async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD

Sunday, June 5, 2022

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (74)

 خوبصورت استدلال پر بے معنی کلام

از-حضرت مولیٰنا مفتی محمد طیب صاحب قبلہ حشمتی


میں نے "تعاقب سواد" میں لکھا تھا کہ۔

کیوں کہوں بیکس ہوں میں 

کیوں کہوں بےبس ہوں میں 

وجہ یہ کہ سرکار آپ موجود ہیں اور آپ کے ہوتے ہوئے ہم بےبس اور بیکس کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس پر کلام کرتے ہوئے "کشف حجاب" کے صفحہ ٢٨ پر لکھتا ہیں کہ:

"کہا تو ہے

شہا بے کس نوازی کن طبیبا چارہ سازی کن 

مریض درد عصیانم اغثنی یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم 

بےبسی ہو جو مجھے پرسش اعمال کے وقت۔۔۔۔۔"

اسی طرح کے دو تین اشعار اور لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ:

"یہ اشعار اہل شبہات کے نزدیک امام اہلِ سنت کے نہیں ہونگے یا بے بس، بے زر نا چار کا معنی ان کے نزدیک بس والا، طاقت والا اور کچھ نہیں تو تناقض ہوگا"۔

بحث و نظر

اس قدر تعجیل اور بچکانہ طرز تحریر کی کیا ضرورت تھی ہمارے نزدیک کیا ہے ہماری تحریر کا انتظار کر لیتے مگر کیا کہئے کہ ان کے خانہ ساز الہامات بھی عجیب و غریب رنگ دکھاتے ہیں، ملائے خشک! یہ سب ہمارے نزدیک امام اہلِ سنت اعلیٰ حضرت قبلہ ہی کے اشعار ہیں اور بے بس وغیرہ کا معنی ہمارے نزدیک وہی ہے جو امام اہلِ سنت اعلیٰ حضرت قبلہ کے نزدیک ہے، اور ہمارے نزدیک اس میں تناقض بھی نہیں ہے۔ مگر میں نے پہلے ہی بتا دیا ہے کہ یہ فرق لطیف ہے جو لبیب پر واضح ہوتا ہے آپ جیسے خشک اذہان کا کام نہیں، اور آپ اس کے آگے کچھ لکھ بھی تو نہیں سکتے کیوں کہ خشک دماغ اگر اس فرق کو سمجھ لیتا تو پھر رونا ہی کیوں رہے؟

اشعار کی جمالیات جن عناصر میں پنہاں ہوتی ہیں ان کا ادراک اس پر کلام کرنے والے کے لئے ازبس ضروری ہوتا ہے۔ کبھی شعرا ایک ہی موضوع پر جداگانہ خیالات اور جداگانہ تعبیریں پیش کرتے ہیں کہ ہر خیال دوسرے کے مخالف ٹھہرتا ہے اور کبھی ایک ہی شاعر‌ ایک ہی موضوع پر دو یا چند مخالف خیال پیش کرتا ہے، مقدم کو مؤخر سے تخیلانہ رجوع قرار دیتے ہیں۔ غزلیہ شاعری میں اس کی مثالیں بکثرت ملیں گی اور ہمیں ان سے بحث نہیں مگر نعت گوئی نظم میں کچھ الگ ہی مقام و مرتبہ رکھتی ہے جہاں قدم قدم خیال کو افراط و تفریط سے پاک رکھنا ہے۔ یہاں تعبیریں تو مخالف ملیں گی مگر مقصد واحد ہوگا تفحص الفاظ مختلف ہو نگے مگر مطلب ایک ہوگا۔ بد عقل کو ممکن کہ اس میں تناقض لگے مگر اک ذرا سی وضاحت کردیجئے تو تمام بلبلیں ہم معانی و ہم زبان رطب اللسان ملیں گی۔

اب اپنے مقصد کی جانب چلتے ہیں۔ مطلب و مقصد شعرا ایک ہے کہ حضور اکرم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی نظر کرم و نظر رحمت کے بغیر ہم بےبس، لاچار، مجبور ہیں اور وہی نظر کرم اگر ادنی توجہ فرمائے تو ہمارے اختیار کا کیا پوچھنا! بس اسی مفہوم کو ہر ایک نے با اعتبارِ قوتِ متخیلّہ اپنے انداز میں کہا ہے۔ اس مفہوم کے تناظر میں تمام اشعار کو پیش کریں پھر بتائیں کہ کیا تناقض رہا؟ 

اگر ہے دم تو دیکھا دیں کہ اعلیٰ حضرت قبلہ نے کہیں کہا ہو کہ سرکار دو عالم صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی نظر کرم کے باوجود ہم بے بس ہیں؟ ملائے خشک! شاعرکا اپنا تخیل ہوتا ہے اور جہتیں  الگ الگ ہوتی ہیں کیا ہر تخیل کا فن شاعری میں حقیقت سے متعلق ہونا ضروری ہوتا ہے ؟ اور تم نے آگے جا کر خود فرق کرنے کی کوشش کی ہے کہ نا چار مجبور جہاں کہا وہ ظاہر کے اعتبار سے ہے اور جہاں اس کا انکار ہے وہ حقیقت کے اعتبار سے ہے، تو تفصیلی بحث ہم ابھی کریں گے پہلے آپ کی اسی تاویل کو لے کر کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات مرحمت فرمائیں!

اعتبار ظاہر ہے کا ہے یا حقیقت کا یا دونوں کا؟ بر تقدیر اوّل اور ثابت، کیا ہمیں اور آپ کو اختیار ہے کہ اعلیٰ حضرت قبلہ کو بےبس کہیں؟ کیا کوئی سر پھرا امام اہلِ سنت اعلیٰ حضرت قبلہ کو بےبس نا چار وغیرہ کہتا پھرے اور دلیل میں وہی اشعار  پیش کرے جو آپ نے پیش کئے تو اس بد عقل کا کہنا درست ہوگا؟ ہر وہ بات جو عظیم ذاتیں اپنے لئے بول دیتی ہیں کیا ہمیں حق ہے کہ ہم بھی وہی کہیں؟ کسی نے کہا تھا‌ انی کنت من الظالمین، تو جس نے اپنے لئے انی کنت من الظالمین،‌ کہا کیا ہمیں بھی حق ہے کہ انہیں ظالم کہیں؟ یا پھر اعتبار حقیقت کا ہے؟ اگر حقیقت کا ہے تو پھر وہ استدلال جو "تعاقب" میں کیا گیا تھا آپ کی اس بے معنی بحث سے قدرے مو بھی تو نہ ہل سکا جہاں سے چلے تھے ہر پھر کرو ہیں کھڑے ہیں۔

بہر کیف آئیے شعر و شاعر کی تفصیلی بحث پر یہ دیکھئے خاتم المحققین "الکلام الاوضح"‌ جلد نمبر ۱، صفحہ ۲۱۱، پر لکھتے ہیں کہ:

"جو آپ کا وصف بیان کرتا ہے چودھویں رات کے چاند سے تشبیہ دیتا ہے اور پسینہ آپ کا چمک اور صفائی میں موتی کے مانند ہے، کعب بن مالک کہتے ہیں، جب آپ خوش ہوتے تو یہ معلوم ہوتا کہ آپ کا منھ ٹکڑا ہے چاند کا"۔

 ایک دوسرے مقام خاتم المحققین صفحہ ۲۱۸، صفحہ۲۱۹ پر لکھتے ہیں کہ:

"شہباز فکر اس جگہ دام حیرت میں گرفتار ہے کہ ماہتاب سنبلہ میں جا سکتا ہے اور ابر آفتاب پر آسکتا ہے مگر یہ طرفہ تماشہ ہے کہ رات دن یکجا ہے،وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى،،


کیا زلف کا قرینہ ہے روئے جناب سے

 لبریز دامن شب قدر آفتاب سے


کچھ آیا سمجھ میں،! لیل سے مراد زلف مصطفٰی ہے اور دن سے مراد رُخ مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔

جبکہ یہی خاتم المحققین اسی صفحہ پر اوپر لکھتے ہیں کہ:

"بلکہ تشبیہ ان بالوں کی شب قدر سے بھی بیجا اور تمثیل ان زلفوں کی لیلتہ البرات سے سرا سر خطا، سنبل ژولیدہ مو کو اس طرہ شائستہ سے کیا مناسبت اور مشک ختن کو اس گیسوئے عنبریں سے کیا مشابہت"۔

خاتم المحققین کی ان دونوں عبارتوں میں کچھ فرق سجھائی دیتا ہے یا نہیں! اور خود اعلٰی حضرت بھی تو یہی فرماتے ہے کہ

رُخ دن ہے یا مہر سما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

شب زلف ہے یا مشک ختا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں


اور جب ایسا ہے کہ یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں تو خاتم المحققین نے کیوں کہا کہ رات دن یکجا ہیں؟

تو ملائے خشک سنئے! نہ تو ہم یہ کہتے ہیں کی یہ عبارتیں خاتم المحققین کی نہیں اور نا ہم ان میں تناقض مانتے ہیں، بلکہ اس کی گہرائی و گیرائی تک جاتے ہیں اور اس کی گہرائی اور راز کیا ہے اس کو جاننے کے لئے یہ دیکھئے خاتم المحققین صفحہ ۲۱۱ پر لکھتے ہیں کہ:

"یہ سب تشبیہات راویوں کی سمجھ پر واقع ہے ورنہ چاندوسورج اور آئینہ کو اس جمال با کمال سے نسبت نہیں"۔

تو مقام اوّل جہاں تشبیہات ہیں با اعتبار فہم راوی ہیں۔ اور مقام ثانی جہاں تشبیہات کی نفی ہے با اعتبار حقیقت ہے۔ اب آپ بتائے کہ آپ نے خود حضور اقدس مختار کائنات صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو جو بےبس کہا اور لکھا اگرچہ ایک گونہ ہی سہی، وہ ظاہراً لکھا ہے یا حقیقتاً؟ آپ کا کیا ماننا ہے؟ حضور اقدس مختار کائنات صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ظاہراً یا حقیقتاً کسی اعتبار سے بھی بےبس ہو سکتے ہیں؟ اور راویوں کی یہ تشبیہات عرف میں تعریف پر دال ہے یا توہین پر؟ الفاظ تشبیہات مقام مدح میں مستعمل ہیں یا مقام ذم میں؟ مانا کہ ان تشبیہات سے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو حقیقتاً کوئی نسبت نہیں ہے مگر راوی نے اپنی سمجھ کے اعتبار سے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعریف ہی کی ہے اور تشبیہ کے الفاظ بھی تعریف کے لئے مستعمل ہوتے ہیں۔ رہی بات آپ کے بےبس کی تو کیا لفظ بےبس حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے توہین نہیں؟ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان تو بہت بلند ہے کیا آپ امام اہل سنت اعلٰی حضرت قبلہ کو بےبس کہہ سکتے ہیں کوئی اگر اعتراض کرے تو کہہ دیں با اعتبار ظاہر اعلٰی حضرت قبلہ نے خود کہا ہے۔

صاحبو! اپنے ایمان کی خیر مناؤ اور ذرا سوچو تمہارا یہ بے لگام قلم جوش تعصب میں کہاں تک جا پہنچا۔ ہماری نہ سہی اعلیٰ حضرت قبلہ ہی کی سنو! دیکھو امام اہلِ سنت کیا فرماتے ہیں:

"ایک ہی بات اختلاف طرز بیان سے تعظیم سے توہین تک بدل جاتی ہے جیسے نوش فرمائیے، تناول فرمائیے، نوش جاں فرمائیے۔ کھاؤ، نگلو، تھورو، زہر مار کرو, اور تعظیم و توہین میں کس قدر مختلف ہیں تو صرف اتنا عذر کہ ہم نے ترجمہ کیا کافی نہیں ہو سکتا جب کہ طرز بیان بیہودہ ہو (فتاویٰ رضویہ ج ۲۹)

(صمصام حیدری برسرکشئ کوثری، صفحہ ١٨)