شیر بیشۂ اہلِ سنت ایک پیکرِ وفا
از-علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ
کیوں رضا آج گلی سونی ہے
اٹھ میرے دھوم مچانے والے
آہ.......کہ نصف صدی تک دنیائے سنیت کو جگا جگا کر ایک دن سرکارِ مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم کا نقیب خاموش ہو گیا۔
معتمد روایوں کا بیان ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی قدس سرہ العزیز کی بزمِ عشق میں پہنچنے کے بعد ایک دن کائنات کا یہ مخفی راز اس کے دل پر آشکار ہو گیا کہ عرش و فرش کی وسعتوں میں رضائے الٰہی کی کلید خوشنودئ مزاج مصطفی صلی اللّٰه علیہ وسلم ہے۔ اس دن سے لے کر پیکر اجل کی آمد تک ایک وارفتہ حال دیوانے کی طرح ساری عمر وہ اسی حقیقت کی تلاش میں سرگرداں رہا۔ شوق و طلب کی ایک بیتاب امنگ تھی جو رگ و پے میں خون کی لہروں کے ساتھ دوڑتی رہی اور عشق و اخلاص کا ایک دائم و قائم خمار تھا۔ جس نے ساری عمر عقل و ہوش کی دنیا پر فرماں روائی کی۔ عشق و اخلاص کا خمار اس وقت بھی شریک سفر تھا جب کہ سر بالیں وصال کا سفر نامہ پیک اجل لیے کھڑا تھا اور نگاہوں کی بینائی محبوب کی تجلیوں میں ڈوب رہی تھی اور بلا شبہ وہی رفیق عزیز لحد کی خوابگاہ میں آج بھی شریک بزم تنہائی ہے۔
عشق کے داغ سے مانوس رہا کرتا تھا
ویسے کہنے کو شبِ قبر کی تنہائی ہے
اس پیکر وفا کے سامنے دنیائے رنگ و بو میں ہزاروں انقلاب آئے......حوادث کی مصلحتوں نے خوشامدیں کیں.......وقت کے تقاضوں نے دامن تھامے......طوفانوں نے الارم کیا......قہر و جبر نے تازیانے اٹھائے ....ننگ و ناموس نے اندیشہ دلایا.......اور یہ فتنۂ آشوب دنیا بارہا بن سنور کر آئی کہ ایک برہم دیوانے کا مزاج بدل دیا جائے......لیکن رات کے روشن سیارے اور دن کے چمکتے ذرے شاہد ہیں کہ وقت کے جبری تقاضوں پر دنیا کی ہر شئی بدل گئی.......دریاؤں کے بہتے ہوئے دھارے نشیب پا کر مخالف سمت پر لڑھک گئے.......انگاروں کی دھمک سے فولاد کا جگر پانی ہو گیا......بارہا ایسا ہوا کہ مصلحتوں نے سرگوشی کی اور اچانک ہزاروں آتش نوا خطیبوں کی زبان گنگ ہو گئی اور قلم نے سپر ڈال دیے....اور ایسا بھی ہوا کہ علم و تقویٰ کی مغرور پیشانیاں وقت کی مسند اقتدار کے آگے غبار آلود ہو گئیں......مصلحت کی آتش سے نشیمن جلے.......عشق کی آبرو لٹی.......کفر نے امان پائی اور اسلام اسیر بلا ہوا......لیکن اپنے دور کا ایک وارفتہ جگر مجاہد تھا جس نے حالات سے دوبدو کرنا قبول کر لیا مگر غیرت وفا کی قربانی دے کر کسی طرح کی مصالحت کے لیے راضی نہیں ہو سکا۔ وہ حق و باطل کے امتیاز میں کسی درمیانی راہ کا قائل نہ تھا۔ اس کی پوری زندگی اسی نظریہ کی عملی تفسیر تھی۔ ایک دامن کی پناہ حاصل کرنے کے لیے انتہائی بے دردی کے ساتھ اس نے لاکھوں دامن جھٹک دیے اور ایک چوکھٹ پر بستر جمایا تو سارے چوکھٹوں سے منہ موڑ کر گزر گیا۔
حق جب بھی مظلوم نظر آیا اس کی غیرت کا جلال برہم ہو گیا اور اس کے لب و لہجے کے خروش پر دریاؤں کی طغیانی ابھر آئی۔ اور جس حال میں بھی ہوا بغیر کسی لمحۂ انتظار کے حق کی حمایت کے لیے کھڑا ہوا۔
مشاہدات و محسوسات سے کہیں زیادہ اسے معنوی حقیقت پر یقین تھا کہ سرکار مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم کے دامن سے کٹ جانے کے بعد زمین و آسمان کی وسعتوں میں کہیں امان نہیں مل سکتی۔ وہ ہر وقت اسی یقین کے اجالے میں رہتا تھا۔
اس کی حیات کے وہ لمحے انتہائی قابلِ رشک ہوتے تھے ، جب وہ عاشقوں کی انجمن میں ہوتا اور داستان عشق و ایمان کا کوئی ورق الٹ کر وہ اپنے محبوب کائنات کی یکتائی اور جلالت شان کے خطبے پڑھتا......اور اس وقت ساری فضا کیف و خمار سے معمور ہو جاتی اور فرط شوق میں کائنات کا دل جھومنے لگتا۔
اس کی خدا داد شان خطابت میں مخلص کا ولولہ....دل مبتلہ سوز....گھائل کی کراہ.....عشق کی چوٹ....فدا کار کی سرفروشی....دیوانے کا استغناء....مجاہد کا تیور ....انتقام کا جوش....نیاز مند کا ادب....اور ایک وارفتہ حال مومن کا ایمان جھلکتا تھا۔
حرمت عشق کے خلاف زبان و قلم کی کوئی ناپاک جسارت اس کے لیے کائنات کی سب سے بڑی اذیت تھی، جس کی تاب ضبط سے اس کا ضمیر ہمیشہ نا آشنا رہا۔ وہ اپنے کریم و جمیل آقا(صلی اللّٰه علیہ وسلم) کا ایسا سرشار دیوانہ تھا کہ دنیا میں کسی سے اس کی شناسائی نہیں ، بس ایک ہی چہرہ اس کے قلب و جگر کا محبوب تھا اور جہاں جہاں بھی دل رکا وہی ایک محبت درمیان میں نسبت رابط تھی۔
ذاتی طور پر نہ اس کی کسی سے دشمنی تھی اور نہ دوستی.....وہ اپنے حبیب کے دوستوں کا دوست تھا اور دشمنوں کا دشمن اور یہ اس کے ایمان کا مزاج بن چکا تھا۔
بیگانوں کے سامنے اس کی پیشانی ہمیشہ مغرور نظر آئی لیکن غبار راہ میں بھی پائے حبیب کی کوئی سنت مل گئی تو سجدۂ شوق کے لیے دل کی پوری کائنات جھک پڑی۔
اس کے محبوب آقا کی حرمت پر جس نے بھی حرف رکھنا چاہا اس کے خلاف اعلان جنگ کرنے میں اس کے جہاں کوئی لمحۂ انتظار نہ تھا اور نہ غلبہ و قوت کا کوئی قہر اور مروت و شناسائی کا کوئی عاطفہ اس کی راہ میں حائل ہو سکتا تھا۔
اس کا کام سن کا کر ایوان باطل میں زلزلے پڑ جاتے تھے اور اسی کے ساتھ اس کی ذات دنیائے سنیت کی ایک ایسی متاع بے بہا تھی کہ اس کے تذکرے سے ایمان والوں کے چہرے شاداب ہو جاتے تھے۔ اس کے قدموں کی آہٹ پر وفاداروں کی ایک دنیا دیوانہ وار سمٹ جاتی تھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں کہ جس شان وارفتگی کے ساتھ حضور شیر بیشۂ اہل سنت نے اسلام کو داخلی فتنوں سے پاک کیا اس کی مثال دور حاضر میں نہیں ملتی۔ ہے اور یہ بھی ایک امر مسلم ہے کہ اسلام کو جتنا اندر سے نقصان پہنچا ہے باہر سے نہیں، صدر اول کا وہ فتنہ جس نے ایوان اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور آج تک اس کی دھمک محسوس ہوتی ہے ، وہ اندر ہی سے برپا ہوا تھا۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ مرد مومن اپنے وقت کا بہت بڑا مجاہد ہے جو دین مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم کو اندر سے پاک کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور بے مثال جرات و پا مردی کے ساتھ باطل کی بساط الٹ کر حق کو برتر و غالب کر دیا۔
اسے بصیرت خداوندی ہی کا کرشمہ کہا جا سکتا ہے کہ فتنہ جنم بھی نہیں لینے پاتا تھا کہ اپنے وقت کے اس عظیم الشان مصلح کی خارشگاف نگاہوں کا شکار ہو جاتا تھا۔ اب اس کی جگہ یا تو نامرادیوں کے مدفن میں ہوتی تھی یا ہمیشہ کے لیے اعتبار کی نگاہوں سے گرا دیا جاتا۔
کہا جاتا ہے کہ اصلاح و تطہیر کے میدان میں حضور شیر بیشۂ اہلِ سنت کی سب سے بڑی حریف وہابیت و دیوبندیت تھی، جن کے خلاف انھوں نے کبھی ہتھیار نہیں اتارے اور نہ ایک لمحہ کے لیے ان کا ذہن اس سے غافل رہا۔
جب کبھی بھی اور جہاں کہیں بھی زبان و قلم کو جنبش ہوئی رد وہادیت و دیوبندیت کا فرض قضا نہ ہو سکا اور اس کے لیے نہ کسی تقریب و تمہید کی ضرورت تھی اور نہ تحریک و آمادگی کا انتظار تھا کہ دعوت حق کے لیے فضا سازگار ہو اور جان و مال کی مضرتوں کا کھٹکا دور ہو جائے۔
بلا شبہ جذبۂ حق کا یہ خروش اور غیرت ایمانی کا یہ بے نیاز ولولہ انہیں کے ساتھ مخصوص تھا۔ دین میں انھوں نے وہابیت و دیوبندیت کی رنگے ہاتھوں چوری پکڑی تھی اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ناموس مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم کے خلاف منافقین کا کردار دہراتے ہوئے دیکھا تھا اور دیوبندی پیشواؤں کی کتابوں میں انہوں نے شان رسالت میں وہ توہین آمیز عبارتیں بھی پڑھیں جن کے تصور سے مومن کا دل کانپ جاتا ہے۔
حق نے جب کبھی اسے آواز دی وہ بغیر کسی لمحۂ انتظار کے اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ خلعت فاخرہ اسی کی قامت زیبا پر راس آئی ۔ اس کی سطوت علم کے آگے بڑے سے بڑے طاغوت کی زبانیں خشک ہو جاتی تھیں اور اس کا نام سن کر باطل کے ایوان میں زلزلے پڑ جاتے تھے۔ پھر اس کے ساتھ اس کی عالمگیر محبوبیت کا یہ اقبال تھا کہ اس کے تذکرے سے مؤمنین کے دلوں کی کلی کھل جاتی تھی اور چہرے شاداب ہو جاتے تھے۔
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
صداقت و انصاف کا خون کر کے کوئی اعتراف حق سے پھر جائے تو اور بات ہے، لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ حضرت شیر بیشۂ اہل سنت نے جس صبر آزما حوصلوں کے ساتھ اسلام کو داخلی فتنوں سے پاک کیا، اس کی مثال دور حاضر میں نہیں ملتی۔
دراصل اس جذبے کے پیچھے ایک نہایت سنگین اور المناک حادثے کی تاریخ تھی، جس نے اہل سنت کے قلوب کو ایسا گھائل کیا کہ وہ آج تک اچھے نہیں ہو سکے۔ وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان بڑے سے بڑے زخم کی چوٹ برداشت کر سکتا ہے لیکن یہ نا ممکن ہے کہ جان سے زیادہ عزیز پیغمبر کے ناموس کو کوئی بدبخت اپنی زبان و قلم کا نشانہ بنائے۔ ۔زمانہ اس کے اس جذبۂ شوق کا ہمیشہ گلہ مند رہا کہ توہین وفا کے مجرم کو عالمگیر شہرت و اثر کے حصار میں بھی اس کی زبان و قلم کے عبرتناک تازیانوں سے امان نہ مل سکی۔
فکر و اعتقاد کے ملحدین نے ہمیشہ اس کے موقف کا مذاق اڑایا.......اس کی افتاد طبع سے بیزاری کا اعلان کیا.....اور جب زبان و قلم کے حربوں سے کام نہ نکلا تو طاغوت کی قوتوں کا سہارا لے کر فرعون و شداد کی تاریخ دہرائی......لیکن مایوس و مرعوب ہونا تو بڑی بات ہے، اس کے محکم یقین کی آب و تاب اور چمک گئی اور اس کے باطل شکن عزم کا تیور اور نکھر گیا۔
بلا شبہ شیر بیشۂ اہل سنت کی زندگی ایسی کردار کی مرقع تھی جیسے معلوم ہوتا ہے کہ مشیت کی طرف سے وہ اسی عظیم خدمت پر مامور کیے گئے تھے۔
یہ مجھے نہیں معلوم ہو سکا کہ سب سے پہلے "شیر بیشۂ اہل سنت" کے خطاب سے کس نے اسے مخاطب کیا ، لیکن بلا خوف تردید کہک سکتا ہوں کہ لغت میں یہ ترکیب اسی لیے وضع ہوئی تھی اور اسی پر ختم بھی ہو گئی۔
خدائے غافر و نعیم اس کے مدفن کی خاک پر شام و سحر رحمت و انوار کی بارش برسائے اور نسیم طیبہ ہمیشہ اس کی خواب گاہ کو معطر رکھے۔ آمین
(شخصیات، صفحہ ١٧١)