async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD

Sunday, June 5, 2022

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (78)

 حسن مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناء

از-امام المتکلمین سردار العارفین علامہ نقی علی خان رضی المولیٰ عنہ


ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللّٰه  عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا حسن عالم سے نرالا تھا اور رنگ بدن نہایت روشن جو آپ کا وصف بیان کرتا چودہویں رات کے چاند سے تشبیہ دیتا اور پسینہ آپکا چمک اور صفائی میں موتی کی مانند اور خوشبو میں مشک اذفر سے سے بہتر تھا کعب بن مالک کہتے ہیں جب آپ خوش ہوتے یہ معلوم ہوتا کہ آپ  کا منہ ٹکڑا ہے چاند کا علامہ قسطلانی کہتے ہیں کہ یہ سب تشبیہات راویوں کی سمجھ پر واقع ہیں ورنہ در حقیقت چاند اور سورج اور آئینہ کو اس جمال با کمال سے کچھ نسبت نہیں- 

شہ سوار من کہ مہ آئینہ دارِ حسن اوست ، 

تاج خورشید بلندش خاکِ نعلِ مرکب است۔


جمال یوسفی کہ ایک عالم  اس پر شیدا ہے اور نظیر و ثانی اس کا جہان میں نا پیدا حسن محمدی کا ایک شمہ تصور کیا چاہئے اذا ھوا قد اعطیٰ شطر الحسن سے یہ مراد ہے کہ اس حسن خداد کا ایک پرتو عالم پر چمکا اس میں سے ایک حصہ حضرت  یوسف علیہ السلام کو ملا باقی تمام جہان میں تقسیم ہوا ماہ و خورشید و زہرہ و مشتری میں وہی نور درخشاں ہے اور زمین و آسمان عرش و کرسی اس پرتوہ سے روشن و تاباں اسی کے فیض سے چمن دنیا تازہ و سیراب ہے اسی کی آب و تاب سے گلشنِ جنت سر سبز و شاداب پروانہ اسی کی جھلک شمع میں پاتا ہے کہ اس کے سوز عشق میں اپنی جان جلاتا ہے اور مرغ چمن اسی کا رنگ گل میں دیکھتا ہے کہ اس کے درد فراق سے آہ و نالہ کرتا ہے اور شور و غوغا مچاتا ہے جملہ ارواح و اجسام ظل اس جمال سراسر نور کے ہیں اور تمام انوار ارضی و فلکی عکس اس پر نور سراپا ظہور کے ہیں 

اے قصہ بہشت زکویت حکایتے 

شرح جمال حور زرویت روایتے

انفاس عیسیٰ از لب لعلت لطیفہ

آب خضر زنوش دہانت کنایتے 

ہر چند کہ اس کا عکس ہر  رنگ میں چمک رہا ہے مگر اس کی حقیقت ادراک عقول سے برتر اور  ورا ہے صانع با کمال نے اس جمال کو اپنے دیکھنے کے واسطے بنایا اور اپنی محبوبیت کے واسطے پسند فرمایا عقول بشریہ کی کیا تاب جو اسے ادراک کریں اور اس کی حقیقت و ماہیت کی تنقیح کر سکیں شپر آفتاب کو کب دیکھ سکتا ہے اور سایہ نور کے مقابل کب آ سکتا ہے علامہ قرطبی کہتے ہیں آپ کا جمال کسی پر ظاہر نہ ہوا اگر ظاہر  ہوتا تو کوئی شخص  دیکھنے کی تاب نہ لاتا اور ثابت ہے کہ جبرئیل امین خدمت سید المرسلین میں بصورتِ وحیہ کلبی آیا کرتے صورت اصلی ان کی کسی کو نظر نہ آتی ایک بار ابن عباس نے دیکھ لئے تھے بسبب شرف صحبت و قرابت حضرت کے اس وقت محفوظ رہے مگر آخر عمر میں نابینا ہو گئے اگر حورِ بہشت کا ایک کنگن دنیا میں ظاہر ہو جائے اسکی روشنی نور آفتاب اس طرح محو کر دے جیسے آفتاب کی روشنی ستاروں کو چھپا دیتی ہے پس صورت محمدی کہ ہزار درجہ صورت جبرائیل اور جمالِ حور سے روشن تر اور لطیف تر ہے کس طرح نظر آ سکے اور اس کے دیکھنے کی کون تاب لا سکے 

کیا منہ ہے آئینہ کا تری تاب لا سکے ،

خورشید پہلے آنکھ تو تجھ سے ملا سکے۔

مگر ہر شخص اس جمالِ باکمال کو اپنے حال کے موافق دیکھتا ایک دن صدیق اکبر رضی اللّٰه  عنہ نے عرض کیا اے ماہ بنی ہاشم دنیا میں کوئی شخص آپ سے زیادہ خوبصورت  نہ پیدا ہوا فرمایا تو سچ کہتا ہے ابو جہل نے کہا مجھے تم سے بد شکل زیادہ کوئی نظر نہیں آتا فرمایا تو سچ کہتا ہے صحابہ نہ تعجب سے کہا یا رسول اللّٰه یہ کیا فرمایا ارشاد ہوا ہر شخص مجھے اپنے ایمان کے موافق دیکھتا ہے یعنی ابوبکر کی نگاہ میں تمام جہان سے زیادہ خوبصورت اور ابو جہل کو سب سے بدصورت معلوم ہوتا ہوں و للّٰه در من قال

  ترا چناں کہ توئی ہر نظر کجا بیند 

  بقدرِ بیغشِ خود ہر یکے کند ادراک 

  اگر چشمِ ظاہر اس کو دیکھ سکتی رویت میں تفاوت نہ ہوتا  اور یہ تفاوت  اس سبب سے نہیں کہ مرئی میں تغیر یا اس کے ظہور میں نقصان ہے بلکہ درحقیقت دیکھنے والے کا نقصان اور اس کی نظر میں فتور ہے

  گر نہ بیند بروز شپر چشم 

  چشمۂ آفتاب راچہ گناہ 

  اس مقام سے ایک اور دقیقہ بھی حل ہوتا ہے کہ وہ جمال با کمال خواب میں بھی بقدر ایمان و استعداد خواب دیکھنے والوں کے مختلف احوال پر نظر آتا ہے یہ خواب جھوٹا نہیں ہوتا جس نے دیکھا بے شک حضرت کو دیکھا مگر دیکھنے دیکھنے میں فرق ظاہر ہے کمالا یخفی علاوہ بریں کوئی محب نہیں چاہتا کہ محبوب کا حسن دوسرے پر کما حقہ ظاہر اور جو ادا میرے ساتھ ہے کوئی اور بھی اس میں شریک ہو  تبتل الیه تبتیلا یعنی تمام عالم سے انقطاع کلی کر کے میری طرف ٹوٹ رہ اور کسی سے کام نہ رکھ انا و  انت و ما سویٰ ذلك خلقت لاجلك میں اور تو  اور جو کچھ میرے اور تیرے سوا ہے میں نے تیرے لیے پیدا کیا ہے کہتے ہیں ام المومنین محبوبہ سید المرسلین عائشہ صدیقہ رضی اللّٰه  عنہا ایک دن اپنی سوئی ڈھونڈتی تھیں کہ حضرت تشریف لائے اور ان کی اس بات پر متبسم ہوئے اثناء تبسم میں دندانِ مقدس کا ایک کنارہ ظاہر ہوا کہ اس کا نور آفتاب کی روشنی پر غالب آیا اور اس کی روشنی میں سوئی مل گئی شاید وہی دندانِ مبارک جنگ احد میں شہید ہوا اور ظاہر ہے کہ جب مخلوق ادراک حقیقت سے قاصر ہے تو تعریف و توصیف  بھی اس کی قدرت  سے باہر ہے ولنعم ماقیل 

یاصاحب الجمال و یا سید البشر

من وجھك المنیر لقد نور القمر 

لایمکن الثناء کما کان حقہ 

بعد از خدا بزرگ توئی قصه مختصر 

خدا اس کو جانتا ہے اور وہ خدا کو پہچانتا ہے فضولی کو یہاں دم مارنا بے جا ہے حقیقت اس جمال دلربا کی وہی ہے جو اس کے پروردگار نے قرآن مجید و فرقان حمید میں بیان فرمائی " یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵)وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶)"۔ اے نبی ہم نے تجھے بھیجا گواہ اور خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا اور خدا کی طرف بلانے والا اور چراغ چمکتا فائدہ علما نے اس جگہ چار وجہ تشبیہ کی بیان فرمائیں اول جس طرح چراغ سے تاریکی دور ہوتی ہے اور مکان روشن ہو جاتا ہے اسی طرح پیغمبر صلی اللّٰه علیہ وسلم  کے وجود باجود سے کفر و شرک کی تاریکی دور ہوئی اور تمام عالم نور ایمان و عرفان سے منور اور روشن ہو گیا دوم جس گھر میں چراغ ہوتا ہے اس میں چور نہیں جاتا اسی طرح جس دل میں حضرت کی محبت کا چراغ روشن ہے دزدِ متاع ایمان یعنی شیطان اس پر قابو نہیں پاتا۔  سوم چراغ کا نور خانہ تیرہ کو روشن کرتا ہے اور آپکی محبت کا نور دلِ تیرہ کو روشنی بخشتا ہے چہارم جس گھر میں چراغ ہوتا ہے وہاں بیٹھنے سے جی نہیں گھبراتا اسی طرح جس دل میں حضرت کی یاد ہے غم و الم اس کے پاس نہیں آتا اور بعض مفسرین سراج منیر کو آفتاب سے تفسیر کرتے ہیں اور  تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا کو اس کی تفسیر  کی دلیل ٹھہراتے ہیں اس تقدیر پر وجہ تشبیہ کی یہ ہے کہ جس طرح سورج کا نور تمام عالم میں منتشر ہے اسی طرح سارا جہان آپ کے نور سے منور ہے اور جس طرح خدائے تعالی نے ستاروں کو  مسافروں کی رہنمائی کے واسطے بنایا اور آفتاب کو بکثرت نورانیت ان سے ممتاز فرمایا اسی طرح انبیاء علیہم السلام کو گمراہوں کی ہدایت کے واسطے بھیجا اور ہمارے حضرت کو اس بات میں اور تمام فضائل و کمالات میں ان سے افضل و اکمل کیا والضحی واللیل اذا سجی یعنی اے محمد قسم تیرے روئے درخشاں کی کہ صبح کی مانند روشن و تاباں ہے اور قسم تیری زلف مشکیں کی کہ رات کی طرح سیاہ ہے ما ودعك ربک و ما قلیٰ نہ تجھے تیرے رب نے چھوڑا اور نہ دشمن پکڑا طٰہٰ ما انزلنا علیک القرآن لتشقی۔ طا کے عدد نو اور ہا کے پانچ ہیں نو اور  پانچ چودہ ہوتے ہیں یعنی اے چودہویں رات کے چاند ہم نے تجھ پر قرآن اس لیے نہیں اتارا کہ تو مشقت میں پڑے 

ممدوح خدا ہے وہ ازل سے 

ہوں کس سے بیاں وصف اس کے 

وصاف ہو جس کا خود ہی باری

ہے وصف میں اس کے خامہ عاری۔


اے عزیر اگرچہ حقیقت اس جمال دل ربا کی دریافت نہیں ہو سکتی مگر جس طرح عالم رویت میں ہر شخص بقدر اپنے ایمان و محبت کے دیکھ لیتا تھا اسی طرح عالم تصور میں بقدر تصفیہ و تجلیۂ قلب و ایمان و محبت کے ادراک اس کا  جائز اور روا ہے پس بحکم مالا یدرك کله لا یترك کله کے صورت بابرکت کی صفت و ثنا بقدر اپنی استعداد کے اس مختصر میں لکھنا گنجائش رکھتا ہے اور بایں وجہ کہ رعایت ادب اور پاسِ شریعت نزاکتِ معنی و حسنِ عبادت سے اہم ہے ان امور سے کہ شعراء عصر میں بے تکلف مروج ہیں احتراز کیا جاتا ہے اب قلم اور زبان بہزار عجز و انکسار  عرض مطلب میں مشغول ہوتا ہے نظم

 ان نلت یا ریح الصبا یوما الیٰ بیت الحرم 

بلغ سلامی روضة فیھا النبی محترم

من خدہ بدرالدجیٰ من وجه شمش الضحٰی 

من ذاتہ نور الھدی من کفه بحرالھمم 


نظم 

دیدۂ خورشید زاراز رویش

 سنبلستاں مشام از بویش

 پیش رویش بہشت ساختہ رو

 حبذا خوانے صاحب ایں خو۔

 یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و اله۔


 سر انور سراسر سرالہی سے معمور مخزن دانش و شعور سردفتر دیوان سر بلندی درۃ التاج فرق ارجمندی قبہ انوار غیبیہ خزانہ اسرار الہیہ درج گوہر نبوت برج سپہر رفعت سب سے بلند و بالا ہمسر اس کا دیکھا نہ سنا اور فر رسالت اس سے پیدا افسر شفاعت اس پر زیبا سر فرازان عالم اس کی سرکار میں فرق ارادات زمین انکسار پر رکھتے ہیں اور سر شاران بادہ نخوت اس کے حضور اپنی سر کشی اور خود سری سے توبہ کرتے ہیں 

 تاج خورشید ہمیشہ ہے اسی سے پرنور 

 بہر تسلیم جھکے رہتے ہیں سر اس کے حضور 


 فلک نیلگوں اس کی طلب میں سر گرداں ہے اور اوج گردوں اس فرق ہمایوں پر قربان سرو سرفراز اس کی یاد میں بہار و خزاں سے آزاد اور ہمائے بلند پرواز اس کے ہوائے شوق میں خانماں برباد ۔ فرقد فلک اس کی جناب میں سر زمین نیاز اور سِر سر بلنداں اس کے قصرِ  رفعت کا فرش پا انداز ۔ طائر تیز پرواز عقل اسکے اوج سے بال و پر شکستہ اور سمندر صبا گام خیال اس کی توصیف میں پائے خرام بستہ 

 دامن صبا نہ چھو سکے جس شہسوار کا 

 پہنچے کب اس تک بات ہمارے غبار کا یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله جبین نور آگیں لوح سیمی یا مشرق خورشید ہے اور لوح سیمن جبیں بیاض بیت ابرو مطلع ہلال عید ۔ گل صبح اس مہر تابندہ کے پرتو سے شگفتہ خاطر اور آئینہ حلب اس ماہ درخشاں کے تصور سے حیران و ششدر ۔ گلستان ارم اس فاتح مصحف رخسار کے افاضہ سے شگفتہ و خنداں ۔ اور نیر اعظم اس آفتاب عالم افروز کے انارہ سے تاباں و درخشاں ۔ ماہ سیمی عذار اس کی صفائی کا بندہ اور زر مغربی آفتاب اس کی رنگینی کا شرمندہ ۔ آب بلور اس کی صباحت سے پانی پانی۔ اور رنگ شفق عشق طلعت میں زعفرانی ۔ یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله ۔ ابروے دل نشیں لوح جبیں کے قریں مطلع نجم سعادت ۔ موج بحر لطافت ۔ ہلال ماہ عید ۔ طاق خانہ خورشید ۔ مدتسمیہ صباحت حرم حریم ملاحت پیتِ حمدِ کبریا جوہر آئینہ مصفا ۔سفینہ نجاتِ نوح علیہ السلام۔ کلید ابواب فتوح ۔ فلک پیر خم اس محراب کعبہ کے گرد طواف کناں ۔اور ہلال عید اس طاق حرم پر جان و دل سے قربان ۔ دل زاہد اس گوشۂ عافیت میں چلہ نشیں ۔ اور کماندار فلک اس کے حضور سر بر  زمیں ۔ تیر قضا اس کے اشارے پر چلتا ہے اور سینہ ماہ دو ہفتہ اس کے تیر محبت سے خستہ ہے۔ تودۂ خاک سے قاب قوسین تک اس کی شہرت ہے اور گاو زمین سے اسد فلک تک نشانہ تیر محبت کشتی ہلال گرداب شوق میں سرگرداں اور قوس فلک خون شفق میں غلطاں 

ہر مہینہ میں نیا عکس مہ نور اس کا 

زیب طاق حرم کعبہ ہے پرتو اس کا


یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله  

رگِ ہاشمی قوسین ابرو میں نمایاں ہے یا کمان ہلال میں تیر کہکشاں کمان رستم اس تیر غضب سے سہمناک اور سینۂ دشمناں اس نشتر رگِ جان سے چاک چاک۔ اعدائے خطاکار اس ناوک جگر دوز کے خوف سے بیجاں ۔ اور کفار بد اطوار اس سنان خوں بار کی خلش سے تودۂ خاک پر غلطاں 

یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله ۔


مژگان دلستاں اعراب قران ہیں ۔ یا رگِ جان مشتاقان ۔ جوہرِ آئینہ۔ عارض تاباں ۔ شعاع خورشید روئے رخشاں یسالک مسالک راستی اکسیر ایمان کی بوٹی۔ صحراء عرب اس مژہ مشک فام کی خوشبو سے رشک تاتار۔ اور گریبان سحر اس تار شعاعی کے سودائے محبت میں تارتار ۔ کماندار  چرخ اس کے تیر محبت کا گھائل اور نیزہ باز فلک اس کے پیکان عشق سے بسمل یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله ۔ چشمِ نرگسیں اور دیدہ سرمگیں ۔ گنجینہ نگاہ حق بیں۔ آئینہ تجلی رب العالمین ۔ نرگس گلزار جمال ۔ مرآت حسن لایزال بینائے جمال کبریا ناظورہ دیوان اصطفا ۔ طبیب صحت نرگس بیمار۔ مبداء سودا و بیاض لیل و نہار ۔ مخزن انوار و اسرار منظورِ نظر اولولابصار قرۃ العین حورعین چشم و چراغ اہل دین۔ نور عیون اہل نظر ۔ روشنی چشمِ ابوالبشر ۔ چشم بددور عجیب آنکھ ہے ماشاء اللّٰه کہ چشم فلک کو بایں گردش لیل و نہار نظیر اس کا نظر نہ آیا اور آہوئے حرم نے چین و ختن تک ڈھونڈا کہیں ہمسر اسکا نہ پایا دام سے اس کو تشبیہ دینا سراسر بے مغزی اور آہوئے ختن کی آنکھ سے مشابہ کہنا عین خطا اور نادانی غزالان چین اگر اس چشم سر مگیں کو دیکھ پائیں عمر بھر اشک حسرت آنکھوں سے بہائیں اور آہوان ختن اگر اس دیدہ نرگسیں کے سامنے آئیں چوکڑی بھول جائیں۔  آفتاب اس عین عنایت کے شوق میں سرگرداں اور چشم صدف اسکی یاد میں دیدۂ طوفاں دیدہ سے گوہر فشاں۔ ابرِ گہر بار اس کی سیر چشمی کا کاسہ لیں اور کماندار فلک اسکے تیر نظر پر قربان ہونے کو لیںس۔ گنہگاران امت کو اس سے چشم شفاعت اور تہیدستان عالم کو چشم داشت عنایت۔ 

چراغے کہ تا او نیفروخت نور

ز چشم جہاں روشنی بود دور

سوادِ فلک گشت گلشن بدو

شدہ روشناں چشم روشن بدو


پتلی طور تجلی خدا ۔ منظور نظر کبریا۔تارنگہ کو شعاع خورشید کہنا ناروا اور سرمۂ چشم کو سنگ موسی سے تشبیہ دینا بیجا آئینۂ مازاغ اس چشم خدا بیں کا سرمہ بصر ہے اور کریمہ ماتغی اس دیدۂ سرمگیں کا کھل جوہر مانگ کوچۂ خلد دنیا میں دکھاتی ہے اور کہکشاں فلک کو راہ بتاتی ہے شعرا کا زلف معنبری کی تعریف میں قافیہ تنگ ہے اور شب دیز فکر کا اسکے میدان مدحت میں پائے خرام لنگ ۔ موشگافان جہاں اس کی توصیف میں قاصر ۔ اور باریک بینان عالم اس کی تشبیہ میں سراسیمہ پزنجیر۔ بال بھر بھی نہیں وصف اس کا ادا ہوتا ہے۔ موشگافی کریں گر لاکھ تو کیا ہوتا ہے۔ نہ اسے افعئ پیچاں کہہ سکتے ہیں اور نہ زنجیر جنوں اور شب ہجراں سے تشبیہ دے سکتے ہیں کہ یہاں حد ادب سے سرِ مو تجاوز بلائے ایمان ہے اور بال بھر بیباکی سراسر اندھیرا اور وبال جان بلکہ تشبیہ ان بالوں کی شب قدر سے بھی بیجا ہے اور تمثیل ان زلفوں کی لیلۃ البرات سے سراسر خطا۔ سنبل ژولیدہ مو کو اس طرۂ شائشتہ سے کیا مناسبت اور مشک ختن کو اس گیسوئے عنبریں سے کیا مشابہت کہ مشک خون ظبیات ہے اور وہ لام اسم ذات سنبلہ فلک اس کے طلب میں سرگرداں اور سنبل چمن سودائے نکہت میں آشفتہ و پریشان ۔

ہے پریشانیِ سنبل سے عیاں خود اس کی

ہوش پھولوں کے اڑا دیتی ہے خوشبو اس کی


سایہ اس زلف سیاہ فام کا سینہ ماہ میں نمایاں ہے اور دماغ عشاق خیال نکہت سے غیرت سنبل و ریحاں۔


دماغ از تاز موئے او ثنا راست 

نگہہ را باغ روئے اور بہار است۔ 

شہباز فکر اس جگہ دام حیرت میں گرفتار ہے کہ مہتاب سنبلہ میں جا سکتا ہے اور ابر آفتاب پر آ سکتا ہے مگر یہ طرفہ  تماشہ  ہے کہ رات دن یکجا۔ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى۔

کیا زلف کا قرینہ ہے روئے جناب سے

لب زیر دامنِ شبِ قد آفتاب سے

روے روشن زلف سیاہ میں نمایاں ہے یا نور بصر مردمک چشم سے نمایاں ۔ زہرہ اس مشتری طلعت سے شرمندہ۔ اور چاند اس مہر جہاں تاب کا داغی بندہ۔ ماہ دو ہفتہ پرتو عارض سے تاباں ۔ اور مہر منور نور رخسار سے درخشاں ۔ شمع حرم اس شعلۂ محبت سے روشن ۔ مرغ چمن اس کی یاد سے گل مراد بدامن ۔ شمس بازغہ اسکے مدرسۂ تنویز میں شمسیہ خواں۔ اور قمر دو ہفتہ اس مصباح ہدایت کی ضو سے سراج آسمان چراغ خود اس کی لو سے منور ۔ اور فانوس خیال اس کے پرتو سے چراغ دربر عکس تجلی مرات عارض میں باہر۔ اور صورت معنی آئینہ رخسار سے ظاہر۔ 

اس آئینہ سے صاف عیاں قدرت حق ہے۔ پہلا تو یہی حسن کہ دیواں کا ورق ہے۔ 

لعل بدخشاں کا اس کی رنگینی سے دم فنا ۔ اور گل گلستاں کا صرصر خجالت سے رنگ ہوا۔

 روئے گل ہی پر نہیں تیز وہ رخسارے ہیں 

 ایک رخ کیسا خجل ان سے تو رخ سارے ہیں۔ 

 اس عارض پرتو نور کے عشق میں رنگ رخسار سحر فق ہے۔ اور سینۂ ماہ شق ۔ مرآت خیال کو سکتہ۔ چراغ صبح سسکتا۔ گل سوکھ کر کانٹا ۔ نسیم بہار بے دست و پا۔ مطبخ گلزار سرد ۔ رنگ شفق زرد ۔ دل شبنم افسردہ روئے گل پژمردہ۔ دریاں گریاں ۔ خورشید سرگرداں ۔ مرجان بیجان ۔ آئینہ حیران۔ شمع چراغ سحر ۔ عقیق خون جگر  پروانہ فدا۔ بلبل بے نوا۔ لالہ خونین کفن ۔  قمری طوق غم بگردن ۔ یاقوت بیدم ۔ لعل زیر بار غم۔ ید بیضا دست بر دل۔ تدروئے تیغ بسمل ۔ مرغ چمن کو اس گلستان خوبی کی یاد میں سبق بوستاں فراموش اور عندلیب طبع اس گل رنگین کے نشاء شوق میں گلزار جہاں سے غافل اور مدہوش ۔ آئینہ حلب پر اگر وہ ماہ عرب عکس افگن ہو سوز محبت سے گل جائے۔ اور ورق گل پر اگر وصف رخسار رنگین زیب رقم ہو اپنے پیرہن میں پھولا نہ سمائے۔  یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله ۔ ریش مطہر گرد رخسارۂ انور ہالہ قمر یا جدول قرآن ہے۔ اور خط مبارک مصحف عارض پر منبیہ لوح محفوظ یا حاشیہ صحیفہ ایمان ۔ خط شفاعت اسے کہنا زیبا ۔ اور فرمان بخشش امت سمجھنا روا۔ انیس بال سپید اس میں نمایاں ہیں۔ یا شعاع قمر تاریکی شب میں تاباں ۔ یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله ۔ نگاہ ماہ دو ہفتہ کی تابش دنداں پر کام نہیں کرتی۔ اور نظر مہر تابندہ کی ان کی چمک دمک پر نہیں ٹھہرتی ۔ ماہتاب ان کے خیال میں رات رات بھر تارے گنتا ہے۔ اور آفتاب سودائے محبت میں تمام دن تنکے چنتا ہے۔ نیساں ان کے عشق میں نالاں اور سبعہ سیارہ سرگرداں ۔ ستارہ پتخالہ دریا۔ آنسوں کا نالہ۔ برقی بیتاب مردارید غرق گرداب۔۔۔۔۔۔لکڑی ان دانتوں سے الماس کا بھی دل ہووے ۔ بیدھا جاوے کوئی موتی جو مقابل ہووے ۔ نہ انھیں دانہ انار سے تشبیہ دے سکیں اور نہ تسبیح ثریا اور عقد پروین کہہ سکیں بلکہ 

دندان رشک در ہیں دہن رشک درج ہے 

بتیس آفتاب ہے اور ایک برج ہے

یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله 

دہن رشک چمن اسرار الہی کا خزینہ ۔ جواہر جنت کا گنجینہ۔ پھول اس گل رعنا کی مشابہت سے شگفتہ دل۔ اور غنچہ اپنی نارسائی سے دل تنگ اور منفعل۔ کہ ہزار رنگ لاتا ہے۔ مگر مداح دہن اسے منہ نہیں لگاتا ۔  بایں وجہ منتظر کمال کو کامل سے کیا مناسبت اور انقص کو اکمل سے کیا مشابہت ۔ تنگی دہن زناں ناقصات العقل  والدین کی صفت ہے۔ اور مناسب حال مردان میدان فراخی و وسعت ۔ افواہ اس دہن رشک عدن کی آسمان و زمین میں منتشر۔ اور آوازہ اس شگاف قلم صنع کا تقریر و تحریر سے باہر۔ جوہری فلک اس کانِ جواہر کی جستجو میں سرگرداں۔ اور خضر رہنما اس چشمۂ حیواں کی تلاش میں سر بہ بیاباں ۔ دہن خو بردیاں اس کے مقابل کالمعدوم ۔ اور غنچہ خاطر خوباں اس کی یاد میں مغموم ۔ بلبل خوش نو انثار طرز تکلم اور گل رنگیں ادا قتیل جلوہ تبسم یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله ۔ زبان چشمۂ حیواں کی روح افزا ہے۔ یا دائرۂ دو ہلال لب میں ایک خورشید جلوہ فرما۔ ہر زباں داں اس کی تعریف میں عذب البیان۔ اور سوسن دہ زبان اس کی توصیف میں رطب اللسان ۔ یوسف مصری اس کی مدحت سے شیریں دہاں۔ اور طوطی صدریٰ اس کی نعت میں شکر فشاں۔

حلاوتِ چاشنی گیر از بیانش 

بہ شیرنی موظف از زبانش 

یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله 


لب نوش آگین غیرت انگبیں۔ اور لعل نوشیں رشک قند شیریں۔ جب نبات شیریں کلامی۔ کند مکر رعذ البیانی ورق ورد احمر ۔ آبروئے گوہر جانِ لعل و مرجان ۔ روح گلزار رضواں ۔لطافت موج طراوت ۔ طراوت جوئبار لطافت گلدستہ بزم زیبائی ۔ بہارستان رنگیں ادائی۔ نام خدا ہر بات اس کی آب خضر سے جانفزا تر ۔ اور ہر کلمہ اس معجزۂ مسیح سے افضل و بر تر۔ 

دم میں مردوں کو جلاتی ہے عنایت اس کی

لبِ عیسی سے کوئی پوچھے حقیقت اس کی

نیشکر اس کی شیریں بیانی سے انگشت حیرت دردہاں اور حلوائے مقراض وصگ شکرافشانی میں بریدہ زباں آب شیریں فرات اس کے حسن و صفا کے آگے پانی بھرتا ہے اور شکر لبوں کا اسکے سامنے اپنی گفتار شیریں سے دل کھٹا

لبش جاں داروئے لعل بدخشاں 

زمیں بوشس کناں یا قوت درکاں


محبوبان مصری اس کے ہجر میں تلخ کام اور عقیق یمنی اسکے عشق میں خون آشام

کوثر کا اشتیاق میں ان کے یہ حال ہے 

گویا وہ تشنہ لب تہہ آب زلال ہے۔

یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله ۔

 گوش حق نیوش قطب فلک سے ہم دوش اور در یتیم اس کان صباحت کا حلقہ بگوش 

اس کان کیی ثنا نہیں ممکن زبان سے

دیکھا نہ آنکھ سے نہ سنا کان سے 

شمع کافوری اس کی لو میں سر گرم سوز و گداز اور صدف دربار آوازہ زیبائی سے گوش برآواز یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله ۔ بینی الف ابجد ازل ہے یا نخل طوبی کا پھل ۔ جوہرِ آئینہ رو۔ تیر کمان ابرو نخل بادام جنت موج بحر رحمت ۔ شاخ نہاں امید۔ شعاع نور خورشید ۔ گل باغ مہربانی۔ نصف مصحف کی نشانی۔ یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله۔ گردن انور فوارۂ نور ہے یا صراحی بلور ۔ اور چراغ فلک اس کے پرتو سے روشن خیال ناعت اس کی لو سے شمع انجمن ۔ یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله  طبع نازک اگر باریک بینی پر کمر چست باندھے اور بال کی کھا نکالے عقدۂ کمر مبارک نہ کھول سکے اس سرمایۂ اقبال کو بال کہنا وبال اور اس کی باعثِ ایجاد کو عنقا سمجھنا محال۔ 

قاب تک ہم نے بہت قاف قمر ڈھونڈا ہے۔ 

کمریں دیکھی ہے مگر ایسی کمر عنقا ہے۔ اس کنہ حق کو تار شیرازہ ہستی لکھنا بجا ہے ۔ اور اس رشتہ یقین کو جوہرِ آئینہ قدرت کہنا زیبا سینہ مہر گنجینہ حسن و صفا کا خزینہ۔ لوح محفوظ ہے یا مرات تجلی۔ آئینہ قدرت یاسیم فردوس کی تختی 

صدرِ دیوانِ رسالت کا عجب سینہ ہے

صورت علم لدنی کا وہ آئینہ ہے

اہل انصاف کے نزدیک انکشاف اس کی حقیقت کا محال ہے اور زبان و صاف بیان اور صاف میں لال ۔ خط سیاہ اس سینہ صاف پر کھینچا ہے یا دست قدرت نے دست اوپر محبت ورق آفتاب پر لکھا ہے۔ شکم مبارک تختہ سیمیں ہے یا لوح صندلیں ۔ الماس کا پرچہ یا چاند کا ٹکڑا ۔ آئینہ مصفا اس کی صفائی سے حیران ہے کہ پشت مبارک اس شکم صاف سے صاف عیاں ہے

سوا بدر سے شانِ شکم صاف اس کی

چشمِ اختر بھی جھپک جائے وہ ہے ناف اس کی 

 یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله 


ناف جناب دریائے لطافت کا گرداب یا بحر صفا کا گوہر خوش آب ۔ کاخ تجلی کا روزن سر بستہ ۔ یا حسن و صفا کی چشم نیم وا

یا نافِ پاک ننھا سا اک جامِ نور ہے 

جس میں زلال چشمۂ آب بلور ہے

یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله 


مہر نبوت پشت مقدس پر مختوم ہے اور نام خدا اس میں مرقوم ہے

 

نئے انداز کی یہ مہر ہوئی عالم گیر

سکہ میں کھدا نام شہنشاہ و وزیر۔ 


شانہ ایک ایک شان و شوکت میں یگانہ ۔ زور و قوت میں یکتائے روزگار لشکر کشی کو سر دست تیار جس سے ہات ملائے سلطنتِ دارین عنایت فرمائے

محیطے چہ گویم کہ بارندہ میغ 

بیک دست گوہر دگر دستِ تیغ 

بگوہرِ جہاں بیا راستہ

بہ تیغ از جہاں داد و دیں خواستہ

ہاتھ موجِ دریائے کرم ہے۔ اور دستگیر عاصیان امم۔ الف الطاف و اکرام ۔ شاخ نہال انعام ۔ مفتاح باب رحمت۔ کلید ابواب جنت ۔ ید بیضا اس  گلدستۂ فردوس کا ہوا خواہ اور دست اندیشہ اس کے دامن ثنا سے کوتاہ 

پنجہ خورشید رات دن پھرتا ہے مگر پنجۂ مبارک کا ہمسر شش جہت اور ہفت کشور میں ہاتھ نہیں آتا اور سوسن وہ زبان ہر چند شش و پنج کرتا ہے لیکن دونوں عالم میں ایک شے کو بھی اس مربع نشین چاربالش یکتائی سے تشبیہ کے قابل نہیں پاتا۔ 

*بازو* موجِ بحر حسن و ضیا ۔ شمع ساعد اندھیرے کا اجالا مہِ نو ناخن کی صفا سے شرمسار ۔ اور ناخن تدبیر اس کی عقدہ کشائی پر نثار یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله شاخِ نسرین ساق سیمیں پر فدا اور گل رنگین کا اس کی رنگینی دیکھ کر دم ہوا۔ شمع اگر اس مہرِ طلعت کو دیکھ لے روشنی اس کی کافور ہو جائے ۔ اور سکندر اگر اس مرات تجلی کا وصف سن لے آئینہ اپنا طاق دل سے گرائے یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله سرداران عالم قد مبارک کو آنکھوں سے لگاتے ہیں اور ارباب بصیرت خاک پا سے کحل الجواہر بناتے ہیں بنائے دین اس کے ثبات سے قائم و استوار اور طاؤس طنا زیاد خرام ناز میں بیقرار و اشکبار 

حسن رفتار زمانہ سے جدا اس کا ہے

چرخ پامالِ نشان کفِ پا اس کا ہے


نرگس جنت انتظار قدوم میں چشم برراہ ۔ اور آب حیواں اس کی خاک پا کا ادنی ہوا خواہ پشت قدم رخسارہ حور سے صاف  اور کف پا لوح بلور سے شفاف نگہت جسم مشک بو سے مشام جان معنبر اور دماغ  قدسیاں معطر اور شمیم بدن گلگوں سے صحن کعبہ رشک چمن ۔ اور کوچہائے مدینہ غیرت گلشن اس کے نفحہ عنبرین سے بخت خفتہ بہار بیدار اور سودائے رائحہ مشکیں میں دامن تا تار تار تار۔ مشک ختن اسکا حبشی بندہ اور عرق بہار اسکے سامنے شرمندہ اور گل عرق تشویر بررو دستہ سنبل آشفتہ منہ یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله  لطافتِ تن رشک یاسمین سے محیط۔ فکر بر گرداب ۔ اور زورق خیال در تہہ آب نرمی بدن فلک اطلس پرپشت پا مارتی ہے اور نزاکت جسم حریر جنت پر پاؤں نہیں رکھتی ایک عالم عشق ملاحت سے شوریدہ سر اور در یتیم یاد صباحت میں چشم تر رنگ صفا آئین اس تن سیمیں کا نور دیدہ صفائی ہے اور آئینۂ جمال رنگین ادائی۔ رنگِ روئے خورشید روبرو اسکے زرد اور گرم بازاری آفتاب حضور اس کے سرد ۔ آئینہ سکندر مقابل اس کے حیران ۔ اور مشتری فلک اس کی طلب میں سرگرداں ۔ چراغ بدخشاں اس کے سامنے باد خجالت سے گل اور گل رخان فرخار اس کی یاد میں ، ہمصفیر بلبل یاد قامت میں سینہ گلشن سے آہ سرد بلند اور سردآزاد زنجیر حسرت میں پابندہ 

سرو در باغ بیک پائے ستادہ است نگر

برکاب تو رود گر بودش پائے دگر

نخل طوبیٰ میں کیا شاخ ہے جو اس نو نہال خوبی سے ہمسری کا دعوی کرے اور شمشاد کی کیا بنیاد جو اسکے سامنے سر اٹھائے مصرعہ سرد گلستاں اس کے وصف میں موزونی سے بے بہرہ اور الف اس کی مشابہت سے حروف تہجی کا پیشوا۔ ہزار داستان چمن اگر اس قامتِ موزوں کا وصف سن پائے ہزار شاخیں مصرعہ شمشاد میں نکالے اور قمری مسجع سخن اگر اس غیرت طوبیٰ کو دیکھے الف سرد کو صفحہ خاطر سے مٹائے وہ قامت زیبا اور قد رعنا نخل میوہ بہار ہے یا نہال خورشید  بار ۔ رونقِ نو نہالان چمن رایت اقبال گلشن۔ نو نہال باغِ ارم ۔ الف اسم اعظم 

اس ایک الف سے ارض بھی ہے اور سما بھی ہے  

دنیا کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ہے

یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله  سایہ بلند پایہ اس قد زیبا کا عنقا نایابی ہے یا سر مہ چشم عدم اور ظل ہمایوں اس سرد رعنا کا مردمک دیدۂ آدم ہے یا نور عین نیر اعظم  ماہ منور کے قریب اندھیرا کس نے دیکھا ہے اور مہر انور کے پاس سایہ کب آ سکتا ہے 

فتادہ سایہ زاں خورشید رخِ دور 

کہ باہم راست ناید ظلمت و نور ۔


 اگر جسم نورانی کے لیے سایہ فرض کیا جائے نور کے سوا کیا نظر آئے گا اگر وہ سایہ دیدہ اہل بصیرت میں نہ سماتا نور معرفت ان کو نظر نہ آتا اور جو وہ ظل ہمایوں آئینہ مہر و ماہ میں منعکس نہوتا آسمان انکو آنکھ کا تارا نہ بناتا مقام اس قامت سراپا عظمت کا اس سے برتر اور اعلیٰ ہے کہ ہمسر اس کا پایا جائے اور مرتبہ اس قد مبارک کا اس سےبہت بالا ہے کہ پیرو اس کا خاک پر افتادہ نظر آئے۔ 

 پیغمبر مانداشت سایہ

 تاشک بہ دل یقیں نیفتد

 یعنی ہر کس کہ پیردادست 

 لاریب کہ بر زمیں نیفتد


 یا ایھا المشتاقون بنورِ جماله صلو علیہ و آله اللّھم صلی علی محمد نور الھدیٰ وبد رالدجیٰ وسلم تسلیما۔


  (الکلام الاوضح فی تفسیر سورۃ الم نشرح، صفحہ ١١٤)