مختصر حالات امام المتکلمین علامہ نقی علی خان قادری رضی المولیٰ عنہ
از- سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی المولیٰ عنہ
وہ جناب فضائل مآب تاج العلماء راس الفضلاء حامی سنت ماحئ بدعت بقیۃ السلف حجت الخلف رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وارضاہ و فی اعلی غرف الجنان بواہ سلخ جمادی الآخرہ یا غرۂ رجب ١٣٤٦ھ قدسیہ کو رونق افزائے دار دنیا ہوئے۔ اپنے والد ماجد حضرت مولائے اعظم جر غطمطم فضائل پناہ عارف باللہ صاحب کمالات باہرہ و کرامات ظاہرہ حضرت مولانا مولوی محمد رضا علی خاں صاحب روح اللہ روحہ و نور ضریحہ سے اکتساب علوم فرمایا۔ بحمد اللہ منصف شریف علم کا یایہ ذردۂ علیا کو پہونچایا۔ راست میگویم و یزداں نہ پسند جزراست کہ جو وقت انظار وحدت افکار و فہم صائب و رائے ثاقب حضرت حق جل و علیٰ نے انہیں عطا فرمائی۔ ان دیار و امصار میں اس کی نظیر نظر نہ آئی فراست صادقہ کی یہ حالت تھی کہ جس معاملہ میں جو کچھ فرمایا وہی ظہور میں آیا۔ عقل معاش و معاد دونوں کا بروجہ کمال اجتماع بہت کم سنا، یہاں آنکھوں دیکھا علاوہ بریں سخاوت و شجاعت و علوہمت و کرم و مروت و صدقات خفیہ و مبّرات جلیہ و بلندی اقبال و دبدبہ و جلال و موالات فقرا اور امر دینی میں عدم مبالات باغنیاء حکام سے عزلت رزق موروث پر قناعت و غیر ذالک فضائل جلیلہ و خصائل جمیلہ کا حال وہی کچھ جانتا ہے جس نے اس جناب کی برکت صحبت سے شرف پایا ہے۔ ایں نہ بحریست کہ درکوزۂ تحریر آید۔ مگر سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس ذات گرامی صفات کو خالق عز و جل نے حضرت سلطان رسالت علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی غلامی و خدمت اور حضور اقدس کے اعدا پر غلظت و شدّت کے لئے بنایا تھا۔ بحمد اللہ ان کے بازوئے ہمت و طنطنۂ صولت نے اس شہر کو فتنۂ مخالفین سے یکسر پاک کردیا کوئی اتنا نہ رہا کہ سر اٹھائے یا آنکھ ملائے۔ یہاں تک کہ ٢٦ شعبان ۱۲۹۳ھ کو مناظرہ دینی کا عام اعلان مسمّٰی بنام تاریخی اصلاح ذاتِ بین طبع کرایا اور سوا مہر سکوت یا عار فرار و غوغائے جہال و عجز و اضطرار کے کچھ جواب نہ پایا فتنہ شش مثل کا شعلہ کہ مدت سے سر بفلک کشیدہ تھا اور تمام اقطار ہند میں اہل علم اس کے اطفا پر عرق ریز و گرویدہ اس جناب کی ادنٰی توجہ میں بحمد اللہ سارے ہندوستان سے ایسا فرو ہوا کہ جب سے کان ٹھنڈے ہیں اہل فتنہ کا بازار سرد ہے۔ خود اس کے نام سے جلتے ہیں۔ مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی یہ خدمت روز ازل سے اس جناب کیلئے ودیعت تھی۔ جبکہ تفصیل رسالہ تنبیہ الجہال بالہام الباسط المتعال میں مطبوع ہوئی۔ تصانیف شریفہ اس جناب کی سب علوم دین میں ہیں نافع مسلمین ودافع مفسدین والحمد للہ رب العالمین۔ ازانجملہ الکلام الاوضح فی تفسیر سورۃ الم نشرح کہ مجلد کبیر ہے علوم کثیرہ پر مشتمل۔ وسیلتہ النجاۃ جس کا موضوع ذکرحالالت سید کائنات ہے ﷺ مجلدوسیط سرورالقلوب فی ذکر المحبوب کی مطبع نولکشور میں چھپی۔ جواہرالبیان فی اسرارالارکان جس کی خوبی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ذوق ایں مے تشناسی بخدا تانہ چشی۔ فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ نے صرف اس کے ڈھائی صفحوں کی شرح میں ایک رسالہ مسمیٰ بہ زواہرالجنان من جواہرالبیان ملقب بنام تاریخی سلطنتہ المصطفیٰ فی ملکوت کل الوری تالیف کیا۔اصول الرشاد لقمع مہاتی الفساد جس میں وہ قواعد ایضاح و اثبات فرمائے جن کے بعد نہیں مگر سنت کو قوت اور بدعت نجدیہ کو موت حسرت ہدایتہ البریہ الی الشریعتہ الا احمدیہ کہ دس فرقوں کا رد ہے۔ یہ کتابیں مطبع صبح صادق سیتاپور میں طبع ہوئیں۔ اذاقة الاثام لمانعى عمل المولود والقيام کہ اپنی شان میں اپنا نظیر نہیں رکھتی اور انشاء اللہ العزیز عنقریب شائع ہوگی۔ فضل العلم و العلماء ایک مختصر رسالہ کہ بریلی میں طبع ہوا۔ازالةالاوہام رد نجدیہ تزکیتہ ایقان رد تقویتہ الایمان کہ یہ عشرۂ کاملہ زمانۂ حضرت مصنف قدس سرہ میں تبيیض پاچکا۔الکواکب الزہراء فی فضائل العلم و آداب العلماء جس کی تخریج احادیث میں فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ نے رسالہ النجوم الثواقب فی تخریج احادیث الکواکب لکھا۔ الروایتہ فی الاخلاق النبویہ النقادہ التقویہ فی الخصاںٔص النبویہ، لمعتہ النیراس فی آداب الاکل واللباس و التمکن فی تحقیق مسائل التزین۔احسن الوعاء الآداب الدعاء خیر المخاطبہ فی المحا سبتہ و المراقبہ ہدایتہ المشتاق الی سیرالانفس والآفاق۔ارشاد الاحباب الی آداب الاحتساب اجمل الفکر فی مباحث الذکر۔عین المشاہدہ لحسن المجاہدہ تشوق الادّاةالی طرق حجۃاللہ۔نہایتہ السعادہ فی تحقیق الہمہ والارادہ۔ اقوی الذریعہ الی تحقیق الطریقۃ و الشریعہ ترویج الارواح فی تفسیرالانشراح ان پندرہ رسائل مابین و جزيرو وسیط کے مسودات موجود ہیں جن کی تبییض کی فرصت حضرت مصنف قدس سرہ نے نہ پائی فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ کا قصد ہے کہ اُنھیں صاف کرکے ایک مجلد میں طبع کرائے۔ انشاء اللہ سبحانہ تعالی کہ حلوا بہ تنہا نہ باليست خورد۔ ان کے سوا اور تصانیف شریفہ کے مسودے بستوں میں ملتے ہیں مگر منتشر جن کے اجزا اول آخر یا وسط سے گم ہیں۔ان کے بارے میں حسرت و مجبوری ہے غرض عمر اس جناب کی ترویج دین و ہدایت مسلمین و نکات اعداء حمایت مصطفیٰ ﷺ میں گزری جزاهُ الله من الاسلام والمسلمين خيراجزاء آمین۔ پنجم جمادی الاولی ۱۲۹۴ ہجری کو مارہرہ مطہرہ میں دست حق پرست حضرت آقائے نعمت دریائے رحمت سید الواصلین سند الکاملین قطب ادانہ وامام زمانہ حضور پُرنور سیدنا و مرشدنا مولانا وماوانا ذخرتی لیومی و غدی حضرت سیدنا سید شاہ آل رسول احمدی تاجدارِ مسند مارہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ وافاض علینا من برکاتہ ونعماہ پر شرفِ بیعت حاصل فرمایا۔ حضور پیر و مرشد برحق نے مثال خلافت و اجازت جمیع سلاسل و سند حدیث عطا فرمائی۔یہ غلام ناکارہ بھی اسی جلسہ میں اس جناب کے طفیل ان برکات سے شرفیاب ہوا۔ ولحمدللہ رب العالمین ۲۶ شوّال ۱۲۹۵ ہجری کو باوجود شدت علالت و قوت ضعف خود حضور اقدس ﷺ کے خاص طور پر بلانے سے کہ من رانی فی المنام فقُل رانی عزم زیارت و حج مصمم فرمایا یہ غلام اور چند اصحاب و خدام ہمراہ رکاب تھے۔ ہر چند احباب نے عرض کی کہ یہ حالت ہے آئندہ سال پر ملتوی فرمائیے ارشاد کیا مدینہ طیبہ کے قصد سے قدم دروازہ سے باہر رکھ لوں۔ پھر چاہے روح اسی وقت پرواز کر جائے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ تمام مشاہد میں تندرستوں سے کسی بات میں کمی نہ فرمائی بلکہ وہ مرض ہی خود نبی ﷺ کے ایک آبخورہ میں دوا عطا فرمانے سے کہ من رانی فقد رای الحق حد منع پر نہ رہا۔ وہاں حضرت اجمل العلماء اکمل الفضلاء حضرت مولانا سید احمد زین دحلان شیخ الحرم وغیرہ علمائے مکہ مکرمہ سے مکرر سند حدیث حاصل فرمائی۔ سلخ ذی القعدہ روز پنجشنبہ وقت ظہر ۱۲۹۷ ہجریہ قدسیہ کی اکیاون برس پانچ مہینے کی عمر میں بعارضۂ اسہال دموی شہادت پاکر شبِ جمعہ اپنے حضرت والد ماجد قدس سرہ کے کنار میں جگہ پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
روزِ وصال نمازِ صبح پڑھ لی تھی اور ہنوز وقت ظہر باقی تھا کہ انتقال فرمایا۔ نزاع میں سب حاضرین نے دیکھا کہ آنکھیں بند کئے متواتر سلام فرماتے تھے جب چند انفاس باقی رہے ہاتھوں کو اعضائے وضو پر یوں پھیرا گویا وضو فرماتے ہیں یہاں تک کہ استنشاق بھی فرمایا سبحان اللہ۔ وہ اپنے طور پر حالتِ بے ہوشی میں نمازِ ظہر بھی ادا فرماگئے جس وقت روح پر فتوح نے جدائی فرمائی۔فقیر سرہانے حاضر تھا۔واللہ العظیم۔ایک نور ملیح علانیہ نظر آیا کہ سينہ سے اٹھکر برق تابندہ کی طرح چہرہ پر چمکا اور جس طرح لمعان خورشید آئینہ میں جنبش کرتا ہے۔ یہ حالت ہوکر غائب ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی روح بدن میں نہ تھی پچھلا کلمہ کہ زبان فیض ترجمان سے نکلا لفظ اللہ تھا و بس اور اخیر تحریر کہ دست مبارک سے ہوئی۔ بِسمِ اللہ الرحمٰن الرحیم تھی کہ انتقال سے دو روز پہلے ایک کاغذ پر لکھی تھی بعدہ فقیر نے حضور پیر و مرشد برحق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رویا میں دیکھا کہ حضرت والد قدس سرہ الماجد کے مرقد پر تشریف لائے غلام نے عرض کی یہاں کہاں۔ ادلفطا ھذا معناہ فرمایا آج سے یا فرمایا اب سے ہم یہی رہا کرینگے۔ رحمهما الله تعالى رحمۃ واسعة.