میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
از-مفسر اعظم پاکستان علامہ فیض احمد اویسی رحمہ اللہ
مسئلہ:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اندرایں مسئلہ کہ ایڈیٹر فاران ماہر القادری نے اپنے توحید نمبر میں"مغالطے" کے عنوان سے حسب ذیل عبارت لکھی ہے کیا یہ صحیح ہے؟ اور کیا شعر مذکورہ شرک آمیز عقائد پر محمول ہوتا ہے، و ھو ھذا: اہلِ بدعت کا خاصہ ہے کہ جب شرک آمیز عقائد اور بدعات پر انہیں ٹوکیئے تو وہ چراغ پا ہو جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے محبوبوں کو تم اس قدر بے اختیار سمجھتے ہو۔ ان لوگوں نے مجازی محبوبوں کے انداز پر اللّٰہ و رسول اور اولیاء اللہ کے روابط کو قیاس کیا ہے اس کا اظہار اپنے شعروں میں وہ اس طرح کر چکے ہیں:
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
سائل - عبد الرحمن قندھاری آغاپورہ حیدرآباد
الجواب بعون الملک الوھاب اللهم ھدایۃ الحق و الصواب
منکرین کا خاصہ ہے کہ جب اللہ تعالٰی کے محبوبوں کے وہ مراتب خصوصی اور بلند شانیں اور خدا کے دربار میں اُن کی عزت و وجاہت جو عام انسانوں کو نہیں ملتی بیان کی جاتی ہے تو سن کر شرک و کفر کی مشینیں چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ افسوس کہ ان آیات و احادیث کی خبر نہیں جن کو اللّٰہ تعالٰی اور اس کہ رسول اعلیٰ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے محبوبان خدا کی افضلیت و منزلت میں فرمایا:
حدیث قدسی: سید المفسرین علامہ امام رازی تفسیر کبیر میں زیر آیات وللآخرۃ خیر لک من الاولی (پارہ ٣٠ آیت ٤ سورۃ الضحیٰ) فرماتے ہیں:
لانک تفعل فی الدنیا ارید و افعل فی الآخرۃ ماترید
یعنی دنیا میں تم ہمارے! ارادہ کے مطابق عمل کرتے ہو اور آخرت میں جو تم کہو گے وہ ہم کریں گے۔
حدیث شریف: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہما فرماتی ہیں۔ ما اری ربک الا یسارع فی ھواک یعنی میں آپ کے خدا کو دیکھتی ہوں کہ وہ آپ کی خواہش پوری کرنے میں بہت جلدی کرتا ہے۔
تردید اعتراض: جو اعتراض کیا گیا ہے وہ بلکل ہی لغو و باطل ہے اس سے ان کی شعر فہمی اہل علم پر اچھی طرح آشکارا ہو گئی غالباً انہیں یہ خبر ہی نہیں کہ یہ شعر کس عظیم ہستی کا ہے؟ یاد رکھئے کہ یہ شعران کا ہے جو عرب و عجم کے علمائے کرام سے مجدّد کا خطاب پا چکے ہیں علمائے حرمین نے جن سے سندیں حاصل کیں ہر مسئلہ علمی جن کی تحقیق نے آفتاب سے زیادہ روشن کردیا جو علم قرآن و حدیث و فقہ وکلام میں ماہر ہیں جن پر فتاویٰ رضویہ جو بارہ ضخیم جلدوں میں ہیں اور ہر جلد تقریباً چھ سو صفحات پر مشتمل ہے شاہد عادل ہے جس کے کمال شاعری کا لوہا استاد داغ دہلوی نے بھی مانا جن کی شاعری گل و بلبل، شمع و پروانہ، حسن و عشق مجازی سے مبرا و منزہ تھی خدا کی حمد و نعت صاحب لولاک جن کا موضوع سخن تھا۔
شعر کی تشریح: سائل کا فن شاعری سے کیا واسطہ اگر فن معانی و بیان و بدیع و عروض کے چند سوالات کر لئے جائیں تو منہ دیکھنے لگیں اب اس شعر کی تفسیر و تحلیل قرآن و حدیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔ کاش کہ خشک توحید کے خشک خیالات دماغ سے نکل کر مندرجہ ذیل تشریح کا مطالعہ کریں یا کسی عربی درس گاہ کے استاد یا طالب علم سے اس شعر کی تشریح سمجھ لیں اللّٰہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے۔
انا اعطینک الکوثر
ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمایا اعطینا از روئے قواعد صرف ثلاثی مزید فيہ ہے عطا ثلاثی مجرد فقہ میں بتایا گیا ہے کہ لفظ عطا تصدق، نحل اور ہبہ کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے اور عقد ہبہ اس سے ایسا ہی منعقد ہوتا ہے جیسے لفظ ہبہ سے اور ہبہ مفید ملک ہے یعنی موہوب لہ موہوب کا مالک ہو جاتا ہے تو اعطینا کا معنی اس نہج پر ہوا وھبنا اور وھبنا کا معنی ہے ملّکنا یعنی ہم نے مالک بنا دیا۔
ملک کی تین صورتیں: ملک کی تین صورتیں ہوتی ہیں یعنی اگر کوئی کسی چیز کا مالک ہوتا ہے تو بذریعہ خرید یا بذریعہ وراثت یا بذریعہ ہبہ یہ تینوں چیزیں مفید ملک ہیں اللّٰہ تعالٰی نے اپنی ملک کوثر کا مالک حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو کیا ہے یہ ملک نہ بذریعہ خرید ہوئی اور نہ ہی بذریعہ وراثت کہ اللہ ہی سب کا وارث ہے مورث مرے تو وارث کو ملے اللّٰہ تعالٰی تو ازلی ابدی ہے تملیک کی دو قسمیں تو معدوم ہیں ره گیا ہبہ تو فرمایا " ہم نے ہبہ کیا" خرید و فروخت کا تعلق محبت سے نہیں دشمن سے بھی سودا لیا جاتا ہے اور وراثت کی تقسیم مورث کے اختیار میں نہیں ہے اس وجہ سے مورث کے اگر کچھ ورثاء نا فرمان اور دشمن ہوں تو پھر بھی حصہ مل جاتا ہے جبکہ ہبہ کا تعلق صرف محبت سے ہے کہ دشمن کو ہبہ نہیں کیا جاتا ہبہ کرنے والے کو موہوب لہ سے محبت ہوتی ہے تو اسے ہبہ کر دیتا ہے۔ اب شعر کے معنی ہوئے کہ اے نبی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ہم نے تمہیں مالک بنا دیا کیونکہ تم ہمارے محبوب ہو اگر ذھن میں تعصب کے جراثیم نہ ہوں تو پہلے مصرعہ " میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب" کا مطلب صاف طور پر سمجھ میں آسکتا ہے یہ مصرعہ انا اعطینک کا پورا پورا ترجمہ ہے، ملا علی قاری حنفی مکی حدیث شریف کہ و انا حبیب اللہ (الخ) کے تحت "مرقات شریف" میں خلیل و حبیب کا فرق بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
یعنی خلیل کا فعل اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے حبیب وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فعل اس کی رضا کے لئے ہے پھر اس مضمون پر ہر دو آیات قرآنی سے استدلال فرمایا جو نمایاں طور پر ثابت کر رہی ہیں کہ اللہ تعالٰی اپنے حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی رضا چاہتا ہے۔ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی ملکیت، اختیار اور تصرف و عطا پر ایک حدیث شریف ملاحظہ فرمائیے:
یعنی رابعہ بن کعب اسلمی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس رات کو حاضر رہتا اور (ایک شب) حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے آب وضو وغیرہ ضروریات حاضر لایا (رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا دریائے رحمت جوش میں آیا) ارشاد فرمایا مانگ کیا مانگتا ہے ہم تجھے عطا کریں میں نے عرض کیا میں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں اپنی رفاقت عطا فرمائیں فرمایا کچھ اور، میں نے عرض کی میری مراد تو صرف یہی ہے کہ حیف باشنداز وغیرا و تمناۓ یعنی
سائل ہوں تیرا مانگتا ہوں تجھ سے تجھی کو
معلوم ہے اقرار کی عادت تیری مجھ کو
بہر حال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجود سے۔
فائدہ: اس حدیث شریف میں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کا بلا قید و تخصیص مطلق "سل" ارشاد فرمانا یعنی مانگ کیا مانگتا ہے صاف ظاہر کرتا ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ہر قسم کی حاجت روائی فرما سکتے ہیں دنیا و آخرت کی سبھی مرادیں حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے اختیار میں ہیں جب ہی تو بلا تقیید ارشاد ہوا کہ مانگ کیا مانگتا ہے؟ یعنی جو جی میں آئے مانگو کہ ہماری سرکار میں سب کچھ ہے علامہ شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ
اگر خیریت دنیا و عقبی آرزو داری
بدرگاہ ھش بیا و ھر چہ میخواہی تمنا کن
یہ تو شعر تھا اب آپ کے قلم فیض رقم سے حدیث مذکور کی محدثانہ تشریح بھی ملاحظہ فرمائیے:
اطلاق سوال کہ فرمود سل بخواہ تخصیص نکرد بر خاص معلوم میشود کہ کار ھمہ بدست ھمت وکرامت اوست صلی ﷲ علیہ وسلم ھر چہ خواہد و ھر کرا مخدہ باذن پرودگار خود دھد
فان من جودک الدنیا و ضرتھا
ومن علومک علم اللوح والقلم
شاہ صاحب نے جو شعر درج فرمایا وہ امام بوصیری رحمتہ اللّٰہ تعالٰی علیہ صاحب بردہ شریف کا ہے یعنی یا رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم دنیا و آخرت دونوں حضور کے خوانِ جود و کرم سے ایک حصہ ہیں اور لوح و قلم کے تمام علوم جن میں "ماکان و ما یکون" یعنی جو کچھ ہوا اور جو کچھ قیام قیامت تک ہونے والا ہے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے علوم سے ایک معمولی حصہ ہیں۔
اسی طرح علامہ علی قاری حنفی مکی رحمتہ اللّٰہ تعالٰی علیہ مرقاۃ شرح مشکوۃ میں لکھتے ہیں کہ:
حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نے مانگنے کا مطلق حکم دیا اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو عام قدرت بخشی ہے کہ اللہ کے خزانوں میں سے جو چاہیں عطا فرمادیں۔
فائدہ: غر ضیکہ جب حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محبوب ہوئے اور خدا محب اور یہ عطا و ہبہ محبت کی وجہ سے ہے تو خدا دے رہا ہے اور حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم لے رہے ہیں خدا مالک بنا رہا ہے اور حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم مالک ہو رہے ہیں تو ہمیں تمہیں دونوں کے درمیان کیا مداخلت؟ کہ وہ محب، وہ محبوب، ہم تم کون؟ جو مداخلت کریں اور کہیں کہ اللہ تعالٰی مالک نہیں بنا سکتا اور حضور مالک نہیں بن سکتے اس میں شرک لازم آئےگا اور توحید کے خلاف ہوجائے گا ایسے لوگوں کے لئے اللّٰہ تعالٰی فرماتا ہے:
أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ
یہ لوگ منع کرنے والے اور حد مقرّر کرنے والے کون؟لا مانع لمااعطیت۔
نہیں میرا تیرا: دوسرے مصرعہ "یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا میں الفاظ" نہیں میرا تیرا" خاص زباں کا محاورہ ہے جو بمعنی عدم مداخلت استعمال کیا جاتا ہے جیسے عام طور کہتے ہیں "ہم جانیں اور وہ جانیں تمہیں اس سے کیا"؟ مگر افسوس کے مسٹر ماہر، محاورات زبان اور نکات شاعری کو بھی نہیں سمجھ سکتے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک ان کا فن شاعری میں انہماک " نقشد بر آب کشیدن" سے زیادہ حثیت نہیں رکھتا۔ ماہر کو شاید اتنا بھی یاد نہیں کہ حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں لفظ "مالک کون و مکان" وہ خود استعمال کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو "محسوسات ماھر صفحہ ٥٤ مطبوعہ حیدرآباد دکن"۔ نظم کا عنوان ہے اسیران بدر آخری شعر ملاحظہ فرمائیے۔
مالک کون و مکاں! بادشہ عرش سریر
نام لیوا ہیں تیرے بند غلامی میں اسیر
فائدہ: کیا بہتر ہو کہ اپنے کہے ہوئے شعر کو ماہر صاحب یادگار جاہلیت کہہ کر نظر انداز کر دیں۔ ہمارے نظر میں تو ان کا دورندی اور عہد پارسائی دونوں ہی فریب نفس ہیں بقول جوش ملیح آبادی: وہ بھی دھوکہ تھا اور یہ بھی دھوکہ!
ماہر صاحب توحید نمبر کے اسی باب میں یوں بھی رقمطراز ہیں کہ "ان کو اسی میں لطف آتا ہے کہ کوئی نہ کوئی نکتہ پیدا کر کے اللّٰہ عز وجل اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک ہی سطح پر لے آئیں"۔
لطیفہ: ماہر صاحب کے اس نظریئے کے روشنی میں عہد صحابہ سے آج تک جن لوگوں نے فضائل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم بیان کیئے محدثین، آئمہ، فقہاء صوفیاء اور علماء مفسرین جنہوں نے حضور صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کے اوصاف میں مستقل کتابیں تصنیف فرمائیں وہ سب اللہ عز وجل اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک سطح پر لے آنے والے ہو گئے۔ لا حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم و لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔
ھر سُنّی کا عقیدہ: سلف صالحین تو عظیم بزرگ ہستیاں ہیں کوئی ادنی مسلمان ایسی جرأت نہیں کر سکتا کہ اللہ عز وجل اور رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو ایک سطح پر لے آئے مگر افسوس کہ مسٹر ماہر اتہام تراش رہے ہیں اور بڑی جرأت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔
ہر سُنّی مسلمان کا عقیدہ یہی ہے کہ:
لا یمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر!!!
اس شعر کا مصرعہ اوّل بھی خاص طور سے توجہ کے قابل ہے مصرعہ ثانی تو اکثر غیر سُنّی لوگ بھی پڑھ دیتے ہیں۔
حقیقت: اللّٰہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے
لہ ما فی السموت وما فی الارض
یعنی جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے اس کا مالک اللّٰہ ہی ہے اس کے باوجود آج ہر شخص یہ کہتا ہے کہ اس مکان کا مالک میں ہوں اس زمین کا مالک میں ہوں، یہ کارخانہ میرا ہے دعویٰ ملکیت پر کوئی فتویٰ نہیں لگاتا تو جس خدا نے کسی کو مکان کا کسی کو دکان کا، کسی کو کارخانے کا، کسی کو بہت بڑے سامان کا، کسی کو سارے مُلک کا اور اس پر حکم و فرمان کا مالک بنا دیا ہے تو اسی خدا نے ہی محبوب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کو سارے جہان اور مکان کا مالک بنا دیا ہے اس شعر کی مزید تشریح فقیر کی شرح حدائق بخشش میں ملاحظہ ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
(فتاوٰی اویسیہ شریف، جلد ١)