دشمن احمد پہ شدت کیجئے
از- سیدنا غوث الاعظم دستگیر رضی المولیٰ عنہ
صاحب عقل و بینش مومن کے لیے بہتر ہے کہ وہ اہلسنت و الجماعت کی پیروی کرے ، بدعت سے اجتناب کرے اور دین میں زیادہ غلو نہ کرے نہ زیادہ گہرائی میں جائے نہ تصنع سے کام لے تا کہ گمراہی سے بچے اور اس کے قدم کو لغزش نہ ہو جو ہلاکت کا باعث ہے۔ حضرت عبد اللّٰه بن مسعود رضی اللّٰه عنہ کا ارشاد ہے۔" اتباع کرو اور بدعت سے بچو یہ تھمیں کافی ہے۔" حضرت معاذ بن جبل رضی اللّٰه عنہ نے فرمایا " تم پوشیدہ باتوں کی ٹوہ لگانے سے بچو اور یہ بات مت کہو کہ یہ بات کیوں ہے؟ جب مجاہد رحمۃ اللّٰه علیہ کو حضرت معاذ رضی اللّٰه عنہ کے اس قول کی اطلاع ملی تو انھوں نے کہا ہم پہلے بعض احکام کے متعلق کہا کرتے تھے یہ کیا ہے؟ مگر اب ایسا نہیں کہیں گے ، لہٰذا ایماندار شخص پر لازم ہے کہ سنت کا اتباع اور جماعت کی پیروی کرے ۔ سنت اس طریقے کو کہتے ہیں جس کو رسولِ خدا صلی اللّٰه علیہ وسلم نے شروع فرمایا اور اس پر گامزن رہے اور جماعت اسے کہتے ہیں جس پر چاروں خلفائے کرام کی خلافت کے زمانے میں اصحابِ رسول صلی اللّٰه علیہ وسلم نے اتفاق کیا۔
اہلِ بدعت سے اجتناب
دانشمند مومن پر یہ بھی لازم ہے کہ اہل بدعت سے تعلق نہ رکھے اور نہ ان کی محبت و قربت اختیار کرے ، نہ ان کو سلام کرے ، ہمارے امام احمد بن حنبل رضی اللّٰه عنہ نے فرمایا جس نے کسی اہل بدعت کو سلام کیا گویا اس سے محبت رکھتا ہے (اس لیے کہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کا ارشاد ہے باہم سلام کی کثرت کرو تا کہ محبت بڑھے) یہ بھی لازم ہے کہ بدعتیوں کا ہم نشین نہ بنے نہ ان کے پاس جائے اور نہ ان کو عیدوں اور خوشی کے مواقع پر مبارک دے نہ ان کے جنازے کی نماز پڑھے۔ جب ان کا ذکر آجائے تو ان کے لیے دعائے رحمت بھی نہ کرے بلکہ ان سے الگ رہے محض اللّٰه کے واسطے ان سے عداوت رکھے ۔ اہل بدعت کے باطل ہونے کا یقین رکھے اور اس پر عظیم اجر و ثواب کا یقین رکھے۔ حضور صلی اللّٰه علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اہل بدعت کو محض اللّٰه کے لیے اپنا دشمن جانا اس کے دل کو اللّٰه ایمان سے بھر دیتا ہے اور جو شخص ان کو خدا کا دشمن جان کر ملامت کرے اللّٰه تعالی قیامت کے اس کو امن و امان سے رکھے گا ۔ اور جو شخص ایسے لوگوں کو ذلیل کرے اس کو بہشت میں سو درجے ملیں گے اور جو بدعتی سے کشادہ روی اور خندہ پیشانی سے ملا اس نے اس دین کی توہین کی جو اللّٰه تعالی نے محمد مصطفیٰ صلی اللّٰه علیہ وسلم پر نازل فرمایا۔
ابو مغیرہ نے ابن عباس رضی اللّٰه عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " جب تک بدعتی بدعت ترک نہ کر دے اللّٰه تعالی اس کے نیک اعمال کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے ۔ حضرت فضیل بن عیاض رضی اللّٰه عنہ روایت کرتے ہیں کہ اہل بدعت کے ساتھ دوستی رکھنے والے کے نیک اعمال ضائع کر دئیے جاتے ہیں اور اللّٰه تعالی اس کے دل سے نور ایمان نکال دیتا ہے اور جو شخص اہل بدعت سے دشمنی رکھتا ہے اسے اللّٰه تعالی بخش دیتا ہے خواہ اس کے نیک اعمال تھوڑے ہی کیوں نہ ہو جب تم کسی بدعتی کو راستے میں دیکھو تو دوسرا راستہ اختیار کر لو۔ حضرت فضیل بن عیاض کہتے تھے کہ میں نے خود سفیان بن عینیہ کو کہتے سنا ہے کہ جو شخص کسی بدعتی کے جنازے کے ساتھ جاتا ہے تو وہ جب تک واپس نہیں لوٹ آتا اللّٰه کا غضب اس پر نازل ہوتا رہتا ہے۔
رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم نے بدعتی پر لعنت فرمائی ہے اور ارشاد فرمایا ہے جس نے دین میں کوئی نئی بات پیدا کی یا کسی بدعتی کو پناہ دی اس پر اللّٰه کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ، اللّٰه تعالی نہ اس کے صرف یعنی فرض کو قبول فرماتا ہے اور نہ اس کے عدل یعنی نفل کو ، حضرت ابو ایوب سجستانی نے فرمایا کہ اگر تم کسی سے رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کی حدیث بیان کرو اور وہ کہے کہ اس کو رہنے دو قرآن میں جو کچھ ہو اس کو بیان کرو تو سمجھ لو کہ وہ گمراہ ہے۔
(ماخوذ از غینۃ الطالبیین شریف)