پرانی یادیں
از خلیفۂ مظہر اعلیٰ حضرت صوفی باصفا الحاج احمد عمر ڈوسا صاحب حشمتی علیہِ الرحمہ
۲۳ دسمبر ۱۹۵۱ء کو بیت المال مدنپورہ میں ایک میٹنگ ہوئی اور اس میں تمام حاضرین نے طے کیا کہ حضرت شیر بیشۂ اہل سنت کو حج و زیارت کے لئے بھیجا جائے۔ بالاتفاق بات طے ہو گئی اور حضرت کو بذریعہ تار اطلاع دی کہ بمبئی تشریف لائیں۔ حضرت صاحب تار ملتے ہی بمبئی کے لئے روانہ ہو گئے۔
میں رات میں میٹنگ ختم ہونے کے بعد رات کے ڈیڑھ بجے پا پیادہ حضرت سرکار سرکاراں آقائے نعمت دریائے رحمت سیدی و سندی کنزی مولائی و ملجائی سیدنا شاہ بابا بہاء الدین قادری اصفہانی رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے استانۂ کرم پر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ سرکار میرے پیر و مرشد مدینہ شریف جا رہے ہیں۔ مجھے بھی بھیج دیجئیے۔٧٣١ بار اللّٰہ رب محمد صلی علیه و سلما و علی ذویه و صحبه ابد الدھورو کرما پڑھا۔ دربار کھلا ہوا تھا۔ اگلے روز غسل شریف و صندل شریف تھا اس لئے صفائی ہو رہی تھی۔ کسی کی بالٹی میرے سر سے ٹکرائی۔ فال نیک ہوا کہ بس کام بن گیا۔ بظاہر کوئی انتظام نہ تھا بس اسی سرکار پر بھروسہ تھا۔ ۲۵ دسمبر کو حضرت بمبئی تشریف لائے اور بوری بندر اسٹیشن سے سیدھے مسافر خانہ لایا گیا۔ حضرت نے فرمایا احمد تم بھی؟ میں نے کہا جی ہاں سرکار۔ بس یہ پہلا قدم تھا۔ جو ظاہری طور پر بے اسباب تھا کرم مرشد و کرم سیدی بابا کہ ۲۷ دسمبر کو محمدی جہاز سے آناً فاناً سب معاملات طے ہو گئے۔
بابا کا درباب المدینہ ہے۔ مدینہ منورہ کے دروازے پر حاضر ہوا اور شہر مدینہ شریف کی حاضری سے محروم رہوں یہ ان کی غیرت کے خلاف ہے۔
مدینہ جاؤں پھر آؤں مدینہ پھر جاؤں
سیدی بابا بہاء الدین زندہ باد
ابن غوث الوری زندہ باد
٢٧ دسمبر ۱۹۵۱ کو حضرت مرشد بر حق آقائے نعمت رفیع الدرجت شیر بیشۂ اہل سنت مظہر اعلیٰ حضرت آفتاب سنیت ماہتابِ رضویت امام المناظرین رئیس المتکلمین سلطان الواعظین غیظ المنافقین الحاج مولینا محمد حشمت علی خان صاحب قادری برکاتی رضوی لکنھوی علیہِ الرحمۃ والرضوان کے ساتھ محمد جہاز کے ذریعہ سر زمین حرم کی طرف روانہ ہو کر میں اپنی قسمت پر ناز کر رہا تھا۔
اسی جہاز پر دیوبندیوں کے نامی گرامی مولوی طیب دیوبندی، منظور سنبھلی، حبیب الرحمٰن مئوی، نور محمد ٹانڈوی اور دیگر وہابی مولوی سفر کر رہے تھے۔ ہم لوگ ہر وقت اپنی نماز کی جماعتیں علیحدہ کر رہے تھے۔ اذان دی جاتی تھی اذان کے بعد بلند آواز سے الصلاۃ والسلام علیک یا دافع البلاء والوباء باذن اللّہ پڑھتے تھے۔
جہاز میں ایک بار منظور سنبھلی مسئلہ پوچھنے حضرت کے پاس آیا حضرت نے فرمایا تم مسلمان کب ہو جو مسئلہ پوچھنے آئے ہو؟ پھر اس کے سوال کا جواب دیا۔
حضرت کے ایک مرید عبد الجبار صاحب حشمتی کانپوری بمبئی آۓ ان کی پہچان یہاں کسی تاجر سے تھی۔ اس تاجر نے ان سے کہا تھا کہ جب کوئی کام آئے بمبئی آجانا میں تمہارا کام کردوں گا۔ اب بمبئی آکر اس تاجر سے ملاقات کی۔ اور کہا کہ میرے مرشد حج کو جا رہے ہیں۔ آپ مجھے بھی بھیج دیں۔ اس تاجر نے انکار کر دیا۔ اب تو نا امیدی اور مایوسی کا عالم تھا۔ حضرت کے اعزاز میں سُنّی بڑی مسجد مدنپورہ میں عظیم الشان اجلاس ہوا۔ اس مرید نے کہا کہ حضرت میں سلام پڑھوں؟ حضرت نے فرمایا پڑھو۔ اب انہوں نے بڑے درد بھرے لہجے میں سلام پڑھا
"طیبہ کو جانے والے میرا سلام لے جا"
درد بھاری آواز اور علمائے اہل سنت کی موجودگی میں پورا مجمع رو رہا تھا۔ حضرت پر بھی عجیب کیفیت طاری تھی۔ سلام ختم ہوگیا۔ دعا ہوئی۔ ان مرید جن کا نام عبد الجبار ہے انہوں نے مصاحفہ کیا فرمایا عبد الجبار مدینہ شریف چلنا چاہتے ہو؟ وہ بولے ہاں! حضرت نے فرمایا چلو۔ پھر کیا تھا اس زمانے میں دو روپے کا پاس بندرگاہ پر ملتا تھا۔ کہ رخصت کرنے والے حضرات حاجیوں کو بحری جہاز کے اندر تک رخصت کرنے جانا چاہتے تو پاس لےکر جہاز کے اندر جاتے تھے۔ دو روپے کا پاس لے کر یہ سات فٹ کا لمبا آدمی بغیر پاسپورٹ اور ٹکٹ کے ہمارے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ چیکر جہاں بھی آئے سب سے پہلے اسی پر نظر پڑتی۔ مگر شاید وہ چیکر کو نظر نہیں آتے۔
جدہ بندرگاہ پر حضرت نے فرمایا میرے پیچھے کھڑے ہو جاؤ۔ اور یہ عبد الجبار حضرت کے پیچھے پیچھے جدہ میں جہاز سے اترے بندرگاہ کے باہر بھی آگئے۔
بس میں پچاس آدمیوں کی سیٹ ہوتی ہے۔ اور ۵۱ سوار ہوتے ہیں کنڈکٹر آتا ہے۔ ۵۰ کی گنتی کرتا ہے پاسپورٹ پر دستخط کرتا ہے مگر یہ ایک زائد مسافر اسے نظر نہیں آتا۔ غرض مکہ معظمہ پہنچے۔ پھر اسی طرح مدینہ شریف حاضری دی۔ واپسی میں حضرت کے پیچھے پیچھے جدہ سے جہاز میں سوار ہوئے اور بمبئی میں پھر دو روپے کے پاس کے ذریعے بمبئی بندرگاہ سے باہر آگئے۔ اور یہ واحد حاجی ہیں کہ ان کا پورا سفر حج چار روپے کے کرایہ میں ہو گیا۔
مجھ سے حضرت نے محمدی جہاز میں فرمایا احمد! حضرت سیدنا بابا بہاء الدین شاہ قادری رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے آستانہ پر جایا کرو۔ یہ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے پوتے ہیں۔ ہندوستان کی سلطنت حضور سیدنا خواجہ غریب نواز رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کو نہ ملی ہوتی تو ان کو ملتی۔ اس ارشاد مبارک کے تحت حضور سیدی بابا صاحب کا آستانہ مبارکہ اجمیر ثانی ہوا۔
مکہ معظمہ پہنچ کر ابھی ہم لوگوں نے طواف نہیں کیا تھا۔ میں ٹہلتے ٹہلتے مسجد حرام شریف میں پہنچ گیا۔ کعبہ معظمہ کو دیکھ کر آنسوؤں کا سیلاب جاری ہو گیا۔ ہچکیاں بندھ گئیں۔ آکر حضرت سے عرض کیا۔ حضرت نے فرمایا طواف کر لیا؟ تو میں نے کہا حضور آپ نے طواف نہیں کیا تھا۔ اس لئے میں نے طواف نہیں کیا۔ ارشاد فرمایا توبہ کرو۔ میں نے توبہ کی پھر ہم لوگ مسجد حرام شریف میں حاضر ہوئے۔ خانۂ کعبہ کا طواف کیا۔ ہم لوگوں نے قران کا احرام باندھا۔ ہماری قیام گاہ کے سامنے ایک میدان تھا وہاں ہم لوگ پنج وقتہ نماز جماعت سے ادا کرتے تھے۔ حضرت خود اذان دیتے۔ اذان کے بعد بلند آواز سے الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ اور دیگر خطابات سے صلاۃ پکار تے۔ پھر امامت بھی حضرت ہی فرماتے۔ ایک روز کسی نے بتلایا کہ یہاں پر پہلے قبرستان تھا اس کے بعد سے حضرت نے وہاں نماز پڑھنا چھوڑ دیا اب ہم لوگ مسجد حرام شریف میں نماز پڑھنے لگے۔ پانچوں وقت اپنی علیحدہ جماعت کرتے ایک صاحب کو قبل جماعت دروازے شریف پر بھیج دیا۔ وہ اذان دیتا اس کے بعد حضرت کی اقتدا میں حرم شریف میں با قاعدہ جماعت ہوتی۔
ایک دن حضرت نے فرمایا احمد! یہ کتاب سعودی حکومت نے مفت تقسیم کی ہے۔ اگر کہیں سے مل جائے تو لے آؤ۔ میں باب السلام پر گیا۔ جہاں کچھ کتابوں کی دکانیں تھی۔ ان دکانوں میں دریافت کرنے پر ایک دکان میں کتاب مل گئی تین ریال کہہ رہا تھا۔ حضرت کو آکر بتایا حضرت نے فوراً تین ریال دئیے۔ اور میں کتاب لےکر آگیا۔ حضرت نے اس کا ایک بار مطالعہ کیا۔ اور کتاب رکھ دی۔ اور جہاں کہیں بھی عربی میں یا اردو میں تقریر کرتے ابن سعود کو کافر کہتے۔ اور اسی کتاب کا حوالہ دیتے۔ کہ ایسا عقیدہ رکھنے والا بحکم شرع کافر ہے، مرتد ہے۔ مکہ معظمہ میں ایک شور مچ گیا کہ ایک ہندی عالم ابن سعود کو کھلم کھلا کافر کہتے ہیں۔ بات بڑھتے بڑھتے ابن سعود کے ایوان تک پہنچ گئی۔ ابن سعود کے یہاں بیس ہندی دیوبندی مولوی محل میں مہمان تھے۔ اس نے ان مولویوں کو بلا کر گفتگو کی تو یہ سب کے سب بولے کہ اس عالم کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے گا۔ ہزاروں پڑھے لکھے اس کے مقابلے میں فیل ہیں۔ ہم سب تو فرار ہو چکے ہیں۔ تم تو بادشاہ ہو۔ اگر ساری دنیا سے بھی مولوی صاحبان آجائیں تو اس کے مقابلے میں کوئی بھی نہ ٹھہرے گا۔
ابن سعود نے اب مقامی مولویوں سے رابطہ قائم کیا اور اس کے بعد اپنے ایک وزیر کو حضرت کے پاس بھیجا۔ وزیر حضرت کے معلم سے ملا، معلم صاحب وزیر کو حضرت کے پاس لائے۔ اور حضرت سے معلم صاحب نے وزیر کا تعارف کرایا۔ حضرت نے وزیر سے عربی میں گفتگو شروع فرمائی۔ آنے کا سبب پوچھا۔ تو اس نے کہا کہ آپ ہمارے بادشاہ کو کافر کہتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا میں اہل سنت کا مفتی ہوں اور وہ کتاب دکھا کر فرمایا اس میں یہ یہ لکھا ہے۔ اور اپنا عقیدہ بھی بتایا۔ لہٰذا ازروۓ شرع ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے، مرتد ہے۔ وزیر نے کہا اب کیا صورت ہے؟ حضرت نے فرمایا ابن سعود اپنے عقائد باطلہ سے توبہ کرے۔ اور کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو جائے۔ یا پھر اپنے کفر پر مجھ سے مناظرہ کر لے۔ مناظرہ ابن سعود کے کفر پر ہوگا، عربی زبان میں ہوگا۔ حرم شریف میں مائک پر ہوگا۔ اور مکہ شریف کے ہر مکان میں اس مائک کا کنکشن ہوگا۔ وزیر بہت دیر تک خاموش بیٹھا رہا اس کے بعد رخصت ہو کر ابن سعود کو حضرت کی تجویز بتائی۔ اس نے اپنے مہمانوں کی طرف دیکھا۔ سب کا حال خراب تھا۔ ابن سعود کا پارہ تیز ہو گیا۔ اور بولا اس ہندی عالم نے میری عزت کو چیلنج کیا ہے اور تم سب خاموش ہو اگر ایسے وقت میں اس ہندی عالم کا چیلنج قبول کرتا ہوں تو حکومت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ عربی زبان میں مناظرہ پھر مکہ کے ہر مکان میں کنکشن، دنیا کا ہر جگہ کا مسلمان یہاں موجود ہے۔ میری حکومت کا تختہ ہی پلیٹ جائے گا۔ دنیا میرے منہ پر تھوکے گی۔ تم اتنے سارے ہو خاموش ہو وہ اکیلا ہے، بول رہا ہے۔ یہ اللّٰہ کی طرف سے ہم پر بلا نازل ہوئی ہے۔ پھر انتظامی عملہ سے کہا کہ اس مولوی سے کسی طرح کا تعارض نہ کرو۔ جب تک رہے رہنے دو جب جائے جانے دو۔
حضرت کعبہ شریف سے منیٰ پیدل گئے۔ ۹ ذی الحجہ کو عرفات شریف سے ہمارے خیمہ کے قریب ایک عورت کا انتقال ہو گیا اس کی نماز جنازہ زکریا مسجد بمبئی کے اس وقت کے وہابی دیوبندی امام نے پڑھائی۔ اس امام نے اس وقت بمبئی میں سعودی حکومت کے گیت گائے تھے۔ ابن سعود کی خطبۂ جمعہ میں تعریف کی تھی۔ اس کے لئے دعا کی تھی اس پر علمائے دیں متین نے اسے بحکم شرع کافر قرار دیا تھا۔ نماز جنازہ کے بعد اس عورت کو دفن کر دیا گیا۔ حضرت نے بعد میں پوچھا کہ اس کی نماز جنازہ کس نے پڑھائی؟ اشارے سے بتلایا گیا کہ دیوبندی مولوی نے۔ حضرت اس کے سامنے ہم لوگوں کو لےکر اس کی قبر پر آئے۔ نماز جنازہ ادا فرمائی۔
ایک مرتبہ دوران طواف ایک رنگون کے سیٹھ نے حضرت کو دیکھ لیا آکر دست بوسی کی اور عرض کیا کہ حضرت ہمارا منیجر کہیں گم ہو گیا ہے۔ بہت ڈھونڈا کہیں پتہ نہیں مل رہا ہے۔ دعا کر دیجئے۔ حضرت نے دعا فرمائی۔ وہ قیام گاہ پر پونچا کہ تار ملا تمہارا آدمی جدہ اسپتال میں ہے۔ اور طبیعت بہت خراب ہے۔ وہ سیٹھ صاحب پھر حضرت کی قیام گاہ پر آئے ایک ہزار ریال نذرانہ پیش کیا اور کہا حضرت منیجر کا پتہ چل گیا اس کی صحت و شفا کے لئے دعا کر دیجئے۔ حضرت نے وہ ایک ہزار ریال واپس فرمادئیے۔ اور اس کے لئے دعا بھی نہیں فرمائی۔ وہ سیٹھ صاحب واپس ہوئے اور قیام گاہ پر دوسرا تار ملا کہ تمہارے آدمی کا انتقال ہو گیا۔
ایک ماہ سے زائد مکہ معظمہ میں قیام رہا۔ اب سوئے مدینہ شریف سفر ہے۔ بس میں وہ عبد الجبار صاحب کانپوری حضرت کے مرید بغیر پاسپورٹ و ٹکٹ بھی ساتھ ہیں۔ ۵۰ افراد کی بس ہے اور ۵۱ اشخاص جا رہے ہیں۔ ٹکٹ چیک ہوتا ہے۔ مگر چیکر ان سے پوچھتا ہی نہیں۔ راستہ میں تین جگہ چیکنگ ہوئی اور ہر جگہ عبد الجبار ہم لوگوں میں لمبے تڑنگے نظر آتے ہیں مگر چیکنگ کرنے والوں کو نظر نہیں آتے۔ ۵۰ آدمی کو گن کر اترا جاتا ہے۔ ہر جگہ یہی ہوا۔
مدینہ شریف میں جہاں بس رکی وہاں حضرت بابرکت خلیفۂ سیدنا اعلٰی حضرت علامہ ضیاء الدین صاحب قبلہ مہاجر مدنی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ بھی موجود، جو حضرت کو اپنے دولت کدہ پر لے جانے کے لئے آئے تھے۔ ان کو حضرت نے کوئی اطلاع ہی نہیں دی تھی۔ حضرت کو تعجب ہوا پوچھا سرکار! آپ نے کیسے تکلیف فرمائی، فرمایا گھر میں بیٹھا ہوا تھا نیچے سے کسی نے آواز دی میں کھڑکی میں آیا تو ان صاحب نے کہا مولینا آپ جلد بس اسٹینڈ جائیں۔ مولینا حشمت علی صاحب آرہے ہیں۔ اور وہ صاحب غائب ہو گئے۔ میں نے ہر چند تلاش کیا مگر وہ نہیں ملے۔ گھر سے میں بس اسٹینڈ آیا پانچ منٹ گزرے ہوں گے کہ آپ کی بس آگئی۔ حضرت علامہ ضیاء الدین صاحب قبلہ مہاجر مدنی کے یہاں حضرت پیر و مرشد مہمان ہوئے۔ حضرت مہاجر مدنی کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ کھانا ناشتہ سب بڑا ہی پر تکلف ہوتا اور ہر وقت علیحدہ علیحدہ قسم کا کھانا ہوتا۔ عربی کھانوں کا تو جواب ہی نہیں۔ اس مبارک دسترخوان پر حضرت اپنے ہاتھوں سے مجھے دیتے کہ احمد یہ کھاؤ، احمد اس کو بھی کھاؤ۔ دورانِ سفر بس میں میری طبیعت خراب ہو گئی۔ دل کو امید کہ اب ہمیشہ کے لئے مدینہ منورہ کی خاک حاصل ہوگی۔ نہا دھو کر مواجہہ اقدس کے سامنے حاضر ہوا تو بالکل تندرست و توانا جیسے کوئی شکایت اور کوئی مرض ہی نہ تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ میں نے سرکار اعظم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا تھا کہ حضور اس کی والدہ ساتھ میں ہیں اس کو خیر و عافیت کے ساتھ گھر بھیج دیجئیے۔ میں اپنی موت کی تمنا کر رہا تھا اور میرے پیر و مرشد خیر و عافیت کے ساتھ گھر بھیجنے کی دعا فرما رہے تھے۔
مدینہ شریف میں باقاعدہ حرم نبوی شریف میں علیحدہ جماعت کے ساتھ نماز ہوتی تھی ایک بار وہاں کے نجدی عسکریوں نے پوچھا آپ جماعت سے نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ حضرت نے فرمایا میں اہل سنت کا مفتی ہوں اور لاؤڈ اسپیکر کے خلاف میرا فتویٰ ہے بعد میں حضرت نے فرمایا میں اگر دوسرے طریقے سے جواب دیتا تو چونکہ ہم حضرت مولینا ضیاء الدین صاحب قبلہ کے مہمان ہیں یہ ہمارے جانے کے بعد حضرت سے سختی کرتے اس لئے میں نے دوسرا جواب دیا تاکہ حضرت مہاجر مدنی صاحب قبلہ کو ہماری وجہ سے تکلیف نہ ہو۔
مدینہ شریف کے اطراف میں کسی مسجد میں گئے۔ وہاں حضرت پر کیفیت طاری ہو گئی اس مبارک مسجد کے درو دیوار منبر و محراب شریف کو چومنے لگے۔ یہاں میرے سرکار کے دست مبارک لگے ہوں گے، یہاں سرکار کھڑے ہوں گے، صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔ عجیب کیف کا عالم تھا۔ نجدی سپاہی موجود تھا۔ اس نے کہا ھذا شرک حضرت نے فرمایا یہ شرک ہے؟ اور پھر چوما۔ اس نے پھر کہا یہ شرک ہے۔ اب حضرت کو جلال آگیا ارشاد فرمایا چومنا شرک ہے؟ ارے تیرے دادا نے تیری دادی کو چوما تو تیرا باپ پیدا ہوا، تیرے باپ نے تیری ماں کو چوما اور تو پیدا ہوا تو مشرک تیرا باپ مشرک تیرا دادا مشرک۔ (ان مقامات مقدسہ پر رونما ہونے والے بہت سے واقعات جن کو حضرت نے خود قلم بند فرمایا ہے مکتوبات جلد اوّل میں مندرج ہو چکے ہیں من شاء فلیراجعه) یہ مونہہ توڑ جواب سن کر وہ خاموش ہو گیا اور بولا چومو چومو جو کرنا ہو کرو۔ اس کے بعد حضرت والہانہ انداز میں بڑی دیر تک دیوار و در محراب و منبر کو بوسہ دیتے رہے۔
ہم مدینہ طیبہ سے پھر مکہ معظمہ حاضر ہوئے۔ مدینہ شریف سے واپسی پر الوداعی سلام بار بار حاضری کی دعا اور آخری سانس پر ایمان و سنیت کے ساتھ مدینہ منورہ میں خاتمہ با لخیر و العافیہ کی دعائیں کی گئیں۔
مکہ معظمہ میں الوداعی طواف اور بار بار کی حاضری اور خاتمہ ایمان و سنیت پر با الخیر و العافیہ اور اسی پاک شہر کی خاک میسر ہونے کی دعا کی گئی۔ طواف کے بعد الٹے قدم باب الوداع سے باہر نکلے اور پھر جدہ سے بمبئی واپس آئے۔
دوسری مرتبہ کے سفر میں حرمین شریفین کی واپسی پر حضرت کے اعزاز میں استقبالیہ اجلاس ہوا۔ جس میں حضرت نے سفر کے حالات بتائے کہ طواف کعبہ کے دوران میری زبان سے الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ کی صدا بلند ہوئی۔ سپاہیوں نے آکر گھیر لیا۔ ان عسكریوں کو بھیجنے والے ہندوستانی وہابی تھے وہ مجھے نجدی قاضی کے دفتر میں لے گئے۔ نجدی قاضی نے پوچھا کہ آپ نے یا رسول اللّٰہ کہا؟ حضرت نے فرمایا ہاں کہا اور یہ میرا ایمان ہے۔ اسی نجدی قاضی کے ٹیبل پر ایک کتاب ابن قیم کی رکھی ہوئی تھی۔ حضرت نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو قاضی نے کہا یہ نجدی حکومت کی اہم کتاب ہے۔ حضرت اس کتاب کو ہاتھ میں لےکر ورق گردانی کرنے لگے کہ اچانک اس کتاب کے صفحہ پر ابن قیم نے ایک حدیث نقل کی ہے۔ جس سے ندائے یا رسول اللّٰہ کا ثبوت ملتا ہے۔ بس حضرت نے اس صفحہ پر نشان لگا کر رکھ دیا۔ اتنے میں قاضی پلٹ کر آیا تو پھر گفتگو شروع ہوئی۔ اور حضرت نے اسی قاضی کی میز پر رکھی ہوئی کتاب سے ندائے یا رسول اللّٰہ کا ثبوت دیا۔ اب تو قاضی کا حال خراب ہو گیا۔ اس نے اپنے قاضی القضاۃ سے فون پر گفتگو کی تمام حالات بتائے۔ حضرت کا نام بتایا۔ اب قاضی القضاۃ نے فون پر کہا کہ ان سے جلد معافی مانگو اور ان کو جلد سے جلد مدینہ شریف بھیج دو۔
پھر قاضی نے معافی طلب کی اور پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا حج ہو گیا مدینہ شریف جانا چاہتا ہوں۔ اس نے پوچھا کب؟ حضرت نے فرمایا جب نمبر آئےگا تب۔ وہ بولا ہم بغیر نمبر کے آپ کو ہوائی جہاز سے بھیجیں گے۔ فرمایا میں اکیلے نہیں جاؤں گا میرے ہمراہ تقریباً پچاس رفیق سفر ہیں۔ وہ بھی میرے ساتھ جائیں گے۔ قاضی نے کہا کہ ہم اسپیشل ہوائی جہاز سے آپ کو روانہ کریں گے۔ اور آپ کے تمام ساتھی آپ کے ساتھ جائیں گے۔ اور پھر حکومت نے سارا انتظام کیا حضرت و حضرت کے تمام ساتھی ہوائی جہاز سے مدینہ شریف پہنچے۔
حضرت فرماتے تھے کہ مدینہ شریف جلد حاضری کی تمنا تھی مگر نمبر آئے بغیر جانا دشوار تھا۔ مصطفٰی پیارے صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے کرم فرمایا جلد طلب کیا وہ بھی بذریعہ ہوائی جہاز حکومت نجدیہ کے خرچ سے اور ایک ماہ مکمل مدینہ شریف میں قیام رہا۔
حضرت فرماتے تھے کہ جب میں نجدی قاضی کے دفتر میں تھا تو حضور سیدنا اعلیٰ حضرت قبلہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کے یہ دونوں شعر پڑھتا رہا۔
اپنی بنی ہم آپ بگاڑیں
کون بنائے بناتے یہ ہیں
صلی اللّٰہ علیہ وسلم
لاکھوں بلائیں کروڑوں دشمن
کون بچائے بچاتے یہ ہیں
صلی اللّٰہ علیہ وسلم
اور اسی وظیفے کی برکت سے نجدی قاضی خائب و خاسر ہوئے۔ جب سے حضرت نے بتایا میں نے ان دونوں شعروں کو اپنے وظیفے میں شامل کر لیا۔ ہر نماز پنجگانہ کے بعد دونوں شعر بارہ بارہ مرتبہ مع صلی اللّٰہ علیہ وسلم پڑھیں اور اوّل و آخر بارہ بارہ مرتبہ دُرود شریف بھی پڑھیں اس کے فضائل بے حد ہیں۔
دونوں حرم شریف میں اپنی نمازیں جماعت سے علیحدہ ادا فرماتے رہے اور دوسرے حاجیوں کو بھی تاکید فرمائی کہ جماعت کا ثواب لینے جا رہے ہو ان نجدی اماموں کے پیچھے ہماری نماز ہی نہیں ہوتی۔ اور اگر ان کو مسلمان سمجھ کر نماز ان کے پیچھے پڑھو گے تو ایمان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ الگ نماز پڑھو یہ سمجھ کر یہ نجدی امام ہے تو جماعت سے زیادہ ثواب پاؤ گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس لئے کہ مصطفیٰ پیارے صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ و علی آلہ وسلم کے دشمن کو دشمن سمجھنا مدارِ ایمان ہے۔
ایک مرتبہ محرم کی پہلی شب میں حضرت کے بیان میں ابا بلڈنگ حاضر نہ ہوا۔ دوسری شب میں حاضر ہوا۔ حضرت نے فرمایا کل کیوں نہیں آئے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ کشائش رزق کا عمل پڑھ رہا تھا۔ اس لئے حاضری نہ ہوئی۔ حضرت نے فوراً ارشاد فرمایا لعنتہ اللّٰہ علی الوہابیہ لعنتہ اللّٰہ علی النجدیہ پڑھتے رہو مصطفٰی پیارے صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم تمہیں رزق عطا فرمائیں گے۔
تقسیم ہند سے قبل حضرت نے کانگریس و لیگ کی مکاریوں چالاکیوں کا پردہ فاش فرمایا۔
اُن کا ہرا ہرا باغ دکھانا طرح طرح کی میٹھی میٹھی باتیں کرنا قوم و ملت کو لبھانا حضرت نے آفتاب سے زیادہ روشن طور پر واضح فرما دیا۔ بعد کے نتائج سے آگاہ فرمایا۔ تحریر سے بھی تقریر سے بھی ان سب کی گمراہی کو طشت ازبام کر دیا۔ اور اس وقت حضرت نے جو جو ستتر سوالات میں میرے مرشد نے تحریر فرمایا تھا تقسیم ہند کے بعد وہ بھیانک منظر سامنے آئے۔
فرمایا مسلمانوں! کہاں جا رہے ہو؟ ظلم و ستم و غارت گری کا بازار گرم ہے، ہر طرف مایوسی اور آندھیرا ہے، کوئی پرسانِ حال نہیں۔ پاسبان رہزن بن گئے۔ اور رہزن جلّاد ہو گئے۔ کرنے کے لئے کچھ باقی نہ چھوڑا جانوں مالوں کی، عزت و آبرو کی، جائیداد و اولاد کی کیا حالت ہے، سامنے ہے۔ ضلعوں شہروں قصبوں دیہاتوں میں ویرانہ ہو گیا، بستیاں اُجڑ گئی، گلی کوچوں میں ٹرینوں میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں ماں باپ بھائی بہن اولاد رشتہ دار الگ الگ ہو گئے ہندوستان قبرستان بن گیا۔ مساجد و مزارات پر غیروں کا قبضہ ہو گیا۔ یہ سب کیوں ہوا؟ تم نے قرآنی احکام سے منہ موڑا، خیر خواہِ امت کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑا، غیروں کو ہمدرد سمجھا انہوں نے ہی تم کو ذبح کر ڈالا۔ جس کو ترقی سمجھتے تھے وہی تنزلی کا راستہ تھا اغیار سے دوستانہ اپنوں سے کٹ جانا۔
للّہ! اپنے جسم کو آگ سے بچاؤ۔ مصطفٰی پیارے صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے دامن پاک میں آؤ۔ سب کچھ برباد ہو گیا۔ اب بھی آنکھ نہیں کھلتی ہر طرف سے بے دینیت لا مذہبیت تمہیں دعوت ہلاکت دے رہی ہے۔ چند روزہ کی زندگی ہے۔ ایک دن قبر کا مونہہ دیکھنا ہے۔ یہاں کا بویا وہاں پانا ہے۔ علم دنیا سے اٹھتا جا رہا ہے۔ جو عالم جاتے ہیں اُن کی جگہ خالی ہو جاتی ہے تصنیفات اعلیٰ حضرت کو اپنا دستور العمل بنا لو و عقائد حقہ پر گامزن ہو جاؤ۔ دنیا کا نقشہ بدل جائیگا۔ روحانیت پیدا ہو جائے گی۔ اپنی حفاظت آپ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔ تائید غیبی ساتھ ہو گی۔ خیر خواہِ امت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی بھیڑوں! بھیڑیوں سے ہوشیار ہو جاؤ۔ یہ ظالم بھیڑیے ٹٹی کی آڑ میں شکار کرتے ہیں۔
چڑی مار جب چڑیوں کا شکار کرتا ہے تو پہلے جال کو بچھاتا ہے اور چھپ کر چڑیوں کی بولی بولتا ہے۔ چڑیاں سمجھتی ہیں کہ ہمارا ہم جنس ہے اور دھوکہ میں آکر جال میں پھنس جاتی ہیں۔
یہ جو تجھ کو بلاتا ہے ٹھگ ہے مار ہی رکھے گا
ہائے مسافر دم میں نہ آنا مت کیس متوالی ہے
سید ہر دو سرا صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ان بدمذہبوں بیدینو سے دور رہو، اُن کو اپنے سے دور رکھو کہیں یہ تمہیں گمراہ نہ کریں، کہیں یہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ آؤ آؤ! ان گمراہان زمانہ سے دور و نفور رہتے ہوئے اسلامی احکام کی پابندی کرتے ہوئے اپنے ظاہری باطنی حال کو سنوارتے ہوئے رب کریم کی بارگاہ میں آؤ اور نبی کریم رؤف و رحیم علیہِ و علی آلہ الصلاۃ والتسلیم کے وسیلہ سے توبہ کرو اپنے جملہ گناہوں سے ظاہری باطنی چھپے کھلے چھوٹے بڑے گناہوں سے معافی طلب کرو اور الحب للّٰہ والبغض للّٰہ کی دولت سے اپنے کو مزین کرو۔ دارین کی فلاح و بہبودی تمہاری جھولی میں ہوگی۔
یہ وہ ارشادات ہیں جن پر عمل سے کل بھی کامیابی و کامرانی نے قدم چومے اور ان پر آج بھی عمل کیا جائے تو دونوں جہان کی کامیابی قدموں کو بوسہ دے۔ مولی عزوجل ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین، آمین، آمین۔
خادم دین متین، غلام سید بابا بہاء الدین حاجی احمد عمر ڈوسا قادری رضوی حشمتی۔