async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD

Friday, September 23, 2022

Hashmat Ziya Urdu 101

 فیض آباد یوپی کا تاریخی مقدمہ


از- خلیفۂ مظہر اعلی حضرت علامہ بدرالدین احمد رضوی علیہ الرحمہ


حسام الحرمین کا مقدس فتوی ابھی تک صرف علمائے اسلام سے اپنی حق گوئی اور  باطل سوزی کی سند حاصل کر سکا تھا لیکن غیب سے ایسا سامان پیدا ہوا کہ کچہری اور کورٹ کے مجسٹریٹ نیز جج صاحبان سے بھی اس نے اپنی حقانیت و صداقت کا لوہا منوا لیا اس کا واقعہ یوں ہے کہ حضرت شیر بیشۂ سنت علامہ حشمت علی خان لکھنوی علیہ الرحمہ والرضوان نے ضلع فیض آباد کے علاقہ قصبہ بھدرسہ اوراس کے قرب و جوار میں ٢٢/مئ ١٩٤٦ء تا ٦/ جون ١٩٤٦ مسلسل تقریں فرمائیں جن میں آپ مذہب اہل سنت کی تبلیغ اور سنی مسلمانوں نیز دیگر حاضرین کی نصیحت و ہدایت کے لئے حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ کے مضامین پڑھ کر سناتے رہے۔ وہابیوں کے عقائد کفریہ سے آگاہ کرنے کے لۓ تحذیر الناس، براہین قاطعہ، حفظ الایمان اور مختصر سیرت نبویہ کی عبارات کفریہ کتاب کھول کھول کر لوگوں کو دکھلاتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کے بہت سے وہابی دیوبندی جو بیچارے اپنے پیشواؤں کے عقائد کفریہ سے 

آگاہ نہ تھے توبہ کر کے سنی مسلمان ہو گئے جب گھاگ وہابیوں نے دیکھا کہ علامہ لکھنوی کے ہاتھوں وہابیت کی مٹی پلید ہوتی جا رہی ہے تو انہوں نے اپنے علماء سے سازش کرکے علامہ لکھنوی کے خلاف مہابر پرشاد اگروال مجسٹریٹ درجہ اول شہر فیض آباد کے اجلاس میں استغاثہ دائر کر دیا جس میں یہ الزام قائم کیا کہ ملزم (مولانا حشمت علی علیہ الرحمہ) نے بتاریخ ٨/جون ١٩٤٦ء بوقت ٩ بجے شب لغایت ١٢ بجے شب ایک تقریر کی جس کے دوران میں ملزم نے مدعیان کے مذہبی عقائد مجروح کرنے نیز فرقہ وارانہ فساد برپا کرنےکی غرض سے مجمع عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی قاسم نانوتوی ، مولوی خلیل احمد انبیٹھی،مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی عبدالشکور کاکوروی لکھنوی کافر و مرتد بیدین ہیں ملزم کی تقریر مذکور سے مدعیان اور ان کے علمائے دین کی سخت توہین اور دل آزاری ہوئی۔

(دیوبندیوں کی رپورٹ)


    عالی جاہا!  ملزم  نہایت ہی مفسد آدمی ہے اور جرم دفعات ٢٩٨،٥٠٠،١٥٣ الف کا مرتکب ہے، لہذا تدارک ملزم حسب دفعات بالا فرمایا جائے۔


عرضی: فدویان عبد المحید خان و سراج الحق خان و حبیب اللہ مدعیان ساکنان قصبہ بھدرسہ ضلع فیض آباد مورخہ ١٢/ جون ١٩٤٦ ء _____ 


     کاروائی استغاثہ کے مطابق حضرت شیر بیشہ سنت علامہ لکھنوی جب کورٹ میں پہنچے تو مجسٹریٹ  نے استغاثہ کے متعلق جواب طلب کیا آپ نے اجلاس میں تحذیر الناس ، براہین قاطعہ، حفظ الایمان، فوٹو فتوی مہری دستخطی گنگوہی اور مختصر سیرت نبویہ مصنفہ عبدالشکور کارکوروی پیش کیااور ان کی عبارت کفریہ سے مجسٹریٹ کو آگاہ فرمایا اور اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنے مجسٹریٹ پر یہ بھی واضح کر دیا کہ دنیاے سنیت کے عظیم و جلیل پیشوا شیخ الاسلام اعلیحضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ نے مولوی تھانوی، مولوی نانوتوی، مولوی گنگوہی، مولوی انبیٹھی پر ان کے عقائد کفریہ یقینیہ کے سبب بحکم شریعت اسلامیہ کفر و ارتداد  کا فتویٰ دیا ہے۔ جو مقدس کتاب حسام الحرمین میں چھپ کر پورے ہندوستان میں شائع ہوچکا ہے اور اس فتویٰ کی تصدیق عرب شریف کے اکابر پیشوائے عظام اور ہندوستان کے  دو سو اڑسٹھ علماء اسلام اپنی مہر اور دستخط کے ساتھ کرچکے ہیں حسام الحرمین کے فتویٰ میں ایک حکم شرعی یہ بھی ہے کہ جو شخص مولویان مذکورین بالا  کے عقائد کفریہ پر مطلع ہو کر ان کو کافر نہ کہے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے توبحکم قانون شرع وہ بھی کافر ہے یہی وجہ ہے کہ مبلغ وہابیہ کی زاری میں ہندوستان کے چورانوے علماء اسلام نے شرعی فتوی دیا کہ مولوی عبدالشکور کاکوروی نے اپنی کتاب نصرت آسمانی صفحہ ١٥،٢٧،٤٧،٤١ میں مولوی تھانوی اور انبیٹھی کی کفری عبارتوں کی حمایت وطرفداری کی ہے۔ لہذا مولوی عبدالشکور کاکوروی ایڈیٹرالنجم بھی بحکم شریعت اسلامیہ کافرو مرتد بیدین ہیں۔


 پھر علامہ لکھنوی علیہ الرحمہ نے اپنے بیان کی تصدیق نیز مجسٹریٹ کے اطمینان کے لئے اجلاس میں حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ وغیرہ کتابیں پیش فرمائیں اور ان کے ساتھ اپنا ایک طویل تحریری بیان بھی پیش کیا جس میں آپ نے عبارات حفظ الایمان صفحہ ٨، براہین قاطعہ صفحہ ٥١ و فوٹو فتویٰ گنگوہی وغیرہ کی ہندی کی چندی کرکے ان کو اتنا عام فہم بنا دیا کہ انگریزی داں غیر مسلم مجسٹریٹ بھی پوری طرح سمجھ گیا کہ مولوی تھانوی، مولوی گنگوہی وغیرہ نے ضرور پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں کھلی گستاخی اور بے ادبی کی ہے اور یہ لوگ یقینی طور پر حسام الحرمین کے فتوی کے مطابق کافر و مرتد ہو چکے ہیں۔


     اس مقام پر وہابی حضرات ہرگز یہ خیال نہ فرمائیں گے کہ کسی نے مجسٹریٹ کے سامنے المہند کا مضمون نہیں سنایا اور نہ کسی نے اجلاس میں پیشوایان وہابیہ تھانوی وغیرہ کا مسلمان ہونا ثابت کیا اس لئے کہ اس تاریخی مقدمہ میں وہابیوں کے مشہور عالم چرب زبان مقرر مولوی ابوالوفاء صاحب شاہجہاں پوری وہابیت کے اکسپرٹ عالم کی حیثیت سے پیش کئے گئے،اور برسر اجلاس مجسٹریٹ کے سامنے حضرت شیر بیشہ سنت علامہ لکھنوی اور مولوی ابوالوفا کے درمیان ایک طویل و عریض مناظرہ ہوا جس  میں پیشوایان وہابیہ کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے دیوبندی میگزین کے نئے اور پرانے جتنے بھی ہتھیار تھے وہابیت کے اس اکسپرٹ عالم نےوہ سب استعمال کر ڈالے لیکن احمد رضا کے شیر حشمت علی نے حرمین کی حسام براں سے کفر و ارتداد کے قلب و جگر کو کاٹ کر پھینک دیا اور  بارگاہ رسالت کے گستاخ باغیوں کے طرفدار مولوی کو لوہے کے چنے چبوادیے اور دلائل شرعیہ کے کاٹنے پر پیشوایان وہابیہ مولوی تھانوی، گنگوہی وغیرہ کا کافر و مرتد ہونا ایسا بے نقاب فرمایا کہ مولوی ابوالوفا جیسا گھاگ ہوشیار مشاق عالم بھی مجسٹریٹ کے سامنے دیوبندی کفریات پر پردہ ڈالنے میں ہر طرح ناکام رہا اور پیشوایان وہابیہ کا مسلمان ہونا ثابت نہ کرسکا اب ہم مجسٹریٹ کے فیصلہ کی طویل بحث کا وہ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں جو اس کے فیصلے کی روح ہے۔ 


مجسٹریٹ کا فیصلہ


"ملزم کہتا ہے کہ اس نے ٨جون ١٩٤٦ء کو کوئی تقریر  بھدرسے میں نہیں کی اور نہ اس نے کبھی بھی ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو مستغیثان نے حلفا بیان کئے ہیں نہ کبھی وہ اس طرح ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے وہ قطعی طور پر کہتا ہے کہ اس نے ٧ جون کے پہلے کچھ تقریریں کی تھیں جن میں اس نے مختلف کتابوں (یعنی حسام الحرمین، الصوارم الہندیہ،مبلغ وہابیہ کی زاری) سے کچھ عبارتیں پڑھیں تھیں ان کتابوں میں یہ مولویان (اشرف علی تھانوی، رشید احمد گنگوہی، قاسم نانوتوی، خلیل احمد انبیٹھی اور عبدالشکور کاکوروی) اسلامی فتویٰ سے بے دین کافر مرتد اور دیو کے بندے کہے گئے ہیں۔


       اب ہم دیکھیں گے کہ تقریر میں کیا کہا گیا  مستغیثان نے تحریر میں کچھ بھی نہیں دیا کہ ملزم نے کیا کہا۔ صرف مستغیثان اور دو گواہوں کا بیان ہے کہ ملزم نے اوپر کے لکھے ہوئے الفاظ یعنی مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی قاسم نانوتوی، مولوی خلیل احمد انبیٹھی، مولوی عبدالشکور کارکوروی اور مولوی رشید احمد گنگوہی کافر مرتد اور بے دین ہیں استعمال کیے ہیں۔ ملزم یہ مانتا ہے کہ اس نے ان مولویوں کے حق میں اوپر کے لکھے ہوئے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مگر وہ عبارت دوسری تھی۔ گواہ نمبر(١ ) کہتا ہے کہ (ملزم کی) تقریر کو کسی نے بھی نوٹ نہیں کیا۔اور نہ خود اس (گواہ) نے نوٹ کیا ملزم نے جو الفاظ کہے ہیں وہ اس کو زبانی یاد ہیں اور کچھ مختصر مفہوم تقریر کا بھی یاد ہے۔ اس گواہ نمبر ( ١) کے بیان کے مطابق ملزم تقریر کے وقت کتابیں اپنے ہاتھ میں لیتا تھا۔ اس بیان سے ملزم کی بات کو تقویت ملتی ہے۔  ملزم اقرار کرتا ہے کہ اس نے ان مولویوں کے حق میں اوپر کے لکھے ہوئے الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن عبارت دوسری ہے اور اس نے وہ الفاظ چند کتابوں کی تحریر کی مدد سے لئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ملزم کا فعل بلکل درست تھا کہ وہ کتاب سے پڑھ رہا تھا اور ملزم یہ بات نیک نیتی سے پبلک کی آگاہی کے لئے کر رہا تھا تاکہ وہ مذہبی بات سمجھ لیں اس لیے ملزم کا فعل دفعہ ٥٠٠   تعزیرات ہند میں نہیں آتا ملزم کی تقریر سے پبلک کے اشتعال جھگڑے کے احتمال کے متعلق کچھ گواہوں نے یہ بیان کیا کہ ملزم کی تقریر سن کر بہت سے وہابی لوگ اس کی باتیں سمجھ کر ملزم کے ہم مذہب (سنی) ہو گئے اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ملزم کا وعظ بہت دلچسپ تھا۔


    اس مقدمہ میں  ایک اکسپرٹ مولانا ابوالوفا پیش کیا گیا ملزم نے مذہبی امور میں خود بڑی لمبی جرح اس پر کی مولانا ابوالوفا کی گواہی کو مقدمہ کی گواہی کہنے کی بجائے مذہبی مناظرہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔  


   میرا خیال ہے جیسا کہ میں نے اوپر بحث کی ہے کہ ٨/جون ١٩٤٦ کا واقعہ سراسر  گڑھی ہوئی بات ہے اور ایسا کوئی واقعہ نہ ہونے پایا ملزم کی وہ اگلی تقریریں تھیں جن سے (وہابی) مستغیثوں  کی دل آزاری ہوئی کیونکہ فریق ثانی (سنی مسلمانوں) کے عقائد پر قبضہ جما رہے تھے اس لئے مستغیثوں نے بغیر سیاق و سباق کا تعلق دیکھتے ہوئے تقریر کے چند الفاظ لے کر ملزم کے خلاف جھوٹا مقدمہ دائر کردیا۔ میرے خیال میں ملزم کو اس کی جماعت میں صرف بد نام کرنے کے لئے یہ مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ مذہبی مبلغ ہے اور اچھی مقدار میں مریدین رکھتا ہے جیسا کہ دوران مقدمہ میں دیکھا گیا۔


    میں ملزم (مولانا) حشمت علی کو تعزیرات ہند کی دفعات ٥٠٠،١٥٣،٢٩٨ سے جن کا الزام اس پر لگایا گیا ہے اور اس پر مقدمہ چلایا گیا ہے بے قصور قرار  دیتا ہوں اور اس کو زیر دفعہ ٢٥٨ ضابطہ فوجداری آزاد کرتا ہوں___



     دستخط :- مہابیر  پرشاد اگروال مجسٹریٹ درجہ اول 


              فیض آباد

٢٥/ ستمبر ١٩٤٨ء



شیشن جج کا فیصلہ


     ٢١/ ذیقعدہ ١٣٦٧ ہجری مطابق ٢٥ ستمبر١٩٤٨ء کے اس تاریخی فیصلے نے دنیائے وہابیت میں تہلکہ مچا دیا دیوبندیوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ان کے سارے فتنہ پرور منصوبے خاک میں مل گئے حق و باطل کے اس معرکہ  میں میدان حسام الحرمین کے ہاتھ رہا اور بارگاہ رسالت کے باغیوں کے گلے میں شکست و ذلت کا طوق

پڑا_____پھر وہابیوں نے سوچا کہ اس فیصلے نے تو غضب ہی ڈھا دیا کہ مجسٹریٹ نے شیر رضا کو جیل خانہ کے پنجرہ میں بند کر دینے کی بجائے اس کو باعزت طور پر آزاد کردیا اور حسام الحرمین کی حقانیت و صداقت کا لوہا بھی مان لیا اس لئے مجسٹریٹ کے اس فیصلے کو توڑوا دینا بہت ضروری ہے۔چنانچہ اپنی ناکامی کو کامیابی سے بدلنے کے لئے ایک بار پھر انہوں نے زور باندھا اور مجسٹریٹ کے فیصلہ کے خلاف ششن جج یعقوب علی کے اجلاس میں اپیل دائر کر دی ششن کورٹ کے فاضل جج نے اپیل پر بحث کرتے ہوئے فیصلہ لکھا جس کا اقتباس ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔


"ملزم نے بیان کیا کہ ٧ جون ١٩٤٦ء کے قبل اس نے چند تقریریں بھدرسے میں کیں جن میں اس نے (حسام الحرمین، الصوارم الہندیہ وغیرہ ) کتابوں سے چند عبارتیں پیش کیں اور ان عبارتوں میں ( مولوی تھانوی، مولوی گنگوہی ، مولوی نانوتوی وغیرہ ) علماء جو کہ استغاثہ میں درج ہیں بذریعہ فتویٰ کافر مرتد بے دین و دیو کے بندے اور وہابی قرار دے گئے تھے۔


      ٧ جون ١٩٤٦ سے قبل تقریریں جو کہ ملزم نے بھدرسے میں کی تھیں ان کا مضمون کچہری میں خود ملزم نے پیش کیا جس پر (E x.D7)پڑا ہے۔

  

   فریقین کی طرف سے ثبوت پہنچنے کے بعد لائق مجسٹریٹ نے اولا یہ فیصلہ کیا کہ ملزم نے ٨/جون ١٩٤٦ کو کوئی تقریر نہیں کی جس کی مستغیثان شکایت کرتے ہیں اور یہ صرف ایک بنایا ہوا قصہ تھا دوسرا فیصلہ مجسٹریٹ نے یہ کیا کہ یہ الفاظ ملزم نے گزشتہ دوسری تقریروں میں استعمال کئے تھے جن سے ان کے جذبات کو صدمہ پہنچا تھا کیونکہ انہوں نے ان الفاظ کا سیاق و سباق سے تعلق دیکھے بغیر غلط مطلب نکال لیا اور یہ غلط مقدمہ ملزم کے خلاف دائر کیا۔اس پر لائق مجسٹریٹ نے مقدمہ خارج کردیا اور یہ اعتراض کیا کہ ملزم چونکہ مذہبی مبلغ ہے اور اس کے بہت کافی مرید اور معتقد ہیں اس لئے پبلک میں اس کی بےعزتی کرنے کو یہ مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ ملزم اس وجہ سے بری کر دیا گیا تھا۔


    اور اسی بریت کے خلاف مستغیثان  نے نگرانی کی درخواست دی ہے اور وہ اس حکم کے خلاف ہیں۔ فریقین کے لائق وکلاء کی طویل بحثوں اور فریقین کے پیش کردہ زبانی اور تحریری ثبوت کو بہت غور سے پڑھنے اور سننے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ درخواست نگرانی کچھ دم نہیں رکھتی ۔


    لائق مجسٹریٹ کی تجویز سے مجھ کو پتہ چلتا ہے کہ لائق مجسٹریٹ نے ثبوت زبانی و تحریری کو بغور دھیان دیا اور ملاحظہ کیا اور یہ صحیح فیصلہ کیا کہ ملزم نیک نیتی کے ساتھ کتابوں کی عبارتیں پڑھنے میں صحیح راستے پر تھا۔ 


        لائق مجسٹریٹ کا فیصلہ جس میں اس نے ملزم کو بری کردیا فریقین کے پیش کردہ ثبوتوں کی بنا پر بالکل صحیح اور درست ہے۔ مستغیثان میرے سامنے لائق مجسٹریٹ کے فیصلے میں کوئی قانونی غلطی یا اور کوئی غلطی نہ بتا سکے۔در حقیقت اس اپیل میں کوئی جان نہیں میں اس کو خارج کرتا ہوں۔


             دستخط: یعقوب علی ششن جج فیض آباد

٢٨اپریل ١٩٤٩ء


         واضح ہو کہ وہابیوں کا دائر کردہ مقدمہ دو برس تین ماہ تیرہ دن جاری رہ کر ٢٥ ستمبر ١٩٤٨ کو ختم ہوا پھر ان کی اپیل کا فیصلہ ٢٨ اپریل ١٩٤٩ء کو ہوا۔فرحت افزا فتح مبین نے وہابیوں کے استغاثے کا پورا مضمون مستغیثان و بعض گواہوں کا بیان ظہری پھر برسر اجلاس حضرت مولانا حشمت علی خان علیہ الرحمہ کا زبانی مختصر بیان اور تحریری طویل بیان پھر مجسٹریٹ اور جج کا انگریزی میں فیصلہ اور اس کا اردو ترجمہ چھپ کر ہندوستان بھر میں شائع ہو چکا ہے۔ جو صاحب اس تاریخی مقدمہ کی کاروائی اور  حضرت شیر بیشۂ سنت علیہ الرحمہ کا کامل تحریری بیان اور مجسٹریٹ  و جج کا  مکمل فیصلہ دیکھنا چاہیں  وہ فرحت افزا فتح مبین کا مطالعہ فرمائیں ہم نے مجسٹریٹ کا فیصلہ اسی کتاب فرحت افزا کے صفحہ ٣٣ تا ٣٧ سے اور جج کا فیصلہ صفحہ ٥١ تا ٥٤ سے نقل کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

       اہل بصیرت کے نزدیک وہابیوں کا یہ استغاثہ حقیقت میں حسام الحرمین کے خلاف ایک خطرناک منصوبہ تھا انہوں نے پوری کوشش کے ساتھ حسام الحرمین پر ایسی ضرب کاری لگانا چاہی تھی جس سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کچل کر رہ جائے۔اور قانون حکومت کا آہنی پنجہ دنیاۓ سنیت کے شیر حشمت علی  کو اپنی گرفت میں لے لے ۔تاکہ دین کے ڈاکو دن دہاڑے مسلمانوں کا ایمان و اسلام بے خوف و خطر ہو کر لوٹتے پھریں  لیکن دین اسلام کے محافظ حقیقی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف وہابیوں کے خطرناک منصوبے کو ناکام بنایا بلکہ ایسا کھلا ہوا کرم فرمایا کہ دنیاۓ  سنیت کا شیر قانون کے چنگل میں پھنسنے سے بال بال بچا اور حسام الحرمین کے اعلان حق سے کورٹ اور کچہری کے درودیوار گونج اٹھے____ اور اردلی، نقل نویس، پیشکار، وکیل، مختار، بیرسٹر، مجسٹریٹ، جج اور دیگر عوام و خواص حاضرین اجلاس بھی اچھی طرح  واقف ہوگئے کہ پیشوایان وہابیہ مولوی تھانوی، مولوی گنگوہی وغیرہ اسلامی فتوی سے کافر و مرتد بے دین قرار پا چکے ہیں اعلیحضرت کا فتواے مقدس حسام الحرمین دنیائے سنیت کی گردنوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے احسان عظیم ہے۔ اسی مقدس فتوی نے وہابیوں کے باطل استغاثے کی جڑ کاٹ کر پھینک دی۔ 


(سوانح اعلی حضرت، صفحہ ٢٣٥)