async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD

Friday, September 17, 2021

Mahnama Hashmat Ziya in Urdu (21)

 ***٣***

مشنری اسکول اور عیسائیوں کے عزائم

از : شیخ یوسف بن اسماعیل نبھانی رضی المولیٰ عنہ



اے عقل مند مسلمانوں(الله تعالی تم پر رحم فرمائے اور ایسے کاموں کی طرف تمہاری رہنمائی فرمائے جن میں اس کی رضا و خوشنودی ہو) تم مغربی حکومتوں کی ان کوششوں پر غور کرو جو وہ اسلامی ملکوں میں اسکول کھولنے کے لیے کر رہے ہیں،  ان پر سالہا سال سے کثیر سرمایہ صرف کر رہے ہیں اور ان کے امور و معاملات میں پوری توجہ دے رہے ہیں۔ اے میرے بھائی!  کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ اسلام دشمن ممالک یہ سب کچھ اس لیے کر رہے ہیں کہ انھیں تمھارے مسلمان بچے سے شفقت و محبت ہے اور اس کی کامیابی کے خواہاں ہیں ۔اگر چہ ان کا نہ ان کے مذہب سے کوئی تعلق ہے،  نہ ان کی حکومت سے۔ بخدا ایسا ہرگز نہیں،  بلکہ ایسا کرنے میں ان کے اہم مقاصد اور بے شمار فائدے ہیں جو ان کے اخراجات اور ان کی کوششوں کے مقابل کئی گنا زیادہ ہیں۔ یہ سب تمہارے،  تمہارے بیٹے ، تمہارے دین و مذہب اور تمہارے ہم مذہبوں کے خلاف عظیم ترین آفتیں اور سب سے بڑی مصیبتیں ہیں جن سے ہر عقل مند واقف ہیں۔


ان (عیسائیوں)  کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اپنے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے دلوں سے حقیقی دین اسلام کی روح نکال دیتے ہیں ۔ اگرچہ وہ ظاہری اعتبار سے مسلمان ہوں،  ان کے گوشت پوست اور خون میں ان عیسائیوں کی محبت رچ بس جاتی ہے، اسی محبت میں وہ پروان چڑھتے ہیں، اسی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں اور یہ سب نتیجہ ہے ان کی زبان،  عادات و اخلاق،  کتابوں ان کی مشہور شخصیات کے حالات اور سوانح پڑھنے کا ۔ ان چیزوں کو اساتذہ بڑے اچھے انداز میں ان کے سامنے بیان کرتے ہیں،  اور اسی کے ضمن میں ان کے سامنے اسلامی عقائد،  مسلمانوں کی نمایاں شخصیتوں اور ائمہ دین کی برائیاں بیان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کبھی کبھار وہ سرور پیغمبراں حبیب رب عالم و عالمیاں محمد صلی الله علیہ وسلم کی ذات گرامی تک تجاوز کر جاتے ہیں ۔ یہ باتیں کئی سالوں تک مسلم بچوں کے کان سے بار بار ٹکراتی ہے جس کے نتیجے میں وہ اسکول سے اس طرح نکلتا ہے کہ وہ دین اسلام اور اس کی حمیت سے بالکل ہی عاری ہو چکا ہوتا ہے۔ جس اسکول میں اس نے تعلیم حاصل کی ہے اسے مدد فراہم کرنے والی حکومت اس کے نزدیک  اس اپنی(اسلام)  حکومت سے زیادہ محبوب ہو جاتی ہے،  اس کی قومیت اپنی قومیت سے زیادہ پیاری ہو جاتی ہے،  وہ اسی قومیت میں اور اس کی شخصیات میں فضل و کمال کا اعتقاد رکھتا ہے،  جب کہ ادھر دین اسلام اپنے نبی سیدنا محمد  صلی الله علیہ وسلم کی سیرت،  آپ کی ہدایت یافتہ اور دوسروں کی رہبری و رہنمائی کرنے والے اصحاب کے فضائل و مناقب،  دین مبین کے ائمہ کے فضائل،  خلفائے راشدین اور ان کے بعد کے سلاطین اور منصف امرا کے حالات زندگی کے بارے میں کچھ بھی علم حاصل نہیں کیا۔ بلکہ ان کے سامنے ان کے بارے میں ان شیطان صفت  اساتذہ نے ان کے اوصاف حمیدہ اور مناقب جمیلہ کے بر خلاف(جھوٹی)  روایات بیان کیں،  اس لیے اس کے دل میں ان کے بارے میں فضل وکمال کا وہ اعتماد نہیں پیدا ہوا جو اپنے دین و ملک کے دشمنوں کے بارے میں پیدا ہوا۔ یہ طلبہ ظاہری اعتبار سے مسلمانوں کے مابین پلتے بڑھتے ہیں اور زندگی بسر کرتے ہیں۔ لیکن در حقیقت وہ دین اور حکومت کے دشمن ہوتے ہیں،  کیوں کہ ان کے دلوں میں بے دینی اور کھلی گمراہی پوری طرح رچ بس گئی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جب ان میں سے کسی کو اپنے ہی جیسے گمراہ بد بخت شخص کے ساتھ تنہائی مل جاتی ہے تو وہ اس کے ساتھ اسلام،  اسلامی حکومت اور مسلمانوان کے عادات و اطوار پر اعتراضات کے بارے میں محو گفتگو ہو جاتا ہے۔ اور اس اسکول کو چلانے کے والی حکومت کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاتا ہے،  جس میں اس نے گمراہی کی تعلیم مکمل کی اور دین اور فضل و کمال سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ ہر سال ان اسکولوں سے ان بے دینوں کی ایک بڑی تعداد نکلتی یے،  اس طرح چند سالوں میں ان کا ایک جم غفیر  جمع ہو جاتا ہے جن میں اکثر یا کل کا یہی حال ہوتا ہے۔ انھوں نے حق کو پس پشت ڈال دیا اور فراموش کر دیا،  اور حق سے محرومی کے بعد گمراہی کے سوا ہے ہی کیا۔ ان اسکولوں کو کھولنے کے پیچھے یورپ والوں کے جو مقاصد ہم نے ذکر کیے،  ان کی تائید اس سے ہوتی ہے جو فاضل گرامی محمد آفندی طلعت مصری نے اپنی کتاب تربية المرأة کے آخر میں اس رسالہ سے نقل کیا ہے جس کا نام صاحب رسالہ نے مجالة العالمین رکھا ہے۔ یہ شخص ایک مشہور یورپین قلم کار ہے  اس میں اس نے ان کوششوں اور رقوم کا ذکر کیا ہے جو اس قوم مشرق میں عیسائیوں کے تغلب اور ان کے دلوں میں اس کی حکومت کی محبت کا بیج بونے میں صرف کرتی ہے تاکہ وہ حکومت کے آلہ کار اور اس کے معین و مدد گار بن جائیں ۔ اس کے بعد اس نے کہا۔ ان سب کے باوجود ان کوششوں کا مقصد پورے طور پر حاصل نہ ہوا؛  کیوں کہ عیسائی الگ الگ جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لیے ان منتشر گروہوں کو یکجا کرنا ضروری ہے تا کہ وہ ایک دوسرے کی مخالفت نہ کریں۔ اور جب وہ ایک گروہ کی شکل  اختیار کر لیں گے تو وہ مسلمانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور ان پر اپنی بالادستی قائم کر سکتے ہیں۔ عیسائیوں کے اسکولوں کے بارے میں،  جنھیں انھوں نے اپنے ناپاک مقاصد و اہداف کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے،  گفتگو کرتے ہوئے اس نے عداوت اور بغض و عناد کو الللہ تعالی کے دین کے تعلق سے اس قوم کے سینے میں پوشیدہ ہے یہ کہتے ہوئے ظاہر کیا کہ عیسائی اقوام کے لیے ضروری ہے کہ ہر طریقے سے اسلام کی مخالفت کریں، اور ہر قسم کے ہتھیار سے اہل اسلام سے جنگ کریں۔ اس کے بعد اس نے اپنی یہ رائے ظاہر کی کہ طاقت و قوت سے اسلام کا مقابلہ کرنا اسلام کو مزید پھیلنے کا موقع فراہم کرے گا۔ اس لیے اس کے کہنے کے مطابق اسلام کے ستون کو ڈھانے اور اس کی عمارت کو منہدم کرنے کا سب سے کار گر ذریعہ یہ ہے کہ مسلمان بچوں کو عیسائی اسکولوں میں تربیت دی جائے اور ان کی نشو و نما کے دور سے ہی ان کے دلوں میں شک و شبہ کے بیج ڈالیں جائیں تاکہ ان کے عقائد اس طور پر بگڑ جائیں ان کو پتا بھی نہ چلے۔ یوں اگر ان میں کوئی عیسائی نہ بھی ہوا تو بھی اتنا تو ہوگا کہ وہ بچے نہ مسلمان رہیں گے نہ عیسائی بلکہ دونوں کے درمیان تذبذب اور شش و پنج کا شکار بنے رہیں گے۔ 


اس نے کہا : بلا شبہ ایسے لوگ اسلام اور اسلامی ملکوں کے لیے ان لوگوں کی نسبت زیادہ ضرر ساں ثابت ہوں گے جو عیسائیت کو قبول کرنے کا اعلان کریں۔

جب اس نے مسلمان بچیوں کی تربیت کا ذکر چھیڑا تو اپنے دل کی ساری بات بیان کر دی۔ اس نے کہا : عیسائی اسکولوں میں مسلم بچیوں کی تربیت ہماری حقیقی مقصد کے حصول اور جس غایت کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں اس تک ہماری رسائی کے لیے اس سے بڑی محرک و داعی ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ مسلمانوں ہی کے ہاتھوں اسلام کے خاتمے کے لیے ان کی بچیوں کا اس انداز سے تربیت دے دینا ہی کافی ہے۔

اس کے بعد اس نے نتیجے کا ذکر کیا جو ان کے اسکولوں میں داخلہ لینے پر مرتب ہوگا۔ جیسے مسلم عورت کے اخلاق و کردار میں اس حد تک تبدیلی کہ وہ اپنے شوہر پر غالب آجائے۔ پھر اس نے کہا : جب عورت اس طرح غالب آجائے گی تو پورے خاندان کا نظام یکسر بدل جائے گا اور مرد اس کی مٹھی میں آجائے گا،  پھر نہ صرف اپنے شوہر کے عقیدہ میں اثر انداز ہوگی بلکہ اسے اسلام سے ہی دور کر دے گی اور اولاد کی ان کے والدین کے دین کے تقاضوں کے بر خلاف تربیت کرے گی۔جس دن ماں اپنی اولاد کی ایسی تربیت کرے گی وہ اسلام پر غالب آ جائے گی۔ لہذہ کوئی شور و غل اور ہنگامہ کیے بغیر اسلام اور اس کےماننے والے سے جنگ کے لیے یہ سب زیادہ کامیاب طریقہ اور موثر ذریعہ ہے۔ اور یقینا یہ طریقہ مقاصد کے حصول اور منزل مقصود تک رسائی کا سب سے بڑا محرک ہے،  اس لیے ہمیں اسی کو اپنانا چاہیے ۔


رہی بات مسلمانوں سے کھلم کھلا بحث و مباحثے کی کوشش کی تو یہ ان کے نفوس کے اندر مخفی اور ان کی پہلوؤں کے درمیان خوابیدہ تعصب کے عوامل و محرکات کو بیدار کر دے گی یوں ان کو قابو میں نہ لایا جا سکے گا ۔ اور یہ کوئی دانش مندی کی بات نہیں۔ 


اس کے بعد محمد آفندی طلعت نے کہا:

یہ وہ باتیں ہیں جن پر کوئی تبصرہ کیے بغیر ایک درد مند انسان نے صرف ان کے ذکر پر اکتفا کیا ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ یہ باتیں والدین کے لیے عبرت اور اولاد کے لیے نصیحت کا سامان ثابت ہوگی۔

(ارشاد الحیاری فی تحذیر المسلمین من مدارس النصاری، صفحہ ٣٥)