وصیت اعلی حضرت
از-شہزادۂ استاذ زمن علامہ حسنین رضا خان قادری رضی المولیٰ عنہ
پیارے بھائیو!لاادری مابقائی فیکم مجھے معلوم نہیں کہ میں کتنے دن تمہارے اندر ٹھہروں تین ہی وقت ہوتے ہیں۔ بچپن ، جوانی ، بڑھاپا۔ بچپن گیا جوانی آئی،جوانی گئی بڑھاپا آیا۔اب کون سا چوتھا وقت آنے والا ہے جس کا انتظار کیا جائے ایک موت ہی باقی ہے۔اللہ قادر ہے کہ ایسی ہزار مجلسیں عطا فرمائے اور آپ سب لوگ ہوں میں ہوں اور میں آپ لوگوں کو سناتا ہوں مگر بظاہر اب اس کی امید نہیں اس وقت میں دو وصیتیں آپ لوگوں کو کرنا چاہتا ہوں ایک تو اللہ و رسول (جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور دوسری خود میری،تم مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی بھولی بھیڑیں ہوں بھیڑئیے تمہارے چاروں طرف ہیں یہ چاہتے ہیں کہ تمھیں بھگادیں تمھیں فتنے میں ڈال دیں، تمھیں اپنے ساتھ جہنم میں لے جائیں۔ان سے بچو اور دور بھاگو دیوبندی ہوئے، رافضی ہوئے، نیچری ہوئے، قادیانی ہوئے، چکڑالوی ہوئے، غرض کتنے ہی فرقے ہوئے اور اب سب سے نئے گاندھوی ہوئے جنہوں نے ان سب کو اپنے اندر لے لیا یہ سب بھیڑئیے ہیں تمہاری ایمان کی تاک میں ہیں ان کے حملوں سے اپنا ایمان بچاؤ۔
حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رب العزت جل جلالہ کے نور ہیں، حضور سے صحابہ روشن ہوئے ان سے تابعین روشن ہوئے تابعین سے تبع تابعین روشن ہوئے ان سے ائمہ مجتہدین روشن ہوئے ان سے ہم روشن ہوئے اب ہم تم سے کہتے ہیں یہ نور ہم سے لو ہمیں اس کی ضرورت ہے کہ تم ہم سے روشن ہو۔وہ نور یہ ہے کہ اللہ و رسول کی سچی محبت ان کی تعظیم اور ان کے دوستوں کی خدمت اور ان کی تکریم اور ان کے دشمنوں سے سچی عداوت جس سے اللہ ورسول کی شان میں ادنیٰ توہین پاؤ پھر وہ تمہارا کیسا ہی پیارا کیوں نہ ہو فوراً اس سے جدا ہو جاؤں جس کو بارگاہ رسالت میں ذرا بھی گستاخ دیکھو پھر وہ تمہارا کیسا ہی بزرگ معظم کیوں نہ ہو اپنے اندر سے اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو میں پونے چودہ برس کی عمر سے بھی بتاتا رہا اور اس وقت پھر بھی عرض کرتا ہوں۔ اللّٰہ تعالیٰ ضرور اپنے دین کی حمایت کے لیے کسی بندے کو کھڑا کر دے گا مگر نہیں معلوم میرے بعد جو آئے کیسا ہو اور تمہیں کیا بتائے اس لیے ان باتوں کو خوب سن لو حجتہ اللّٰہ قائم ہوچکی اب میں قبر سے اٹھ کر تمہارے پاس بتانے نہ آؤں گا جس نے اسے سنا اور مانا قیامت کے دن اس کے لیے نور و نجات ہے اور جس نے نہ مانا اس کے لئے ظلمت وہ ہلاکت یہ تو خدا و رسول کی وصیت ہے جو یہاں موجود ہیں سنیں اور مانیں اور جو یہاں موجود نہیں تو حاضرین پر فرض ہے کہ غائبین کو اس سے آگاہ کریں اور دوسری میری وصیت ہے آپ حضرات نے کبھی مجھے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچنے دی میرے کام آپ لوگوں نے خود کیے مجھے نہ کرنے دیے اللہ تعالی آپ سب صاحبوں کو جزائے خیر دے مجھے آپ صاحبوں سے امید ہے کہ قبر میں بھی اپنی جانب سے کسی قسم کی تکلیف کے باعث نہ ہوں گے۔ میں نے تمام اہل سنت سے اپنے حقوق لوجہ اللہ معاف کر دئیے ہیں آپ لوگوں سے دست بستہ عرض ہے کہ مجھ سے جو کچھ آپ کے حقوق میں فرد گذاشت ہوئی ہے وہ سب معاف کر دیں اور حاضرین پر فرض ہے کہ جو حضرات یہاں موجود نہیں ان سے میری معافی کرالیں۔
(وصایا شریف،صفحہ ١١)