async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: September 2022

Friday, September 23, 2022

Mahnama Hashmat Ziya urdu 103

 رد عقلیت


از- امام المتکلمین علامہ نقی علی خان قادری رضی المولیٰ عنہ


  فرقۂ اولیٰ نے اپنی عقل ناقص کو امام بنایا ہے اور زعم فاسد میں عقل کل بن بیٹھا ہے۔ مسئلہ جبر و قدر۔ اور مشاجرات صحابہ۔ اور ان کے امثال میں دخل بے جا۔ اور آیات متشابہات و احکام غیر معقول المعنی۔ اور خدا کی باریک حکمتوں میں۔ اور اسرار میں جن کا سمجھنا ہرکس و نا کس کا کام نہیں فکر بیہودہ کرتے ہیں۔ اور جو بات سمجھ میں نہیں آتی اس سے صاف منکر ہو جاتے ہیں۔ 

   

         ہر چند کہ عقل مدار تکلیف اور انسان و دیگر انواع حیوان میں مابہ الامتیاز ہے۔ مگر افراد انسانیہ اس میں متفاوت۔ عقل انبیا علیہم السلام عقل عوام سے بالبداہۃ ازید و اکمل ہے۔ بلکہ عوام میں بھی تفاوت بین۔ خصوصاً جب اس کے ساتھ علم و تجربہ بھی شامل ہو۔ ایسے شخص کی بات دوسرے واجب التسلیم اور اس کے کام میں دخل دینا فضول سمجھتے ہیں۔


       لہٰذا طبیب کے کہنے پر بلا دریافت مزاج و خاصیت دوا۔ اور بدوں تشخیص مرض بے تأمل عمل کرتے ہیں۔ اسی طرح نور نبوّت کے حضور سر جھکا دیں۔ جو ارشاد ہو بے چوں چرا بجا لاویں۔ اپنی عقل کو دخل نہ دیں اور جو نہ بتایا اس کی فکر میں نہ پڑیں  کہ نہ بتانا بھی حکمت ہے گو سمجھ میں نہ آئے۔ وہ حکیم مطلق ہے۔ فضول و عبث کو اس کے سرا پردۂ حکمت کے پاس گزر نہیں۔ 


 واللہ یعلم و انتم لاتعلمون

ترجمہ: اور اللہ جانتا اور تم نہیں جانتے۔ 

 

کس تصریح سے فرماتے ہیں ہم جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔ اسی جگہ سے کہتے ہیں "لا ادری" آدھا علم ہے۔

 وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

 ترجمہ: اور پختہ علم والے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے۔ 


     یہ آیت صاف صریح خبر دیتی ہے کہ دانش مند ایسی باتوں میں جو شرع نے نہ بتائیں خوض نہیں کرتے۔ اور انہیں اس حیثیت سے کہ مولی کی باتیں ہیں مانتے ہیں۔ اگرچہ عقل ان کی حقیقت نہ دریافت کرے۔ شیطان نے حکم الٰہی میں دخل دیا۔ کہ آدمی خاک اور میں آگ سے پیدا ہوا۔ مجھے اس کے سامنے جھکنا زیب نہیں دیتا۔ اس حال کو پہونچا۔ 


احکام غیر معقول المعنی کی ایک حکمت


علماء فرماتے ہیں:۔


     احکام غیر معقول المعنی میں کچھ حکمت نہ ہو،یہی کافی ہے۔ کہ کون بندہ خالص ہمارا حکم اس نظر سے کہ ہمارا حکم ہے مانتا ہے۔ اور کون سرکش متمرد شیطان کی طرح چون و چرا کرتا ہے۔ جس نے عقل کو مدار شرع ٹھرایا۔ کہ جس بات کو عقل اس کی نہ پہونچے شک اور تردد کو جگہ دے وہ بندہ عقل اور شیطان کا ساتھی ہے۔


      توحید و رسالت کے دلائل دیکھے اور خدا و رسول پر کامل حاصل کرے۔ اس وقت کوئی شک و تردد نہ رہے گا۔ اور جو کچھ پیغمبر نے مالک حقیقی کی طرف سے پہونچایا بے تردد و تشویش قبول کرے گا۔ 


   جس عامی کا ایمان ناقص اور خدا و رسول پر یقین کامل نہیں۔ شیطان اسے سادہ لوح اور احمق پاکر مسئلہ جبر و قدر و آیات متشابہات، و حقیقت روح و عدد مؤکلان دوزخ و مشاجرات صحابہ و مسح سرورمی جمار کے بھید اور اسی قسم کے احکام و اسرار کے حوض میں مبتلا کرتا ہے۔ تاکہ الحاد و زندقہ و جبر و قدر و خروج و رفض و تشبیہ و تعطیل کی کھائی میں ھلاک کرے۔ وہ نادان اس کے دام فریب میں آکر ان باتوں میں فکر بیہودہ کرتا ہے۔ 


      قہر تو یہ ہے۔ جب کوئی صنعت انسانی سمجھ میں نہیں آتی، کہتا ہے: صانع کے کمال میں شک نہیں۔ گو میں بدوں اس کے کہ مدت تک اس کی شاگردی کروں۔ اور شروع سے حسب قاعدہ سیکھوں حقیقت اس صنعت کی کما ینبغی نہیں دریافت کر سکتا۔ اور  اسرار شرعیہ کی نسبت اسقدر اعتقاد بھی گوارا نہیں۔ 


      جو اسرار شریعت و حقائق طریقت، علما و مشائخ نے ہزار ریاضت تخلیہ کے بعد حاصل کئے۔ بایں عقل و دانش بلا محنت و مشقت سمجھا چاہتا ہے۔ اور ان کے ساتھ ایسے امور میں بھی کہ اولیائے رحمت و مجتہدین ملت کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ دست اندازی کرتا ہے۔ 


      اگر شوق ادراک ہے، علوم دین کی تحصیل میں کوشش اور مجاہدہ و ریاضت میں سعی کر اس سے بہت بھید منکشف ہو جاویں گے۔ اور جو قابل انکشاف نہیں ان کی نسبت یہ اعتقاد جم جاوے گا کہ یہ اسرار میری سمجھ سے ورا ہیں۔ یہ کیا ضرور ہے کہ خدا کے سب بھید اور اس کے سب احکام کے اسرار مجھے معلوم ہو جاویں۔ بلکہ نہ معلوم ہونا ضروری ہے۔ ورنہ علم الہی سے ایک طرح کی مساوات لازم آوے۔ 


انسان اللہ تعالٰی کے سب افعال و احکام کی۔۔۔۔۔


 حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر افعال خضر اور اقوال چوپان کی حقیقت کو نہ پہونچے۔ ہر کس و ناکس خدا کے سب افعال و احکام کے بھید کب سمجھ سکے جو میوہ حضرت مریم کو عطا ہوا، زکریا علیہ السلام کو زبان تک مزا اس کا نہ پہونچا۔ اور جو سر ابو البشر علیہ السلام پر ظاہر ہوا، ملائکہ کرام باوجود تجرد تام اس سے آگاہ نہ ہوئے۔ آخر بہزار عجز قصور فہم کا اعتراف کیا۔ 


سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ

ترجمہ: پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تونے ہمیں سکھایا ہے تو ہی علم و حکمت والا ہے۔ 


اللہ تعالٰی کی چند مخلوقات کے عجائب


اے عزیز! اس کی ادنٰی مخلوق میں اس قدر عجائب و غرائب اور حکمتیں اور اسرار مودع ہیں کہ نفوس قدسیہ اور عقول کاملہ۔ کہ ظلمات مادیہ اور کدورات جسمانیہ سے منزہ ہیں، ادراک سے قاصر، اور دانایان عالم اور عقلائے جہاں ان کے دریافت سے عاجز۔ 

 

 زہے صنع نہاں و آشکارا

کہ کس راجز خموشی نیست یارا


      چیونٹی جسے تو اضعف مخلوقات اور احقر موجودات جانتا ہے بزبان حال کہتی ہے۔ 

 

      اے غافل نقاش ازل کی حکمت و صنعت مجھ میں دیکھ۔ کہ مجھ جیسی نا چیز باوجود صغر جثہ ہاتھ پاؤں عنایت کئے۔ اور اس چھوٹے سر میں بہت غرفے بنائے کسی میں قوت ذائقہ اور کسی میں باصرہ رکھی۔ اور جو چیزیں تحصیل غذا اور عقل و ہضم  کے لئے درکار ہیں سب عنایت فرمائیں۔ وہ ناک مجھے دی کہ دور سے ہر چیز کی بو سونگ لیتی ہوں۔ اور وہ قدرت مجھے بخشی کہ جس جگہ تو کھانا رکھتا ہے پہونچ کر بفراغ خاطر نوش کرتی ہوں۔ تو زراعت کرتا ہے میں کھاتی ہوں۔ تو نفیس کھانے پکاتا ہے میں نوش کرتی ہوں۔ تو تمام عالم کو اپنے لئے مخلوق جانتا ہے اور میں کہتی ہوں خدا نے تجھ سی مخلوق بے نظیر کو میری خدمت کے لئے پیدا کیا۔

 

    اسی طرح ہر مخلوق اس کی صفت و ثنا کرتی ہے۔ اور کمال صنعت و حکمت کی گواہی دیتی ہے۔ مگر سننے والا اور سمجھنے والا کہاں؟

 

وہ خود فرماتا ہے:

وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ

 ترجمہ: اور کوئی چیز نہیں جو اسے سراہتی ہوئی اس کی پاکی نہ بولے ہاں تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ 


   ایک ہری لکڑی سے آگ نکلتی ہے۔ اور باوجود حرارت و یبوست طبعی کے اسے خشک نہیں کر سکتی۔ اور باہر نکلنے کے بعد جلا دیتی ہے۔ جزبِ مقناطیس و اسہال ثمانیہ کے سبب میں سب عقلا حیران۔ اور شمع و پروانہ، و گل و بلبل کے معاملے میں ایک عالم متحیر۔ عقل کیا چیز ہے کہ حکیم مطلق کی سب حکمتیں اور اس کے سب احکام کہ  بھید کما ینبغی دریافت کر سکے۔ 


عقل کی ذمّہ داری کیا ہے؟


عقل کا کام ان احکام میں یہ ہے۔ کہ کان لگا کر سنے کیا حکم آتا ہے۔ اور طریق تعمیل کیا ہے۔ نا یہ کہ کیوں حکم دیا۔ اور اس میں کیا فائدہ ہے؟


 جو خوان نعمت پاوے اور اس فکر میں پڑے۔ کہ یہ کھانا کس طرح اور کس جگہ اور کس برتن میں پکا۔ یہاں تک کہ لوگ کھا جاویں۔ اور وہ منہ دیکھتا رہ جاوے۔ اس سے زیادہ احمق کون ہے؟

 

زیں خرد بے گانہ می با ید شدن

دست در دیوا نگی باید زدن


آز مودم عقل دور اندیش را

بعد  زیں دیوانہ خوانم خویش را

 

    اظہر اشیاء اپنی ذات و صفات ہیں۔ اور علم انکا حضوری۔ مگر حقیقت و ماہیت ان کی عوام کو معلوم نہیں ہوتی۔ بلکہ اکابر علمائے میزان نے بھی تحدید اعیان عسیر سمجھی۔

 

عیال نہ شد کہ چرا آمد کجا بودم


دریغ و دردکہ غافل ذکار خويشتنم


     بھلا جس عقل پر اعتماد کرتا ہے اس کی حقیقت بتا کیا ہے؟ جب وہ اپنی حقیقت نہیں جانتی خدا کی باریک حکمتیں کب جانے گی۔ 


خواجہ ابو القاسم فرماتے ہیں۔

       جو اپنی عقل پر اعتماد کرتا ہے جہل مرکب میں مبتلا ہے۔ کہ کچھ نہیں جانتا آپ کو دانا سمجھتا ہے۔ خصوصاً امر دین میں اسے حاکم ٹھرانا۔ اور جس امر شرعی کو عقل اپنی ادراک نہ کرے نہ ماننا۔ حکم شاہی بدوں منظوری اس کے ادنٰی نوکر کے رد کرنا۔ عقل کیا چیز ہے کہ حکم خدا و رسول میں دخل دے۔ 


مصطفٰی اندر میاں آنگہ کسے گو ید باعقل

آفتاب اندر جہاں آنگہ کسے جو ید سہا


صوفیاء کرام  فرماتے ہیں:

      مراد عقل اوّل سے جس کی نسبت "اوّل ما خلق اللہ العقل" داردے حقیقت محمدی اور روح مبارک اس جناب کی ہے۔ کہ عالم قدس میں مربی ارواح تھے اور جوہر بدن سے متعلق ہوکر ہدایت و ارشاد عالم میں مشغول ہوئے۔ پس عقول انسانیہ اس عالم اور اس عالم میں اسی فیض حاصل کرتی ہیں۔ جیسے زرے آفتاب سے کہ جب وہ نکلتا ہے یہ چمکتے ہیں۔ اور ظاہر کہ عکس اصل سے معارض نہیں ہوتا۔ اسی لئے ہزاروں عقلا نور نبوّت کے معارضہ سے عاجز آئے۔


وہب ابن منبہ کہتے ہیں:

میں نے اکہتر کتابوں میں لکھا دیکھا۔ کہ عقل سارے جہان کی  عقل محمدی سے وہ نسبت رکھتی ہے جیسے ایک دانہ ریت کا ریگستان دنیا سے۔


(ھدایۃ البریۃ الی الشریعۃالاحمدیہ)

Mahnama Hashmat Ziya Urdu 102

 آنکھ مچولی

از- علامہ مفتی محمد طیب صاحب قبلہ حشمتی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ و نصلی ونسلم علی رسولہ الکریم

امّا بعد قارئین کرام! عرض ہے کہ آج سے تقریباً پانچ ماہ قبل فقیر نے رسالہ "تعاقب سواد بر اقصاد" رقم کیا تھا جس کے معرض وجود میں آنے کے اسباب و علل اور پس منظر اسی رسالے کے شروع پر یوں بیان کر دیا تھا:

آج دیڑھ سال سے زائد عرصہ ہونے کو آیا کہ فقیر نے مولانا کوثر حسن صاحب بانی نوری دار الافتاء کے نام ان کی سات ورقی ایک تحریر پر کچھ ایرادات قائم کئے تھے۔ ایرادات کے منظر عام پر آنے کے بعد مہینوں سکوت رہا ایک عرصہ بعد شدہ شدہ خبر موصول ہوئی کہ مہر سکوت ٹوٹی ہے ابتداً خوشی ہوئی کہ کچھ عمدہ کلام کیا ہوگا مگر یہ کیا؟ صرف ایک ورق؟ اس پر عجب یہ کہ محرر کے طور پر ایک غیر معروف کوئی مولوی شہزاد کا نام درج تھا، کوئی نتیجہ خیز گفتگو تھی نہ ہمارے مخاطب کا نام۔ 

جواباً کہا گیا کہ: "اسلوب گفتگو سے بے خبر بغیر تخاطب کے مخاطب بن بیٹھے جناب! مولوی کوثر صاحب بقید حیات ہیں آزادی سے قبل ان کو اپنے الفاظ کی صحیح تاویل یا رجوع و توبہ کر لینے دیں۔ اگر آپ کو بحث و  مباحثہ کا اتنا ہی شوق ہے تو اسے بھی ہم غلامان اعلیٰ حضرت بطفیل شیر بیشہ اہلِ سنت رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما پورا کیئے دیتے ہیں۔ بس اتنا کرم کریں کہ مولوی کوثر صاحب کی تحریر وکالت مطلقہ لے آئیں اور اگر وہ بھی نہ لا سکیں تب بھی ہم آپ کو چھوڑ نے والے نہیں۔ ان کا عجز نامہ ہی پیش کردیں پھر ہم آپ کی چند سطروں پر مشتمل "پرچی" کا تفصیلی جائزہ لیں گے"۔ 


ایک عرصہ تک سنّاٹے کا بسیرہ رہا، نہ تو مولوی شہزاد صاحب نظر آئے اور نہ ہی ان کا کوئی پتہ ملا، مہینوں بعد پھر ہلچل مسموع ہوئی کہ ایک کتاب بنام "اقتصاد" سوشل میڈیا پر عام ہوئی مگر یہ کیا؟ اس بار پھر ایک تیسرا نام کوئی مولوی اسرار صاحب بطور مؤلف رقم تھا۔ اور یہ ذات شریف تیسرے چہرے کے طور پر ہم سے مخاطب ہوئی۔ "

(تعاقب سواد بر اقتصاد)


اتنی وضاحت کہ بعد اب جبکہ رسالہ "کشف حجاب" کی فائل پیش نگاہ ہے نہ تو تحریر وکالت کا کچھ پتا ہے اور نہ اس پر کچھ چوں اور چرا ہے۔ علی سبیل التنزل جواب کی توقع تھی بھی تو مولوی اسرار صاحب سے۔ مولوی شہزاد صاحب درمیان میں کس حیثیت سے حائل ہوئے؟ سمجھ سے پرے ہے۔ یعنی مولوی اسرار صاحب ابھی اپنی حیثیت کا تعین نہ کر پائے تھے کہ مولوی شہزاد صاحب آگئے اسی کو ہمارے دیار میں کہتے ہیں یک نہ شد دو شد، کمال حیرت کہ فقیر کا رسالہ "تعاقب سواد" جس رسالہ کے مقابل منصۂ شہود پر آیا تھا وہ مولوی اسرار صاحب کی تالیف "اقتصاد" تھی اور اب تعاقب کا جواب مولوی شہزاد صاحب مرحمت فرمارہے ہیں اس جواب کی حالت تو آئندہ صفحات پر بخوبی معلوم ہوگی مگر دیانت داری تو دیکھیں کہ مولوی کوثر حسن صاحب بلرامپوری سے ایرادات قائم ہوتے ہیں تو مولوی شہزاد صاحب ایک صفحہ لیکر تشریف لاتے ہیں ان سے باز پرس ہوتی ہے تو مولوی اسرار صاحب "اقتصاد" لیکر حاضر ہوتے ہیں ان كا تعاقب ہوتا ہے تو پھر واپس وہی مولوی شہزاد صاحب نمودار ہوتے ہیں۔ آنکھ مچولی کے اس کھیل میں دیکھیں آگے اور کتنے افراد داخلہ فرماتے ہیں؟ تاہم اس پردۂ زنگاری میں موجود معشوق کی نازبرادریوں کا سامان باہم فراہم کیا جاتا رہے گا۔انشاء اللہ تبارک وتعالیٰ۔ 


تعاقب میں فقیر نے لکھا تھا کہ: 

"اب اصلاً حاجت تو نہ تھی کے جواب کی طرف توجہ کیجئے، کیا ضرورت ہے کہ تنزلات کیجئے، ارخائے عنان سے مہلتیں دیجئے مگر مخالف کو شکایت و حسرت نہ رہے لہٰذا چال شکری کو کچھ اور بھی امتداد سہی۔"


اسی نظریہ کو پیش نگاہ رکھ کر کچھ ضروری باتیں سپرد قرطاس کرتا ہیں۔ 


اوّلا: اصل موضوع کے حساب سے مولوی شہزاد صاحب کی تصنیف "کشف حجاب" دیکھیں تو وہی باتیں پھر سے دہرائی ہیں جو مولوی کوثر حسن صاحب اپنے پہلے مضمون میں لکھ آئے تھے، پھر وہی عبارات مولوی اسرار صاحب نے بھی "اقتصاد" میں ذکر کیں اور اب مولوی شہزاد نے بھی انہیں کا اعادہ فرمایا۔ اور فقیر کے سوالات کو کس طرح نظر انداز بلکہ لقمہ تر سمجھ کر ہضم فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل اور "کشف" کا مزید کشف ابھی ہوا جاتا ہے۔ 

"تعاقب سواد بر اقتصاد" میں فقیر نے یہ سوالات کئے تھے:

۱)احتیاج،نفس احتیاج اور وصف احتیاج میں کیا کیا فرق ہے؟

۲)نابرابری اگر وصف احتیاج ذاتی میں ہے وصف سے مراد کیا ہے؟ خود احتیاج ذاتی جیسے بولتے ہیں وصف علم یا اس کا غیر۔ اگر آپ کہیں کہ لکھ تو دیا ہے، وصف احتیاج ذاتی یعنی وصف معیت اختیار وعدم اختیار عطائی، یعنی غیراحتیاج ذاتی ، تو اس جواب پر یہ کہنا ہے کہ کیااحتیاج کاوصف اختیار ہے، یا احتیاج اور اختیار دونوں کسی اور کے وصف ہیں؟


٣) آپ اپنی عبارت پر غور کر کے بتائیے کہ احتیاج ذاتی کا وصف اختیار عطائی ہے یا اختیار عطائی کی معیت یا اختیار عطائی کی معیت کا وصف؟


٤) ذات کسے کہتے ہیں اور ذات و ذاتی میں کیا فرق ہے اور ذات و شخص میں کیا فرق ہے۔ منطقی جب نفس الذات محتاج الى نفس الذاتی بولتا ہے تو ذات سے کیا مراد لیتا ہے اور ذاتی سے کیا؟


۵) احتياج واختیار دونوں محتاج ومختار کے وصف ہیں یا احتیاج کا وصف اختیار ہے؟


٦) وصف کا قیام واصف کے ساتھ ہوتا ہے یا وصف کا وصف کے ساتھ؟


٧) مرتبۂ لاشئ کسے کہتے ہیں؟


٨) لاشئ کلی ہے یا جزئی؟


٩) لاشئ کا وجود خارج میں ہے یا نہیں اگر ہے تو ثابت کیجئے اور اگر نہیں تو ہوسکتا ہے یانہیں، اگر ہوسکتا ہے تو دلیل کیا ہے، اگرنہیں ہوسکتا ہے تو کیوں؟


۱۰) بشرط شئ، بشرط لاشئ، لا بشرط شئ، یہ تینوں جو آپ نے اپنی عبارت میں استعمال کئے یہ تینوں قسم ہیں، یااعتبار۔ قسم ہیں تو کس کی اور اعتبار ہیں تو کس کی، نیز اعتبار اور قسم میں کیا فرق ہے؟


١١) لابشر ط شئ في نفسها موجود ہوتا ہے یا معدوم، کلی ہوتا ہے یا جزئی؟۔


(ماخوذ از تعاقب)


بتائیں شہزاد صاحب آپ نے ان سوالات کا کیا جواب دیا؟

"اثبات معنی" اور "اطلاق لفظ “ کی بحث میں فقیر نے یہ سوالات کئے تھے :

١٢) اعلیٰ حضرت قبلہ نے معنی کی کتنی قسمیں لکھی ہیں اور کون کون ، ان میں سے کس معنی کے اعتبار سے آپ نے اثبات کیا ہے؟


۱۳) آپ نے جس کا اثبات کیا ہے وہ اثبات معنی ہے یا اثبات مفہوم یا اثبات مدلول؟ 


١۴) معنی مفہوم اور مدلول میں کیا فرق ہے؟


۱۵ ) یہ تینوں متحد بالذات ہیں یا مختلف بالذات، یامتحد بالذات مختلف بالاعتبار؟


آپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ "کہیں دکھادو یک گونہ بے بس صراحتاً لکھا ہو، جواب استفتأ میں جو کچھ ہے اثبات معنی ہے"۔ عقل کے دشمن! یہ اثبات معنی کیسے؟


۱٦) مانا کہ اثبات معنی کے اور بھی طریق ہیں مگر یہ تمہاری تحریر ہے اس میں اثبات بغیر اطلاق لفظ کے کیسے کیا؟


١٧) بے بس کہنا کیا اطلاق لفظ نہیں، بے بس کہنا اطلاق لفظ ہے یا اثبات معنی؟


۱۸) اطلاق لفظ اور اثبات معنی میں کیا فرق ہے؟


١٩) کیا اطلاق لفظ کیلئے اثبات معنی ضروری یا اثبات معنی کیلئے اطلاق لفظ؟


۲۰) اطلا ق کب اور کہاں بولا جاتا ہے اور اس کی حد کتنی ہے؟


۲۱) ساری دنیا کا خالق اللہ ہے اگر کوئی اثبات معنی کرتے ہوئے کہے کہ اللہ خنزیر کا خالق ہے تو صحیح ہے یا غلط؟


۲٢) کوئی بطور "اثبات معنی" کے پیغام رساں کا معنی لیکر سرکارصلی الله تعالی علیہ وسلم کو ایلچی کہے تو صحیح ہے یا غلط؟ دیکھئے امام اہلسنت اعلیحضرت فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ٦ صفحہ ١۵۵ پر لکھتے ہیں کہ:

"حضور اقدس صلی الله تعالی علیہ وسلم الله عزوجل کے رسول اعظم ونائب اکبر وخلیفۂ اعظم ہیں، ایلچی وہ ہوتا ہے جس کو پیام یا خط پہنچانے کے سوا کوئی سرداری اور حکومت نہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان اکبر

میں اس لفظ کا استعمال کرنا بیشک تنقیص و توہین ہے"۔ 


پیغام خدا سرکار بندوں تک تو پہنچاتے ہی تھے اور پیام رساں کامعنی لفظ میں تو تھا ہی حکومت و سرداری نہ تھی، اسلئے اس لفظ کا استعمال سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کیلئے تو ہین ٹھہرا۔ اب انصاف ور حضرات بتائیں! کیا لفظ بے بس کے معنی میں حکومت و سرداری ہے؟ بلکہ یوں کہہ لو کہ حکومت و سرداری اور بے بسی میں تضاد ہے تو بے بس کہنا کیوں توہین نہ ٹھہرےگا؟


۲۳) جب تک ارادۂ الہيه مساعدت نہ کرے، کیا اس کا یہی معنی ہے کہ مصطفی صلی الله تعالی علیہ وسلم بے بس ہیں؟


۲۴) اثبات معنی کے اطلاق لفظ کیلئے یہی لفظ ملا تھا ؟ امام اہلسنت اعلیحضرت قبلہ لفظ "دلال" کے متعلق سوال کرنے پر فرماتے ہیں کہ "اس سے بہتر لفظ خیال کیوں کر آتا جب دل میں عظمت ہی نہیں“۔ (فتاویٰ رضویہ شریف ج ۲ ص ۱۴۷)

ہوش کی دوا کریں ورنہ کہیں کے نہیں رہ جائیں گے، اعلیحضرت قبلہ نے فرمایا کہ اس ذلیل لفظ سے تعبیر کرنا صریح توہین ہے اب آپ لفظ بے بس کے بارے میں سوچیے کہ وہ ذلیل ہے یا عزیز؟


۲۵) آپ کو کیسے معلوم کہ سائل کے ذہن میں غیر کا تصورظلیت کے سوا ہوگا؟

(ماخوذ از تعاقب)


فرمائیں جناب! آپ نے ان میں سے اور ان کے علاوہ کتنے سوالات کے جوابات عنایت فرمائے ؟ کیا سوالات سے فرار ہی کو آپ کی انوکھی نرالی لغت میں کشف کہتے ہیں؟ اگر ہاں پھر تو واقعی نہایت عمده کشف فرمایا۔

بعض احباب کے ذریعے مسموع ہوا کہ مولوی کوثر صاحب بہریاوی کے معدودے چند کرم فرما فقیر کو نہ صرف سب وشتم بلکہ دھمکیوں سے بھی نواز رہے ہیں۔ سن کرہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی کہ وہ گروہ جسے علم کا اس قدر دعویٰ تھا اس کا بازار کس قدر جلد سونا پڑ گیا ۔

جناب ! ابھی تو آپ سے بہت کچھ ملاقاتیں ہونی ہیں ۔ مزید خامہ تلاشی کرنی ہے۔ ابھی سے اتنی

گھبراہٹ کیوں؟


راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

اورکھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں


(صمام حیدری)

Hashmat Ziya Urdu 101

 فیض آباد یوپی کا تاریخی مقدمہ


از- خلیفۂ مظہر اعلی حضرت علامہ بدرالدین احمد رضوی علیہ الرحمہ


حسام الحرمین کا مقدس فتوی ابھی تک صرف علمائے اسلام سے اپنی حق گوئی اور  باطل سوزی کی سند حاصل کر سکا تھا لیکن غیب سے ایسا سامان پیدا ہوا کہ کچہری اور کورٹ کے مجسٹریٹ نیز جج صاحبان سے بھی اس نے اپنی حقانیت و صداقت کا لوہا منوا لیا اس کا واقعہ یوں ہے کہ حضرت شیر بیشۂ سنت علامہ حشمت علی خان لکھنوی علیہ الرحمہ والرضوان نے ضلع فیض آباد کے علاقہ قصبہ بھدرسہ اوراس کے قرب و جوار میں ٢٢/مئ ١٩٤٦ء تا ٦/ جون ١٩٤٦ مسلسل تقریں فرمائیں جن میں آپ مذہب اہل سنت کی تبلیغ اور سنی مسلمانوں نیز دیگر حاضرین کی نصیحت و ہدایت کے لئے حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ کے مضامین پڑھ کر سناتے رہے۔ وہابیوں کے عقائد کفریہ سے آگاہ کرنے کے لۓ تحذیر الناس، براہین قاطعہ، حفظ الایمان اور مختصر سیرت نبویہ کی عبارات کفریہ کتاب کھول کھول کر لوگوں کو دکھلاتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کے بہت سے وہابی دیوبندی جو بیچارے اپنے پیشواؤں کے عقائد کفریہ سے 

آگاہ نہ تھے توبہ کر کے سنی مسلمان ہو گئے جب گھاگ وہابیوں نے دیکھا کہ علامہ لکھنوی کے ہاتھوں وہابیت کی مٹی پلید ہوتی جا رہی ہے تو انہوں نے اپنے علماء سے سازش کرکے علامہ لکھنوی کے خلاف مہابر پرشاد اگروال مجسٹریٹ درجہ اول شہر فیض آباد کے اجلاس میں استغاثہ دائر کر دیا جس میں یہ الزام قائم کیا کہ ملزم (مولانا حشمت علی علیہ الرحمہ) نے بتاریخ ٨/جون ١٩٤٦ء بوقت ٩ بجے شب لغایت ١٢ بجے شب ایک تقریر کی جس کے دوران میں ملزم نے مدعیان کے مذہبی عقائد مجروح کرنے نیز فرقہ وارانہ فساد برپا کرنےکی غرض سے مجمع عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی قاسم نانوتوی ، مولوی خلیل احمد انبیٹھی،مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی عبدالشکور کاکوروی لکھنوی کافر و مرتد بیدین ہیں ملزم کی تقریر مذکور سے مدعیان اور ان کے علمائے دین کی سخت توہین اور دل آزاری ہوئی۔

(دیوبندیوں کی رپورٹ)


    عالی جاہا!  ملزم  نہایت ہی مفسد آدمی ہے اور جرم دفعات ٢٩٨،٥٠٠،١٥٣ الف کا مرتکب ہے، لہذا تدارک ملزم حسب دفعات بالا فرمایا جائے۔


عرضی: فدویان عبد المحید خان و سراج الحق خان و حبیب اللہ مدعیان ساکنان قصبہ بھدرسہ ضلع فیض آباد مورخہ ١٢/ جون ١٩٤٦ ء _____ 


     کاروائی استغاثہ کے مطابق حضرت شیر بیشہ سنت علامہ لکھنوی جب کورٹ میں پہنچے تو مجسٹریٹ  نے استغاثہ کے متعلق جواب طلب کیا آپ نے اجلاس میں تحذیر الناس ، براہین قاطعہ، حفظ الایمان، فوٹو فتوی مہری دستخطی گنگوہی اور مختصر سیرت نبویہ مصنفہ عبدالشکور کارکوروی پیش کیااور ان کی عبارت کفریہ سے مجسٹریٹ کو آگاہ فرمایا اور اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنے مجسٹریٹ پر یہ بھی واضح کر دیا کہ دنیاے سنیت کے عظیم و جلیل پیشوا شیخ الاسلام اعلیحضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ نے مولوی تھانوی، مولوی نانوتوی، مولوی گنگوہی، مولوی انبیٹھی پر ان کے عقائد کفریہ یقینیہ کے سبب بحکم شریعت اسلامیہ کفر و ارتداد  کا فتویٰ دیا ہے۔ جو مقدس کتاب حسام الحرمین میں چھپ کر پورے ہندوستان میں شائع ہوچکا ہے اور اس فتویٰ کی تصدیق عرب شریف کے اکابر پیشوائے عظام اور ہندوستان کے  دو سو اڑسٹھ علماء اسلام اپنی مہر اور دستخط کے ساتھ کرچکے ہیں حسام الحرمین کے فتویٰ میں ایک حکم شرعی یہ بھی ہے کہ جو شخص مولویان مذکورین بالا  کے عقائد کفریہ پر مطلع ہو کر ان کو کافر نہ کہے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے توبحکم قانون شرع وہ بھی کافر ہے یہی وجہ ہے کہ مبلغ وہابیہ کی زاری میں ہندوستان کے چورانوے علماء اسلام نے شرعی فتوی دیا کہ مولوی عبدالشکور کاکوروی نے اپنی کتاب نصرت آسمانی صفحہ ١٥،٢٧،٤٧،٤١ میں مولوی تھانوی اور انبیٹھی کی کفری عبارتوں کی حمایت وطرفداری کی ہے۔ لہذا مولوی عبدالشکور کاکوروی ایڈیٹرالنجم بھی بحکم شریعت اسلامیہ کافرو مرتد بیدین ہیں۔


 پھر علامہ لکھنوی علیہ الرحمہ نے اپنے بیان کی تصدیق نیز مجسٹریٹ کے اطمینان کے لئے اجلاس میں حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ وغیرہ کتابیں پیش فرمائیں اور ان کے ساتھ اپنا ایک طویل تحریری بیان بھی پیش کیا جس میں آپ نے عبارات حفظ الایمان صفحہ ٨، براہین قاطعہ صفحہ ٥١ و فوٹو فتویٰ گنگوہی وغیرہ کی ہندی کی چندی کرکے ان کو اتنا عام فہم بنا دیا کہ انگریزی داں غیر مسلم مجسٹریٹ بھی پوری طرح سمجھ گیا کہ مولوی تھانوی، مولوی گنگوہی وغیرہ نے ضرور پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں کھلی گستاخی اور بے ادبی کی ہے اور یہ لوگ یقینی طور پر حسام الحرمین کے فتوی کے مطابق کافر و مرتد ہو چکے ہیں۔


     اس مقام پر وہابی حضرات ہرگز یہ خیال نہ فرمائیں گے کہ کسی نے مجسٹریٹ کے سامنے المہند کا مضمون نہیں سنایا اور نہ کسی نے اجلاس میں پیشوایان وہابیہ تھانوی وغیرہ کا مسلمان ہونا ثابت کیا اس لئے کہ اس تاریخی مقدمہ میں وہابیوں کے مشہور عالم چرب زبان مقرر مولوی ابوالوفاء صاحب شاہجہاں پوری وہابیت کے اکسپرٹ عالم کی حیثیت سے پیش کئے گئے،اور برسر اجلاس مجسٹریٹ کے سامنے حضرت شیر بیشہ سنت علامہ لکھنوی اور مولوی ابوالوفا کے درمیان ایک طویل و عریض مناظرہ ہوا جس  میں پیشوایان وہابیہ کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے دیوبندی میگزین کے نئے اور پرانے جتنے بھی ہتھیار تھے وہابیت کے اس اکسپرٹ عالم نےوہ سب استعمال کر ڈالے لیکن احمد رضا کے شیر حشمت علی نے حرمین کی حسام براں سے کفر و ارتداد کے قلب و جگر کو کاٹ کر پھینک دیا اور  بارگاہ رسالت کے گستاخ باغیوں کے طرفدار مولوی کو لوہے کے چنے چبوادیے اور دلائل شرعیہ کے کاٹنے پر پیشوایان وہابیہ مولوی تھانوی، گنگوہی وغیرہ کا کافر و مرتد ہونا ایسا بے نقاب فرمایا کہ مولوی ابوالوفا جیسا گھاگ ہوشیار مشاق عالم بھی مجسٹریٹ کے سامنے دیوبندی کفریات پر پردہ ڈالنے میں ہر طرح ناکام رہا اور پیشوایان وہابیہ کا مسلمان ہونا ثابت نہ کرسکا اب ہم مجسٹریٹ کے فیصلہ کی طویل بحث کا وہ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں جو اس کے فیصلے کی روح ہے۔ 


مجسٹریٹ کا فیصلہ


"ملزم کہتا ہے کہ اس نے ٨جون ١٩٤٦ء کو کوئی تقریر  بھدرسے میں نہیں کی اور نہ اس نے کبھی بھی ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو مستغیثان نے حلفا بیان کئے ہیں نہ کبھی وہ اس طرح ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے وہ قطعی طور پر کہتا ہے کہ اس نے ٧ جون کے پہلے کچھ تقریریں کی تھیں جن میں اس نے مختلف کتابوں (یعنی حسام الحرمین، الصوارم الہندیہ،مبلغ وہابیہ کی زاری) سے کچھ عبارتیں پڑھیں تھیں ان کتابوں میں یہ مولویان (اشرف علی تھانوی، رشید احمد گنگوہی، قاسم نانوتوی، خلیل احمد انبیٹھی اور عبدالشکور کاکوروی) اسلامی فتویٰ سے بے دین کافر مرتد اور دیو کے بندے کہے گئے ہیں۔


       اب ہم دیکھیں گے کہ تقریر میں کیا کہا گیا  مستغیثان نے تحریر میں کچھ بھی نہیں دیا کہ ملزم نے کیا کہا۔ صرف مستغیثان اور دو گواہوں کا بیان ہے کہ ملزم نے اوپر کے لکھے ہوئے الفاظ یعنی مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی قاسم نانوتوی، مولوی خلیل احمد انبیٹھی، مولوی عبدالشکور کارکوروی اور مولوی رشید احمد گنگوہی کافر مرتد اور بے دین ہیں استعمال کیے ہیں۔ ملزم یہ مانتا ہے کہ اس نے ان مولویوں کے حق میں اوپر کے لکھے ہوئے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مگر وہ عبارت دوسری تھی۔ گواہ نمبر(١ ) کہتا ہے کہ (ملزم کی) تقریر کو کسی نے بھی نوٹ نہیں کیا۔اور نہ خود اس (گواہ) نے نوٹ کیا ملزم نے جو الفاظ کہے ہیں وہ اس کو زبانی یاد ہیں اور کچھ مختصر مفہوم تقریر کا بھی یاد ہے۔ اس گواہ نمبر ( ١) کے بیان کے مطابق ملزم تقریر کے وقت کتابیں اپنے ہاتھ میں لیتا تھا۔ اس بیان سے ملزم کی بات کو تقویت ملتی ہے۔  ملزم اقرار کرتا ہے کہ اس نے ان مولویوں کے حق میں اوپر کے لکھے ہوئے الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن عبارت دوسری ہے اور اس نے وہ الفاظ چند کتابوں کی تحریر کی مدد سے لئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ملزم کا فعل بلکل درست تھا کہ وہ کتاب سے پڑھ رہا تھا اور ملزم یہ بات نیک نیتی سے پبلک کی آگاہی کے لئے کر رہا تھا تاکہ وہ مذہبی بات سمجھ لیں اس لیے ملزم کا فعل دفعہ ٥٠٠   تعزیرات ہند میں نہیں آتا ملزم کی تقریر سے پبلک کے اشتعال جھگڑے کے احتمال کے متعلق کچھ گواہوں نے یہ بیان کیا کہ ملزم کی تقریر سن کر بہت سے وہابی لوگ اس کی باتیں سمجھ کر ملزم کے ہم مذہب (سنی) ہو گئے اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ملزم کا وعظ بہت دلچسپ تھا۔


    اس مقدمہ میں  ایک اکسپرٹ مولانا ابوالوفا پیش کیا گیا ملزم نے مذہبی امور میں خود بڑی لمبی جرح اس پر کی مولانا ابوالوفا کی گواہی کو مقدمہ کی گواہی کہنے کی بجائے مذہبی مناظرہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔  


   میرا خیال ہے جیسا کہ میں نے اوپر بحث کی ہے کہ ٨/جون ١٩٤٦ کا واقعہ سراسر  گڑھی ہوئی بات ہے اور ایسا کوئی واقعہ نہ ہونے پایا ملزم کی وہ اگلی تقریریں تھیں جن سے (وہابی) مستغیثوں  کی دل آزاری ہوئی کیونکہ فریق ثانی (سنی مسلمانوں) کے عقائد پر قبضہ جما رہے تھے اس لئے مستغیثوں نے بغیر سیاق و سباق کا تعلق دیکھتے ہوئے تقریر کے چند الفاظ لے کر ملزم کے خلاف جھوٹا مقدمہ دائر کردیا۔ میرے خیال میں ملزم کو اس کی جماعت میں صرف بد نام کرنے کے لئے یہ مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ مذہبی مبلغ ہے اور اچھی مقدار میں مریدین رکھتا ہے جیسا کہ دوران مقدمہ میں دیکھا گیا۔


    میں ملزم (مولانا) حشمت علی کو تعزیرات ہند کی دفعات ٥٠٠،١٥٣،٢٩٨ سے جن کا الزام اس پر لگایا گیا ہے اور اس پر مقدمہ چلایا گیا ہے بے قصور قرار  دیتا ہوں اور اس کو زیر دفعہ ٢٥٨ ضابطہ فوجداری آزاد کرتا ہوں___



     دستخط :- مہابیر  پرشاد اگروال مجسٹریٹ درجہ اول 


              فیض آباد

٢٥/ ستمبر ١٩٤٨ء



شیشن جج کا فیصلہ


     ٢١/ ذیقعدہ ١٣٦٧ ہجری مطابق ٢٥ ستمبر١٩٤٨ء کے اس تاریخی فیصلے نے دنیائے وہابیت میں تہلکہ مچا دیا دیوبندیوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ان کے سارے فتنہ پرور منصوبے خاک میں مل گئے حق و باطل کے اس معرکہ  میں میدان حسام الحرمین کے ہاتھ رہا اور بارگاہ رسالت کے باغیوں کے گلے میں شکست و ذلت کا طوق

پڑا_____پھر وہابیوں نے سوچا کہ اس فیصلے نے تو غضب ہی ڈھا دیا کہ مجسٹریٹ نے شیر رضا کو جیل خانہ کے پنجرہ میں بند کر دینے کی بجائے اس کو باعزت طور پر آزاد کردیا اور حسام الحرمین کی حقانیت و صداقت کا لوہا بھی مان لیا اس لئے مجسٹریٹ کے اس فیصلے کو توڑوا دینا بہت ضروری ہے۔چنانچہ اپنی ناکامی کو کامیابی سے بدلنے کے لئے ایک بار پھر انہوں نے زور باندھا اور مجسٹریٹ کے فیصلہ کے خلاف ششن جج یعقوب علی کے اجلاس میں اپیل دائر کر دی ششن کورٹ کے فاضل جج نے اپیل پر بحث کرتے ہوئے فیصلہ لکھا جس کا اقتباس ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔


"ملزم نے بیان کیا کہ ٧ جون ١٩٤٦ء کے قبل اس نے چند تقریریں بھدرسے میں کیں جن میں اس نے (حسام الحرمین، الصوارم الہندیہ وغیرہ ) کتابوں سے چند عبارتیں پیش کیں اور ان عبارتوں میں ( مولوی تھانوی، مولوی گنگوہی ، مولوی نانوتوی وغیرہ ) علماء جو کہ استغاثہ میں درج ہیں بذریعہ فتویٰ کافر مرتد بے دین و دیو کے بندے اور وہابی قرار دے گئے تھے۔


      ٧ جون ١٩٤٦ سے قبل تقریریں جو کہ ملزم نے بھدرسے میں کی تھیں ان کا مضمون کچہری میں خود ملزم نے پیش کیا جس پر (E x.D7)پڑا ہے۔

  

   فریقین کی طرف سے ثبوت پہنچنے کے بعد لائق مجسٹریٹ نے اولا یہ فیصلہ کیا کہ ملزم نے ٨/جون ١٩٤٦ کو کوئی تقریر نہیں کی جس کی مستغیثان شکایت کرتے ہیں اور یہ صرف ایک بنایا ہوا قصہ تھا دوسرا فیصلہ مجسٹریٹ نے یہ کیا کہ یہ الفاظ ملزم نے گزشتہ دوسری تقریروں میں استعمال کئے تھے جن سے ان کے جذبات کو صدمہ پہنچا تھا کیونکہ انہوں نے ان الفاظ کا سیاق و سباق سے تعلق دیکھے بغیر غلط مطلب نکال لیا اور یہ غلط مقدمہ ملزم کے خلاف دائر کیا۔اس پر لائق مجسٹریٹ نے مقدمہ خارج کردیا اور یہ اعتراض کیا کہ ملزم چونکہ مذہبی مبلغ ہے اور اس کے بہت کافی مرید اور معتقد ہیں اس لئے پبلک میں اس کی بےعزتی کرنے کو یہ مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ ملزم اس وجہ سے بری کر دیا گیا تھا۔


    اور اسی بریت کے خلاف مستغیثان  نے نگرانی کی درخواست دی ہے اور وہ اس حکم کے خلاف ہیں۔ فریقین کے لائق وکلاء کی طویل بحثوں اور فریقین کے پیش کردہ زبانی اور تحریری ثبوت کو بہت غور سے پڑھنے اور سننے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ درخواست نگرانی کچھ دم نہیں رکھتی ۔


    لائق مجسٹریٹ کی تجویز سے مجھ کو پتہ چلتا ہے کہ لائق مجسٹریٹ نے ثبوت زبانی و تحریری کو بغور دھیان دیا اور ملاحظہ کیا اور یہ صحیح فیصلہ کیا کہ ملزم نیک نیتی کے ساتھ کتابوں کی عبارتیں پڑھنے میں صحیح راستے پر تھا۔ 


        لائق مجسٹریٹ کا فیصلہ جس میں اس نے ملزم کو بری کردیا فریقین کے پیش کردہ ثبوتوں کی بنا پر بالکل صحیح اور درست ہے۔ مستغیثان میرے سامنے لائق مجسٹریٹ کے فیصلے میں کوئی قانونی غلطی یا اور کوئی غلطی نہ بتا سکے۔در حقیقت اس اپیل میں کوئی جان نہیں میں اس کو خارج کرتا ہوں۔


             دستخط: یعقوب علی ششن جج فیض آباد

٢٨اپریل ١٩٤٩ء


         واضح ہو کہ وہابیوں کا دائر کردہ مقدمہ دو برس تین ماہ تیرہ دن جاری رہ کر ٢٥ ستمبر ١٩٤٨ کو ختم ہوا پھر ان کی اپیل کا فیصلہ ٢٨ اپریل ١٩٤٩ء کو ہوا۔فرحت افزا فتح مبین نے وہابیوں کے استغاثے کا پورا مضمون مستغیثان و بعض گواہوں کا بیان ظہری پھر برسر اجلاس حضرت مولانا حشمت علی خان علیہ الرحمہ کا زبانی مختصر بیان اور تحریری طویل بیان پھر مجسٹریٹ اور جج کا انگریزی میں فیصلہ اور اس کا اردو ترجمہ چھپ کر ہندوستان بھر میں شائع ہو چکا ہے۔ جو صاحب اس تاریخی مقدمہ کی کاروائی اور  حضرت شیر بیشۂ سنت علیہ الرحمہ کا کامل تحریری بیان اور مجسٹریٹ  و جج کا  مکمل فیصلہ دیکھنا چاہیں  وہ فرحت افزا فتح مبین کا مطالعہ فرمائیں ہم نے مجسٹریٹ کا فیصلہ اسی کتاب فرحت افزا کے صفحہ ٣٣ تا ٣٧ سے اور جج کا فیصلہ صفحہ ٥١ تا ٥٤ سے نقل کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

       اہل بصیرت کے نزدیک وہابیوں کا یہ استغاثہ حقیقت میں حسام الحرمین کے خلاف ایک خطرناک منصوبہ تھا انہوں نے پوری کوشش کے ساتھ حسام الحرمین پر ایسی ضرب کاری لگانا چاہی تھی جس سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کچل کر رہ جائے۔اور قانون حکومت کا آہنی پنجہ دنیاۓ سنیت کے شیر حشمت علی  کو اپنی گرفت میں لے لے ۔تاکہ دین کے ڈاکو دن دہاڑے مسلمانوں کا ایمان و اسلام بے خوف و خطر ہو کر لوٹتے پھریں  لیکن دین اسلام کے محافظ حقیقی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف وہابیوں کے خطرناک منصوبے کو ناکام بنایا بلکہ ایسا کھلا ہوا کرم فرمایا کہ دنیاۓ  سنیت کا شیر قانون کے چنگل میں پھنسنے سے بال بال بچا اور حسام الحرمین کے اعلان حق سے کورٹ اور کچہری کے درودیوار گونج اٹھے____ اور اردلی، نقل نویس، پیشکار، وکیل، مختار، بیرسٹر، مجسٹریٹ، جج اور دیگر عوام و خواص حاضرین اجلاس بھی اچھی طرح  واقف ہوگئے کہ پیشوایان وہابیہ مولوی تھانوی، مولوی گنگوہی وغیرہ اسلامی فتوی سے کافر و مرتد بے دین قرار پا چکے ہیں اعلیحضرت کا فتواے مقدس حسام الحرمین دنیائے سنیت کی گردنوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے احسان عظیم ہے۔ اسی مقدس فتوی نے وہابیوں کے باطل استغاثے کی جڑ کاٹ کر پھینک دی۔ 


(سوانح اعلی حضرت، صفحہ ٢٣٥)