async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD

Sunday, June 5, 2022

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (80)

 اس کی جان نثاری دین 


از:- خلیفۂ اعلی حضرت مفتی محمود جان رضی المولیٰ عنہ


واقعات اس سے زمانے میں بکثرت مشہور


ان میں سے ایک کو کرتا ہوں بیان و مذکور


 اس سے ہو جاۓ گی معلوم بحسن وخوبی

 

جاں نثاری سننِ رفعتِ علمی اسکی


انڈیا بھر کے جو مشہور تھے عالم فاضل 


اہل زر اور مشائخ ہوۓ ان میں شامل


سب کی آپس میں ہوئی ایک جماعت قائم


ایسے سامان کئے جس سے رہے وہ دائم


 نہ رہے باد مخالف کی کچھ اسکو دہشت

 

نہ اٹھاۓ یہ جماعت کبھی رنجِ فرقت


 نام ندوہ سے جماعت ہوئی سب میں مشہور

 

کوئی رکن اسکا کوئی صدر کوئی صدرِ صدور


 جب کہ با ضابطہ یہ انجمنِ ندوہ بنی

 

پھر ہراک رکن کے اور صدر کے دل میں یہ ٹھنی 


 کہ کیا جاۓ بڑے شہروں میں جلسہ ہر سال

 

لکچر ایسے ہوں بیاں جن سے کہ حاصل ہو مال


 نثر میں نظم میں ایسا نہ ہو مضمون بیاں

 

جس سے توہین کسی فرقے کی ہوتی ہو عیاں


کلمہ گو جتنے ہیں آپس میں ہیں دینی بھائی


مان لو اس کو بجا دور کرو خود رائی


 رافضی کیسے وہابی و خوارج کیسے

 

تفرقہ کیسا یہ آپس میں مدارج کیسے


میرزائی ہو کوئی یا کہ تبرّاںٔی ہو


پیر نیچر کا کوئی چیلا ہو یا بھائی ہو


ایک ہوجائیں بہم جیسے کہ شیر و شکر 


تو تو میں میں نہیں اچھی ہے کریں اس سے حذر


جس قدر کافر و بددین یہاں ذکر کیے 


رکن ندوہ ہوۓ ان سب میں کہ اونچے اونچے


انڈیا بھر کے بڑے شہر میں جلسے ہر سال 


منعقد ہوتے رہے از پۓ تحصیلِ مال


آڑ میں ٹٹی کے کھیلا ہے بہت روز شکار


مال و زرقوم سے تحصیل کیا لیل و نہار


قوم نے اپنا کیا دونوں جہاں کا نقصاں 


پیٹ ندوہ کا بھرا ہے یہ حماقت کا نشاں


کان پُر میں جو ہوا جلسۂ اول کا ظہور


نامۂ صدرِ بریلی گیا فاضل کے حضور


اس میں لکھا تھا کہ اے فاضلِ عالی رتبہ


منعقد ہوگا فلاں روز یہاں اک جلسہ


عالموں کی طرف اس جلسے کی نسبت ہے حضور


آیئے آپکے آنے سے ہوگا ہمیں سرور


 الغرض لے گئے تشریف وہ اعلی حضرت

 

تین دن تک رہی اس جلسے میں انکی شرکت


 چند کام اسکے شناعت سے بھرے آۓ نظر

 

مذہب حق کے لئے تھے جو مثالِ نشتر


 دیکھ کر ایسی شناعت کو ہوا رنج و قلق

 

بانیوں سے کیا اس بارے میں اظہار حق


 گفتگو انکی یہ  بھری مکروں سے پا کر یہ کہا

 

ہم تو جاتے ہیں کبھی اس میں نہ لائے مولی


بس اسی وقت سے رقت ہوئی اس پر طاری


ہل گیا دل اور ہوۓ آنکھوں سے آنسو جاری


 حالتِ گریہ میں یہ عرض کی اے رب جہاں

 

خالق عرش بریں ہادئ جن و انساں


دینِ حق سنتِ اطہر پہ ہیں حملہ آور


اہل طغیان و فتن کر کے کمیٹی مل کر


ہے نگہبان تو ہی اور تجھی سے فریاد 


مذہب پاک کی تو کرنا ہمیشہ امداد


اے نبی وقت مدد ہے کہ یہ سب بد کردار


چاہتے ہیں کہ مٹادیں تیری سنت کی بہار


 الغیاث المدد اے خسروِ والا تمکین

 

اہل باطل کے تو حملوں سے بچا قصرِ دین


میری خواہش ہے کہ ان سب کا لکھوں ردِ شدید


جس سے ہو ملتِ حقہ کی سراسر تائید


سنی بھائی مرے گمراہ نہ ہونے پائیں 


گوہر ایمان کا دھوکے میں نہ کھونے پائیں


جو کہ کھو بیٹھا ہے مل جاۓ اسے وہ گوہر


جو گرا چاہِ ضِلالت میں وہ نکلے باہر


ہوں میں ناکارہ مگر سچا ہوں بندہ تیرا


تیری امداد اگر پکڑے گی بازو میرا


مجھ سے ہو جائیگی اس وقت یہ دینی خدمت 


باعثِ مغفرت ہوگی یہ یقینی خدمت 


بعدۂ ندوۂ مخذول کے دیکھے مضمون


مکر و گمراہی سے پائے وہ سراسر مشحون


 پھر اسی وقت وہ جنبش میں قلم کو لایا

 

رد  کیا اس کا جو رد کرنے کے قابل پایا


 پوری تحقیق سے لکھا وہ ہدیٰ کا دفتر

 

ہو کہ مطبوع وہ شائع ہوا ردِ انور 


 دفترِ ندوۂ گمراہ میں بھیجا پہلے

 

پھر اراکین کی جانب وہ گیا بے کھٹکے


 زلزلہ دفترِ  ندوہ میں اسی دم آیا

 

 رعبِ حق صدر و اراکین کے دلوں پر چھایا

 

 پھر اشاعت میں عموماً ہوئی سعیِ  کامل 

 

مگر ندوہ سے خبردار ہوا ہر غافل


سنتے ہی رد کو ہوئے سینکڑوں جاہل عالم


مرضِ جہل سے فی الفور صحیح و سالم 


 نیر رشید و ہدایت کی ہوئی تابانی

 

ظلمت جہل و ضلالت کی گئی طغیانی


 جلسے کرتے رہے ہر سال وہ اہل بدعت

 

لشکر رد بھی تعاقب میں رہا بے دہشت


 اشتہارات کی تعداد کروں کیا میں پیش 

 

اس نے تصنیف رسائل کئے سو سے کم و بیش


ردِ ندوہ میں ہوا اتنے رسائل کا شمار 


کُل تصانیف بہت اس سے ہے زائد اے یار


ہیں رسالوں کے سوا اسکے بکثرت فتوے


جس کو ہو شوق بریلی میں وہ آکر دیکھے


 مجملاً صرف یہاں اتنا ہوا ہے اتنا معلوم 

 

آگے تفصیلِ تصانیف کروں گا مرقوم


الغرض محو ہوا نام و نشانِ ندوہ 


مل گئی خاک میں وہ شوکت و شانِ ندوہ


مختلف اہل ضلالت کے بڑوں کی تردید


کر سکے گا تو وہی جس پہ ہو غیبی تائید


 جس کے ہمراہ رہے فضلِ خداۓ اکبر

 

اس پہ غالب ہو بھلا ساری خدائی کیونکر


 شہرۂ علم خداداد امام دوران

 

دور و نزدیک ہوا بفضل منان


 اہل ندوہ کے کیے چند فراہم اقوال 

 

ان پہ تحریر کیے حکم بہ تحقیق کمال


بد عتی ٹھہرا کوئی کافر و گمراہ کوئی


مذہب حق کا مخالف کوئی بد خواہ کوئی


پائی تکمیل تو مبسوط رسالہ ٹھہرا 


ایک اردو میں لکھا دوسرا تازی میں لکھا 


ہند کے اہل بعد جتنے تھے سب کو بھیجا 


اہل روم و عرب و شام و حلب کو بھیجا 


کی بہت شوق سے تصدیق ہراک فاضل نے


 خوب تعریف رسالہ لکھی ہر کامل نے

 

 مدحت و وصف مؤلف میں وہ مضمون لکھے

 

 اہل انشاء و فصاحت کے قلم توڑ دیے

 

داد توصیف دی ہر عالمِ ربانی نے


 ہندی و تازی و شامی و بدخشانی نے 

 

الغرض وصف میں اس فاضل حقانی کے


 حق مدحت کو ادا کر دیا ہر مفتی نے

 

 خاص کر اہل عرب  نے وہ فضائل لکھے 

 

جو کبھی آنکھوں نے دیکھے تھے نہ کانوں نے سنے 


(ذکر رضا، صفحہ ١٣)