آنکھ مچولی
از- علامہ مفتی محمد طیب صاحب قبلہ حشمتی
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی ونسلم علی رسولہ الکریم
امّا بعد قارئین کرام! عرض ہے کہ آج سے تقریباً پانچ ماہ قبل فقیر نے رسالہ "تعاقب سواد بر اقصاد" رقم کیا تھا جس کے معرض وجود میں آنے کے اسباب و علل اور پس منظر اسی رسالے کے شروع پر یوں بیان کر دیا تھا:
آج دیڑھ سال سے زائد عرصہ ہونے کو آیا کہ فقیر نے مولانا کوثر حسن صاحب بانی نوری دار الافتاء کے نام ان کی سات ورقی ایک تحریر پر کچھ ایرادات قائم کئے تھے۔ ایرادات کے منظر عام پر آنے کے بعد مہینوں سکوت رہا ایک عرصہ بعد شدہ شدہ خبر موصول ہوئی کہ مہر سکوت ٹوٹی ہے ابتداً خوشی ہوئی کہ کچھ عمدہ کلام کیا ہوگا مگر یہ کیا؟ صرف ایک ورق؟ اس پر عجب یہ کہ محرر کے طور پر ایک غیر معروف کوئی مولوی شہزاد کا نام درج تھا، کوئی نتیجہ خیز گفتگو تھی نہ ہمارے مخاطب کا نام۔
جواباً کہا گیا کہ: "اسلوب گفتگو سے بے خبر بغیر تخاطب کے مخاطب بن بیٹھے جناب! مولوی کوثر صاحب بقید حیات ہیں آزادی سے قبل ان کو اپنے الفاظ کی صحیح تاویل یا رجوع و توبہ کر لینے دیں۔ اگر آپ کو بحث و مباحثہ کا اتنا ہی شوق ہے تو اسے بھی ہم غلامان اعلیٰ حضرت بطفیل شیر بیشہ اہلِ سنت رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما پورا کیئے دیتے ہیں۔ بس اتنا کرم کریں کہ مولوی کوثر صاحب کی تحریر وکالت مطلقہ لے آئیں اور اگر وہ بھی نہ لا سکیں تب بھی ہم آپ کو چھوڑ نے والے نہیں۔ ان کا عجز نامہ ہی پیش کردیں پھر ہم آپ کی چند سطروں پر مشتمل "پرچی" کا تفصیلی جائزہ لیں گے"۔
ایک عرصہ تک سنّاٹے کا بسیرہ رہا، نہ تو مولوی شہزاد صاحب نظر آئے اور نہ ہی ان کا کوئی پتہ ملا، مہینوں بعد پھر ہلچل مسموع ہوئی کہ ایک کتاب بنام "اقتصاد" سوشل میڈیا پر عام ہوئی مگر یہ کیا؟ اس بار پھر ایک تیسرا نام کوئی مولوی اسرار صاحب بطور مؤلف رقم تھا۔ اور یہ ذات شریف تیسرے چہرے کے طور پر ہم سے مخاطب ہوئی۔ "
(تعاقب سواد بر اقتصاد)
اتنی وضاحت کہ بعد اب جبکہ رسالہ "کشف حجاب" کی فائل پیش نگاہ ہے نہ تو تحریر وکالت کا کچھ پتا ہے اور نہ اس پر کچھ چوں اور چرا ہے۔ علی سبیل التنزل جواب کی توقع تھی بھی تو مولوی اسرار صاحب سے۔ مولوی شہزاد صاحب درمیان میں کس حیثیت سے حائل ہوئے؟ سمجھ سے پرے ہے۔ یعنی مولوی اسرار صاحب ابھی اپنی حیثیت کا تعین نہ کر پائے تھے کہ مولوی شہزاد صاحب آگئے اسی کو ہمارے دیار میں کہتے ہیں یک نہ شد دو شد، کمال حیرت کہ فقیر کا رسالہ "تعاقب سواد" جس رسالہ کے مقابل منصۂ شہود پر آیا تھا وہ مولوی اسرار صاحب کی تالیف "اقتصاد" تھی اور اب تعاقب کا جواب مولوی شہزاد صاحب مرحمت فرمارہے ہیں اس جواب کی حالت تو آئندہ صفحات پر بخوبی معلوم ہوگی مگر دیانت داری تو دیکھیں کہ مولوی کوثر حسن صاحب بلرامپوری سے ایرادات قائم ہوتے ہیں تو مولوی شہزاد صاحب ایک صفحہ لیکر تشریف لاتے ہیں ان سے باز پرس ہوتی ہے تو مولوی اسرار صاحب "اقتصاد" لیکر حاضر ہوتے ہیں ان كا تعاقب ہوتا ہے تو پھر واپس وہی مولوی شہزاد صاحب نمودار ہوتے ہیں۔ آنکھ مچولی کے اس کھیل میں دیکھیں آگے اور کتنے افراد داخلہ فرماتے ہیں؟ تاہم اس پردۂ زنگاری میں موجود معشوق کی نازبرادریوں کا سامان باہم فراہم کیا جاتا رہے گا۔انشاء اللہ تبارک وتعالیٰ۔
تعاقب میں فقیر نے لکھا تھا کہ:
"اب اصلاً حاجت تو نہ تھی کے جواب کی طرف توجہ کیجئے، کیا ضرورت ہے کہ تنزلات کیجئے، ارخائے عنان سے مہلتیں دیجئے مگر مخالف کو شکایت و حسرت نہ رہے لہٰذا چال شکری کو کچھ اور بھی امتداد سہی۔"
اسی نظریہ کو پیش نگاہ رکھ کر کچھ ضروری باتیں سپرد قرطاس کرتا ہیں۔
اوّلا: اصل موضوع کے حساب سے مولوی شہزاد صاحب کی تصنیف "کشف حجاب" دیکھیں تو وہی باتیں پھر سے دہرائی ہیں جو مولوی کوثر حسن صاحب اپنے پہلے مضمون میں لکھ آئے تھے، پھر وہی عبارات مولوی اسرار صاحب نے بھی "اقتصاد" میں ذکر کیں اور اب مولوی شہزاد نے بھی انہیں کا اعادہ فرمایا۔ اور فقیر کے سوالات کو کس طرح نظر انداز بلکہ لقمہ تر سمجھ کر ہضم فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل اور "کشف" کا مزید کشف ابھی ہوا جاتا ہے۔
"تعاقب سواد بر اقتصاد" میں فقیر نے یہ سوالات کئے تھے:
۱)احتیاج،نفس احتیاج اور وصف احتیاج میں کیا کیا فرق ہے؟
۲)نابرابری اگر وصف احتیاج ذاتی میں ہے وصف سے مراد کیا ہے؟ خود احتیاج ذاتی جیسے بولتے ہیں وصف علم یا اس کا غیر۔ اگر آپ کہیں کہ لکھ تو دیا ہے، وصف احتیاج ذاتی یعنی وصف معیت اختیار وعدم اختیار عطائی، یعنی غیراحتیاج ذاتی ، تو اس جواب پر یہ کہنا ہے کہ کیااحتیاج کاوصف اختیار ہے، یا احتیاج اور اختیار دونوں کسی اور کے وصف ہیں؟
٣) آپ اپنی عبارت پر غور کر کے بتائیے کہ احتیاج ذاتی کا وصف اختیار عطائی ہے یا اختیار عطائی کی معیت یا اختیار عطائی کی معیت کا وصف؟
٤) ذات کسے کہتے ہیں اور ذات و ذاتی میں کیا فرق ہے اور ذات و شخص میں کیا فرق ہے۔ منطقی جب نفس الذات محتاج الى نفس الذاتی بولتا ہے تو ذات سے کیا مراد لیتا ہے اور ذاتی سے کیا؟
۵) احتياج واختیار دونوں محتاج ومختار کے وصف ہیں یا احتیاج کا وصف اختیار ہے؟
٦) وصف کا قیام واصف کے ساتھ ہوتا ہے یا وصف کا وصف کے ساتھ؟
٧) مرتبۂ لاشئ کسے کہتے ہیں؟
٨) لاشئ کلی ہے یا جزئی؟
٩) لاشئ کا وجود خارج میں ہے یا نہیں اگر ہے تو ثابت کیجئے اور اگر نہیں تو ہوسکتا ہے یانہیں، اگر ہوسکتا ہے تو دلیل کیا ہے، اگرنہیں ہوسکتا ہے تو کیوں؟
۱۰) بشرط شئ، بشرط لاشئ، لا بشرط شئ، یہ تینوں جو آپ نے اپنی عبارت میں استعمال کئے یہ تینوں قسم ہیں، یااعتبار۔ قسم ہیں تو کس کی اور اعتبار ہیں تو کس کی، نیز اعتبار اور قسم میں کیا فرق ہے؟
١١) لابشر ط شئ في نفسها موجود ہوتا ہے یا معدوم، کلی ہوتا ہے یا جزئی؟۔
(ماخوذ از تعاقب)
بتائیں شہزاد صاحب آپ نے ان سوالات کا کیا جواب دیا؟
"اثبات معنی" اور "اطلاق لفظ “ کی بحث میں فقیر نے یہ سوالات کئے تھے :
١٢) اعلیٰ حضرت قبلہ نے معنی کی کتنی قسمیں لکھی ہیں اور کون کون ، ان میں سے کس معنی کے اعتبار سے آپ نے اثبات کیا ہے؟
۱۳) آپ نے جس کا اثبات کیا ہے وہ اثبات معنی ہے یا اثبات مفہوم یا اثبات مدلول؟
١۴) معنی مفہوم اور مدلول میں کیا فرق ہے؟
۱۵ ) یہ تینوں متحد بالذات ہیں یا مختلف بالذات، یامتحد بالذات مختلف بالاعتبار؟
آپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ "کہیں دکھادو یک گونہ بے بس صراحتاً لکھا ہو، جواب استفتأ میں جو کچھ ہے اثبات معنی ہے"۔ عقل کے دشمن! یہ اثبات معنی کیسے؟
۱٦) مانا کہ اثبات معنی کے اور بھی طریق ہیں مگر یہ تمہاری تحریر ہے اس میں اثبات بغیر اطلاق لفظ کے کیسے کیا؟
١٧) بے بس کہنا کیا اطلاق لفظ نہیں، بے بس کہنا اطلاق لفظ ہے یا اثبات معنی؟
۱۸) اطلاق لفظ اور اثبات معنی میں کیا فرق ہے؟
١٩) کیا اطلاق لفظ کیلئے اثبات معنی ضروری یا اثبات معنی کیلئے اطلاق لفظ؟
۲۰) اطلا ق کب اور کہاں بولا جاتا ہے اور اس کی حد کتنی ہے؟
۲۱) ساری دنیا کا خالق اللہ ہے اگر کوئی اثبات معنی کرتے ہوئے کہے کہ اللہ خنزیر کا خالق ہے تو صحیح ہے یا غلط؟
۲٢) کوئی بطور "اثبات معنی" کے پیغام رساں کا معنی لیکر سرکارصلی الله تعالی علیہ وسلم کو ایلچی کہے تو صحیح ہے یا غلط؟ دیکھئے امام اہلسنت اعلیحضرت فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ٦ صفحہ ١۵۵ پر لکھتے ہیں کہ:
"حضور اقدس صلی الله تعالی علیہ وسلم الله عزوجل کے رسول اعظم ونائب اکبر وخلیفۂ اعظم ہیں، ایلچی وہ ہوتا ہے جس کو پیام یا خط پہنچانے کے سوا کوئی سرداری اور حکومت نہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان اکبر
میں اس لفظ کا استعمال کرنا بیشک تنقیص و توہین ہے"۔
پیغام خدا سرکار بندوں تک تو پہنچاتے ہی تھے اور پیام رساں کامعنی لفظ میں تو تھا ہی حکومت و سرداری نہ تھی، اسلئے اس لفظ کا استعمال سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کیلئے تو ہین ٹھہرا۔ اب انصاف ور حضرات بتائیں! کیا لفظ بے بس کے معنی میں حکومت و سرداری ہے؟ بلکہ یوں کہہ لو کہ حکومت و سرداری اور بے بسی میں تضاد ہے تو بے بس کہنا کیوں توہین نہ ٹھہرےگا؟
۲۳) جب تک ارادۂ الہيه مساعدت نہ کرے، کیا اس کا یہی معنی ہے کہ مصطفی صلی الله تعالی علیہ وسلم بے بس ہیں؟
۲۴) اثبات معنی کے اطلاق لفظ کیلئے یہی لفظ ملا تھا ؟ امام اہلسنت اعلیحضرت قبلہ لفظ "دلال" کے متعلق سوال کرنے پر فرماتے ہیں کہ "اس سے بہتر لفظ خیال کیوں کر آتا جب دل میں عظمت ہی نہیں“۔ (فتاویٰ رضویہ شریف ج ۲ ص ۱۴۷)
ہوش کی دوا کریں ورنہ کہیں کے نہیں رہ جائیں گے، اعلیحضرت قبلہ نے فرمایا کہ اس ذلیل لفظ سے تعبیر کرنا صریح توہین ہے اب آپ لفظ بے بس کے بارے میں سوچیے کہ وہ ذلیل ہے یا عزیز؟
۲۵) آپ کو کیسے معلوم کہ سائل کے ذہن میں غیر کا تصورظلیت کے سوا ہوگا؟
(ماخوذ از تعاقب)
فرمائیں جناب! آپ نے ان میں سے اور ان کے علاوہ کتنے سوالات کے جوابات عنایت فرمائے ؟ کیا سوالات سے فرار ہی کو آپ کی انوکھی نرالی لغت میں کشف کہتے ہیں؟ اگر ہاں پھر تو واقعی نہایت عمده کشف فرمایا۔
بعض احباب کے ذریعے مسموع ہوا کہ مولوی کوثر صاحب بہریاوی کے معدودے چند کرم فرما فقیر کو نہ صرف سب وشتم بلکہ دھمکیوں سے بھی نواز رہے ہیں۔ سن کرہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی کہ وہ گروہ جسے علم کا اس قدر دعویٰ تھا اس کا بازار کس قدر جلد سونا پڑ گیا ۔
جناب ! ابھی تو آپ سے بہت کچھ ملاقاتیں ہونی ہیں ۔ مزید خامہ تلاشی کرنی ہے۔ ابھی سے اتنی
گھبراہٹ کیوں؟
راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اورکھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
(صمام حیدری)
No comments:
Post a Comment