نوچ ڈالا تھا، حضرت عبداللہ بن مبارک نے اس واقعے میں یہ بھی اضافہ کیا کہ ابوالحباب کا بیان ہے کہ ہم نے اُسے دفن کرنے کے لیے قبر  کھودنی شروع کی تو زمین انتہائی سخت ہو گئی جس کی وجہ سے قبر نہ کھود سکے، پھر ہم اس پر درخت کے پتے اور پتھر ڈال کر چلے آئے۔


ایک رافضی کی شرارت اور اس کا انجام: 

قبیلہ خولان کے ایک  یمنی شخص علی نے بیان کیا یمنیوں کی ایک جماعت حج کے لیے آئی تو راستے میں مقام صعدہ پر ایک رافضی کے یہاں ٹھہری، جب وہاں سے کوچ کا ارادہ کیا تو اس نے کہا کہ آپ حضرات سے ایک کام ہے یہ پتھر لیتے جائیں اور اسے روضہ رسول کے پاس ڈال دیں ۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پتھر ایک اوقیہ کا تھا، اُنہوں نے وہ پتھر لے کر آٹے کی تھیلی میں رکھ لیا جب وہاں سے نکل گئے تو بولے ہم اس پتھر کا کیا کرینگے اور اُسے راستے میں ہی پھینک دیااس کے ہاتف غیبی سے آواز آئی اے امانت والے اپنی امانت پہنچا پھر آٹے کی تھیلی کھول کر دیکھی تو وہ پتھر اُسے آٹے میں پایا جب روضۂ رسول پہنچے تو اُسے اُس کے قریب ڈال دیا۔رات میں اُن میں سے ایک شخص نے خواب دیکھا کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما آقائے کائنات سے کہہ رہے ہیں کہ اس ملعون کو دیکھیے اس نے کس طرح ہمیں پتھر سے مارا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد  فرمایا تم بھی اس کمینے لعین کو مار دو۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگوں نے مہینے کی وہ رات نوٹ کر لی، واپسی کے وقت اس کے گھر کے پاس سے گزرے تو اس کی بیوی نکل کر آئی اور کہا تمہیں معلوم ہے تمہارے میزبان کا کیا ہوا؟ لوگوں نے پوچھا کیا ہوا؟ بولی موت ہو گئی پوچھا کیسے بولی پتھر سے مار کر دریافت کیا یہ حادثہ کس رات ہوا؟ اس نے بتایا فلاں مہینے کی فلاں رات کو۔ اُنہوں نے جو تاریخ نوٹ کی تھی دیکھا تو وہی رات تھی۔ پھر اس سے پوچھا کیا تمہارے پاس وہ پتھر ہے جس سے اُسے مارا گیا؟ بولی ہاں، نکال کر دکھایا تو بعینہ وہی پتھر تھا۔


شیخین کو برا بھلا کہنے والا کتا بن گیا:


حضرت صفوان کا بیان ہے کہ میں سفر شام کے لیے ایک اونٹ کرائے پر لیا، اور ایک مسجد میں جاکر  امام کے پیچھے نماز پڑھی، جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی برائی کی۔میں اس مسجد سے نکل گیا اور آئندہ سال واپسی کے وقت اسی مسجد میں داخل ہوا اور دوسرے امام کی اقتداء میں نماز پڑھی، جب امام نماز سے فارغ ہوا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما پر رحمت نازل فرما۔ میں نے اپنے بغل میں بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا شیخین پر لعنت کرنے والا امام کہاں ہے؟ اس نے کہا اگر آپ کی خواہش ہو تو دیکھا دوں؟ میں نے کہا: ہاں پھر وہ شخص ایک گھر میں لے گیا اور ایک کتا دکھایا جو ستون سے بندھا ہوا تھا۔ اس نے کتے سے کہا اس شخص نے گزشتہ سال تمہارے پیچھے نماز ادا کی تھی  جب کے تم حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔تو اس کتے نے سر ہلا کر کہا: ہاں۔ پھر اس شخص نے بتایا اللہ عزوجل نے اس کی صورت مسخ کر دی ہے جیسا کی آپ دیکھ رہے ہیں۔ 


شیخین کے گستاخ کو قبر میں عذاب:

خطیب یحییٰ بن عبدالرحمن کا بیان ہے کہ میرے والد نے بتایا کہ ہماری بستی میں(جو عراق میں ہے) مقام حلہ کے دو شخص آئے ، ایک کا نام مسعود اور دوسرے کا نام بلک تھا وہ دونوں وہاں کے والی اور مذہباً رافضی تھے ، پھر ایک عرصے تک ہم سے روپوش رہےاس کے بعد آئے تو انہوں نے اپنے گزشتہ عقیدے سے توبہ کر لی تھی۔میں نے ان سے پوچھا کہ اس کا   کیا سبب بنا ؟ اُن میں سے ایک نے بتایا کہ ہم حج کرنے گئے تھے، ہمارے ساتھ حلہ کا ایک نابینا شخص بھی تھا وہ روزآنہ ایک ختم کرتا تھا ، جب ہم حج کر چکے اور راستے میں تھے تو اس کا انتقال ہو گیا،ہم نے اُسے دفن کر دیا، اس کے پاس لکڑی کا ایک عصا تھا،جب ہم نے اُسے دفن کردیا تو وہ عصاہمیں نظر نہیں آیا،ہم نے سمجھا کہ شايد ہم نے اُسے بھی میت کے ساتھ دفن کردیا ،تو ہم نے لحد تک اس کی قبر کھودی۔ لیکن عصا نہیں ملا،ہم میں سے ایک نے لحد کھود دی وہ چیخ مار کر کچھ دیر بےہوش رہا، پھر ہوش میں آیا، میں نے پوچھا تمہیں کیا ہو گیا تھا؟ یا تم نے کیا دیکھ لیاتھا؟ اس نے کہا میں نے دیکھا کہ اس کے پیر اور گردن عصا کے دستے میں گھس گئے ہیں،مجھے اس پر حیرت ہوئی۔

جب ہم لوٹ کر اس کے گھر پہنچے تو پوچھے وہ شخص کیا کرتا تھا؟ ہمیں بتایا گیا کہ وہ شخص بڑا عبادت گزار اور قرآن کی تلاوت کرنے والا تھا، لیکن حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شان میں گستاخی بھی کیا کرتا تھا، اُنہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے ہم نے اپنے گزشتہ عقیدے سے رجوع کر لیا۔


شیخ ابوبکر بن احمد طحان فرماتے ہیں کہ شیخ عبداللہ بطایحی اس مسجد میں رہتے تھے جو دشوار گزار پہاڑی پر راستے پر تھی۔ عام طور سے وہ تنہا ہی رہتے تھے اور اسمعیل نام کا ایک شخص جو اپنی پیٹھ پر مٹی کے برتن ڈھوتا تھا اوراس کی کمائی سے گزارا کرتا تھا اُسے شیخ سے لگاؤ تھا۔ ایک دن وہ شخص میری موجودگی میں اُن کی خدمت میں حاضر تھا، شیخ عبداللہ نے اس سے کہا: اسمعیل تم نے جو سب سے حیرت انگیز چیز دیکھی ہو وہ بیان کرو۔ اسمعیل نے بتایا: میں مٹی کے برتن خریدنے کے لئے کفر عامر میں آتا جاتا تھا، وہاں صرف ایک ہی سنّی تھا، جب میں جاتا تو وہ میرے پاس آکر بیٹھتا،ایک شب ہم مسجد میں تھے کہ دروازہ کھولا اور ایک پراگندہ سر بکھرے ہوئے بالوں والا شخص داخل ہوا، دو رکعت نماز پڑھی پھر نکلنے کا ارادہ کیا ہم اس سے چمٹ گئے اور اس سے گزارش کی ہمارے لیے اللہ سے دعا کریں،اس نے کہا اللہ سے سلامتی کی دعا کرو،ہم نے پوچھا آپ کا قصہ کیا ہے؟ اس نےبتایا میں قرافہ کا رہنے والا ہوں، وہاں ایک شیخ مختلف روایات سے قرآن پڑھتے تھے،میں نے اُنہیں سے قرآن پڑھا، جب مکمل ہو گیا تو لبنان چلا آیا اور ایک عرصے تک قیام پذیر رہا،پھر وہی گیا اور شیخ کی زیارت کے لیے اُن کے پاس پہنچا تو ان کی اہلیہ نے بتایا کہ وہ بیمار ہے، اور کہ رہے ہیں  کہ وہ یہودی ہو کر مرنا چاہتے ہیں۔آپ جاکر اُنہیں کلمۂ شہادت کی تلقین کیجئے۔ میں گیا تو انہوں نے مجھے پہچان لیا میں نے کہا کلمۂ شہادت پڑھئے، اُنہوں نے کہا بہت بھاری محسوس ہو رہا ہے، میں بار بار تلقین کرتا رہا اور وہ یہی بات کہتے رہے، پھر ہاتھ گردن پر رکھا اور مرگئے،۔ مجھ سے اُن کی اہلیہ نے کہا ان کا آپ پر حق ہے، آپ ہی ان کی تجہیزوتکفین کیجئے، میں اُنہیں غسل دینے لگا اور پانی ڈالنے لگا ،ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پانی آگ ہے۔ پھر میں نے اُنہیں دفن کیا تو زمین نے باہر پھینک دیا۔ مجھے اس بات پر حیرانی ہوئی، وہاں ایک بزرگ تھے، میں نے اُن کے پاس جاکر واقعہ بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا تم اللہ کے فیصلے کو بدلنا چاہتے ہو؟ جاؤ اسے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کرو میں نے اُسے یہودیوں کے قبرستان میں لے جاکر دفن کر دیا، ایسا لگ رہا تھا کہ زمین اُسے پی گئی، پھر میں اُن کی اہلیہ کے پاس آیا اور اس کے بارے میں معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ صرف قرآن کی تلاوت کرتے تھے لیکن ان کے پاس دو مجسمے تھے جنھیں وہ رات میں مارتے تھے اور کہتے تھے تم دونوں نے حضرت علی کی حق تلفی کی ہے۔ میں نے جاکر دیکھا تو وہ حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے مجسمے تھے۔


قبر سے کتوں کی آواز 

شیخ محمد نوری کا بیان ہے کہ میں موصل میں رہتا تھا، حاکم موصل کی والدہ مجھے دل سے چاہتی تھی۔ اس کا بیٹا کبھی کبھی میرے پاس آتا تھا، ایک رات میں قبرستان گھومنے گیا تو ایک سفید مقبرہ دیکھا جس میں پتھر کا دروازہ لگا ہوا تھا، میں نے اس میں آواز سنی، جیسے کتے لڑ رہے ہوں، حالاں کہ وہاں کچھ بھی نہیں تھا، پھر میں اس کے دروازے پر آیا اور کھول کر دیکھا تو اندر دو یا تین قبریں تھیں اس کے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا، پھر وہاں سے نکلا تو وہی آواز سنائی دی، میں حیران رہ گیا، اتفاق سے حاکم موصل ہمارے پاس آکر بیٹھا اور بات چل پڑی، لوگوں نے روافض کا ذکر چھیڑ دیا اور کہنے لگے ہمارے یہاں صرف ایک رافضی خادم تھا تو بتایا گیا کہ والی مازندان کا وزیر بھی تو(رافضی) تھا۔ وہ دونوں مر گئے اور اور یہاں اپنے مقبرے میں مدفون ہیں، میں نے پوچھا؟ کہاں: بتایا کہ اس سفید مقبرے میں، میں نے بتایا کہ یہاں میرے ساتھ ایسا ایسا معاملہ پیش آیا ہے اگر میرے اندر طاقت ہوتی تو میں ان کی قبریں کھود ڈالتا، حاکم موصل نے کہا میں کھودوں گا۔ کھود کر دیکھا تو اس میں دو خنزیر تھے۔


موت کے وقت رافضیوں کی صورت مسخ ہو جاتی ہے:

حضرت شیخ ابوبکر مسعود بن  ممدود بن ابوبکر ہکاری کا بیان ہے کہ میں حلب میں میمون کسریٰ کے ساتھ کام کرتا تھا، ایک دن روافض کا تذکرہ چھڑ گیا، تو بات آئی کہ جب کوئی رافضی مرتا ہے تو اس کی صورت خنزیر سے بدل جاتی ہے، میمون نہ مانا اور بولا کہ ہمارے یہاں بزدارنام کا ایک عمر دراز رافضی ہے، جب وہ مریگا تو ہم دیکھیں گے۔

اتفاق سے وہ مر بھی گیا میمون نے کہا اسے الگ جگہ دفن کرو۔ پھر ہم اس کے ہمراہ قبر کی طرف نکلے، اس نے وہی رات گزاری اور قبر کھودنے کا حکم دیا، پتہ چلا کہ وہ خنزیر ہو گیا ہے۔ ہم نے اسے دیکھا، میمون نے لکڑی منگا کر اُسے جلانے کا حکم دیا۔ چناچہ اُسے جلا دیا گیا۔


رافضی کی صورت مسخ ہو گئی:

ابوالفتیان علی بن ھبتہ اللہ زیدانی سے میں نے پوچھا کہ تمہارے والد نے شیعت سے کیسے توبہ کرلی جب کہ تمہارے رشتے دار اس مذہب پر ہیں، اس نے بتایا میرے والد کا ایک رافضی دوست تھا، اچانک وہ بیمار ہوا اور کچھ دنوں کے بعد مر گیا تو ایک شخص سے کہا کہ اسے غسل دے دو، جب غسل دینے والے نے اُسے دیکھا تو اس کی صورت بہت بری ہو گئی تھی، میرے والد کو اس کی خبر دی گئی اُنہوں نے اسے دیکھ کر کہا کہ اسے غسل نہ دو اور اسے دفن کرنے کا حکم دیا، پھر انہوں نے روافض کے مذہب سے توبہ کر لی۔


خنزیر بن گیا۔

ابوالعباس احمد بن سلیمان بن عبدالسید خلیلی کا بیان ہے کہ تقریباً ہم چار تنگ دست مدینۂ رسولﷺ میں تھے اور اُن کے دونوں ساتھی (حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما)کی بارگاہ میں سلام پیش کر رہے تھے، مدینہ کے ایک شخص نے سن لیا، اور ہمیں اپنے گھر آنے کی دعوت دی ہم اس کے ساتھ گئے ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ ہمیں کچھ کھلائے گا۔ جب اس کے گھر میں داخل ہوئے اس نے دروازہ بند کر کے ہمیں بہت مارا یہاں تک کہ میری کہنی ٹوٹ گئی، ہم نکل کر نخل حمزہ کی طرف چلے اور وہاں جا کر بیٹھ گئےتبھی ایک نوجوان ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا: اے فقیروں تم میں سے کوئی اچھی طرح سے میت کو غسل دے لیتا ہے۔ میں نے کہا ہاں، تو اس نے کہا کہ آؤ۔ پھر ہمیں اس شخص کے گھر لیا جس نے ہمیں مارا تھا، اس نے کہا میرے والد جس نے تمہیں مارا تھا انتقال کر گئے، تم لوگ اسے غسل دو، اور میں تمھیں اس بات سے آگاہ کر رہا ہوں کہ میں نے ان کے مذہب سے توبہ کر لی ہے، اس کے بعد ہم نے اس کا چہرہ کھول کر دیکھا تو وہ خنزیر بن گیا تھا،میں نے اُسے غسل اور کفن دیا۔


خواب میں حضرت علی نے شیخین کے گستاخ کی آنکھ پھوڑ دی:


یحییٰ بن عطاف کا بیان ہے کہ ایک دمشقی شیخ نے جو کئی سال حجاز میں سکونت پذیر تھے مجھے بتایا کہ میں ایک سال قحط سالی کے زمانے تک مدینہ میں مقیم تھا تو میں اونٹ کے بچّے کے بدلے آٹا خریدنے بازار گیا، آٹے والے نے اونٹ کا بچّہ لے کر کہا کہ شیخین پر لعنت کرو تو میں آٹا دوں گا،میں نے انکار کیا، پھر وہ ہستے ہوئے مجھ سے بار بار یہی بات کہتا رہا، میں نے تنگ آکر کہا شیخین پر لعنت کرنے والے پر اللہ کی لعنت۔ یہ سن کر اس نے میری آنکھ پر تماچہ مارا میں واپس مسجد چلا آیا میری آنکھ سے آنسو جاری تھے۔

ميافارقین میرا ایک ساتھی وہاں موجود تھا جو کئی سال سے مدینہ میں مقیم تھا، اس نے میرا حال دریافت کیا،میں نے اس سے واقعہ بیان کیا تو وہ مجھے قبر انوار کے پاس کے گیا اور کہا" السلام علیک یارسول" ہم آپکی بارگاہ میں مظلوم بن کر آئے ہیں۔ ہمارا بدلہ لیجئے۔ اور خوب گڑگڑایا اور ہم واپس چلے آئے، اور جب رات ہوئی تو میں سو گیا۔ پھر صبح کے وقت اچانک میں نے آنکھ پہلے سے بہتر پائی، ایسا لگ رہا تھا کہ اس میں کبھی چوٹ نہیں لگی، اس کے بعد تھوڑی ہی دیر میں ایک نقاب پوش شخص مسجد کے دروازے سے اندر آیا جو میرے بارے میں پوچھ رہا تھا، لوگوں نے میرا پتہ بتایا، اس نے آکر سلام کیا اور کہا میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے معاف کردو، میں وہی شخص ہوں جس نے تمھیں تماچہ مارا تھا، میں نے کہا: جب تک اپنا واقعہ نہیں بیان کروگے میں معاف نہیں کروں گا، تو اس نے بتایا کہ میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر و عمر اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی ہیں۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا تو حضرت علی نے فرمایا کہ نہ تُجھ پر اللہ کی سلامتی ہو  نہ تُجھ سے اللہ راضی ہو۔ میں نے تجھے شخين پر لعنت کرنے کا حکم دیا تھا؟۔ پھر آپ نے اس طرح میری آنکھ میں انگلی ڈال کر اُسے پھوڑ دیا۔ پھر میری نیند کھل گئی، میں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنے لگا اور اپنے جرم کی معافی مانگنے لگا، جب میں نے اس شخص کی بات سنی تو کہا جاؤ تمھیں میں نے دل سے معاف کردیا۔


(النھی عن سب الاصحاب ومافیه من الإثم والعقاب، صفحه، ٥٦)