میلاد نامہ
از- علامہ یوسف بن اسماعیل نبھانی رضی المولیٰ عنہ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِٱلْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
"بیشک تشریف لایا ہے تمہارے پاس ایک برگزیدہ رسول تم میں سے گراں گزرتا ہے اس پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت ہی خواہش مند ہے تمہاری بھلائی کا مومنوں کے ساتھ بڑی مہربانی فرمانے والا بہت رحم فرمانے والاہے۔(اے حبیب) پھر اگر منہ موڑ لیں تو آپ فرما دیں کافی ہے مجھے الله نہیں کوئی معبود بجز اس کے اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔"
١) تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم پر انگنت نعمتیں فرمائیں۔یہ حمد اس آدمی کی حمد کی مانند ہے جو اپنی حمد کی ادائیگی میں خلوص کا اظہار کرتا ہے میں اللّٰہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہوں اور اس کے تمام نعمتوں پر سراپا سپاس ہو جس نے ہم کو سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام انبیاء سے بہترین ہے کی بعثت کےلئے مخصوص کیا وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جو تمام مخلوق کے سردار ہیں۔
٢)میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ یکتا ہے وہ ہی اس قابل ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تمام مخلوق سے بہترین ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللّٰہ کے وہ رسول مکرم ہیں جنہوں نے دین اسلام کو مکمل کیا اور آپ مجدد ہیں جس شخص نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی وہ بلاشبہ جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہے گا۔
٣) اللّٰہ رب العزت نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر درود اور سلام بھیجے۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی آل پر درود و سلام ہو اور ہر اس شخص پر درود و سلام ہو جو ان کی طرف منسوب ہے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سراپا ہدایت صحابہ کرام جو کہ آسمان کے درخشندہ ستارے ہیں ہر درود اور سلام ہو تمام تابعین پر اور تمام علماء پر رحمتیں نازل ہوں اور کائنات میں ہر اس شخص پر جو ہدایت دینے والا ہو یا ہدایت حاصل کرنے والا ہواس پر رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔
٤)حمد وصلوۃ کے بعد اے سعادت مند انسان سن! اور ہر اس شخص کو سننا چاہئے جس کا دل توحید نے منور کر دیا ہے یہ قصیدہ ایک مضبوط اور مستحکم ہار کی مانند ہے اس میں موتیوں کے پرونے کا انداز بڑا یگانہ ہےاس قصیدہ میں اس ماہتاب جہاں تاب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہے جو دنیا میں بہترین دین لائے۔
٥)میں نے اس قصیدہ کو بحر مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے نفیس جواہر یعنی عمدہ افکار سے ترتیب دیا ہے وہ محمد مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جو تمام نوع انسان سے بہترین ہیں جو پاکیزہ لوگوں کا خلاصہ ہیں جو غلاموں اور آزاد لوگوں کے سردار ہیں۔کائنات میں موجود ہر چیز کے سردار ہیں اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شان یگانہ ہے۔
٦) میں نے اس قصیدہ میں "مولد الدر دیر" کا خلاصہ بیان کیا ہے اور اس میں"المواھب الدنیہ" میں سے کچھ اضافہ بھی کیا ہے میں اس قصیدہ کے لکھنے سے اللّٰہ تعالیٰ کے قرب کی امید کرتا ہوں اور میں یہ تمنا کرتا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم میرے معاون و مدد گار ہوں اور اس قصیدہ کے اختتام پر میں نے ایک عمدہ دعا بھی لکھی ہے۔
اے عزیز تو جان لے کہ جس نے بھی پیارے احمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا دم بھر یقیناً اُسکا نام رفعت آشنا ہو گیا اسی وجہ سے اہل علم آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے میلاد مبارک کا انعقاد کرتے ہیں اور یہ عمل ہدایت یافتہ ہے نجد کے گمراہوں کے علاوہ تمام کائنات اس فعل پر مسرت کا اظہار کرتی ہے۔
٦) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے پانچ سو سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے اس مبارک عمل کو مستحسن سمجھا ہے۔محفل میلاد کا انعقاد ہر شہر میں ہوتا ہے اور اس محفل میں ہر صاحب علم اور صاحب حیثیت انسان شریک ہوتا ہے اور ہر آدمی جو راہ ہدایت پر گامزن ہوتا ہے۔ اس میں شرکت کرتا ہے۔
٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کتنے ہی عظیم الشان اجتماع ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں کتنے ہی لوگ بکھر گئے۔لوگوں نے شہروں اور ٹیلوں کو سنوارا۔ انہوں نے روشنیوں اور شمعوں کو زیادہ کیا اور اچھی خوشبو کے ساتھ اپنے آپ کو معطر کیا۔
٩) انہوں نے اللہ تعالی کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر سے خوشی حاصل کی وہ مسرور ہوئے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم مبارک کے طفیل کھایا اور پیا۔انہوں نے اپنے رب سے دعائیں مانگیں اور مناجات کیں انہوں نے اللہ تعالی سے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت طلب کی اور اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا۔ان کا یہ عقیدہ تھا کہ محفل میلاد کے صدقے انسان ہر مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
١٠) جب لوگوں نے اپنے درہم اور دینار محفل میلاد پر خرچ کئے، اس محفل میں اللہ تعالی اور اس کے محبوب کریم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کا ذکر کیا۔ ان میں اللہ تعالیٰ کی حمد اُسکے محبوب پر درود شریف اور دعا مانگی تو اللہ تعالی نے کتنے ہی شهروں کو آباد کردیا اور لوگوں کو کتنی ہی آسانیوں سے نوازا اور انہیں خوشیاں و مسرتیں عطا کی۔
١١) اے سعید انسان! کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ تیرے اس عمل سے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم ناراض ہوں گے یا تو یہ سمجھتا ہے کہ تیرا یہ مبارک عمل اللہ تعالی کو راضی نہیں کرے گا میرانفس تجھ پر نثار !یہ عمل مبارک کرتا رہ اور ہلاکت اور تباہی سے خوفزدہ نہ ہو بار بار محفل میلاد کا انعقاد کرتا رہ۔تو سعادت مندی کی زندگی بسر کرے گا اور سعادت مندی کی حالت میں ہی تجھ کو موت آئے گی۔
١٢) لیکن اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور نجات کے لئے اخلاص شرط ہے بلاشبہ وہ حالات کو تبدیل کر دیتی ہے اور اطاعت کو برائی میں بدل دیتی ہے اور قرب کو بعد میں تبدیل کر دیتی ہے۔
١٣) انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے حلال مال کو محفل میلاد پر خرچ کرے۔مال کا حلال ہونا نیک اعمال کی بنیادی شرط ہے اور اگر محفل میلاد پر خرچ کیا جانے والا مال حرام ہو تو اس محفل کا اجر اس آدمی کو ملے گا جس کا یہ مال ہوگا اور اس آدمی کو جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا اور یہ سب سے بری قید ہے۔
١٤) عورتوں کا مردوں کے ساتھ ملنا یہ ہماری شریعت میں سب سے برا فعل ہے یہ ہمہ وقت اور ہر حال میں یہ جہالت اور گناہ کی علامت ہے اس لئے اس فعل سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہئے۔
١٥) محفل میلاد میں ہر قسم کی برائیوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ہاتھ سے یا زبان سے کسی آدمی کو ایذاء نہیں دینی چاہئے اور ہر حسین اور روشن جبین سے "سماع" سننے سے انکار کرنا چاہئے خواہ وہ گانے والی کوئی حسینہ ہو یا ایسا خوبصورت لڑکا ہو جس کی ابھی داڑھی نہ آئی ہو۔تو اگر ایسے ضعیف
العقل (حسینہ یا امرد) لوگوں سے راہ فرار اختیار کرے گا تو کامیاب ہوجائے گا۔
١٦) اگر کوئی شخص ایسی محافل و مجالس میں کچھ پڑھنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ وہاں رشد و ہدایت کی باتیں اختیار کرے اور انہیں سنائے۔مثلا وہاں بھلائی، عمدہ اخلاق، جنت اور دوزخ کی گفتگو کرے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت مبارک پیش کرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کی مدح خوانی کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور دیگر اولیاء کرام کی تعریف و ستائش کرے۔
١٧)انسان کو ایسی محافل میں نبی مصطفی تہامی صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنا چاہئے وہ نبی کریم جو تمام بنی نوعِ انسان سے بہترین اور نسل انسانی کے سردار ہیں جنہوں نے اپنی شریعت مطہرہ میں حرام و حلال کا امتیاز بتایا جو ہر شرف اور بزرگی کی اصل ہیں۔
١٨) جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھا اللہ تعالی اسے دس مرتبہ اپنی رحمتوں سے نوازے گا۔ یقیناً یہ حدیث صحیح ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو روایت کیا ہے اور اس نے شہرت حاصل کرلی ہے۔ یہ ایسا حق ہے جو صحیح و سالم ہے اور نقد ملتا ہے۔
١٩) اگر میرا رب صرف ایک مرتبہ ہی درود شریف بھیج دے تو وہ درود شریف ہزار ہا درود شریف سے زیادہ ہوگاتو دیکھ اس صلوٰۃ و سلام کے کتنے فائدے ہیں اور اس کے اجر کے انوار کتنے رفیع ہیں۔ اس لئے اگر تجھ میں رشدوہدایت ہے تو درود شریف پڑھنے کا حریص ہوجا۔
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
(الاحزاب:٥٦)"بے شک اللہ تعالی اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اسی نبی مکرم پر اے ایمان والو تم بھی آپ پر درود بھیجا کرو اور (بڑے ادب و محبت) سے سلام عرض کیا کرو۔"
٢٠) سب سے پہلے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پیدا کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی اصل اور ہر سردار کے بھی سردار ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم کی مٹی سے پہلے نبوت ملی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر والد اور تمام اولاد کے بھی باپ ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تخلیق آدم سے پہلی مخلوق اور بعد والی مخلوق کے بھی اصل ہیں۔
٢١) سب سے پہلے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پیدا فرمایا پھر اسی نور سے کائنات کے ظاہر اور باطن کی تخلیق کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق کے بعد ہی قلم سے لکھا گیا۔ پھر اس قلم نے کائنات کی ہر چیز کے بارے میں لکھا۔
٢٢) تمام کائنات کی تخلیق نور مصطفی علیہ التحیتہ والثناء ہی سے ہوئی تمام علوی اور سفلی مخلوق کو آپ ہی کے نور سے پیدا کیا گیا تمام کائنات فرع ہے اور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم اصل ہیں تمام جہانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل نہیں ہے۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نہ ہوتی تو تمام کائنات قید سے رہائی نہ پاتی یعنی تمام کائنات کو پیدا ہی نہ کیا جاتا۔
٢٣) پھر خلاق اعظم (اللہ تعالی) نے حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی سے تخلیق فرمائی اور آپ علیہ السلام کی تخلیق کے بعد سارے عالم کو پیدا کیاگیا پھر اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اس نور کے لئے مخصوص کیا جو محمد مصطفی، رسول ہاشمی اور تمام کائنات کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کا نور تھا۔ باپ کی طرف سے دادا کے لئے کتنی خوشی ہے۔
٢٤) اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کے لئے حضرت حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا حضرت آدم علیہ السلام بڑی محبت و اشتیاق کے ساتھ ان کی طرف آئے لیکن حضرت حوا علیہا السلام نے قرب سے انکار کر دیا حضرت آدم علیہ السلام کو کہا گیا کہ پہلے حضرت حوا علیہا السلام کا حق مہر ادا کرو۔اس کا حق مہر یہ ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو بڑی شان والے ہیں ان پر درود بھیجو۔
٢٥) وہ دونوں اللہ تعالی کی جنت میں سکونت پذیر ہوگئے انہیں وہاں پر عمدہ اور اچھی نعمت سے نوازا گیا حتیٰ کہ ابلیس ان کے ساتھ بہتان لے کر آیا انھوں نے وہ دانا کھا لیا دونوں اس جنت سے نیچے اتر آئے اور ہندوستان کی سرزمین میں انہیں اتاراگیا۔
٢٦) حضرت آدم علیہ السلام کے لئے حضرت حوا علیہا السلام نے بہت سے بچوں کو جنم دیا ان تمام میں سے حضرت شیث علیہ السلام یقیناً بہترین تھے اسی وجہ سے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا امین بنایا گیا اور انہیں کہا گیا کہ آپ اس نور مبارک کے محافظ اور امین بن جائیں اور بعد میں آنے والی نسلوں کو بھی اسی طرح امانت کی حفاظت کی وصیت کرنا۔
٢٧) حضرت شیث علیہ السلام نے یہ وصیت اپنے تمام بیٹوں کو کی کہ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور مبارک کے لئے بہترین عورتوں کا انتخاب کریں وہ بلند نسب والی شریف عورتوں سے نکاح کریں جو نجیب الطرفین (باپ اور ماں کی طرف سے اعلی نسب والی) ہوں اور شرف وبزرگی کی حامل ہوں۔
٢٨) اسی طرح حضرت شیث علیہ السلام کے بعد آپ کی اولاد نے اپنے بیٹوں کو بھی یہ ہی وصیت کی ان کے بعد جو بھی آتا رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کرتا رہا جو شخص بھی گزرتا وہ اپنی اولاد کو یہی وصیت کرتا اور یقینا انہوں نے نور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ظلم و تعدی سے بچایا۔
٢٩) انہوں نے بلند اور واضح نسب والی عورتوں سے صحیح نکاح کیا ان میں سے کسی نے بھی بدکاری کا ارتکاب نہ کیا۔ان میں سے بڑے بڑے عظیم الشان سردار تھے وہ میدان جنگ کے شیر تھے اور شیروں سے زیادہ معزز تھے۔
٣٠) ان تمام میں سے ہر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر فخر کرتا رہا وہ یگانہ حیثیت کا مالک بن گیا اور اپنے زمانے کا سردار ہو گیا شرف اور بزرگی میں اس کا مثیل کوئی نہ تھا وہ یقینا موحد تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آباء واجداد جنت الخلد میں جاگزیں ہیں۔
٣١) حتیٰ
کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پاکیزہ اور مطہر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسب و نسب کے لحاظ سے تمام لوگوں سے بلند ہیں۔ہر بھلائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام اقوام سے آگے ہیں آباء اجداد اور والدین کے لحاظ سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلی وارفع ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا شرف و وقار تمام حدود سے تجاوز کر گیا ہے۔
٣٢) نبی اکمل صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نور مبارک ایک سردار سے دوسرے سردار کی طرف منتقل ہوتا رہا۔ ان کی جبینوں پر یہ نور اس طرح ضوفشاں ہوتا تھاگویا کہ وہاں مشعل رکھی ہوئی ہے ہر دانشمند اور عقل سے عاری انسان اس کو دیکھتا تھا وہ نور مبارک اس طرح تھا گویا کہ برج سعد کا کوئی ستارہ ہو۔
٣٣)حتیٰ کہ یہ نور مبارک آپ کے والد ماجد کی پیشانی میں قرار پذیر ہو گیا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم سے کس کا باپ بہتر ہو سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم میرے آقا حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے لوگوں نے کبھی بھی آپ میں کوئی برا عیب نہ دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی ہر برائی سے پاکیزہ تھیں۔
٣٤) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین اہل ایمان نہ تھے جبکہ پوری دنیا کو ہدایت دینے والی شخصیت انہیں سے ہی پیدا ہوئی یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ ذات جس کو اللہ تعالی نے سب جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہو وہ اپنے ہی والدین کے لئے راحم نہ ہو؟ہر وہ انسان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان کا منکر ہو اس کی زبان کاٹ دے۔
٣٥) میرے دل نے یہ جان لیا اور میری زبان نے یہ روایت کیا ہے کہ وہ دونوں جنت میں ہمیشہ رہیں گے ان دونوں کو اللہ کی قدرت سے زندہ کیا گیا وہ دونوں اپنے پیارے لخت جگر "عدنانی" صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ان کا وہ پیارا نور نظر جو معد اور بنو معد کے لئے قابل فخر ہیں۔
٣٦) ہائے افسوس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین بچپن ہی میں وصال فرما گئے۔ آپ کے والد ماجد آپ کی والدہ ماجدہ سے بھی پہلے انتقال کر گئے۔آسمان کے ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غم میں غمگین ہوگئے۔انہوں نے اپنے رب سے اس فیصلہ کے بارے میں آہ وزاری کی رب تعالیٰ نے فرمایا میرے بندے اور میرے برگزیدہ انسان کو میرے لئے ہی چھوڑ دو۔
٣٧) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین کی عمر مبارک بیس سال سے بھی متجاوز نہ تھی کہ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کوئی اولاد نہ چھوڑی اگر وہ زندہ ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتیں وہ دین و دنیا میں آپ سے راضی ہو جاتے اور ہر قسم کی سعادت حاصل کر لیتے۔
٣٨) لیکن اللہ تعالی نے یہ ارادہ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی رہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو بھی زندگی عطا نہ کی نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین کو اور اولاد عطا فرمائے اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کا کا اکیلا ہی والی بنا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی انسان کا احسان نہ ہو۔
٣٩) اللّٰہ تعالیٰ نےآپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لئے تمام مخلوق کو مسخر کر دیا۔کائنات کی ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مطیع کر دیا۔حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے لیے ہلاکت کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ ایک دن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیاسے یا بھوکے نہ رہے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات پر میری روح میرا باپ اور میرے دادا قربان ہو جائے۔
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
٤٠) سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے بہترین ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسب و نسب میں تمام مخلوق سے فوقیت حاصل ہے وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لخت جگر ہیں وہ کریم النسل ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے عرب میں آپ کے بیس آباء و اجدادگزرے ہیں اور یہ تعداد صحیح ہے۔
٤١) وہ وادی بطحاء کے سردار حضرت عبدالمطلب 'ہاشم' عبدمناف صاحب بصیرت ہیں قصی، کلاب،مرہ،کعب،لوئ،
غالب،قریش جس کو فہر بن مالک جو شرف اور بزرگی والے ہیں، کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔
٤٢) نضر،کنانہ ،خزیمہ جو ہر کام کو پوشیدگی سے کرتے تھے مدرکہ،الیاس،ابن مضر،
نزار معد جوایک بہادر شیر تھے۔ان کے والد عدنان جن کا ذکر حدیث شریف میں آیا ہے۔ عدنان پر آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب نامہ موقوف ہو جاتا ہے۔
٤٣) اسی نسب معظم کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم محترم ہیں اور اس عظیم حسب کی وجہ سے آپ قابل صد تکریم ہیں۔ آپ اسی جوہر معظم کی وجہ سے معزز ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی آفتاب اور انہی ستاروں کی وجہ سے محتشم ہیں۔ یہ سعادت کے سورج اور سعادت کے ستارے ہیں۔
٤٤) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ کے تمام اجداد شرف وقدر والے ہیں۔ان کے زمانہ میں اتنی زیادہ عزت والا آدمی اور کوئی نہ تھا ان تمام کی یہ عزت و توقیر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور مبارک کی وجہ سے تھی۔گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوہر آبدار ہیں اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اجداد صدف ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اجداد نحل ہیں اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عین شہد ہیں۔
٤٥) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور مبارک آپ کے والد محترم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم وہ عظیم الشان ہستی ہیں جو مکرم،صاحب شرف اور شریف لوگوں سے بھی بہترین تھے۔ اگر ان کو ماہ تمام کہا جائے تو یہ ان کے لئے کامل تشبیہ ہوگی۔نور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا آفتاب انہیں عطا فرمایا گیا ان کے پاس بھی اس نور کے رہنے کی ایک مدت تھی۔
٤٦) جب لوگوں نے دیکھا کہ آپ (حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ) ہر لحاظ سے کامل اور مہذب ہیں قریش میں حسب اور نسب کے لحاظ سے سب سے بلند تر ہیں حسن وجمال کے لحاظ سے تمام لوگوں سے فائق ہیں اور نورنبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پیشانی میں ضوفشاں ہے تو تمام لوگوں نے آپ ہی کی طرف رغبت کی اور آپ ہی کا مطالبہ کیا۔
٤٧) حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کے والد محترم نے آپ کی شادی حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کر دی جو تمام عورتوں سے پاکیزہ تھیں اور حسن وجمال میں یکتا تھیں وہ وہب کی آنکھ کی ٹھنڈک تھیں عبد مناف ابن زہرہ ان کا دادا تھا۔کلاب جو کہ دادا کا دادا تھا ان کا نسب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مل جاتا تھا۔
٤٨) وہ بزرگ اور پردہ نشین خاتون کتنی معزز ہےوہ بہادر اور بطل قوی کتنا محترم اور مکرم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم بھی لاثانی اور آپ کی والدہ ماجدہ بھی بے عدیل ہیں۔انہوں نے ہر قسم کی سرداری اور سیادت کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے اس ذات کی بھلائی کی وجہ سے جو پنکھڑے میں ہی کائنات کے سردار بن گئی۔
٤٩) دونوں عمدہ خصائل کے جمال سے حسین تھے اور کواکب آسمانی کی رونق سے وہ دونوں ظاہر ہوئے اور انہوں نے پیارے لوگوں کی صحبت اختیار کی اور دونوں شعب ابی طالب میں آ کر مل گئے یہ سعادت سے لبریز جوڑا کتنا ہی سعادت مند تھا۔
٥٠) حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا محمد الامین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حمل سے حاملہ ہوئیں وہ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم جو پوشیدہ گوہریک دانہ تھے۔ قیمت اور حسن وجمال میں تمام موتیوں سے بالاتر تھے اور حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا بھی اسی موتی کی محبت میں مبتلا تھیں انہوں نے اس گوہر تابدار کی ہر تباہ کن چیز سے حفاظت کی۔
٥١) حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل سے حاملہ ہوئیں وہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم جو پوری کائنات کا فخر ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم ساری کائنات سے بہترین ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ کے احکام سننے والے ہیں اور پھر انہیں بندوں تک پہنچانے والے بھی ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ذکر کرنے سے مسک اذفر کی خوشبوئیں آتی ہیں۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے جسم کی خوشبو عنبر کی خوشبو سے بھی بہترین ہے اس سے ہر گلاب اور اس کی خوشبو شرمندہ ہے۔
٥٢)حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا اس ذات کے حمل مبارک سے حاملہ ہوئیں جو اللہ کے تمام مخلوق سے بہترین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حبیب، خلیل اور اس کے محب ہیں بہترین مراتب کو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص کیا اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر انبیاء سے فضیلت میں بھی امتیاز بخشا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام بنی نوع انسان سے بہترین ہیں۔
٥٣) حضرت آمنہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا اس ذات
کریمانہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حمل مبارک سے حاملہ ہوئیں جو کامل بھی ہیں مکمل بھی ہیں تمام انبیاء کرام علیھم السلام سے بہترین بھی ہیں اور خاتم النبیین بھی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت کے خورشید جہاں تاب ہیں ہر افضل سے افضل ہیں تمام انبیاء کرام اور مرسلین علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج میں سے ہیں اللہ کی قسم وہ فوج سب سے بہترین ہے۔
٥٤) حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا اس ہستی والا صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل سے حاملہ ہوئیں۔ جس کو تمام انبیاء علیہم السلام اپنے مولی کے دربار میں وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے اور وہ اپنی مراد کو پہنچ جاتے تھے۔اللہ تعالی نے تمام سابقہ انبیاء علیہم السلام سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ آپ پر ایمان لائیں آپ کی مدد کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کریں۔اس عہد کی شرائط سے کوئی نبی یا رسول علیہ السلام بری نہ تھے۔
٥٥) اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقیناً ان کے بھی رئیس ہوتے۔انہوں نے ابواق (ایک آلہ )اور ناقوس کو توڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو مکمل پاک کیا بلاشبہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم دیگر انبیاء کے بھی نبی ہیں۔
٥٦) حضرت آمنہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا اس نبی مکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حمل سے حاملہ ہوئیں جن کی نبوت کی بہت سی علامات تھیں اللّٰہ تعالیٰ کے تمام رسولوں سے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے معجزات زیادہ ہیں تمام حالات میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہی جملہ انبیاء سے افضل ہیں آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہرگزرے ہوئے اور آنے والے انسان سے افضل ہیں تمام مخلوق آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے حمد کے جھنڈے کے نیچے ہوگی۔
٥٧) آپ رضی اللہ تعالی عنہا اس ذات والا صفات کے حمل مبارک سے حاملہ ہوئیں جو بارگاہ ربوبیت میں شفاعت کرنے والے ہیں اور آپ کی شفاعت درجہ قبولیت حاصل کرنے والی ہے قیامت کے دن جب تمام لوگ ایک عظیم خطرے سے دوچار ہوں گے جب آنسوؤں کے سمندر لوگوں کو غرق کر رہے ہوں گے تمام لوگ دیگر انبیاء و رسل سے شفاعت کا مطالبہ کریں گے لیکن وہ شفاعت نہ کرسکیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق سے فرمائیں گے کہ تمہاری پسندیدہ چیز میرے ہی پاس ہے شفاعت کے لئے میں ہی ہوں۔
٥٨) تمام ساجدین سے بہترین عرش کے نیچے سجدہ ریز ہو جائیں گے اللہ تعالی کی بہترین حمد وثنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوگی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قریبی اور دوری کے لئے شفاعت فرمائیں گے یہ بلند شان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی ہوگی جو صاحب کرم اور معزز و محترم ہیں۔
اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائے گا اے میرے بندے! میں تیری شفاعت قبول کرتا ہوں۔
٥٩) حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا اس ذات کے حمل مبارک سے حاملہ ہوئیں جو سید، مسعود ،حامد، محمد اور محمود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی تمام مخلوق سے زیادہ اس کی حمد و ثناء کرنے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی قید کے تمام مخلوق سے بہترین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عہد ہمایوں کے اور ہر زمانے کے لوگوں سے افضل ہیں۔
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
٦٠) نبی مکرم، مصطفی،بشیر صلی اللّٰہ علیہ وسلم جو تمام کائنات کی زیب وزینت اور ہر زمانے کا شرف ہیں جو اپنے دین متین کی طرف ساری دنیا کو دعوت دینے والے ہیں آپ ایسی شریعت کے حامل ہیں جو ہمیشہ لوگوں کو نور ہدایت سے منور کرتی رہے گی جب حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ کے حمل مبارک سے حاملہ ہوئیں تو پھر ان کیلئے کیسی کیفیات کا ظہور ہو ذرا سنو۔
٦١) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل مبارک میں اللہ تعالی نے اپنے فضل سے آپ کی والدہ ماجدہ کے لئے بہت سے عجائب کا اظہار کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم شرف پر دلالت کرتے ہیں جو اس بات پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تمام رسل سے بہترین ہیں اور معد کے قبیلہ کے برگزیدہ افراد سے بھی برگزیدہ ہیں۔
٦٢) جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کے بطن میں تشریف لائے اس دن ایک آواز آئی۔اس آواز کو زمین و آسمان نے سنا وہ آواز یہ تھی کہ نور مصطفیٰ صلی ﷲ علیہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں قرار پذیر ہو گیا ہے۔ آپ کا بطن مبارک ہی اس نور مبارک کا قرار گاہ ہے۔دو شیزاؤں کی طرف سے حضرت آمنہ کو مبارک ہو مبارک ہو۔
٦٣) اللہ تعالی نے حضور مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم مادر میں بھی لطف فرمایا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور ان تاریکیوں کے درمیان تھا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے تھوڑے سے درد کی بھی شکایت نہ کی حاملہ خواتین جن اشیاء کے کھانے کی طرف میلان رکھتی ہے نہ ہی ان کی کوئی آرزو کی۔
٦٤) جب حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا حاملہ ہوئیں تو انہوں نے حمل مبارک کے بوجھ کو بالکل محسوس نہ کیا۔آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے حاملہ ہونے کے صرف یہ نشانی تھی کہ آپ کا حیض آنا بند ہو گیا آپ کو حمل مبارک کا شک ہوا آپ نے پھر بغیر کسی محنت کے یہ یقین کرلیا کہ میں حاملہ ہوں۔
٦٥) ایک دن آنے والا آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس بہترین نعمت کے ساتھ آیا اور اللہ تعالی کی طرف سے اس عظیم ذات کے حمل کی بشارت دی جو تمام امتوں میں سے بہترین امت کے نبی ہیں تمام عرب و عجم کے سردار اور اس ہدایت یافتہ امت کے رسول ہیں۔
٦٦) اس کے بعد ایک اور آنے والا آیا اس وقت حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا جاگنے اور سونے کے درمیان تھیں آپ نے محسوس کیا اور ایک عقلمند نے بتایا کہ بلاشبہ تو سیدالانام، خیر العباد صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے حاملہ ہے۔ تیرے لئے بشارتیں ہیں۔
٦٧) پھر آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس وہ آیا جو سب سے نیکوکار تھا اور اس نے کہا کہ جب آپ کا وہ صاحب شرف بچہ پیدا ہو تو یہ کہنا:"میں اسے ہر حاسد اور رات کو آنے والے کے شر سے اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں" اس کا نام نامی "محمد" رکھنا یہ حمد وستائش کے ساتھ کامیاب ہو جائے گا۔
٦٨) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل سے پہلے قریش تلخ اور تنگ زندگی میں تھے۔اگر وہ کاشت کرتے تو ان کی زمین ثمر آور نہ ہوتی اگر وہ تجارت کرتے تو انہیں نفع حاصل نہ ہوتا اور رحمت و عطا سے بالکل مایوس ہوچکے تھے۔
٦٩) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل مبارک کے صدقے ان پر باران رحمت ہوئی تمام کھیتیاں اور درخت سر سبز و شاداب ہو گئے۔ غلہ اور پھل کثرت سے پیدا ہوئے۔ تاجران کے پاس تجارت کے لئے آئے ان کے صاع اور مد (پیمانوں کے نام) کی قیمتیں کم ہوگئیں۔
٧٠) قریش نے اس سال کا نام "عام الابتھاج و الفرح (خوشی و مسرت کا سال) رکھا۔وہ بہت زیادہ خوش ہوے۔ ان کا غم ان سے دور ہو گیا" اللہ تعالی نے جو انہیں برکات عطا کیں۔ وہ اسی حمل کی برکت سے عطا کیں۔ اسی کی برکت سے کائنات کو وسعتیں ملیں ان کی نحوست کی بدبختی سعادت میں تبدیل ہوگئی۔
٧١) اس وقت ہر پتھر منہ کے بل گر پڑا ہر بادشاہ کا تخت الٹا ہوگیا، اس سے اللہ رب العزت خوش ہوگیا کفر کا شیخ "ابلیس" غمگین ہوگیا اور اس سے مراد "الشیخ اللعین النجدی" ہے۔
٧٢) چوپائے اس رات اللہ کے فضل سے گفتگو کرنے لگے انہوں نے ایک دوسرے کو بشارت دی وہ ہماری دنیا کے امام ہیں وہ بے مثال ہیں وہ تمام دنیا والوں اور اپنے گھر والوں کے آفتاب ہیں اللہ تعالی جو معید اور مبدی ہے نے انہیں قوت گویائی عطا فرمائی۔
٧٣)مشرق کے جانور جو اس عظیم نعمت سے آگاہ تھے انہوں نے مغرب کے جانوروں کو بشارت دی۔اسی طرح صحراؤں میں جانوروں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دیں سمندروں میں مچھلیوں نے ایک دوسرے کو خوش خبریاں سنائیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرد کے لئے رحمت ہیں۔
٧٤) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت کی وجہ سے ایک صدا زمین پر سنی گئی اور اسی طرح کی ایک آواز آسمان پر سنی گئی وہ ندایہ تھی کہ خوش ہو جاؤ فرحت و سرور کا وقت قریب آگیا ہے ابھی وہ کریم قاسم اور عطا کرنے والے تشریف لانے والے ہے۔ ہر نیک کام کرنے والے کے لئے مبارک ہو۔
٧٥) میرے پروردگار نے خواتین پر اور زیادہ کرم فرمایا کہ اس سال تمام عورتوں کے ہاں صرف بیٹے ہی پیدا ہوئے۔یہ اس ذات کی عزت کے لئے تھا جو ہر ہدایت یافتہ کے لئے بشیر اور ہر سرکش کے لئے نذیر بن کرائی یہ سال بہت زیادہ خوشی اور شادمانی کا سال تھا۔
٧٦) جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حمل قرار پذیر ہوا اس رات کوئی گھر ایسا نہ تھا جو انوار وتجلیات سے جگمگا نہ اٹھا ہو اور اس پر انوار کی بہتات نہ ہوئی ہو اور اسی طرح سورج کی آب وتاب میں بھی اضافہ ہوگیا۔اس وقت آشوب چشم نے آنکھوں میں کوئی اثر نہ کیا۔
٧٧) علماء فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حمل مبارک جو تمام عرب کے لئے سراپا فخر تھا رجب کے مہینہ میں جمعہ کے دن قرار پذیر ہوا اللہ رب العزت نے رضوان جنت سے کہا اے رضوان جنت! جلدی کرو، میری آواز پر لبیک کہو اٹھو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جنت الفردوس کے دروازے کھول دو کیونکہ میرے پیارے بندے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور مبارک قرار پذیر ہو گیا ہے۔
٧٨) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل مبارک کا تمام زمانہ فضیلت والا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل کی مدت پوری نوماہ تھی کتنا ہی عمدہ اور مبارک حمل تھا اور کتنی ذیشان وہ حاملہ خاتون تھی۔اس خاتون محترم نے دوران حمل کوئی ایسی تکلیف، دکھ یا درد محسوس نہ کیا جو دکھ یا درد دیگر حاملہ خواتین دوران حمل محسوس کرتی ہیں۔
٧٩) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حمل مبارک کے دوران سب سے بڑی یہ نشانی رونما ہوئی کہ ہاتھی نے اپنے مالک کی نافرمانی کی۔ابرہہ، اس کا لشکر اور اس کا تمام سازوسامان تباہ ہوگیا۔ان کو قتل کرنے کے لئے ابابیل آئے۔ان پرندوں نے ان کو قتل کردیا انہیں ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں پھینک دیا۔
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
٨٠) میلاد کی رات کی عمدہ تعریف کرو ہمارے نزدیک لیلتہ القدر بھی اس رات کے برابر نہیں ہو سکتی۔ اس رات دنیا پرنور ہوگئی وہ شاداں وفرحاں ہوگئی۔اس رات کو نہ سردی تھی نہ گرمی بلکہ موسم معتدل رہا اور اس رات کسی کو کوئی بھی تکلیف نہ ہوئی۔
٨١) اس رات کو ہم لیلتہ القدر سے بھی بہتر خیال کرتے ہیں اس رات نے ہمارے لئے محبت اور خوشیاں جمع کر دیں اس رات ہم پر نعمتوں اور احسانات نے وسعت اختیار کی اس رات ہمارا ہر ارادہ اور ہر قصد پایۂ تکمیل کو پہنچا اور ہمیں تمام مقاصد حاصل ہوئے۔
٨٢)اللہ تعالیٰ نے اس رات ایمان کو تابندگی بخشی اس رات خلیج فارس کا پانی خشک ہوگیا اور آتشکدہ ایران کی آگ بجھ گئی۔ایوان کسری میں شق ہوگیا موبذان نے خواب میں دیکھا کہ ان کا ملک ان سے چھین لیا گیا ہے۔
٨٣) جنات سننے کے لئے بیٹھا کرتے تھے۔اب انہیں ایسا کرنے سے روک دیا گیااب جو سنے گا اس کو شہاب ثاقب کا سامنا کرنا پڑے گا وہ شہاب تیر کی طرح سیدھا اس کی طرف آئے گا۔ اس کے لئے اس میں جل جانے کی سزا ہوگی۔
٨٤) غیب سے کتنی ہی خبریں آئیں کاہنوں اور علمائے یہود نے ان کی تصدیق کی ہر ایک یہی صدا لگاتا تھا مختار کل صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا وقت قریب آگیا۔ توحید اور انوار کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے۔
٨٥) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا وقت قریب آگیا۔ پورا عالم انوار سے جگمگا اٹھا افق سے ستارے نازل ہوئے۔وہ چراغ کی طرح تھے جنہیں زیب و زینت کے لئے ستونوں سے معلق کیا گیا تھا۔وہ ستارے نظروں کے بالکل قریب تر معلوم ہوتے تھے۔
٨٦) اللہ تعالی کے حکم سے ملائکہ نےجنت کے دروازوں کو کھول دیا انہوں نے جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا تمام حور و ولدان اور ملائکہ نے مسرت کا اظہار کیا کیونکہ ان کی اصل حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا نور ہی ہے ۔
٨٧) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خبر سن کر ان کی خوشی و مسرت تمام اطراف میں پھیل گئی انہوں نے آسمان کے دروازے کھول دیئے۔ اسی مسرت و شادمانی میں سورج کو عمدہ لباس اور خوبصورت حلہ زیب تن کرایا گیا۔
٨٨) حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا وہ سعادت مند خاتون ہیں جن کی ہر معاملہ میں راہ نمائی کی گئی آپ فرماتی ہیں کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا وقت قریب آیا تو میں نے اپنے گھر میں تنہا تھی میں اپنے ہر غم خوار سے دور تھی۔
٨٩) میرے کسی پڑوسی اور کسی رشتہ دار کو میرے بارے میں علم نہ تھا تاکہ وہ میرے قریب ہوتا حضرت عبدالمطلب طواف کعبہ میں مصروف تھے۔ میرا دل مرعوب ہو گیا لیکن میری حفاظت کی گئی اور مجھے راہنمائی مسلسل ملتی رہی۔
٩٠) اسی کیفیت میں میں اپنے گھر میں تھی۔ میں نے ایک زوردار چیخ سنی۔ ایسا امر دیکھا جو حواس کو مخبوط کرنے والا تھا پھر مجھے یہ محسوس ہوا کہ ایک پرندے نے نرم و نازک پروں سے میرے دل کو چھوا ہے جس سے میرا تمام ڈر،خوف اور درد ختم ہو گیا۔
٩١) پھر میں نے ایک معروف شربت دیکھا اس کا رنگ سفید تھا اس میں دودھ اور شہد تھا وہ عظیم الشان شربت آسمان سے لایا گیا تھا۔جب شربت مجھے پلایا گیا تو وحشت و رعب میں مجھے سکون اور چین نصیب ہوا۔ دودھ اور شہد کا شربت کتنا بہترین تھا۔
٩٢) پھر میں نے اپنی طرف چند خواتین کو آتے ہوئے دیکھا وہ قد و قامت میں بلند کھجوروں کی طرح تھیں وہ عبدمناف کے قبیلے کی خواتین کی طرح لگتی تھی۔وہ عبدمناف جو بلند پایہ بیٹوں کے والد تھے اور ہر باپ اور ہر بچے سے زیادہ معزز تھے۔
٩٣) ان خواتین نے مجھے گھیر لیا۔ مجھے ان سے بڑا تعجب ہوا۔ میں نے انہیں کہا کہ تم اتنی سرعت کے ساتھ کہاں سے میرے پاس آئی ہو۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ ہم پر تعجب کا اظہار نہ کریں یہ حضرت آسیہ ہیں یہ حضرت مریم ہیں اور یہ حوران بہشت ہیں رضی اللہ عنہم۔
٩٤) زمین و آسمان کے درمیان ریشم کی حسین چادر کو تن دیا گیا۔ ایک کہنے والے نے یہ اعلان کیا کہ انہیں ہر دیکھنے والے کی آنکھ سے پنہا کر لو۔ میں نے اس آواز کو سنا اور میں نے اس کو بھلایا نہیں۔
٩٥) میں نے فضا میں کچھ آدمیوں کو دیکھا۔ وہ ہوا میں کھڑے تھے۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی میں نے ان کے ہاتھوں میں چمکتے ہوئے حسین و جمیل آفتاب دیکھے۔وہ چاندی کے تھے اور انہیں بڑے عمدہ انداز سے بنایا گیا تھا۔
٩٦) میں نے پرندوں کے ایک غول کو دیکھا جنہوں نے کمرے اور تمام مکان کو ڈھانپ لیا ان کی چونچیں حسین و جمیل زمرد کی بنائی گئی تھیں انکے پر یاقوت کے تھے وہ پرندے حسن و جمال میں حدبیان سے ماوراء تھے۔
٩٧) اللہ تعالی نے میری نگاہوں سے حجابات زائل کردئیے میں نے اپنی آنکھوں سے عجیب اشیاء کو ملاحظہ کیا میں نے مشرق و مغرب کو دیکھا میں نے کسی ایسی چیز کو نہ دیکھا جو تکلیف دہ اور تھکا دینے والی ہو میرا قرب زیادہ ہوا میری دوریاں ختم ہوگئیں۔
٩٨) میں نے تین جھنڈوں کو دیکھا۔ دو جھنڈے مشرق اور مغرب میں لگائے گئے تھے گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کی لوگوں کو خوشخبری دی گئی تھی۔ ایک جھنڈا کعبہ شریف کے چھت پر لگایا گیا تھا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور عزت و وقار کی علامت تھا۔
٩٩) میں اسی طرح رشدو ہدایت پر ہی تھی مجھے درد زہ ہوا اور ایک نور ظاہر ہوا۔ یہ درد بڑا ہلکا پھلکا تھا حتیٰ کہ میں نے اپنے بیٹے حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ و سلم کو جنم دیا۔وہ بچہ جو تمام بچوں سے زیادہ سعادت مند ہے اور سعادت اسی پر آکر مکمل ہوئی۔
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
١٠٠) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کے ہاں پیدا ہوئے تو آپ روشن جبیں تھے۔پاک معطر اور معنبر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسدا طہر پر کوئی میل اور گندگی نہ تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر لحاظ سے مکمل تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ختنہ بھی کیا گیا تھا اور آپ کی ناف بھی کاٹی ہوئی تھی۔
١٠١) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے اس وقت ایک نور دیکھا وہ نور آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے شکم مبارک سے نکلا اور پوری کائنات میں ضوفشاں ہوگیا حتیٰ کہ کہ مشرق و مغرب روشن ہو گیا انہوں نے دور سے اپنے سر کی آنکھوں سے شام کی محلات اور اس کے نیلوں کو دیکھا۔
١٠٢) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امی جان فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ ریز تھے۔خشوع و خضوع اور آہ و زاری کر رہے تھے پھر آسمان سے میری طرف ایک بادل آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں لپیٹ دیا گیا۔ کہنے والے نے کہا "تمام مخلوق سے بہترین ذات کو ساری دنیا کے اردگرد گھماؤ۔"
١٠٣) انہیں پوری دنیا کی سیر کراؤ تاکہ مشرق و مغرب اور سمندروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا علم ہو جائے اور انہیں یہ بھی علم ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسماء صفات اور شکل کے لحاظ سے تمام کائنات کے سردار اور مختار ہیں اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تمام شرک اور باغیوں کو مٹادے گا۔
١٠٤) وہ بادل جلدی ہی چھٹ گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہور پذیر ہوئے اور اسی طرح واپس تشریف لائے جس طرح آپ تشریف لے گئے تھے آپ کے ساتھ دیگر افراد بھی موجود تھے۔جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ زمین پر لگارکھے تھے پھر اپنے ہاتھوں کو مٹی سے بھر لیا گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اشارہ فرما رہے تھے کہ آج کے بعد یہ زمین میری ملکیت میں ہے۔
١٠٥) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا پھر تمام عالم کی طرف نگاہ اٹھائی کیونکہ سارے عالم کی تخلیق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نورِ مبارک سے ہی ہوئی تھی آپ اصل الاصول اور اب الآباء ہیں تمام کائنات کی حیثیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کی طرح ہے۔
١٠٦) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر شریف کو اس جہاں رنگ وبو میں تشریف لائے۔ ربیع الاول ماہ مبارک تھا۔فجر سے تھوڑا سا پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبین اطہر سے پورا عالم منور ہوگیا۔ شمس و قمر شرمندہ ہوگئے۔ حسن و جمال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فوقیت حاصل کرگئے۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پنکھوڑے میں ماہ تمام سے گفتگو فرمایا کرتے تھے۔
١٠٧) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دودھ پلایا جو کئی سفید اٹنیوں کی مالک بن گئیں۔ اس وقت ان کے پاس بہت کم رزق تھا لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے خوش حال ہو گئیں۔آپ رضی اللہ تعالی عنہا بہت زیادہ سعادت مند تھیں کیوں کہ آپ کی آغوش میں دنیا کی سب سے بڑی سعادت آگئی تھی۔
١٠٨)اے بارالہ! تجھے واسطہ اس جاہ ومنصب کا جو تیرے نزدیک تیرے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ ہم تیری بارگاہ بے کس پناہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ جلیلہ پیش کرتے ہیں۔اے مولا! ہم تیری ہی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہم تجھ سے بھلائی کا مطالبہ کرتے ہیں پس ہمیں ہر قسم کی رشد و ہدایت عطا فرما۔
١٠٩) اے مولی کریم! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہمارے دعاوں کو شرف قبولیت عطا فرما اور ہمارے سوالوں کو پورا فرما۔
اے بارالہ! ہمارے قول و فعل کو قبول فرما۔ ہمارے نفوس اور اہل و عیال کی اصلاح فرما اور ہر تباہ کن چیز سے ان کی حفاظت فرما۔
١١٠) اے مولائے کائنات! ہمارے گناہوں کو معاف فرما۔ اے رب جہاں! ہمارے عیوب کی پردہ پوشی فرما۔ اے مولا! ہمارے لئے ہماری پسندیدہ اشیاء کو آسان فرما اور نازیبا چیزوں کو ہمارے لئے مشکل بنا دے اور ہر بری چیز کو ہم سے بہت زیادہ دور فرما۔
١١١) اے پروردگار! ہمارے والدین کو معاف فرما۔ہمارے مشائخ، بھائی اور اولاد کو معاف فرما۔ ان کے دین اور دنیا کی اصلاح فرما۔انہیں اعلی علیین میں جگہ عطا فرما اور ہمیں بھی ان کی معیت میں جنت الخلد میں جگہ عطا فرما۔
١١٢) اے رب غفور! ہمارے سلطان کی حفاظت فرما ہمارے لئے اور اس کے لئے احسان کو دوگنا فرما۔ ہمارے دشمنوں پر ہماری اعانت فرما اے مولا! ہمارے دین اور دنیا کی اسی بادشاہ کی وجہ سے حفاظت فرما۔ اس کی لشکر اور اس کے کارکنان مملکت کی حفاظت فرما۔
١١٣) اے ہمارے مولا !اس کے لئے اس کے اعمال کی اصلاح فرما۔ اس کی رعایا کی اصلاح فرما اس کے حالات کو تندرست فرما۔ اس کے اعمال کو اپنی رضا کے تابع بنا۔ ہمارے لئے اس کے افعال اور اقوال کو قابل ستائش بنا جو ہم کو مجبور کریں کہ ہم اس کو ہمیشہ اچھی تعریف کے ساتھ یاد کریں۔
١١٤) اے مولائے کائنات! نبی مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر رحم فرما۔ ہر زمان اور ہر مکان میں اس پر ترس فرما۔ اغیارکے تسلط سے ان کی حفاظت فرما تمام شہروں، قصبوں اور ہر نشیب و فراز کی حفاظت فرما۔
١١٥) ایک بار الہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ہماری دعاوں کو قبول فرما اور تمام خطرات سے امن عطا فرما اور آپ صلی اللہ علیہ وسلّم ہی کے طفیل ہمارے حالات کو اچھا فرما۔ ہماری برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل فرما۔ ہمیں حسد اور کینہ سے نجات عطا
فرما۔
١١٦) اے مولائے کائنات! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر از ازل تا ابد ان گنت درود شریف بھیج۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد پر بے شمار سلام بھیج۔ آپ کے اصحاب جو ہدایت کے کواکب نورانی ہیں ان پر بھی بے حساب سلام و رحمتیں نازل فرما۔
١١٧) اے بارالہ! خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ پر راضی ہو جاجو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اور صدیق اعظم ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا مال اور اپنی لخت جگر رضی اللہ تعالی عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی پھر روم اور عجم کی زمین پر جہاد کیا اور ہر باغی اور مرتد کو واصل جہنم کیا۔
١١٨) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد دنیا سے افضل ہیں سے بھی راضی ہوجا جنہوں نے کسری کو ہلاک کیا قیصر کو تباہ کیا جو میدان جنگ کے شیر تھے۔کچھار کے شیروں کے سردار تھے۔ اس سے میری مراد وہ ابو حفص ہیں جو حضرت زید کے بھائی ہیں رضی اللہ تعالی عنہم۔
١١٩) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ پر بھی راضی ہو جا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کریم اور افضل داماد ہیں۔ جو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دوصاحبزادیوں کے خاوند مکرم ہیں۔ جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک لشکر جرار میں اونٹ اور نقد مال دے کر مدد کی۔
١٢٠) حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ سے بھی راضی ہو جا جو کائنات کے امام اور شیر خدا ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے خاوند محترم ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے ہیں۔ باب خیبر پر حملہ کرنے والے ہیں پھر پورے لشکر کو مغلوب کر کے اس کو فتح کرنے والے ہیں آپ ہی نے مرحب اور عبد ود کو قتل کیا تھا۔
١٢١) اللہ تعالی تمام عشرہ مبشرہ سے راضی ہوجا۔ تمام بدری صحابہ پر اور ان صحابہ پر جنہوں نے درخت کے نیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی ان تمام سے راضی ہوجا۔جس شخص نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اس پر راضی ہوجا۔ وہ ایک ایسی قوم تھی جو سراپا عدل اور پاکباز تھی۔ انہیں کے طفیل ہمارا خاتمہ بھی ہدایت پر فرما۔
١٢٢) الحمدللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد مبارک کا قصیدہ شریف مکمل ہوا یہ ١٣١٢ ھ میں رقم کیا گیا۔ یہ قصیدہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر اقدس" مدینہ طیبہ" میں ہی مکمل ہوا۔
(حجت اللہ علی العالمین، جلد ١، صفحہ ٣٨٧)