async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: 2022

Sunday, November 6, 2022

दुरुद-ए-गौसिया पढ़ने की फ़ज़ीलते

 अल्लाहुम्मा सल्ली अला सय्यिदिना व मौलाना मौहम्मदिम
मा-अ-दिनिल जूदी बल किरामी वबारिक वसल्लिम  

 (1) दुरूद-ए-गौसिया रोज़ाना 11 बार पढ़ने की फ़ज़ीलत
इंशाअल्लाह उसके दिल की हर मुराद पूरी होगी 

 (2) दुरूद-ए-गौसिया रोज़ाना 111 बार पढ़ने की फ़ज़ीलत
इंशाअल्लाह वो शख्स हर बुरी बला और मुसीबत से महफूज़ रहेगा 

(3) दुरूद-ए-गौसिया हर नमाज़ के बाद 7 बार पढ़ने की फ़ज़ीलत
इंशाअल्लाह वो शख्स शैतान के शर से महफूज़ रहेगा  

(4) दुरूद-ए-गौसिया रोज़ाना रात को 33 बार पढ़ने की फ़ज़ीलत
इंशाअल्लाह उसका चेहरा नूरानी हो जाएगा  

Friday, September 23, 2022

Mahnama Hashmat Ziya urdu 103

 رد عقلیت


از- امام المتکلمین علامہ نقی علی خان قادری رضی المولیٰ عنہ


  فرقۂ اولیٰ نے اپنی عقل ناقص کو امام بنایا ہے اور زعم فاسد میں عقل کل بن بیٹھا ہے۔ مسئلہ جبر و قدر۔ اور مشاجرات صحابہ۔ اور ان کے امثال میں دخل بے جا۔ اور آیات متشابہات و احکام غیر معقول المعنی۔ اور خدا کی باریک حکمتوں میں۔ اور اسرار میں جن کا سمجھنا ہرکس و نا کس کا کام نہیں فکر بیہودہ کرتے ہیں۔ اور جو بات سمجھ میں نہیں آتی اس سے صاف منکر ہو جاتے ہیں۔ 

   

         ہر چند کہ عقل مدار تکلیف اور انسان و دیگر انواع حیوان میں مابہ الامتیاز ہے۔ مگر افراد انسانیہ اس میں متفاوت۔ عقل انبیا علیہم السلام عقل عوام سے بالبداہۃ ازید و اکمل ہے۔ بلکہ عوام میں بھی تفاوت بین۔ خصوصاً جب اس کے ساتھ علم و تجربہ بھی شامل ہو۔ ایسے شخص کی بات دوسرے واجب التسلیم اور اس کے کام میں دخل دینا فضول سمجھتے ہیں۔


       لہٰذا طبیب کے کہنے پر بلا دریافت مزاج و خاصیت دوا۔ اور بدوں تشخیص مرض بے تأمل عمل کرتے ہیں۔ اسی طرح نور نبوّت کے حضور سر جھکا دیں۔ جو ارشاد ہو بے چوں چرا بجا لاویں۔ اپنی عقل کو دخل نہ دیں اور جو نہ بتایا اس کی فکر میں نہ پڑیں  کہ نہ بتانا بھی حکمت ہے گو سمجھ میں نہ آئے۔ وہ حکیم مطلق ہے۔ فضول و عبث کو اس کے سرا پردۂ حکمت کے پاس گزر نہیں۔ 


 واللہ یعلم و انتم لاتعلمون

ترجمہ: اور اللہ جانتا اور تم نہیں جانتے۔ 

 

کس تصریح سے فرماتے ہیں ہم جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔ اسی جگہ سے کہتے ہیں "لا ادری" آدھا علم ہے۔

 وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

 ترجمہ: اور پختہ علم والے کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے۔ 


     یہ آیت صاف صریح خبر دیتی ہے کہ دانش مند ایسی باتوں میں جو شرع نے نہ بتائیں خوض نہیں کرتے۔ اور انہیں اس حیثیت سے کہ مولی کی باتیں ہیں مانتے ہیں۔ اگرچہ عقل ان کی حقیقت نہ دریافت کرے۔ شیطان نے حکم الٰہی میں دخل دیا۔ کہ آدمی خاک اور میں آگ سے پیدا ہوا۔ مجھے اس کے سامنے جھکنا زیب نہیں دیتا۔ اس حال کو پہونچا۔ 


احکام غیر معقول المعنی کی ایک حکمت


علماء فرماتے ہیں:۔


     احکام غیر معقول المعنی میں کچھ حکمت نہ ہو،یہی کافی ہے۔ کہ کون بندہ خالص ہمارا حکم اس نظر سے کہ ہمارا حکم ہے مانتا ہے۔ اور کون سرکش متمرد شیطان کی طرح چون و چرا کرتا ہے۔ جس نے عقل کو مدار شرع ٹھرایا۔ کہ جس بات کو عقل اس کی نہ پہونچے شک اور تردد کو جگہ دے وہ بندہ عقل اور شیطان کا ساتھی ہے۔


      توحید و رسالت کے دلائل دیکھے اور خدا و رسول پر کامل حاصل کرے۔ اس وقت کوئی شک و تردد نہ رہے گا۔ اور جو کچھ پیغمبر نے مالک حقیقی کی طرف سے پہونچایا بے تردد و تشویش قبول کرے گا۔ 


   جس عامی کا ایمان ناقص اور خدا و رسول پر یقین کامل نہیں۔ شیطان اسے سادہ لوح اور احمق پاکر مسئلہ جبر و قدر و آیات متشابہات، و حقیقت روح و عدد مؤکلان دوزخ و مشاجرات صحابہ و مسح سرورمی جمار کے بھید اور اسی قسم کے احکام و اسرار کے حوض میں مبتلا کرتا ہے۔ تاکہ الحاد و زندقہ و جبر و قدر و خروج و رفض و تشبیہ و تعطیل کی کھائی میں ھلاک کرے۔ وہ نادان اس کے دام فریب میں آکر ان باتوں میں فکر بیہودہ کرتا ہے۔ 


      قہر تو یہ ہے۔ جب کوئی صنعت انسانی سمجھ میں نہیں آتی، کہتا ہے: صانع کے کمال میں شک نہیں۔ گو میں بدوں اس کے کہ مدت تک اس کی شاگردی کروں۔ اور شروع سے حسب قاعدہ سیکھوں حقیقت اس صنعت کی کما ینبغی نہیں دریافت کر سکتا۔ اور  اسرار شرعیہ کی نسبت اسقدر اعتقاد بھی گوارا نہیں۔ 


      جو اسرار شریعت و حقائق طریقت، علما و مشائخ نے ہزار ریاضت تخلیہ کے بعد حاصل کئے۔ بایں عقل و دانش بلا محنت و مشقت سمجھا چاہتا ہے۔ اور ان کے ساتھ ایسے امور میں بھی کہ اولیائے رحمت و مجتہدین ملت کو دم مارنے کی مجال نہیں۔ دست اندازی کرتا ہے۔ 


      اگر شوق ادراک ہے، علوم دین کی تحصیل میں کوشش اور مجاہدہ و ریاضت میں سعی کر اس سے بہت بھید منکشف ہو جاویں گے۔ اور جو قابل انکشاف نہیں ان کی نسبت یہ اعتقاد جم جاوے گا کہ یہ اسرار میری سمجھ سے ورا ہیں۔ یہ کیا ضرور ہے کہ خدا کے سب بھید اور اس کے سب احکام کے اسرار مجھے معلوم ہو جاویں۔ بلکہ نہ معلوم ہونا ضروری ہے۔ ورنہ علم الہی سے ایک طرح کی مساوات لازم آوے۔ 


انسان اللہ تعالٰی کے سب افعال و احکام کی۔۔۔۔۔


 حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر افعال خضر اور اقوال چوپان کی حقیقت کو نہ پہونچے۔ ہر کس و ناکس خدا کے سب افعال و احکام کے بھید کب سمجھ سکے جو میوہ حضرت مریم کو عطا ہوا، زکریا علیہ السلام کو زبان تک مزا اس کا نہ پہونچا۔ اور جو سر ابو البشر علیہ السلام پر ظاہر ہوا، ملائکہ کرام باوجود تجرد تام اس سے آگاہ نہ ہوئے۔ آخر بہزار عجز قصور فہم کا اعتراف کیا۔ 


سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ

ترجمہ: پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تونے ہمیں سکھایا ہے تو ہی علم و حکمت والا ہے۔ 


اللہ تعالٰی کی چند مخلوقات کے عجائب


اے عزیز! اس کی ادنٰی مخلوق میں اس قدر عجائب و غرائب اور حکمتیں اور اسرار مودع ہیں کہ نفوس قدسیہ اور عقول کاملہ۔ کہ ظلمات مادیہ اور کدورات جسمانیہ سے منزہ ہیں، ادراک سے قاصر، اور دانایان عالم اور عقلائے جہاں ان کے دریافت سے عاجز۔ 

 

 زہے صنع نہاں و آشکارا

کہ کس راجز خموشی نیست یارا


      چیونٹی جسے تو اضعف مخلوقات اور احقر موجودات جانتا ہے بزبان حال کہتی ہے۔ 

 

      اے غافل نقاش ازل کی حکمت و صنعت مجھ میں دیکھ۔ کہ مجھ جیسی نا چیز باوجود صغر جثہ ہاتھ پاؤں عنایت کئے۔ اور اس چھوٹے سر میں بہت غرفے بنائے کسی میں قوت ذائقہ اور کسی میں باصرہ رکھی۔ اور جو چیزیں تحصیل غذا اور عقل و ہضم  کے لئے درکار ہیں سب عنایت فرمائیں۔ وہ ناک مجھے دی کہ دور سے ہر چیز کی بو سونگ لیتی ہوں۔ اور وہ قدرت مجھے بخشی کہ جس جگہ تو کھانا رکھتا ہے پہونچ کر بفراغ خاطر نوش کرتی ہوں۔ تو زراعت کرتا ہے میں کھاتی ہوں۔ تو نفیس کھانے پکاتا ہے میں نوش کرتی ہوں۔ تو تمام عالم کو اپنے لئے مخلوق جانتا ہے اور میں کہتی ہوں خدا نے تجھ سی مخلوق بے نظیر کو میری خدمت کے لئے پیدا کیا۔

 

    اسی طرح ہر مخلوق اس کی صفت و ثنا کرتی ہے۔ اور کمال صنعت و حکمت کی گواہی دیتی ہے۔ مگر سننے والا اور سمجھنے والا کہاں؟

 

وہ خود فرماتا ہے:

وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ

 ترجمہ: اور کوئی چیز نہیں جو اسے سراہتی ہوئی اس کی پاکی نہ بولے ہاں تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ 


   ایک ہری لکڑی سے آگ نکلتی ہے۔ اور باوجود حرارت و یبوست طبعی کے اسے خشک نہیں کر سکتی۔ اور باہر نکلنے کے بعد جلا دیتی ہے۔ جزبِ مقناطیس و اسہال ثمانیہ کے سبب میں سب عقلا حیران۔ اور شمع و پروانہ، و گل و بلبل کے معاملے میں ایک عالم متحیر۔ عقل کیا چیز ہے کہ حکیم مطلق کی سب حکمتیں اور اس کے سب احکام کہ  بھید کما ینبغی دریافت کر سکے۔ 


عقل کی ذمّہ داری کیا ہے؟


عقل کا کام ان احکام میں یہ ہے۔ کہ کان لگا کر سنے کیا حکم آتا ہے۔ اور طریق تعمیل کیا ہے۔ نا یہ کہ کیوں حکم دیا۔ اور اس میں کیا فائدہ ہے؟


 جو خوان نعمت پاوے اور اس فکر میں پڑے۔ کہ یہ کھانا کس طرح اور کس جگہ اور کس برتن میں پکا۔ یہاں تک کہ لوگ کھا جاویں۔ اور وہ منہ دیکھتا رہ جاوے۔ اس سے زیادہ احمق کون ہے؟

 

زیں خرد بے گانہ می با ید شدن

دست در دیوا نگی باید زدن


آز مودم عقل دور اندیش را

بعد  زیں دیوانہ خوانم خویش را

 

    اظہر اشیاء اپنی ذات و صفات ہیں۔ اور علم انکا حضوری۔ مگر حقیقت و ماہیت ان کی عوام کو معلوم نہیں ہوتی۔ بلکہ اکابر علمائے میزان نے بھی تحدید اعیان عسیر سمجھی۔

 

عیال نہ شد کہ چرا آمد کجا بودم


دریغ و دردکہ غافل ذکار خويشتنم


     بھلا جس عقل پر اعتماد کرتا ہے اس کی حقیقت بتا کیا ہے؟ جب وہ اپنی حقیقت نہیں جانتی خدا کی باریک حکمتیں کب جانے گی۔ 


خواجہ ابو القاسم فرماتے ہیں۔

       جو اپنی عقل پر اعتماد کرتا ہے جہل مرکب میں مبتلا ہے۔ کہ کچھ نہیں جانتا آپ کو دانا سمجھتا ہے۔ خصوصاً امر دین میں اسے حاکم ٹھرانا۔ اور جس امر شرعی کو عقل اپنی ادراک نہ کرے نہ ماننا۔ حکم شاہی بدوں منظوری اس کے ادنٰی نوکر کے رد کرنا۔ عقل کیا چیز ہے کہ حکم خدا و رسول میں دخل دے۔ 


مصطفٰی اندر میاں آنگہ کسے گو ید باعقل

آفتاب اندر جہاں آنگہ کسے جو ید سہا


صوفیاء کرام  فرماتے ہیں:

      مراد عقل اوّل سے جس کی نسبت "اوّل ما خلق اللہ العقل" داردے حقیقت محمدی اور روح مبارک اس جناب کی ہے۔ کہ عالم قدس میں مربی ارواح تھے اور جوہر بدن سے متعلق ہوکر ہدایت و ارشاد عالم میں مشغول ہوئے۔ پس عقول انسانیہ اس عالم اور اس عالم میں اسی فیض حاصل کرتی ہیں۔ جیسے زرے آفتاب سے کہ جب وہ نکلتا ہے یہ چمکتے ہیں۔ اور ظاہر کہ عکس اصل سے معارض نہیں ہوتا۔ اسی لئے ہزاروں عقلا نور نبوّت کے معارضہ سے عاجز آئے۔


وہب ابن منبہ کہتے ہیں:

میں نے اکہتر کتابوں میں لکھا دیکھا۔ کہ عقل سارے جہان کی  عقل محمدی سے وہ نسبت رکھتی ہے جیسے ایک دانہ ریت کا ریگستان دنیا سے۔


(ھدایۃ البریۃ الی الشریعۃالاحمدیہ)

Mahnama Hashmat Ziya Urdu 102

 آنکھ مچولی

از- علامہ مفتی محمد طیب صاحب قبلہ حشمتی


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ و نصلی ونسلم علی رسولہ الکریم

امّا بعد قارئین کرام! عرض ہے کہ آج سے تقریباً پانچ ماہ قبل فقیر نے رسالہ "تعاقب سواد بر اقصاد" رقم کیا تھا جس کے معرض وجود میں آنے کے اسباب و علل اور پس منظر اسی رسالے کے شروع پر یوں بیان کر دیا تھا:

آج دیڑھ سال سے زائد عرصہ ہونے کو آیا کہ فقیر نے مولانا کوثر حسن صاحب بانی نوری دار الافتاء کے نام ان کی سات ورقی ایک تحریر پر کچھ ایرادات قائم کئے تھے۔ ایرادات کے منظر عام پر آنے کے بعد مہینوں سکوت رہا ایک عرصہ بعد شدہ شدہ خبر موصول ہوئی کہ مہر سکوت ٹوٹی ہے ابتداً خوشی ہوئی کہ کچھ عمدہ کلام کیا ہوگا مگر یہ کیا؟ صرف ایک ورق؟ اس پر عجب یہ کہ محرر کے طور پر ایک غیر معروف کوئی مولوی شہزاد کا نام درج تھا، کوئی نتیجہ خیز گفتگو تھی نہ ہمارے مخاطب کا نام۔ 

جواباً کہا گیا کہ: "اسلوب گفتگو سے بے خبر بغیر تخاطب کے مخاطب بن بیٹھے جناب! مولوی کوثر صاحب بقید حیات ہیں آزادی سے قبل ان کو اپنے الفاظ کی صحیح تاویل یا رجوع و توبہ کر لینے دیں۔ اگر آپ کو بحث و  مباحثہ کا اتنا ہی شوق ہے تو اسے بھی ہم غلامان اعلیٰ حضرت بطفیل شیر بیشہ اہلِ سنت رضی اللّٰہ تعالٰی عنہما پورا کیئے دیتے ہیں۔ بس اتنا کرم کریں کہ مولوی کوثر صاحب کی تحریر وکالت مطلقہ لے آئیں اور اگر وہ بھی نہ لا سکیں تب بھی ہم آپ کو چھوڑ نے والے نہیں۔ ان کا عجز نامہ ہی پیش کردیں پھر ہم آپ کی چند سطروں پر مشتمل "پرچی" کا تفصیلی جائزہ لیں گے"۔ 


ایک عرصہ تک سنّاٹے کا بسیرہ رہا، نہ تو مولوی شہزاد صاحب نظر آئے اور نہ ہی ان کا کوئی پتہ ملا، مہینوں بعد پھر ہلچل مسموع ہوئی کہ ایک کتاب بنام "اقتصاد" سوشل میڈیا پر عام ہوئی مگر یہ کیا؟ اس بار پھر ایک تیسرا نام کوئی مولوی اسرار صاحب بطور مؤلف رقم تھا۔ اور یہ ذات شریف تیسرے چہرے کے طور پر ہم سے مخاطب ہوئی۔ "

(تعاقب سواد بر اقتصاد)


اتنی وضاحت کہ بعد اب جبکہ رسالہ "کشف حجاب" کی فائل پیش نگاہ ہے نہ تو تحریر وکالت کا کچھ پتا ہے اور نہ اس پر کچھ چوں اور چرا ہے۔ علی سبیل التنزل جواب کی توقع تھی بھی تو مولوی اسرار صاحب سے۔ مولوی شہزاد صاحب درمیان میں کس حیثیت سے حائل ہوئے؟ سمجھ سے پرے ہے۔ یعنی مولوی اسرار صاحب ابھی اپنی حیثیت کا تعین نہ کر پائے تھے کہ مولوی شہزاد صاحب آگئے اسی کو ہمارے دیار میں کہتے ہیں یک نہ شد دو شد، کمال حیرت کہ فقیر کا رسالہ "تعاقب سواد" جس رسالہ کے مقابل منصۂ شہود پر آیا تھا وہ مولوی اسرار صاحب کی تالیف "اقتصاد" تھی اور اب تعاقب کا جواب مولوی شہزاد صاحب مرحمت فرمارہے ہیں اس جواب کی حالت تو آئندہ صفحات پر بخوبی معلوم ہوگی مگر دیانت داری تو دیکھیں کہ مولوی کوثر حسن صاحب بلرامپوری سے ایرادات قائم ہوتے ہیں تو مولوی شہزاد صاحب ایک صفحہ لیکر تشریف لاتے ہیں ان سے باز پرس ہوتی ہے تو مولوی اسرار صاحب "اقتصاد" لیکر حاضر ہوتے ہیں ان كا تعاقب ہوتا ہے تو پھر واپس وہی مولوی شہزاد صاحب نمودار ہوتے ہیں۔ آنکھ مچولی کے اس کھیل میں دیکھیں آگے اور کتنے افراد داخلہ فرماتے ہیں؟ تاہم اس پردۂ زنگاری میں موجود معشوق کی نازبرادریوں کا سامان باہم فراہم کیا جاتا رہے گا۔انشاء اللہ تبارک وتعالیٰ۔ 


تعاقب میں فقیر نے لکھا تھا کہ: 

"اب اصلاً حاجت تو نہ تھی کے جواب کی طرف توجہ کیجئے، کیا ضرورت ہے کہ تنزلات کیجئے، ارخائے عنان سے مہلتیں دیجئے مگر مخالف کو شکایت و حسرت نہ رہے لہٰذا چال شکری کو کچھ اور بھی امتداد سہی۔"


اسی نظریہ کو پیش نگاہ رکھ کر کچھ ضروری باتیں سپرد قرطاس کرتا ہیں۔ 


اوّلا: اصل موضوع کے حساب سے مولوی شہزاد صاحب کی تصنیف "کشف حجاب" دیکھیں تو وہی باتیں پھر سے دہرائی ہیں جو مولوی کوثر حسن صاحب اپنے پہلے مضمون میں لکھ آئے تھے، پھر وہی عبارات مولوی اسرار صاحب نے بھی "اقتصاد" میں ذکر کیں اور اب مولوی شہزاد نے بھی انہیں کا اعادہ فرمایا۔ اور فقیر کے سوالات کو کس طرح نظر انداز بلکہ لقمہ تر سمجھ کر ہضم فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل اور "کشف" کا مزید کشف ابھی ہوا جاتا ہے۔ 

"تعاقب سواد بر اقتصاد" میں فقیر نے یہ سوالات کئے تھے:

۱)احتیاج،نفس احتیاج اور وصف احتیاج میں کیا کیا فرق ہے؟

۲)نابرابری اگر وصف احتیاج ذاتی میں ہے وصف سے مراد کیا ہے؟ خود احتیاج ذاتی جیسے بولتے ہیں وصف علم یا اس کا غیر۔ اگر آپ کہیں کہ لکھ تو دیا ہے، وصف احتیاج ذاتی یعنی وصف معیت اختیار وعدم اختیار عطائی، یعنی غیراحتیاج ذاتی ، تو اس جواب پر یہ کہنا ہے کہ کیااحتیاج کاوصف اختیار ہے، یا احتیاج اور اختیار دونوں کسی اور کے وصف ہیں؟


٣) آپ اپنی عبارت پر غور کر کے بتائیے کہ احتیاج ذاتی کا وصف اختیار عطائی ہے یا اختیار عطائی کی معیت یا اختیار عطائی کی معیت کا وصف؟


٤) ذات کسے کہتے ہیں اور ذات و ذاتی میں کیا فرق ہے اور ذات و شخص میں کیا فرق ہے۔ منطقی جب نفس الذات محتاج الى نفس الذاتی بولتا ہے تو ذات سے کیا مراد لیتا ہے اور ذاتی سے کیا؟


۵) احتياج واختیار دونوں محتاج ومختار کے وصف ہیں یا احتیاج کا وصف اختیار ہے؟


٦) وصف کا قیام واصف کے ساتھ ہوتا ہے یا وصف کا وصف کے ساتھ؟


٧) مرتبۂ لاشئ کسے کہتے ہیں؟


٨) لاشئ کلی ہے یا جزئی؟


٩) لاشئ کا وجود خارج میں ہے یا نہیں اگر ہے تو ثابت کیجئے اور اگر نہیں تو ہوسکتا ہے یانہیں، اگر ہوسکتا ہے تو دلیل کیا ہے، اگرنہیں ہوسکتا ہے تو کیوں؟


۱۰) بشرط شئ، بشرط لاشئ، لا بشرط شئ، یہ تینوں جو آپ نے اپنی عبارت میں استعمال کئے یہ تینوں قسم ہیں، یااعتبار۔ قسم ہیں تو کس کی اور اعتبار ہیں تو کس کی، نیز اعتبار اور قسم میں کیا فرق ہے؟


١١) لابشر ط شئ في نفسها موجود ہوتا ہے یا معدوم، کلی ہوتا ہے یا جزئی؟۔


(ماخوذ از تعاقب)


بتائیں شہزاد صاحب آپ نے ان سوالات کا کیا جواب دیا؟

"اثبات معنی" اور "اطلاق لفظ “ کی بحث میں فقیر نے یہ سوالات کئے تھے :

١٢) اعلیٰ حضرت قبلہ نے معنی کی کتنی قسمیں لکھی ہیں اور کون کون ، ان میں سے کس معنی کے اعتبار سے آپ نے اثبات کیا ہے؟


۱۳) آپ نے جس کا اثبات کیا ہے وہ اثبات معنی ہے یا اثبات مفہوم یا اثبات مدلول؟ 


١۴) معنی مفہوم اور مدلول میں کیا فرق ہے؟


۱۵ ) یہ تینوں متحد بالذات ہیں یا مختلف بالذات، یامتحد بالذات مختلف بالاعتبار؟


آپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ "کہیں دکھادو یک گونہ بے بس صراحتاً لکھا ہو، جواب استفتأ میں جو کچھ ہے اثبات معنی ہے"۔ عقل کے دشمن! یہ اثبات معنی کیسے؟


۱٦) مانا کہ اثبات معنی کے اور بھی طریق ہیں مگر یہ تمہاری تحریر ہے اس میں اثبات بغیر اطلاق لفظ کے کیسے کیا؟


١٧) بے بس کہنا کیا اطلاق لفظ نہیں، بے بس کہنا اطلاق لفظ ہے یا اثبات معنی؟


۱۸) اطلاق لفظ اور اثبات معنی میں کیا فرق ہے؟


١٩) کیا اطلاق لفظ کیلئے اثبات معنی ضروری یا اثبات معنی کیلئے اطلاق لفظ؟


۲۰) اطلا ق کب اور کہاں بولا جاتا ہے اور اس کی حد کتنی ہے؟


۲۱) ساری دنیا کا خالق اللہ ہے اگر کوئی اثبات معنی کرتے ہوئے کہے کہ اللہ خنزیر کا خالق ہے تو صحیح ہے یا غلط؟


۲٢) کوئی بطور "اثبات معنی" کے پیغام رساں کا معنی لیکر سرکارصلی الله تعالی علیہ وسلم کو ایلچی کہے تو صحیح ہے یا غلط؟ دیکھئے امام اہلسنت اعلیحضرت فتاویٰ رضویہ جلد نمبر ٦ صفحہ ١۵۵ پر لکھتے ہیں کہ:

"حضور اقدس صلی الله تعالی علیہ وسلم الله عزوجل کے رسول اعظم ونائب اکبر وخلیفۂ اعظم ہیں، ایلچی وہ ہوتا ہے جس کو پیام یا خط پہنچانے کے سوا کوئی سرداری اور حکومت نہیں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان اکبر

میں اس لفظ کا استعمال کرنا بیشک تنقیص و توہین ہے"۔ 


پیغام خدا سرکار بندوں تک تو پہنچاتے ہی تھے اور پیام رساں کامعنی لفظ میں تو تھا ہی حکومت و سرداری نہ تھی، اسلئے اس لفظ کا استعمال سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کیلئے تو ہین ٹھہرا۔ اب انصاف ور حضرات بتائیں! کیا لفظ بے بس کے معنی میں حکومت و سرداری ہے؟ بلکہ یوں کہہ لو کہ حکومت و سرداری اور بے بسی میں تضاد ہے تو بے بس کہنا کیوں توہین نہ ٹھہرےگا؟


۲۳) جب تک ارادۂ الہيه مساعدت نہ کرے، کیا اس کا یہی معنی ہے کہ مصطفی صلی الله تعالی علیہ وسلم بے بس ہیں؟


۲۴) اثبات معنی کے اطلاق لفظ کیلئے یہی لفظ ملا تھا ؟ امام اہلسنت اعلیحضرت قبلہ لفظ "دلال" کے متعلق سوال کرنے پر فرماتے ہیں کہ "اس سے بہتر لفظ خیال کیوں کر آتا جب دل میں عظمت ہی نہیں“۔ (فتاویٰ رضویہ شریف ج ۲ ص ۱۴۷)

ہوش کی دوا کریں ورنہ کہیں کے نہیں رہ جائیں گے، اعلیحضرت قبلہ نے فرمایا کہ اس ذلیل لفظ سے تعبیر کرنا صریح توہین ہے اب آپ لفظ بے بس کے بارے میں سوچیے کہ وہ ذلیل ہے یا عزیز؟


۲۵) آپ کو کیسے معلوم کہ سائل کے ذہن میں غیر کا تصورظلیت کے سوا ہوگا؟

(ماخوذ از تعاقب)


فرمائیں جناب! آپ نے ان میں سے اور ان کے علاوہ کتنے سوالات کے جوابات عنایت فرمائے ؟ کیا سوالات سے فرار ہی کو آپ کی انوکھی نرالی لغت میں کشف کہتے ہیں؟ اگر ہاں پھر تو واقعی نہایت عمده کشف فرمایا۔

بعض احباب کے ذریعے مسموع ہوا کہ مولوی کوثر صاحب بہریاوی کے معدودے چند کرم فرما فقیر کو نہ صرف سب وشتم بلکہ دھمکیوں سے بھی نواز رہے ہیں۔ سن کرہنسی بھی آئی اور حیرت بھی ہوئی کہ وہ گروہ جسے علم کا اس قدر دعویٰ تھا اس کا بازار کس قدر جلد سونا پڑ گیا ۔

جناب ! ابھی تو آپ سے بہت کچھ ملاقاتیں ہونی ہیں ۔ مزید خامہ تلاشی کرنی ہے۔ ابھی سے اتنی

گھبراہٹ کیوں؟


راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

اورکھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں


(صمام حیدری)

Hashmat Ziya Urdu 101

 فیض آباد یوپی کا تاریخی مقدمہ


از- خلیفۂ مظہر اعلی حضرت علامہ بدرالدین احمد رضوی علیہ الرحمہ


حسام الحرمین کا مقدس فتوی ابھی تک صرف علمائے اسلام سے اپنی حق گوئی اور  باطل سوزی کی سند حاصل کر سکا تھا لیکن غیب سے ایسا سامان پیدا ہوا کہ کچہری اور کورٹ کے مجسٹریٹ نیز جج صاحبان سے بھی اس نے اپنی حقانیت و صداقت کا لوہا منوا لیا اس کا واقعہ یوں ہے کہ حضرت شیر بیشۂ سنت علامہ حشمت علی خان لکھنوی علیہ الرحمہ والرضوان نے ضلع فیض آباد کے علاقہ قصبہ بھدرسہ اوراس کے قرب و جوار میں ٢٢/مئ ١٩٤٦ء تا ٦/ جون ١٩٤٦ مسلسل تقریں فرمائیں جن میں آپ مذہب اہل سنت کی تبلیغ اور سنی مسلمانوں نیز دیگر حاضرین کی نصیحت و ہدایت کے لئے حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ کے مضامین پڑھ کر سناتے رہے۔ وہابیوں کے عقائد کفریہ سے آگاہ کرنے کے لۓ تحذیر الناس، براہین قاطعہ، حفظ الایمان اور مختصر سیرت نبویہ کی عبارات کفریہ کتاب کھول کھول کر لوگوں کو دکھلاتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کے بہت سے وہابی دیوبندی جو بیچارے اپنے پیشواؤں کے عقائد کفریہ سے 

آگاہ نہ تھے توبہ کر کے سنی مسلمان ہو گئے جب گھاگ وہابیوں نے دیکھا کہ علامہ لکھنوی کے ہاتھوں وہابیت کی مٹی پلید ہوتی جا رہی ہے تو انہوں نے اپنے علماء سے سازش کرکے علامہ لکھنوی کے خلاف مہابر پرشاد اگروال مجسٹریٹ درجہ اول شہر فیض آباد کے اجلاس میں استغاثہ دائر کر دیا جس میں یہ الزام قائم کیا کہ ملزم (مولانا حشمت علی علیہ الرحمہ) نے بتاریخ ٨/جون ١٩٤٦ء بوقت ٩ بجے شب لغایت ١٢ بجے شب ایک تقریر کی جس کے دوران میں ملزم نے مدعیان کے مذہبی عقائد مجروح کرنے نیز فرقہ وارانہ فساد برپا کرنےکی غرض سے مجمع عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مولوی اشرف علی تھانوی ، مولوی قاسم نانوتوی ، مولوی خلیل احمد انبیٹھی،مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی عبدالشکور کاکوروی لکھنوی کافر و مرتد بیدین ہیں ملزم کی تقریر مذکور سے مدعیان اور ان کے علمائے دین کی سخت توہین اور دل آزاری ہوئی۔

(دیوبندیوں کی رپورٹ)


    عالی جاہا!  ملزم  نہایت ہی مفسد آدمی ہے اور جرم دفعات ٢٩٨،٥٠٠،١٥٣ الف کا مرتکب ہے، لہذا تدارک ملزم حسب دفعات بالا فرمایا جائے۔


عرضی: فدویان عبد المحید خان و سراج الحق خان و حبیب اللہ مدعیان ساکنان قصبہ بھدرسہ ضلع فیض آباد مورخہ ١٢/ جون ١٩٤٦ ء _____ 


     کاروائی استغاثہ کے مطابق حضرت شیر بیشہ سنت علامہ لکھنوی جب کورٹ میں پہنچے تو مجسٹریٹ  نے استغاثہ کے متعلق جواب طلب کیا آپ نے اجلاس میں تحذیر الناس ، براہین قاطعہ، حفظ الایمان، فوٹو فتوی مہری دستخطی گنگوہی اور مختصر سیرت نبویہ مصنفہ عبدالشکور کارکوروی پیش کیااور ان کی عبارت کفریہ سے مجسٹریٹ کو آگاہ فرمایا اور اس کے ساتھ ہی آپ نے اپنے مجسٹریٹ پر یہ بھی واضح کر دیا کہ دنیاے سنیت کے عظیم و جلیل پیشوا شیخ الاسلام اعلیحضرت امام احمد رضا رضی اللہ تعالی عنہ نے مولوی تھانوی، مولوی نانوتوی، مولوی گنگوہی، مولوی انبیٹھی پر ان کے عقائد کفریہ یقینیہ کے سبب بحکم شریعت اسلامیہ کفر و ارتداد  کا فتویٰ دیا ہے۔ جو مقدس کتاب حسام الحرمین میں چھپ کر پورے ہندوستان میں شائع ہوچکا ہے اور اس فتویٰ کی تصدیق عرب شریف کے اکابر پیشوائے عظام اور ہندوستان کے  دو سو اڑسٹھ علماء اسلام اپنی مہر اور دستخط کے ساتھ کرچکے ہیں حسام الحرمین کے فتویٰ میں ایک حکم شرعی یہ بھی ہے کہ جو شخص مولویان مذکورین بالا  کے عقائد کفریہ پر مطلع ہو کر ان کو کافر نہ کہے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے توبحکم قانون شرع وہ بھی کافر ہے یہی وجہ ہے کہ مبلغ وہابیہ کی زاری میں ہندوستان کے چورانوے علماء اسلام نے شرعی فتوی دیا کہ مولوی عبدالشکور کاکوروی نے اپنی کتاب نصرت آسمانی صفحہ ١٥،٢٧،٤٧،٤١ میں مولوی تھانوی اور انبیٹھی کی کفری عبارتوں کی حمایت وطرفداری کی ہے۔ لہذا مولوی عبدالشکور کاکوروی ایڈیٹرالنجم بھی بحکم شریعت اسلامیہ کافرو مرتد بیدین ہیں۔


 پھر علامہ لکھنوی علیہ الرحمہ نے اپنے بیان کی تصدیق نیز مجسٹریٹ کے اطمینان کے لئے اجلاس میں حسام الحرمین اور الصوارم الہندیہ وغیرہ کتابیں پیش فرمائیں اور ان کے ساتھ اپنا ایک طویل تحریری بیان بھی پیش کیا جس میں آپ نے عبارات حفظ الایمان صفحہ ٨، براہین قاطعہ صفحہ ٥١ و فوٹو فتویٰ گنگوہی وغیرہ کی ہندی کی چندی کرکے ان کو اتنا عام فہم بنا دیا کہ انگریزی داں غیر مسلم مجسٹریٹ بھی پوری طرح سمجھ گیا کہ مولوی تھانوی، مولوی گنگوہی وغیرہ نے ضرور پیغمبر اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں کھلی گستاخی اور بے ادبی کی ہے اور یہ لوگ یقینی طور پر حسام الحرمین کے فتوی کے مطابق کافر و مرتد ہو چکے ہیں۔


     اس مقام پر وہابی حضرات ہرگز یہ خیال نہ فرمائیں گے کہ کسی نے مجسٹریٹ کے سامنے المہند کا مضمون نہیں سنایا اور نہ کسی نے اجلاس میں پیشوایان وہابیہ تھانوی وغیرہ کا مسلمان ہونا ثابت کیا اس لئے کہ اس تاریخی مقدمہ میں وہابیوں کے مشہور عالم چرب زبان مقرر مولوی ابوالوفاء صاحب شاہجہاں پوری وہابیت کے اکسپرٹ عالم کی حیثیت سے پیش کئے گئے،اور برسر اجلاس مجسٹریٹ کے سامنے حضرت شیر بیشہ سنت علامہ لکھنوی اور مولوی ابوالوفا کے درمیان ایک طویل و عریض مناظرہ ہوا جس  میں پیشوایان وہابیہ کو مسلمان ثابت کرنے کے لئے دیوبندی میگزین کے نئے اور پرانے جتنے بھی ہتھیار تھے وہابیت کے اس اکسپرٹ عالم نےوہ سب استعمال کر ڈالے لیکن احمد رضا کے شیر حشمت علی نے حرمین کی حسام براں سے کفر و ارتداد کے قلب و جگر کو کاٹ کر پھینک دیا اور  بارگاہ رسالت کے گستاخ باغیوں کے طرفدار مولوی کو لوہے کے چنے چبوادیے اور دلائل شرعیہ کے کاٹنے پر پیشوایان وہابیہ مولوی تھانوی، گنگوہی وغیرہ کا کافر و مرتد ہونا ایسا بے نقاب فرمایا کہ مولوی ابوالوفا جیسا گھاگ ہوشیار مشاق عالم بھی مجسٹریٹ کے سامنے دیوبندی کفریات پر پردہ ڈالنے میں ہر طرح ناکام رہا اور پیشوایان وہابیہ کا مسلمان ہونا ثابت نہ کرسکا اب ہم مجسٹریٹ کے فیصلہ کی طویل بحث کا وہ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں جو اس کے فیصلے کی روح ہے۔ 


مجسٹریٹ کا فیصلہ


"ملزم کہتا ہے کہ اس نے ٨جون ١٩٤٦ء کو کوئی تقریر  بھدرسے میں نہیں کی اور نہ اس نے کبھی بھی ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو مستغیثان نے حلفا بیان کئے ہیں نہ کبھی وہ اس طرح ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے وہ قطعی طور پر کہتا ہے کہ اس نے ٧ جون کے پہلے کچھ تقریریں کی تھیں جن میں اس نے مختلف کتابوں (یعنی حسام الحرمین، الصوارم الہندیہ،مبلغ وہابیہ کی زاری) سے کچھ عبارتیں پڑھیں تھیں ان کتابوں میں یہ مولویان (اشرف علی تھانوی، رشید احمد گنگوہی، قاسم نانوتوی، خلیل احمد انبیٹھی اور عبدالشکور کاکوروی) اسلامی فتویٰ سے بے دین کافر مرتد اور دیو کے بندے کہے گئے ہیں۔


       اب ہم دیکھیں گے کہ تقریر میں کیا کہا گیا  مستغیثان نے تحریر میں کچھ بھی نہیں دیا کہ ملزم نے کیا کہا۔ صرف مستغیثان اور دو گواہوں کا بیان ہے کہ ملزم نے اوپر کے لکھے ہوئے الفاظ یعنی مولوی اشرف علی تھانوی، مولوی قاسم نانوتوی، مولوی خلیل احمد انبیٹھی، مولوی عبدالشکور کارکوروی اور مولوی رشید احمد گنگوہی کافر مرتد اور بے دین ہیں استعمال کیے ہیں۔ ملزم یہ مانتا ہے کہ اس نے ان مولویوں کے حق میں اوپر کے لکھے ہوئے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مگر وہ عبارت دوسری تھی۔ گواہ نمبر(١ ) کہتا ہے کہ (ملزم کی) تقریر کو کسی نے بھی نوٹ نہیں کیا۔اور نہ خود اس (گواہ) نے نوٹ کیا ملزم نے جو الفاظ کہے ہیں وہ اس کو زبانی یاد ہیں اور کچھ مختصر مفہوم تقریر کا بھی یاد ہے۔ اس گواہ نمبر ( ١) کے بیان کے مطابق ملزم تقریر کے وقت کتابیں اپنے ہاتھ میں لیتا تھا۔ اس بیان سے ملزم کی بات کو تقویت ملتی ہے۔  ملزم اقرار کرتا ہے کہ اس نے ان مولویوں کے حق میں اوپر کے لکھے ہوئے الفاظ استعمال کئے ہیں لیکن عبارت دوسری ہے اور اس نے وہ الفاظ چند کتابوں کی تحریر کی مدد سے لئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ ملزم کا فعل بلکل درست تھا کہ وہ کتاب سے پڑھ رہا تھا اور ملزم یہ بات نیک نیتی سے پبلک کی آگاہی کے لئے کر رہا تھا تاکہ وہ مذہبی بات سمجھ لیں اس لیے ملزم کا فعل دفعہ ٥٠٠   تعزیرات ہند میں نہیں آتا ملزم کی تقریر سے پبلک کے اشتعال جھگڑے کے احتمال کے متعلق کچھ گواہوں نے یہ بیان کیا کہ ملزم کی تقریر سن کر بہت سے وہابی لوگ اس کی باتیں سمجھ کر ملزم کے ہم مذہب (سنی) ہو گئے اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ملزم کا وعظ بہت دلچسپ تھا۔


    اس مقدمہ میں  ایک اکسپرٹ مولانا ابوالوفا پیش کیا گیا ملزم نے مذہبی امور میں خود بڑی لمبی جرح اس پر کی مولانا ابوالوفا کی گواہی کو مقدمہ کی گواہی کہنے کی بجائے مذہبی مناظرہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔  


   میرا خیال ہے جیسا کہ میں نے اوپر بحث کی ہے کہ ٨/جون ١٩٤٦ کا واقعہ سراسر  گڑھی ہوئی بات ہے اور ایسا کوئی واقعہ نہ ہونے پایا ملزم کی وہ اگلی تقریریں تھیں جن سے (وہابی) مستغیثوں  کی دل آزاری ہوئی کیونکہ فریق ثانی (سنی مسلمانوں) کے عقائد پر قبضہ جما رہے تھے اس لئے مستغیثوں نے بغیر سیاق و سباق کا تعلق دیکھتے ہوئے تقریر کے چند الفاظ لے کر ملزم کے خلاف جھوٹا مقدمہ دائر کردیا۔ میرے خیال میں ملزم کو اس کی جماعت میں صرف بد نام کرنے کے لئے یہ مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ کیونکہ وہ مذہبی مبلغ ہے اور اچھی مقدار میں مریدین رکھتا ہے جیسا کہ دوران مقدمہ میں دیکھا گیا۔


    میں ملزم (مولانا) حشمت علی کو تعزیرات ہند کی دفعات ٥٠٠،١٥٣،٢٩٨ سے جن کا الزام اس پر لگایا گیا ہے اور اس پر مقدمہ چلایا گیا ہے بے قصور قرار  دیتا ہوں اور اس کو زیر دفعہ ٢٥٨ ضابطہ فوجداری آزاد کرتا ہوں___



     دستخط :- مہابیر  پرشاد اگروال مجسٹریٹ درجہ اول 


              فیض آباد

٢٥/ ستمبر ١٩٤٨ء



شیشن جج کا فیصلہ


     ٢١/ ذیقعدہ ١٣٦٧ ہجری مطابق ٢٥ ستمبر١٩٤٨ء کے اس تاریخی فیصلے نے دنیائے وہابیت میں تہلکہ مچا دیا دیوبندیوں کے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ان کے سارے فتنہ پرور منصوبے خاک میں مل گئے حق و باطل کے اس معرکہ  میں میدان حسام الحرمین کے ہاتھ رہا اور بارگاہ رسالت کے باغیوں کے گلے میں شکست و ذلت کا طوق

پڑا_____پھر وہابیوں نے سوچا کہ اس فیصلے نے تو غضب ہی ڈھا دیا کہ مجسٹریٹ نے شیر رضا کو جیل خانہ کے پنجرہ میں بند کر دینے کی بجائے اس کو باعزت طور پر آزاد کردیا اور حسام الحرمین کی حقانیت و صداقت کا لوہا بھی مان لیا اس لئے مجسٹریٹ کے اس فیصلے کو توڑوا دینا بہت ضروری ہے۔چنانچہ اپنی ناکامی کو کامیابی سے بدلنے کے لئے ایک بار پھر انہوں نے زور باندھا اور مجسٹریٹ کے فیصلہ کے خلاف ششن جج یعقوب علی کے اجلاس میں اپیل دائر کر دی ششن کورٹ کے فاضل جج نے اپیل پر بحث کرتے ہوئے فیصلہ لکھا جس کا اقتباس ہم ذیل میں نقل کرتے ہیں۔


"ملزم نے بیان کیا کہ ٧ جون ١٩٤٦ء کے قبل اس نے چند تقریریں بھدرسے میں کیں جن میں اس نے (حسام الحرمین، الصوارم الہندیہ وغیرہ ) کتابوں سے چند عبارتیں پیش کیں اور ان عبارتوں میں ( مولوی تھانوی، مولوی گنگوہی ، مولوی نانوتوی وغیرہ ) علماء جو کہ استغاثہ میں درج ہیں بذریعہ فتویٰ کافر مرتد بے دین و دیو کے بندے اور وہابی قرار دے گئے تھے۔


      ٧ جون ١٩٤٦ سے قبل تقریریں جو کہ ملزم نے بھدرسے میں کی تھیں ان کا مضمون کچہری میں خود ملزم نے پیش کیا جس پر (E x.D7)پڑا ہے۔

  

   فریقین کی طرف سے ثبوت پہنچنے کے بعد لائق مجسٹریٹ نے اولا یہ فیصلہ کیا کہ ملزم نے ٨/جون ١٩٤٦ کو کوئی تقریر نہیں کی جس کی مستغیثان شکایت کرتے ہیں اور یہ صرف ایک بنایا ہوا قصہ تھا دوسرا فیصلہ مجسٹریٹ نے یہ کیا کہ یہ الفاظ ملزم نے گزشتہ دوسری تقریروں میں استعمال کئے تھے جن سے ان کے جذبات کو صدمہ پہنچا تھا کیونکہ انہوں نے ان الفاظ کا سیاق و سباق سے تعلق دیکھے بغیر غلط مطلب نکال لیا اور یہ غلط مقدمہ ملزم کے خلاف دائر کیا۔اس پر لائق مجسٹریٹ نے مقدمہ خارج کردیا اور یہ اعتراض کیا کہ ملزم چونکہ مذہبی مبلغ ہے اور اس کے بہت کافی مرید اور معتقد ہیں اس لئے پبلک میں اس کی بےعزتی کرنے کو یہ مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ ملزم اس وجہ سے بری کر دیا گیا تھا۔


    اور اسی بریت کے خلاف مستغیثان  نے نگرانی کی درخواست دی ہے اور وہ اس حکم کے خلاف ہیں۔ فریقین کے لائق وکلاء کی طویل بحثوں اور فریقین کے پیش کردہ زبانی اور تحریری ثبوت کو بہت غور سے پڑھنے اور سننے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ درخواست نگرانی کچھ دم نہیں رکھتی ۔


    لائق مجسٹریٹ کی تجویز سے مجھ کو پتہ چلتا ہے کہ لائق مجسٹریٹ نے ثبوت زبانی و تحریری کو بغور دھیان دیا اور ملاحظہ کیا اور یہ صحیح فیصلہ کیا کہ ملزم نیک نیتی کے ساتھ کتابوں کی عبارتیں پڑھنے میں صحیح راستے پر تھا۔ 


        لائق مجسٹریٹ کا فیصلہ جس میں اس نے ملزم کو بری کردیا فریقین کے پیش کردہ ثبوتوں کی بنا پر بالکل صحیح اور درست ہے۔ مستغیثان میرے سامنے لائق مجسٹریٹ کے فیصلے میں کوئی قانونی غلطی یا اور کوئی غلطی نہ بتا سکے۔در حقیقت اس اپیل میں کوئی جان نہیں میں اس کو خارج کرتا ہوں۔


             دستخط: یعقوب علی ششن جج فیض آباد

٢٨اپریل ١٩٤٩ء


         واضح ہو کہ وہابیوں کا دائر کردہ مقدمہ دو برس تین ماہ تیرہ دن جاری رہ کر ٢٥ ستمبر ١٩٤٨ کو ختم ہوا پھر ان کی اپیل کا فیصلہ ٢٨ اپریل ١٩٤٩ء کو ہوا۔فرحت افزا فتح مبین نے وہابیوں کے استغاثے کا پورا مضمون مستغیثان و بعض گواہوں کا بیان ظہری پھر برسر اجلاس حضرت مولانا حشمت علی خان علیہ الرحمہ کا زبانی مختصر بیان اور تحریری طویل بیان پھر مجسٹریٹ اور جج کا انگریزی میں فیصلہ اور اس کا اردو ترجمہ چھپ کر ہندوستان بھر میں شائع ہو چکا ہے۔ جو صاحب اس تاریخی مقدمہ کی کاروائی اور  حضرت شیر بیشۂ سنت علیہ الرحمہ کا کامل تحریری بیان اور مجسٹریٹ  و جج کا  مکمل فیصلہ دیکھنا چاہیں  وہ فرحت افزا فتح مبین کا مطالعہ فرمائیں ہم نے مجسٹریٹ کا فیصلہ اسی کتاب فرحت افزا کے صفحہ ٣٣ تا ٣٧ سے اور جج کا فیصلہ صفحہ ٥١ تا ٥٤ سے نقل کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

       اہل بصیرت کے نزدیک وہابیوں کا یہ استغاثہ حقیقت میں حسام الحرمین کے خلاف ایک خطرناک منصوبہ تھا انہوں نے پوری کوشش کے ساتھ حسام الحرمین پر ایسی ضرب کاری لگانا چاہی تھی جس سے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کچل کر رہ جائے۔اور قانون حکومت کا آہنی پنجہ دنیاۓ سنیت کے شیر حشمت علی  کو اپنی گرفت میں لے لے ۔تاکہ دین کے ڈاکو دن دہاڑے مسلمانوں کا ایمان و اسلام بے خوف و خطر ہو کر لوٹتے پھریں  لیکن دین اسلام کے محافظ حقیقی اللہ تعالیٰ نے نہ صرف وہابیوں کے خطرناک منصوبے کو ناکام بنایا بلکہ ایسا کھلا ہوا کرم فرمایا کہ دنیاۓ  سنیت کا شیر قانون کے چنگل میں پھنسنے سے بال بال بچا اور حسام الحرمین کے اعلان حق سے کورٹ اور کچہری کے درودیوار گونج اٹھے____ اور اردلی، نقل نویس، پیشکار، وکیل، مختار، بیرسٹر، مجسٹریٹ، جج اور دیگر عوام و خواص حاضرین اجلاس بھی اچھی طرح  واقف ہوگئے کہ پیشوایان وہابیہ مولوی تھانوی، مولوی گنگوہی وغیرہ اسلامی فتوی سے کافر و مرتد بے دین قرار پا چکے ہیں اعلیحضرت کا فتواے مقدس حسام الحرمین دنیائے سنیت کی گردنوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے احسان عظیم ہے۔ اسی مقدس فتوی نے وہابیوں کے باطل استغاثے کی جڑ کاٹ کر پھینک دی۔ 


(سوانح اعلی حضرت، صفحہ ٢٣٥)

Saturday, June 11, 2022

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (100)

 برکاتی پیغام اہلسنت کے نام


از-حضرت سید العلماء سند الحکماء حضرت علامہ مفتی سید شاہ آل مصطفیٰ صاحب قبلہ قادری برکاتی قاسمی قدس سرہ العزیز


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم

اللہ اکبر ایک زمانہ وہ تھا کہ مسلمان کہلانے والا کوئی فرد ایسا نہ تھا جو کم از کم حرارتِ ایمانی میں اتنا ہو کہ اپنے ایمانیات و مسلماتِ دینی میں کسی غیر کے دخل کو قبول کر سکے۔ خواہ شامتِ نفس اور اغوائے شیطان سے بعض اعمال میں اس کا رویہ غیر مشروع ہو مگر عقائد میں بفضلہ تعالٰی کسی قسم کی خامی کسی قیمت پر بھی گوارا نہ تھی۔ مسلمان اپنے اسلاف کرام کے مبارک ارشادات کو جو در حقیقت خلاصۂ قرآن و احادیث ہوتے تھے۔ دانتوں سے پکڑ کر رکھتا تھا۔ اور باتباعِ سنت کریمۂ سید الشہداء امام حسین علی جدہ الکریم و علیہِ الصلاۃ والسلام اپنے جان و مال بلکہ عزت و آبرو کو بھی اپنے پیارے دین و مذہب کے مقابلہ میں عزیز نہ رکھتا تھا اس کی دوستی اور دشمنی کی کسوٹی اللّٰہ و رسول (جل وعلا و صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور دوستی تھی۔ خدا اور رسول کا دوست اس کا دوست اور ان کا دشمن اس کا دشمن تھا۔ مگر آہ صد آہ کہ آج شیطانی نحوستوں اور ابلیس نکبتوں نے نوبت اس حد تک پہنچا دی ہے کہ کھلے ہوئے دشمنانِ دین و اعدائے بددین مؤ ھِّنَانِ رسول (رسول کی توہین کرنے والے) (صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم) ہمارے دوست نہ صرف دوست بلکہ دلی رازدار بلکہ قائد اعظم بنے ہوئے ہیں۔ آج معاذ اللہ دامنِ مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ چکا ہے۔ رشتۂ غلامئ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ٹوٹ چکا ہے۔ آج ہم نے حکومتِ شہنشاہِ کونین علیہِ وآلہ صلوات رب المشر قین و المغربین اپنی جانوں پر سے اٹھا دی۔ ایمان کی کمائی راہِ شیطان میں گنوا دی۔ غلاموں نے آقا سے منہ موڑ لیا۔ مالک کے دشمنوں سے رشتۂ مؤدت و اخلاص جوڑ لیا۔ پھر بھی دعوئ غلامی ہے۔ ادّعائے محبت ہے۔ خدا کی قسم راہِ محبت اتنی آسان نہیں جو اس طرح بآسانی طے کی جا سکے۔ قدم قدم پر خطرے ہیں، گام گام پر آفتیں ہیں، راہ پر خار ہے۔ ایک بحرذخار ہے، آتشِ عشق کا دریا حائل ہے، ڈوب کر جانا ہے، محبوب کو پانا ہے، اپنا سب کچھ دینا ہے، رضائے محبوب لینا ہے، رہزنوں کی دنیا راہ میں آباد ہے، دشمنِ قدیم سخت مکار و کیاد ہے، سنبھل اے غلامِ مصطفٰی، سنبھل! قطاع الطریق سے دامن بچا کر نکل، ایسا نہ ہو کہ متاعِ ایمان لٹ جائے۔ تیرے مذہب کا گلا خود تیرے ہاتھوں گٹ جائے۔

 

ہاں ہاں او بندۂ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم آج ابلیس کے چیلے تیری تباہی کا بیڑا اٹھا چکے ہیں، کفر و طغیان کی مسموم آندھی چلا چکے ہیں۔ بچا بچا اپنی کشتی کو گردابِ ضلالت سے بچا، ہٹا ہٹا اپنے دین و ایمان کے راستے سے ان خبیث ڈاکوؤں کو ہٹا، مصطفٰی پیارے کے گلے کی سیدھی سادی بھیڑو، ہوشیار! بھیڑئیے بکریوں کے لباس میں تمہارے ساتھ آملے ہیں تاک میں ہیں کہ کب نظریں بچیں، کب تمہیں اُچک لے جائیں۔ دیکھو دیکھو، سنو سنو، سگانِ کوچۂ حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم چلا رہے ہیں، تم کو خوابِ غفلت سے جگا رہے ہیں۔ جو آج نہ اٹھا تو پھر کبھی نہ اٹھے گا۔ سدا موت کی نیند سوئے گا۔ سیّدنا عیسیٰ علیہِ الصلاۃ والسلام نے کنواریوں سے فرمایا۔ دولہا آنے والا ہے۔ اپنے چراغ تیل سے بھر لو۔ جس جس نے بھرے دولہا کے ساتھ تھیں۔ جس کے پاس روشنی نہ تھی دولہا نے اسے قبول نہ کیا۔ تاریکی میں گم ہو گئیں۔ محنتِ انتظار برباد گئی۔ آج بھی جن کے چراغوں میں روغن محبتِ مصطفٰی عروس مملکۃ اللہ نوشۂ بزم جنت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نہیں ہے۔ ان کو قبول نہ فرمائیں گے۔ بزمِ قرب میں نہ بلائیں گے، خسرانِ دیں و دنیا نصیب ہوگا۔ ان سے ناراض خدا و خدا کا حبیب ہوگا۔ جل جلالہ و صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔ دیکھو قرآن کیا فرماتا ہے تم کو بآواز بلند کیا سناتا ہے۔ 

 قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٰنُكُمْ وَأَزْوَٰجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٰلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍۢ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَٰسِقِينَ۔

تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں یہ چیزیں اللّٰہ اور اس کے رسول سے اور ان کی راہ میں کوشش کرنے سے تمہیں زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ 

(سورہ توبہ پ ۱۰) 


تم نے کیا سنا، تم نے کیا سمجھا؟


سنو! اگر کوئی کافر مشرک دیوبندی، وہابی، نجدی، رافضی، تفضیلی، خارجی، نام کا اہل حدیث غیر مقلد، بنا ہوا اہل قرآن چکڑالوی، قادیانی، مرزائی، لاہوری مرزائی، بابی بہائی، مہدی جونپوری کا چیلا نام نہاد مہدوی، پیر نیچر علی گڑھی کا پیرو نیچری، مرتد اعظم مشرقی کا متبع خاکساری، قید مذہب و ایمان سے آزاد احراری، بدسیرت کمیٹی کا دلداده صلحكلی، مشرکِ اکبر کا بھگت، رافضی خوجے کا مرید مظلم لیگی، حسن نظامی کا چیلا، آغا خانی، غرض کوئی بد مذہب بد دین دشمنِ خدا اور رسول خواہ وہ (معاذ اللہ) تمہارا باپ ہو یا بیٹا بھائی ہو یا شوہر، بیوی ہو یا ماں، استاد ہو یا مرشد المرشد ہو یہ استاذ الاستاذ، دوست ہو یا محب، خیر خواہ ہو یا محسن، ہمدرد ہو یا ہمدم غرض کوئی ہو کسے باشد اگر وہ تمہارے دین و ایمان کے معاملے میں حائل ہو، تجھے تیرے حبیب تیرے محبوب محبوب پروردگار علیہِ و علیٰ آلہِ الصلوات اللّٰہ النافع الضارت الباد و الحار کی غلامی سے ہٹانے پر مائل ہو، تجھے طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے جان و مال و عزت و آبرو کے ڈراؤں سے دھمکائے،نام اسلام لیکر ڈرائے، گو خود ہادم اسلام ہو، صرف مسلمانوں کا سا نام ہو تو ایسے کے مقابلے میں تیرا طریق صرف یہ ہونا چاہئے کہ تو ہر ایسے کو ٹھکرا دے، اس کو سنگِ مذلت سے ٹکرادے، اس کی چاپلوسیاں تجھ پر اثر نہ کریں، اس کی خوشامدیں تیرے دل میں گھر نہ کریں، تو اُن سے دور ہو کر ان کو اپنے سے دور کر دے، اُن کو اپنے سے نفور کر دے، اپنی آنکھیں ان کی طرف سے اندھی اور اپنے کان ان کی طرف سے بہرے کرلے۔ 


ورنہ یاد رکھ یہ دنیائے فانی آنی جانی ہے۔ نہ کوئی رہا ہے نہ کوئی رہے گا۔ موت سر پر کھڑی ہے۔ وہ امتحان کی بڑی کڑی گھڑی ہے۔ وہاں کوئی کام نہ آئےگا، تیرے ساتھ کوئی نہ جائے گا۔ تو ہوگا اور تیرا ایمان، تیرے اعمال۔ 

پہلی منزل میں تیرا ٹکٹ پوچھا جائے گا۔ تیرا سامان جانچا جائے گا۔ ذرّہ بھر فرق ہوا کہ بحق سرکار فرق ہوا۔ اس وقت کون بچائے گا، کون ضمانت کرےگا، کون وکالت کرے گا؟ ہاں ہاں سن لے! اس دن ذاتِ واحد مالک شفاعت ہے۔ وہی ضامن حقیقی ہے۔ وہی گنہ گاروں کا وکیل و کفیل ہے۔ اور وہ نہیں ہیں مگر سیّدنا محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وکرم۔ ایسا نہ ہو کہ معاذاللہ تیری ضمانت سے انکار فرما دیں۔ تیری شفاعت سے اِبا کردیں۔ تو بتا خدا کے لئے بتا کہ پھر ان آج کل تیرے طواغیت میں سے کون آگے آئےگا، کون تجھے بخشوائے گا؟ وہ خود جہنم میں پڑے ہوں گے۔ دوزخ کے شب وروزان پر کڑے ہوں گے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


دعا کر کہ خدا ہم سب کو توفیق خیر دے۔ ہمارے قدم راہِ محبت سیدنا محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں ڈگمگانے نہ پائیں۔ ہمارے قلوب کو اپنی اور اپنے محبوب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت و تعظیم سے اوراپنے حبیب علیہِ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام کے دوستوں کی اُلفت و تکریم سے بھر دے۔ اور دشمنانِ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے نفرت و عداوت ہمارے دلوں میں  مرکوز کر دے۔ آمین آمین بجاہ حبیبہ ونبیہ الامین المکین علیہ وعلی وآلہ الصلاۃ وا التسلیم الی یوم الدین۔ یہ مبارک فتویٰ اصل تقویٰ بحمدہ تعالٰی اہل فتنہ کی جان پر ضربِ کاری ہے۔ جس سے ان دشمنانِ حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر غضب رب طاری ہے۔ اس فتویٰ نے ان پر اللہ کی طرف کی مصیبتیں توڑ دیں، ان کے مکر و فتن کی رگہائے گلو کاٹ کر چھوڑ دیں، سنّیوں کا دل اس سے باغ باغ ہے۔ بے دینان زمانہ کا قلبِ نا پاک داغ داغ ہے۔ مولیٰ عز وجل نافع و مفید بنائے گا۔ اس سعی کو مشکور و مقبول فرمائے گا۔ انشاء اللہ تعالٰی ثم شاء حبیبہ ونبیہہ محمد المصطفیٰ علیہِ التحیّۃ و الصلاۃ و الثناء وعلی آلہ وصحبہ الیٰ یوم الجزا۔ آمین۔ 


الفقیر الحقیر السید (الحکیم) آل مصطفٰی

المعروف بسید میان القادری البرکاتی القاسمی۔

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (99)

 برکاتی پیغام اہلسنت کے نام


از-حضرت سید العلماء سند الحکماء حضرت علامہ مفتی سید شاہ آل مصطفیٰ صاحب قبلہ قادری برکاتی قاسمی قدس سرہ العزیز


بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم

اللہ اکبر ایک زمانہ وہ تھا کہ مسلمان کہلانے والا کوئی فرد ایسا نہ تھا جو کم از کم حرارتِ ایمانی میں اتنا ہو کہ اپنے ایمانیات و مسلماتِ دینی میں کسی غیر کے دخل کو قبول کر سکے۔ خواہ شامتِ نفس اور اغوائے شیطان سے بعض اعمال میں اس کا رویہ غیر مشروع ہو مگر عقائد میں بفضلہ تعالٰی کسی قسم کی خامی کسی قیمت پر بھی گوارا نہ تھی۔ مسلمان اپنے اسلاف کرام کے مبارک ارشادات کو جو در حقیقت خلاصۂ قرآن و احادیث ہوتے تھے۔ دانتوں سے پکڑ کر رکھتا تھا۔ اور باتباعِ سنت کریمۂ سید الشہداء امام حسین علی جدہ الکریم و علیہِ الصلاۃ والسلام اپنے جان و مال بلکہ عزت و آبرو کو بھی اپنے پیارے دین و مذہب کے مقابلہ میں عزیز نہ رکھتا تھا اس کی دوستی اور دشمنی کی کسوٹی اللّٰہ و رسول (جل وعلا و صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی اور دوستی تھی۔ خدا اور رسول کا دوست اس کا دوست اور ان کا دشمن اس کا دشمن تھا۔ مگر آہ صد آہ کہ آج شیطانی نحوستوں اور ابلیس نکبتوں نے نوبت اس حد تک پہنچا دی ہے کہ کھلے ہوئے دشمنانِ دین و اعدائے بددین مؤ ھِّنَانِ رسول (رسول کی توہین کرنے والے) (صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم) ہمارے دوست نہ صرف دوست بلکہ دلی رازدار بلکہ قائد اعظم بنے ہوئے ہیں۔ آج معاذ اللہ دامنِ مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ چکا ہے۔ رشتۂ غلامئ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ٹوٹ چکا ہے۔ آج ہم نے حکومتِ شہنشاہِ کونین علیہِ وآلہ صلوات رب المشر قین و المغربین اپنی جانوں پر سے اٹھا دی۔ ایمان کی کمائی راہِ شیطان میں گنوا دی۔ غلاموں نے آقا سے منہ موڑ لیا۔ مالک کے دشمنوں سے رشتۂ مؤدت و اخلاص جوڑ لیا۔ پھر بھی دعوئ غلامی ہے۔ ادّعائے محبت ہے۔ خدا کی قسم راہِ محبت اتنی آسان نہیں جو اس طرح بآسانی طے کی جا سکے۔ قدم قدم پر خطرے ہیں، گام گام پر آفتیں ہیں، راہ پر خار ہے۔ ایک بحرذخار ہے، آتشِ عشق کا دریا حائل ہے، ڈوب کر جانا ہے، محبوب کو پانا ہے، اپنا سب کچھ دینا ہے، رضائے محبوب لینا ہے، رہزنوں کی دنیا راہ میں آباد ہے، دشمنِ قدیم سخت مکار و کیاد ہے، سنبھل اے غلامِ مصطفٰی، سنبھل! قطاع الطریق سے دامن بچا کر نکل، ایسا نہ ہو کہ متاعِ ایمان لٹ جائے۔ تیرے مذہب کا گلا خود تیرے ہاتھوں گٹ جائے۔

 

ہاں ہاں او بندۂ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم آج ابلیس کے چیلے تیری تباہی کا بیڑا اٹھا چکے ہیں، کفر و طغیان کی مسموم آندھی چلا چکے ہیں۔ بچا بچا اپنی کشتی کو گردابِ ضلالت سے بچا، ہٹا ہٹا اپنے دین و ایمان کے راستے سے ان خبیث ڈاکوؤں کو ہٹا، مصطفٰی پیارے کے گلے کی سیدھی سادی بھیڑو، ہوشیار! بھیڑئیے بکریوں کے لباس میں تمہارے ساتھ آملے ہیں تاک میں ہیں کہ کب نظریں بچیں، کب تمہیں اُچک لے جائیں۔ دیکھو دیکھو، سنو سنو، سگانِ کوچۂ حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم چلا رہے ہیں، تم کو خوابِ غفلت سے جگا رہے ہیں۔ جو آج نہ اٹھا تو پھر کبھی نہ اٹھے گا۔ سدا موت کی نیند سوئے گا۔ سیّدنا عیسیٰ علیہِ الصلاۃ والسلام نے کنواریوں سے فرمایا۔ دولہا آنے والا ہے۔ اپنے چراغ تیل سے بھر لو۔ جس جس نے بھرے دولہا کے ساتھ تھیں۔ جس کے پاس روشنی نہ تھی دولہا نے اسے قبول نہ کیا۔ تاریکی میں گم ہو گئیں۔ محنتِ انتظار برباد گئی۔ آج بھی جن کے چراغوں میں روغن محبتِ مصطفٰی عروس مملکۃ اللہ نوشۂ بزم جنت صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم نہیں ہے۔ ان کو قبول نہ فرمائیں گے۔ بزمِ قرب میں نہ بلائیں گے، خسرانِ دیں و دنیا نصیب ہوگا۔ ان سے ناراض خدا و خدا کا حبیب ہوگا۔ جل جلالہ و صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم۔ دیکھو قرآن کیا فرماتا ہے تم کو بآواز بلند کیا سناتا ہے۔ 

 قُلْ إِن كَانَ ءَابَآؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَٰنُكُمْ وَأَزْوَٰجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَٰلٌ ٱقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَٰرَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَجِهَادٍۢ فِى سَبِيلِهِۦ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّىٰ يَأْتِىَ ٱللَّهُ بِأَمْرِهِۦ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْفَٰسِقِينَ۔

تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے مکان جو تمہیں پسند ہیں یہ چیزیں اللّٰہ اور اس کے رسول سے اور ان کی راہ میں کوشش کرنے سے تمہیں زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ 

(سورہ توبہ پ ۱۰) 


تم نے کیا سنا، تم نے کیا سمجھا؟


سنو! اگر کوئی کافر مشرک دیوبندی، وہابی، نجدی، رافضی، تفضیلی، خارجی، نام کا اہل حدیث غیر مقلد، بنا ہوا اہل قرآن چکڑالوی، قادیانی، مرزائی، لاہوری مرزائی، بابی بہائی، مہدی جونپوری کا چیلا نام نہاد مہدوی، پیر نیچر علی گڑھی کا پیرو نیچری، مرتد اعظم مشرقی کا متبع خاکساری، قید مذہب و ایمان سے آزاد احراری، بدسیرت کمیٹی کا دلداده صلحكلی، مشرکِ اکبر کا بھگت، رافضی خوجے کا مرید مظلم لیگی، حسن نظامی کا چیلا، آغا خانی، غرض کوئی بد مذہب بد دین دشمنِ خدا اور رسول خواہ وہ (معاذ اللہ) تمہارا باپ ہو یا بیٹا بھائی ہو یا شوہر، بیوی ہو یا ماں، استاد ہو یا مرشد المرشد ہو یہ استاذ الاستاذ، دوست ہو یا محب، خیر خواہ ہو یا محسن، ہمدرد ہو یا ہمدم غرض کوئی ہو کسے باشد اگر وہ تمہارے دین و ایمان کے معاملے میں حائل ہو، تجھے تیرے حبیب تیرے محبوب محبوب پروردگار علیہِ و علیٰ آلہِ الصلوات اللّٰہ النافع الضارت الباد و الحار کی غلامی سے ہٹانے پر مائل ہو، تجھے طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے جان و مال و عزت و آبرو کے ڈراؤں سے دھمکائے،نام اسلام لیکر ڈرائے، گو خود ہادم اسلام ہو، صرف مسلمانوں کا سا نام ہو تو ایسے کے مقابلے میں تیرا طریق صرف یہ ہونا چاہئے کہ تو ہر ایسے کو ٹھکرا دے، اس کو سنگِ مذلت سے ٹکرادے، اس کی چاپلوسیاں تجھ پر اثر نہ کریں، اس کی خوشامدیں تیرے دل میں گھر نہ کریں، تو اُن سے دور ہو کر ان کو اپنے سے دور کر دے، اُن کو اپنے سے نفور کر دے، اپنی آنکھیں ان کی طرف سے اندھی اور اپنے کان ان کی طرف سے بہرے کرلے۔ 


ورنہ یاد رکھ یہ دنیائے فانی آنی جانی ہے۔ نہ کوئی رہا ہے نہ کوئی رہے گا۔ موت سر پر کھڑی ہے۔ وہ امتحان کی بڑی کڑی گھڑی ہے۔ وہاں کوئی کام نہ آئےگا، تیرے ساتھ کوئی نہ جائے گا۔ تو ہوگا اور تیرا ایمان، تیرے اعمال۔ 

پہلی منزل میں تیرا ٹکٹ پوچھا جائے گا۔ تیرا سامان جانچا جائے گا۔ ذرّہ بھر فرق ہوا کہ بحق سرکار فرق ہوا۔ اس وقت کون بچائے گا، کون ضمانت کرےگا، کون وکالت کرے گا؟ ہاں ہاں سن لے! اس دن ذاتِ واحد مالک شفاعت ہے۔ وہی ضامن حقیقی ہے۔ وہی گنہ گاروں کا وکیل و کفیل ہے۔ اور وہ نہیں ہیں مگر سیّدنا محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وکرم۔ ایسا نہ ہو کہ معاذاللہ تیری ضمانت سے انکار فرما دیں۔ تیری شفاعت سے اِبا کردیں۔ تو بتا خدا کے لئے بتا کہ پھر ان آج کل تیرے طواغیت میں سے کون آگے آئےگا، کون تجھے بخشوائے گا؟ وہ خود جہنم میں پڑے ہوں گے۔ دوزخ کے شب وروزان پر کڑے ہوں گے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


دعا کر کہ خدا ہم سب کو توفیق خیر دے۔ ہمارے قدم راہِ محبت سیدنا محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں ڈگمگانے نہ پائیں۔ ہمارے قلوب کو اپنی اور اپنے محبوب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت و تعظیم سے اوراپنے حبیب علیہِ وعلی آلہ الصلاۃ والسلام کے دوستوں کی اُلفت و تکریم سے بھر دے۔ اور دشمنانِ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم سے نفرت و عداوت ہمارے دلوں میں  مرکوز کر دے۔ آمین آمین بجاہ حبیبہ ونبیہ الامین المکین علیہ وعلی وآلہ الصلاۃ وا التسلیم الی یوم الدین۔ یہ مبارک فتویٰ اصل تقویٰ بحمدہ تعالٰی اہل فتنہ کی جان پر ضربِ کاری ہے۔ جس سے ان دشمنانِ حبیب صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر غضب رب طاری ہے۔ اس فتویٰ نے ان پر اللہ کی طرف کی مصیبتیں توڑ دیں، ان کے مکر و فتن کی رگہائے گلو کاٹ کر چھوڑ دیں، سنّیوں کا دل اس سے باغ باغ ہے۔ بے دینان زمانہ کا قلبِ نا پاک داغ داغ ہے۔ مولیٰ عز وجل نافع و مفید بنائے گا۔ اس سعی کو مشکور و مقبول فرمائے گا۔ انشاء اللہ تعالٰی ثم شاء حبیبہ ونبیہہ محمد المصطفیٰ علیہِ التحیّۃ و الصلاۃ و الثناء وعلی آلہ وصحبہ الیٰ یوم الجزا۔ آمین۔ 


الفقیر الحقیر السید (الحکیم) آل مصطفٰی

المعروف بسید میان القادری البرکاتی القاسمی۔

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (98)

 سیرت کمیٹی کا اسلام


از-خلیفہ و مظہر اعلی حضرت شیر بیشۂ سنت قطب الاقطاب علامہ حشمت علی خان قادری رضی المولیٰ عنہ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم


پیارے نبی کی بھولی بھیڑو! گرگ ہیں چاروں طرف تمہارے،

ان سے ہمیشہ بچتے رہنا، گھات میں ہیں ایمان کی تمہارے۔ 


پیارے مسلمان سُنّی بھائیوں! السلام علیکم و رحمتہ اللّٰہ تعالٰی و برکاتہ

اس زمانۂ پر فتن میں قسم قسم کے مذہب، طرح طرح کے فرقے برسات میں حشرات الارض کی طرح نکل پڑے ہیں۔ ان کفرِی جراثیم نے اپنی اعتقادی عفونت اور مذہبی نجاست سے مسلمانوں کے دل و دماغ کو پریشان کر رکھا ہے۔ اور مذہبی آب و ہوا کو مسموم کر دیا ہے۔ بھولے بھالے سُنّی بھائیوں کو اپنی ایمانی صحت کا برقرار رکھنا دشوار ہو گیا ہے۔ مذہبی حفظان صحت کے محکمے کی طرف سے ان کفری جراثیم سے پرہیز و اجتناب کرنے کے اعلان پر اعلان ہو رہے ہیں۔ مگر ہمارے سیدھے سُنّی بھائی عموماً خوابِ غفلت میں سو رہے ہیں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے دین و مذہب کا درد رکھنے والا ہر ایک سُنّی بکمال نیازمندی اپنے اور سارے جہان کے مالک و مولیٰ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سرکار کرم میں رو رو کے عرض کر رہا ہے۔

 

کفر کا زور ہے اسلام دبا جاتا ہے

المدد ائے شہ دیں کفر مٹانے والے


پھر  یہ دشمنانِ دین اگر کھلم کھلا جنگ کا الٹی میٹم دے کر اسلام و  سنیت کے مقابل صف آرا ہو جاتے تو ان کے حملوں سے اپنے دین و ایمان کا تحفظ سُنّی مسلمان کے لئے دشوار نہ ہوتا۔ لیکن ستم تو یہ ہے کہ آستین کا سانپ بن کر یعنی مسلمانوں کا لیڈر اور اسلامی پیشوائی کا دعویدار ہوتے ہوئے اسلامی ناموں کا نقاب اپنے کفری چہروں پر ڈال کر سُنّی مسلمانوں کے دین و مذہب کو مٹانے کی یہ اعدائے اسلام کوششیں کر رہے ہیں۔ 


سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے۔

سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے۔


وہابیہ، غیر مقلدین، وہابیہ دیوبندیہ، وہابیہ نجدیہ و مرزائیہ لاہوریہ و خاکسار پارٹی و کفار چکڑالویہ و مرتدّین نیچریہ و ملحدین گاندھویہ و روافض غالیہ یہ سب اسلام و سنیت کے کھلے ہوئے دشمن و بیخ كناور اسلامی ناموں اور اسلامی لباسوں میں چھپے ہوئے دولت ایمان کے رہزن ہیں۔ یہی ذکر کردہ شدہ زنادقہ و ملاحدہ اسلام و سنیت کو نقصان پہنچا نے کے لئے کیا کم تھے کہ انہیں سب کے باہمی سنگھٹن و سماگم کا نتیجہ بئیسہ "سیرت کمیٹی" کی شکل میں پیدا ہوا۔ سیرت کمیٹی کا تو دعویٰ یہ ہے کہ مسلمانوں اور کافروں سب کو سیرت نبویہ علی صاحبہا و آلہِ الصلاۃ والتحیۃ کی تبلیغ کے لئے اٹھی ہے۔ لیکن نقاب اٹھا کر اس کی اندرونی شکل دیکھئیے تو پتہ چلتا ہے کہ نام نہاد سیرت کمیٹی کا مقصد یہ ہے کہ سُنّی مسلمانوں کے دلوں سے اسلام و پیغمبر اسلام علیہِ و علیٰ آلہِ الصلاۃ والسلام و عقائد اسلام و اصول اسلام سب کی عظمت و محبت نکال کر پھینک دی جائے۔ اور اس کی جگہ مشرکین و کفار کے دیوتاؤں کی تعظیم و تکریم اور ادیان باطلہ کی وقعت قلوب  میں جمادی جائے۔ و العیاذ باللہ تعالٰی۔ 


اہل سنت مسلمانوں کا "ایمان مفصل" جو سنیوں کے  بچوں تک کو بھی بچپن ہی میں یاد کرا دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ 

یعنی میں ایمان لایا اللّٰہ پر اس کے سب فرشتوں پر اور اس کی تمام کتابوں پر اور اس کے جمیع رسولوں پر اور پچھلے دن (قیامت) پر اور اس پر کہ نیکی اور بدی جو کچھ دنیا میں ہوتی ہے اسی کے پیدا فرمانے سے ہوتی ہے۔ اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہو کر اٹھنے پر۔ 


اب ذرا ٹھنڈے دل کے ساتھ ملاحظہ فرمائے کہ سیرت کمیٹی جس ایمان مفصل کی اشاعت و تبلیغ کر رہی ہے اس کی کیا تفصیل ہے۔ 


"آمنت باللہ" پر سیرت کمیٹی کا ایمان:


۱) سیرت کمیٹی پٹی ضلع لاہور نے رسالۂ "نور کامل" مطبوعہ آفتاب برقی پریس امرتسر کے صفحہ ۱۲ پر لکھتی ہے کہ "گوتم بدھ نے اگرچہ دیوتاؤں کی نفی کی لیکن کسی ایک وجود کا اثبات بھی نہیں کیا" یعنی گوتم بدھ نہ تو دیوتاؤں کو مانتا تھا اور نہ کسی ایک خدا کو مانتا تھا بلکل ناستک، ادھرمی اور خدا کے وجود کا بھی قطعاً منکر تھا۔ اس کا عقیدہ یہی تھا کہ خدا کوئی چیز نہیں۔ 


اور اپنے اسی رسالے "نور کامل" کے صفحہ١٦ پر لکھتی ہے کہ:

"رہنمایانِ ہند میں رامچندرجی گوتم بدھ اور سری کرشن اور دوسرے رشی اور منی اور ہاد یان عجم میں فريدوں زر تشت اور دوسرے دخوشور وغیرہم کو مأمور من اللّٰہ مان کر اُن روایات کو جو اُن کی شان کے منافی ہیں غلط فہمی پر محمول کرنا چاہئے اور‌ سل لم‌ تقصصھم الیک کی بنا پر لا نفزق بین احدٍ من رسلہ پر ایمان لانا چاہئے"


اس عبارت میں صاف کہہ دیا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ رام چندر، کرشن، بدھ، فریدوں، زر تشت اور ہندوؤں کے رشیوں، منیوں کو اور پارسیوں کے مذہبی پیشواؤں کو رسول و نبی و پیغمبر مانیں ان سب کی پیغبری و نبوّت و رسالت پر ایمان لائیں۔ تو معلوم ہوا کہ سیرت کمیٹی کے نزدیک گوتم بدھ بھی پیغمبر و نبی و رسول ہے۔ اور سیرت کمیٹی یہ بھی مانتی ہے کہ گوتم بدھ کا عقیدہ یہ تھا کہ خدا کوئی چیز نہیں اور ظاہر ہے کہ نبی و رسول کی کوئی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی۔ کسی رسول کا کوئی عقیدہ غلط نہیں ہو سکتا۔ تو ثابت ہوا کہ سیرت کمیٹی کے نزدیک خدا کو ماننا ضروری نہیں۔ بلکہ سیرت کمیٹی کے نزدیک یہ عقیدہ بھی صحیح ہے کہ خدا کوئی چیز نہیں۔ کیونکہ سیرت کمیٹی کے نزدیک ایک پیغمبر کا یہی عقیدہ ہے۔ و العیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"و ملئکته" پر سیرت کمیٹی کا ایمان: 


۲)یہی سیرت کمیٹی اپنے اسی رسالے"نور کامل" کے صفحہ ٤,٥ پر لکھتی ہے:

"قدیم مذاہب میں جن مناظر فطرت اور مظاہر قدرت کو دیوتا تسلیم کیا گیا تھا زمانہ مابعد میں وہی مناظر و مظاہر تھے جو دوسرے ناموں سے پکارے گئے۔ مثلاً ہند کے قدیم آریوں کا "ان داتا" یعنی اندرا ابر و باراں {بادل اور پانی} کا بڑا دیوتا، اہل کتاب کے حضرت میکائیل ہیں جو پانی برساتے تھے روزیاں تقسیم کرتے ہیں۔ اور اب اس دورِ سائنس میں بخارات ہیں جن پر طبعی قوانین عمل پیرا ہیں۔ اسی طرح یونانیوں کے معبود مزدا کے کارپردازوں کی نورانی جماعت نیت حکمائے یونان کے نفوس فلکیہ تھے جو اہل کتاب کے ہاں فرشتگان ملاء اعلی ہیں۔ اور اب اسی دور تہذیب میں الیکٹران ایتھر وغیرہ کے ناموں سے پکارے جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماء بدل گئے ہیں مگر مسمّٰی وہی ہے"۔ 


اس عبارت میں سیرت کمیٹی نے صاف کہہ دیا کہ حضرت میکائیل علیہِ الصلاۃ والسلام حقیقت میں انہیں بخارات کا نام ہے جو زمین و سمندر میں سے اٹھتے ہیں اور الکٹری کی قوت اور ایتھر ہی کا نام فرشتہ ہے۔ 

تو سیرت کمیٹی کے دھرم میں بھاپ کا نام میکائیل اور بجلی کی قوت کا نام فرشتہ ہے۔ و ضالعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"وکتبه" پر سیرت کمیٹی کا ایمان:


۳)سیرت کمیٹی اپنے اسی رسالے"نور کامل" کے صفحہ ۲۰ پر لکھتی ہے: 

"ایمان والے ہوں یہودی ہوں نصاریٰ ہوں صابی ہوں کوئی ہو جو خدا اور آخرت پر ایمان لایا اور نیک کام کئے اس کے لئے خدا کے ہاں اجر ہے اس کے لئے کوئی خوف و غم نہیں۔ دیکھو مشہور مذاہب عالم کے متبعین کو کسی جامعیت کے ساتھ حصول نجات کے ارکانِ ثلثہ کی بشارت دی جاتی ہے۔ توحید کامل پر ایمان اور جزا و سزا کا یقین اور عمل صالح صرف تین الفاظ ہیں مگر راحت دائمی کے حصول کا سر چشمہ ہیں۔ اور نجات کی کلید"


اس عبارت میں سیرت کمیٹی نے صاف صاف کہہ دیا کہ ہندو، پارسی، یہودی، عیسائی یا مسلمان کوئی بھی ہو جو شخص اللہ کو مانے گا جزا و سزا اور اچھے کام کرےگا بس وہی جنّتی ہے راحت دائمی کا مستحق ہے خواہ وہ رب العزۃ تبارک وتعالیٰ کی کتابوں پر ایمان لائے یا نہیں۔ تو سیرت کمیٹی کے دھرم میں اللّٰہ عز وجل کی کتابوں توریت زبور و انجیل و قرآن پاک پر ایمان لانا نجات حاصل کرنے کیلئے ضروری نہیں۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"ورسله" پر سیرت کمیٹی کا ایمان: 

٤) اوپر نمبر ایک میں سیرت کمیٹی کے رسالے "نور کامل" کے صفحہ ١٦ کی عبارت آپ حضرات ملاحظہ فرما چکے کہ سیرت کمیٹی کے دھرم میں رام چندر، کرشن، گوتم بدھ، فریدوں، زر تشت اور ہندوؤں کے رشیوں منيوں اور پارسیوں کے مذہبی پیشواؤں کو پیغمبر و‌ رسول ماننا فرض ہے۔ اب تصویر کا دوسرا رخ ملاحظہ کیجئے۔ 


ابھی سیرت کمیٹی کے رسالے "نور کامل" کے صفحہ ۲۰ کی عبارت گزری کہ "توحید کامل پر ایمان اور جزا و سزا کا یقین اور عمل صالح صرف تین الفاظ ہیں مگر راحت دائمی کے حصول کا سر چشمہ ہیں اور نجات کی کلید" اس عبارت میں سیرت کمیٹی نے صاف صاف کہہ دیا کہ جو شخص خدا کے ایک ہونے پر ایمان اور جزا و سزا پر یقین رکھے اور اچھے کام کرے بس وہ جنّتی ہے ابدی راحتوں کا مستحق ہے خواہ وہ رسولوں کو مانے یا نہیں۔ تو سیرت کمیٹی کے دھرم میں نجات حاصل کرنے کے لئے رسولوں کی رسالت پر ایمان لانا بلکہ مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"والیوم الآخر" پر سیرت کمیٹی کا ایمان:


۵)سیرت کمیٹی اپنے رسالے "پیغام رمضان" یکم فروری ۱۹۳۳ء مطبوعہ ثنائی برقی پریس امرتسر کے صفحہ ۳۲ پر لکھتی ہے:


"حکمائے اسلام نے جنت دوزخ اور ثواب و عذاب کی بڑی بڑی تشریحات کی ہیں۔ سب کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان دنیا میں جو کچھ کر رہا ہے اس کے اثرات سے ہر ایک روح متاثر ہوتی ہے اور اس پر لمحہ بہ لمحہ فلم یا گراموفون کے ریکارڈ کی طرح اثرات اعمال سے نقوش کی تاریخ بنتی چلی جاتی ہے۔  روح جسم سے جدا ہوکر انہیں اثرات کے مطابق زندگی بسر کرے گی۔ اگر تم متقی ہو تو تمہاری روح بہشت کاسا آرام محسوس کرے گی اگر عفیف اور پاک دامن ہو تو اپنے کو حورانِ بہشتی سے ہم آغوش پاؤگے"۔ 

ایک بخیل مالدار کی روح جسم سے جدا ہو کر اپنے اعمال کی اسی فلم کو دیکھتی رہتی ہے۔ اگر اچھے اعمال کا منظر دیکھے گی تو روح کو خوشی ہوگی بس اسی روحانی خوشی کا نام حوروں سے ہم آغوشی اور جنت ہے اور اگر برے اعمال کی فلم دیکھے گی تو اس روح کو رنج و صدمہ ہوگا۔ بس اسی روحانی غم کا نام سانپوں کا ڈسنا اور دوزخ ہے۔ 

تو جنت کی نعمت حور، غلمان، شراب طہور اور دودھ و شہد مصفٰے اور ٹھنڈے خوش گوار پانی کی  نہریں کھجور، انار، بیر، انگور، کیلے اور ہر قسم کے میوے بڑے بڑے اونچے محل، بہشتی حُلّے، جنّتی زیور اور جہنم کی مصیبتیں، بھڑکتی ہوئی آگ، آگ کے اوڑھنے، آگ کے بھچونے، لہو، پیپ اور کھولتے ہوئے پانی کا پلایا جانا، جہنّمی تھوہڑکا کھلایا جانا، صعود پہاڑ پر چڑھا کر گرایا جانا، لوہے کے ہتھوڑوں سے سروں کا کچلا جانا، ہنر ہاتھ کی آتشی زنجیر میں جکڑا جانا وغیرہا یوم آخر کی تفصیلات جن کے بیان سے قرآن پاک کی مبارک آیات گونج رہی ہیں سیرت کمیٹی کے دھرم میں سب باتیں جھوٹ اور غلط و باطل ہیں۔ بس جنت و دوزخ کی حقیقت صرف روحانی خوشی اور روحانی صدمے کے سوا کچھ نہیں۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"و‌القدر خیرہٖ و شرہٖ من اللہ تعالیٰ" پر سیرت کمیٹی کا ایمان

٦ ) سُنّی مسلمان تو ایمان رکھتا ہے کہ اچھے یا برے کا ارادہ بندہ کرتا ہے مگر اس کے ارادے کے مطابق اس اچھے يا برے کام کو اللّٰہ تعالٰی ہی اپنے حکم اور اپنی قدرت سے پیدا فرماتا ہے۔ اللہ عز وجل کے سوا کوئی اور کسی چیز کسی فعل کسی قول کا خالق نہیں۔ مگر پارسیوں کے مذہبی پیشوا زرتشت نے مجوسیوں کو یہ عقیدہ تعلیم کیا کہ نیکیوں کا پیدا کر نے والا یزداں اور برائیوں کو پیدا کرنے والا اہرمن ہے۔ 

اور سیرت کمیٹی اپنے رسالے "نور کامل" کے صفحہ ١٦ پر زر تشت کو بھی رسول و پیغمبر مان چکی ہے۔ اور پیغمبر کا تعلیم کیا ہوا کوئی عقیدہ غلط نہیں ہو سکتا۔ تو سیرت کمیٹی کا عقیدہ بھی یہ ثابت ہوا نیکیوں کا پیدا کرنے والا خدا ہے اور برائیوں کا پیدا کرنے والا شیطان ہے۔ کیونکہ سیرت کمیٹی کے دھرم میں اس عقیدہ کا تعلیم کرنے والا بھی ایک پیغمبر ہے۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


"و البعث بعد الموت" پر سیرت کمیٹی کا ایمان:

۷) ابھی نمبر ۵ میں آپ نے سیرت کمیٹی کے رسالے "پیغام رمضان" کے صفحہ ۳۲ کی عبارت ملاحظہ فرمائی کہ جس میں جنت و دوزخ کی روحانی خوشی کا نام جنت ہے اور جسم سے الگ ہو کر روح کو اپنے اچھے کاموں کی فلم دیکھنے پر جو خوشی ہوگی بس اسی روحانی خوشی کا نام جنت ہے اور جسم سے جدا ہوکر روح کو اپنے برے کاموں کی فلم دیکھنے پر جو صدمہ ہوگا بس اسی روحانی صدمے کا نام دوزخ ہے۔ 

تو مردوں کو اپنے جسموں کے ساتھ زندہ ہوکر اٹھنا قیامت کے ہولناک مناظر حساب و کتاب وزن اعمال پل صراط وغیرہ واقعات جن کے بیانوں سے آیات کریمہ و احادیث مبارکہ لبریز ہیں سیرت کمیٹی کے دھرم میں سب جھوٹ اور غلط و باطل ہیں۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 


پیارے مسلمان سُنّی بھائیوں!

سیرت کمیٹی کے رسالوں میں بکثرت کُفریات شائع ہوئے ہیں۔ اس وقت بطور نمونہ صرف یہ سات باتیں پیش کردی ہیں۔ اب آپ حضرات اپنے ایمانی قلوب سے فتویٰ لیں کہ سیرت کمیٹی اسلام کی اشاعت کر رہی ہے یا کفر کا پرچار؟ سیرت کمیٹی کہ مقصد اشاعت نبویہ ہے یا تبلیغ سیرتِ کفار؟ والعیاذ باللہ تعالٰی۔ 

اب آپ حضرات خود ہی فیصلہ کرلیں کہ ایسی کمیٹی میں آپ کا شریک ہونا ممبر بننا، اس میں چندہ دینا آپ لوگوں کے لئے جائز ہے یا نہیں؟

خدا کہ واسطے آنکھیں کھولو، دوست و دشمن کو پہچانو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو اور ہم کو اسی ساڑھے تیرہ سو برس والے پُرانے سچے مذہب اہلِ سنت پر ثبات و استقامت بخشے اور با طل کی حمایت اور طرف داری اور بد مذہبوں کے مکر و شر اور ہر نئے مذہب اور نئے فرقے سے محفوظ رکھے آمین۔ 


سُنّی بھائیوں کا مذہبی خدمتگار

فقیر ابو الفتح عبید الرضا محمد حشمت علی خاں

قادری رضوی مجددی لکھنوی غفرلہ ربہ العزیز القوی آمین 

جمعہ مبارکہ ۲۹ محرم الحرام ۱۳۵۶ھ مطابق یکم اپریل ۱۹۳۸۔

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (97)

 رد صلحکیت 

از-خلیفۂ اعلی حضرت ، مداح الحبیب ، حضرت علامہ مولانا مفتی الشاہ محمد جمیل الرحمٰن خانصاحب قبلہ قادری رضوی بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان


حضور پر نور ﷺ کے ان اخلاق کریمانہ و اوصاف رحیمانہ کو پیش کرکے بعض بے عقل جاہل بد مذہب صلح کل اہلسنت پر مونھ مارتے ہیں کہ حضور نے تو کفار کے ساتھ اس قدر تکلیفیں اٹھا کر اتنی زحمتیں برداشت فرما کر بھی یہ کیا اور تم کفار و مشرکین و منافقین و مرتدین کی اہانتیں اور ان کا رد کرتے ہو آہ ان جاہلوں کو کیا معلوم کہ حضور نے جہاں  وہ اخلاق برتے وہاں کفار و منافقین ناہنجار کو ان کے بدکردار کا مزا بھی چکایا انہیں قتل فرمایا۔

منافقین کے گھر جلانے کا حکم دیا اپنی مسجد شریف سے مجمع عام میں نام لےکر اُخْرُجْ یَا فَلَانُ فَاِنَّكَ مُنَافِقٌ فرماکر نہایت خزی و ذلت و رسوائی و فضیحت کے ساتھ نکال دیا اور اَللّٰھُمَّ مَزَّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ  دعائے قہر فرما کر برباد فرمادیا۔

بات یہ ہے کہ حضور نے جو کچھ فرمایا محض اللہ کے لیے فرمایا اپنے نفس شریف کے لیے کچھ نہ کیا اگر ایسی جگہ حضور انہیں قتل فرماتے یا ان کے لیے دعائے قہر و ضرر کرتے تو بد باطنوں کو اِلزام رکھ سکنے کا موقع ہوتا کہ حضور نے اپنے نفس کریم کے لئے یہ کچھ کیا۔ پھر یہ کہ جیسی مصلحت وقت ہوتی حضور مختار کلﷺ ویسا فرماتے کہ آپ دانائے غیوب واقف اسرار مطلوب ہیں آپ پر خوب ظاہر و روشن تھا کہ اس شخص کے لیے ہدایت یوں ہوگی کہ اس کے ساتھ نرمی و ملاطفت برتی جائے تو حضور اس کے ساتھ نرمی و ملاطفت برتتے اور جسے سختی سے ہدایت ہونا خیال فرماتے اس کے ساتھ سختی فرماتے۔ نیز یہ کہ حکیم مطلق عز جلالہ نے بھی مصالح وقت سے احکام نازل فرمائے ابتداءً بجائے دعوت و ارشاد  حق  لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ" پر عمل رہا کفار ناہنجار حبیب و محبوب پر سخت جفائیں کرتے اور حضور صبر و تحمّل فرماتے ادھر سے جو رو جفا تھی ادھر سے عفو و عطا اور یہ سب اُسی کی مرضی سے تھا کہ حضور کو صفح و اعراض درگزر اور روگردانی ہی کا حکم تھا کہ ارشاد ہوا فَاصْفَحِ الصَّفْح الْجَمِیْلَ" یعنی اچھی طرح درگزامر فرماؤ۔ اور فَصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْوَاَعْرِضٔ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ" یعنی ظاہر کرو جس بات کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اور مشرکین سے مونھ پھیر لو۔پھر حضور کو حکم ہوا کہ سمجھانے اور خوبی کے ساتھ دلیل قائم فرمانے سے دین کی طرف بلاؤ اُدْعُ اِلَیٰ سَبِیْلِ رَبِّكَ بِاالْحِکْمَةِ وَلْمَوْعِظَةِالْحَسَنَةِ" یعنی اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحتوں سے بلاؤ پھر حضور کو رب العزة نے اجازت فرمائی کہ تم ابتدا بقتال نہ فرماؤ بلکہ فَاِنْ قَاتَلُوْكُمْ فَقْتُلُوْهُمْ یعنی اگر کفار و مشرکین تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل کرو پھر بعض اوقات ابتدائے قتال کا حکم ہوا ارشاد فرمایا گیا فَاِذَاانْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْهحُرُمُ"فَقْتُلُواالْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوْهُمْ یعنی عزت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو قتل کرو جس طرح تم ان کو پاؤ پھر سب مکانوں اور  سب زمانوں میں مطلقاً ابتدا بقتال کا حکم ہو گیا کہ فرمایا گیا وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٌ لِلّٰه" یعنی ان کفار و مشرکین کو قتل کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور سارا دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے اور فرمایا گیا  وَقَاتَلُو الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمَ الْاٰخِرْ" ان سے لڑو جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے یہاں تک کہ کفار و مشرکین منافقین  سب کے متعلق نہایت تصریح سے حکم فرمایا يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ" اے نبی جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں سے اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آؤ اور اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی بری پھرنے کی جگہ ہے۔ بہرحال پچھلے تمام احکام اوقات معینہ کے لیے رہے  مگر یہ حکم جہاد اگلے احکام کا ناسخ ہوا 

پھر تو نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے کفار و منافقین کے ساتھ سختی کرنے اور ان کے قتل فرمانے  میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جیسا کہ فتوح الشام وغیرہ سے ظاہر ہے یہاں تک کہ کفار و منافقین کے ساتھ سختی اور جہاد کا سلسلہ تابعین اور تبع تابعین ائمہ عظام و فقہائے کرام و سلاطین اسلام میں حسب استطاعت چلا آیا احکم الحاکمین نے قرآنِ مبین میں جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ فرما کر کفار و منافقین پر ہمیشہ کے لیے جہاد کا حکم دیا  اور ہر وقت وہ جہاد مسلمانوں پر فرض رہا اور ہے مگر حسب استطاعت کہ لَايُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْساًاِلِّا وُسْعَهَا" اللہ تعالیٰ کسی کو وسعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔

جہاد کئی قسم ہے اوّل جہاد سیفی یعنی تلوار سے اگر طاقت و استطاعت ہو اور اس کے تمام شرائط پائے جائیں بلا وجود شرائط و استطاعت نام جہاد لینا  قلوب کفار سے جہاد کی ہیبت گرانا اور غریب مسلمانوں کو ہلاکت میں ڈالنا ہے مولی تعالیٰ فرماتا ہے لَاتُلْقُوْا بِاَیديْكُمْ اِلَى التَّهْکلةِ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ مگر زمانہ حال میں فرقہ گاندھویہ کے مصنوعی پانچ سو یا سات سو علماء نے خلافِ قرآن و حدیث بلا وجود شرائط حکومت نصارے کے ساتھ جہاد سیفی کا حکم نکالا علماء اہلِ سنت نے لاکھ سمجھایا اللہ و رسول کے احکام کا ذخیرہ دکھایا فقہائے کرام کا خزانہ پیش فرمایا مگر مشرکین کی سلامی گاندھی کی غلامی نے اُن کو ایسا اندھا بنایا کہ  ارشاداتِ اللہ و رسول کو پس پشت ڈال کر اس خبیث مشرک کو بالقوہ نبی بتایا اور اسکی ناپاک زبان کو بہتر از قرآنِ ٹھہرایا والعیاذبالله تعالٰی آخر تھوڑا وقت نہ گزرا کہ آسمان کا تھوکا خبیثوں کے مونھوں میں آیا چہرے سیاہ ہوئے  خَسِرَالدُّنْيَاوَالْاٰخِرَةِ کے مصداق بنے غریب مسلمانوں کے جانوں اور مالوں بلکہ ایمانوں کو تباہ و برباد کرادیا۔ غرض وہی ہوا جو علماء اہلِ سنت نے بتایا اور فرمایا تھا اور کیونکر اس کے خلاف ہوتا کہ انکا فرمان وہ تھا جو قرآن کریم کا ارشاد ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ"اے ایمان والوں اپنے غیروں سے کسی کو رازدار نہ بناؤ وہ تمہاری بدخواہی میں گئی نہ کرینگے ان کی دلی تمنّا ہے تمھارا مشقت میں پڑھنا دشمنی اُن کے مونهوں سے ظاہر ہو چکی ہےاور وہ جو اُن کے سینے میں دبی ہے  اور بڑی ہے بیشک ہم نے تمہارے سامنے نشانیاں صاف بیان فرمادیں اگر تمہیں عقل ہو تو کفار و  مشرکین کے ساتھ موالات و اتحاد کی ہم کو اصلا اجازت نہیں بلکہ اُن کے ساتھ عداوت و سختی کرنے کا ہم کو حکم قطعی ہے مگر اس وقت جہاد سیفی نہیں کہ اس زمانے میں مسلمانانِ ہند کی استطاعت سے باہر اور اس کے شرائط کا کہیں پتہ نہیں۔ 

دوسری قسم جہاد کی جہاد زبانی و قلمی ہے جو بحمدللہ تعالیٰ جو علمائے سنت و اہلسنت نے کیا اور کر رہے ہے اور کرتے رہیں گے اور یہاں اس زمانے میں یہ قلمی و زبانی جہاد بھی بمنزلہ جہاد سیفی ہے۔ تیسری قسم جہاد قلبی ہے یعنی کفار و مشرکین و منافقین مرتدین کو قلب سے برا جاننا اور اُن کو دل سے مبغوض رکھنا اور اُن کو کفار و بدمذہب سمجھنا۔ اور یہ ایمان کا سب سے  نیچا اور ضعیف درجہ ہے۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : جو تم میں کسی منکر کو دیکھےاُسے چاہیے کہ اُس منکر کو اپنے ہاتھ سے مٹائے  اور اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو   اس پر اپنی زبان سے انکار کرے اور اگر اتنی قوت و طاقت بھی نہ ہو تو اسے دل سے برا جانے اور یہ نہایت کمزور ایمان والا ہے۔ اب انسان اس سے بھی گیا گزرا تو سب سے گیا گزرا اور کمزور اور ضعیف ایمان والوں میں بھی اس کا شمار نہ رہا  حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ مسلمانوں سنو اور خوب غور سے سنو آقائے نامدار مدنی تاجدار سرکار ابد قرار ﷺ جہاں بھر کے مسلمانوں کو حکم فرماتے ہیں ؛کیا فاجر کے ذکر سے بچتے ہو لوگ اسے کیونکر پہچانیں گے فاجر کا ذکر کرو اُن کے حالات و عیوب بیان کرو تاکہ لوگ اس سے بچے اور پرہیز کریں۔فاجر کے متعلق مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا منافقین زمانہ مرتدین وہابیہ نيچریہ روافض قادیانی گاندھویہ  وغیرہا  بدمذہب تو فاجر سے بدرجہا بدرجہا بدتر ہیں لہٰذا  بحکمِ رسول ﷺ تمام مسلامانوں پر ضروری ہوا کہ مساجد و مجالس میں بلکہ ہر جگہ  چند برادران اسلام جمع ہو ان بدمذہبوں مرتدوں کے کُفریات و ضلالات سے ایک دوسرے کو آگاہ خبردار کریں اور کبھی اس سے غافل نہ ہو تاکہ برادان اسلام میں سے کوئی شخص ان بدمذہبوں عياروں مکاروں کے دام فریب میں نہ پھنسے اور بھٹکے ہوئے راہِ حق پر آجائے۔ حدیثِ شریف میں ہے رسولِ پاکﷺ ارشاد فرماتے ہیں،

بیشک عرش کے آس پاس اللہ تعالیٰ کے چھ لاکھ  عالم فرشتوں سے آباد ہیں جن کا کام یہ ہے کہ ابو بکر و عمر کے دشمنوں پر لعنت کیا کرتے ہیں رضى الله تعالى عنهما

شرح مقاصد میں ہے  بیشک بدمذہب کا حکم اُس سے بغض اور اس  کی اہانت ہے بہرحال ثابت ہوا بدمذہبوں کی اہانت اور اُن سے بغض رکھنے کو اور ان کے حالات و عیوب کُفریات و ضلالات بیان کرنے کو  مطلقاً بلا قید  مکان و زمان ہم حکم فرمائے گئے اور یہی سنتِ قدیمہ ہے تو معترض جاہل بدمذہب صلح کل والے کا مونھ کالا ہوا اور بحمدللہ تعالیٰ اہلسنت کا تعمیل حکم حضور و پیروی سنت شفیع  یوالمنشور سے مونھ اجالا ہوا و اللہ الحمد۔

اب میں قدر تفصیل سے زمانہ اقدس کے بعض اُن حالات و واقعات کا مختصراً بیان کروں جن میں حضور رحمت عالمﷺ نے کفار و منافقین کے بربادی و ہلاک کی دعا فرمائی اُنہیں قتل و غارت فرمایا اُن کے خانما برباد فرمائے اُن کے اموال مسلمانوں کو تقسیم ہوئے اُنکی عورتیں بچے باندیاں غلام ٹھہرائے گئے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جنگِ  بدر و حنین و غزاوات بتوک و احد وغیرہ  میں کفار واصل جہنّم کیے گئے کشتوں کے پشتے لگائے گئے نعشیں اُن کی سڑ گئی ٹھوکروں سے ٹھکراکر گڑھوں میں ڈال دی گئیں مال اُنکے لوٹے گئے اُنکی عورتیں باندیاں بنائی گئیں آخر یہ سب کس نے کیا اور کس کے حکم سے ہوا اُنہیں رحمت عالم ﷺ نے کیا اور اُنہیں کے حکم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔

عینی شرح بُخاری میں ہے. 

ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسولِ اللہ ﷺ نے بروز جمعہ خطبہ فرمایا تو اس میں نام لے لے کر ارشاد کیا اے فلاں نکل جا تو منافق ہے اے فلاں نکل جا کہ تو منافق ہے پھر حضور ﷺ نے بہت سے لوگوں کو رسوا و ذلیل کرکے مسجد اقدس سے نکال دیا۔


مولانا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرح شفا میں ہے 

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ جو منافقین نکالے گئے ۳۰۰ مرد اور ایک سو ستر ۱۷۰ عورتیں تھیں ۔


مسلمانوں انصاف کرو کہ ان تین سو مردوں اور ایک سو ستر عورتوں کا جو منافق تھے نام لے کر رسوائی و فضیحت و خواری کے ساتھ اپنی بھری ہوئی مجلس سے نکالنے والا کون تھا  یہی رحمت عالم ﷺ ہی تو تھے۔


ایک منافق مر گیا  فرمایا اُسے زمین قبول نہ کریگی چنانچہ لوگ اُسے بار بار زمین میں دباتے تھے اور ہر بار اس کی نعش خبیث زمین سے باہر آجاتی تھی آخر اسی طرح پڑا چھوڑا جانوروں نے کھا لیا۔ ملاحظہ کیجئے یہ فرمانے والا کہ زمین اُسے قبول نہ کریگی۔کون تھا یہی رحمت عالم ﷺ  تو تھے زمین نے کس کے ارشاد کی تعمیل کی اُنہیں رحمت عالم ﷺ کے ارشاد پاک کی۔ایک شخص مرتد ہوکر مشرکین میں جاملا اس کے لیے بھی یہی فرمایا زمین اُسے قبول نہ کریگی مرگیا تو ایسا ہی ہوا  یہاں بھی وہی بات ہے۔اہل فارس کے حق میں فرمایا۔اللھم مذکھم کلّ ممزق۔ الٰہی اُنہیں پھاڑ دے پورا پھاڑنا تھوڑے عرصے میں اُنکی سلطنت تہ و بالا ہو گئی۔ کہئیے اہل فارس کی بربادی کے لیے دعا فرمانے والا کون تھا یہی رحمت مجسّم ﷺ 

حکم بن ابی العاص نے مسخرے پن سے حضور کے رفتار شریف کی نقل کی۔آپ نے ارشاد فرمایا کذالك فكن ایسا تو ہوجا  فوراً اس کے بدن میں  سخت رعشہ ہوگیا کہ ہر وقت کودتا ہی رہتا اور اسی حالت میں واصل جہنّم ہوا۔ فرمائیے کہ وہ کذالك فكن ارشاد کرنے والا کون تھا وہ یہی رحمت والے تھے ﷺ۔ ایک روز عتبہ بن ابی لہب نے یہ کلمات ملعونہ بکے کہ (معاذ اللہ) محمد کے بعد عائشہ سے نکاح کرلےگا۔حضور والا نے فرمایا  الھم سلط علیہ کلباً من کلابك۔اے اللہ اپنے کتوں سے ایک کتا اس عتبہ پر مسلّط فرما۔ عتبہ ایک قافلے کےہمراہ گیا شب کو قافلہ منزل میں ٹھہر کر سو گیا عتبہ قافلے کے بیچ میں سوتا تھا ایک شیر آیا اور سرے سے ایک ایک کو سونگھ سونگھ کر چھوڑتا گیا جب عتبہ کو سونگھا فوراً چیر پھاڑ کر برابر کر دیا۔ ذرا انصاف کیجئے کہ ان کلمات سے عتبہ کے لیے دعائے ہلاک کرنے والا کون تھا یہی سراپا رحمت ہی تو تھے ﷺ۔ اگرچہ ان جیسے واقعات بہت ملیں گے مگر یہاں طوالت کی ضرورت نہیں حیا دارا باانصاف کے لیے اتنا ہی بس ہے ہاں اتنا معلوم ہو گیا کہ کفار اور مدمذہبوں کا رد اور اُن کی اہانت و تذلیل  اور اُن کے لیے دعائے ہدایت اور اُن پر نفرتیں و ملامت اور اُن کے لیے دعائے بربادی  و غارت سب درست ہے۔ کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے یہی سبب ہے کہ روئے زمین پر ہر ملک اور ہر شہر کی ہر مسجد میں ہر جمعہ کو منبر پر حتٰی کہ حرمین طیّبین میں تمام خطیب اپنے خطبوں میں پڑھتے ہیں کہ الھم اھلك الكفرة والمبتدعة والمشركين اے اللہ تمام کافروں اور جملہ بدمذہبوں جیسے وہابی دیوبندی  قادیانی نیچری گاندھوی وغیرہ اور مشرکوں کو ہلاک فرما الھم دمر دیارھم اے اللہ اُن کے گھر ڈھا دے الھم فرق جمعھم اے اللہ اُن کے اجتماع کو متفرق فرما دے اُن کی جماعتوں میں  پھوٹ ڈال دے الھم خرب بلادھم  اے اللہ اُن کے شہروں کو خراب و برباد کردے۔ افسوس ہے کہ معترضین نے کبھی ادھر توجّہ نہ کی کہ خطبۂ جمعہ میں منبر پر وہ بھی ہر جمعہ کو  اور وہ بھی ہر مسجد میں کافروں اور مشرکوں اور تمام بدمذہبوں کو  کوسنا اور ان کے لئے دعائے قہر و عذاب کہاں سے ثابت ہے  خلاصہ یہ کہ  معترضین کا اعتراض تو فی النار و السقر ہو چکا اور اگر توبہ نہ کریں اپنے اسی خیال پر جمے رہیں تو پھر اُن کے لیے بھی وہی ہے کاش  وہ اب بھی توبہ کرلیں  اور کھرے سُنّی بن جائیں۔ والتوفیق  من اللہ سبحانہ تعالیٰ۔

( ملخصاً رسالہ مبارکہ کفیل بخشش حصہ دوم)

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (96)

 رد صلحکیت 

از-خلیفۂ اعلی حضرت ، مداح الحبیب ، حضرت علامہ مولانا مفتی الشاہ محمد جمیل الرحمٰن خانصاحب قبلہ قادری رضوی بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان


حضور پر نور ﷺ کے ان اخلاق کریمانہ و اوصاف رحیمانہ کو پیش کرکے بعض بے عقل جاہل بد مذہب صلح کل اہلسنت پر مونھ مارتے ہیں کہ حضور نے تو کفار کے ساتھ اس قدر تکلیفیں اٹھا کر اتنی زحمتیں برداشت فرما کر بھی یہ کیا اور تم کفار و مشرکین و منافقین و مرتدین کی اہانتیں اور ان کا رد کرتے ہو آہ ان جاہلوں کو کیا معلوم کہ حضور نے جہاں  وہ اخلاق برتے وہاں کفار و منافقین ناہنجار کو ان کے بدکردار کا مزا بھی چکایا انہیں قتل فرمایا۔

منافقین کے گھر جلانے کا حکم دیا اپنی مسجد شریف سے مجمع عام میں نام لےکر اُخْرُجْ یَا فَلَانُ فَاِنَّكَ مُنَافِقٌ فرماکر نہایت خزی و ذلت و رسوائی و فضیحت کے ساتھ نکال دیا اور اَللّٰھُمَّ مَزَّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ  دعائے قہر فرما کر برباد فرمادیا۔

بات یہ ہے کہ حضور نے جو کچھ فرمایا محض اللہ کے لیے فرمایا اپنے نفس شریف کے لیے کچھ نہ کیا اگر ایسی جگہ حضور انہیں قتل فرماتے یا ان کے لیے دعائے قہر و ضرر کرتے تو بد باطنوں کو اِلزام رکھ سکنے کا موقع ہوتا کہ حضور نے اپنے نفس کریم کے لئے یہ کچھ کیا۔ پھر یہ کہ جیسی مصلحت وقت ہوتی حضور مختار کلﷺ ویسا فرماتے کہ آپ دانائے غیوب واقف اسرار مطلوب ہیں آپ پر خوب ظاہر و روشن تھا کہ اس شخص کے لیے ہدایت یوں ہوگی کہ اس کے ساتھ نرمی و ملاطفت برتی جائے تو حضور اس کے ساتھ نرمی و ملاطفت برتتے اور جسے سختی سے ہدایت ہونا خیال فرماتے اس کے ساتھ سختی فرماتے۔ نیز یہ کہ حکیم مطلق عز جلالہ نے بھی مصالح وقت سے احکام نازل فرمائے ابتداءً بجائے دعوت و ارشاد  حق  لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ" پر عمل رہا کفار ناہنجار حبیب و محبوب پر سخت جفائیں کرتے اور حضور صبر و تحمّل فرماتے ادھر سے جو رو جفا تھی ادھر سے عفو و عطا اور یہ سب اُسی کی مرضی سے تھا کہ حضور کو صفح و اعراض درگزر اور روگردانی ہی کا حکم تھا کہ ارشاد ہوا فَاصْفَحِ الصَّفْح الْجَمِیْلَ" یعنی اچھی طرح درگزامر فرماؤ۔ اور فَصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْوَاَعْرِضٔ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ" یعنی ظاہر کرو جس بات کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اور مشرکین سے مونھ پھیر لو۔پھر حضور کو حکم ہوا کہ سمجھانے اور خوبی کے ساتھ دلیل قائم فرمانے سے دین کی طرف بلاؤ اُدْعُ اِلَیٰ سَبِیْلِ رَبِّكَ بِاالْحِکْمَةِ وَلْمَوْعِظَةِالْحَسَنَةِ" یعنی اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحتوں سے بلاؤ پھر حضور کو رب العزة نے اجازت فرمائی کہ تم ابتدا بقتال نہ فرماؤ بلکہ فَاِنْ قَاتَلُوْكُمْ فَقْتُلُوْهُمْ یعنی اگر کفار و مشرکین تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل کرو پھر بعض اوقات ابتدائے قتال کا حکم ہوا ارشاد فرمایا گیا فَاِذَاانْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْهحُرُمُ"فَقْتُلُواالْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوْهُمْ یعنی عزت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو قتل کرو جس طرح تم ان کو پاؤ پھر سب مکانوں اور  سب زمانوں میں مطلقاً ابتدا بقتال کا حکم ہو گیا کہ فرمایا گیا وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٌ لِلّٰه" یعنی ان کفار و مشرکین کو قتل کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور سارا دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے اور فرمایا گیا  وَقَاتَلُو الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمَ الْاٰخِرْ" ان سے لڑو جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے یہاں تک کہ کفار و مشرکین منافقین  سب کے متعلق نہایت تصریح سے حکم فرمایا يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ" اے نبی جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں سے اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آؤ اور اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی بری پھرنے کی جگہ ہے۔ بہرحال پچھلے تمام احکام اوقات معینہ کے لیے رہے  مگر یہ حکم جہاد اگلے احکام کا ناسخ ہوا 

پھر تو نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے کفار و منافقین کے ساتھ سختی کرنے اور ان کے قتل فرمانے  میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جیسا کہ فتوح الشام وغیرہ سے ظاہر ہے یہاں تک کہ کفار و منافقین کے ساتھ سختی اور جہاد کا سلسلہ تابعین اور تبع تابعین ائمہ عظام و فقہائے کرام و سلاطین اسلام میں حسب استطاعت چلا آیا احکم الحاکمین نے قرآنِ مبین میں جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ فرما کر کفار و منافقین پر ہمیشہ کے لیے جہاد کا حکم دیا  اور ہر وقت وہ جہاد مسلمانوں پر فرض رہا اور ہے مگر حسب استطاعت کہ لَايُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْساًاِلِّا وُسْعَهَا" اللہ تعالیٰ کسی کو وسعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔

جہاد کئی قسم ہے اوّل جہاد سیفی یعنی تلوار سے اگر طاقت و استطاعت ہو اور اس کے تمام شرائط پائے جائیں بلا وجود شرائط و استطاعت نام جہاد لینا  قلوب کفار سے جہاد کی ہیبت گرانا اور غریب مسلمانوں کو ہلاکت میں ڈالنا ہے مولی تعالیٰ فرماتا ہے لَاتُلْقُوْا بِاَیديْكُمْ اِلَى التَّهْکلةِ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ مگر زمانہ حال میں فرقہ گاندھویہ کے مصنوعی پانچ سو یا سات سو علماء نے خلافِ قرآن و حدیث بلا وجود شرائط حکومت نصارے کے ساتھ جہاد سیفی کا حکم نکالا علماء اہلِ سنت نے لاکھ سمجھایا اللہ و رسول کے احکام کا ذخیرہ دکھایا فقہائے کرام کا خزانہ پیش فرمایا مگر مشرکین کی سلامی گاندھی کی غلامی نے اُن کو ایسا اندھا بنایا کہ  ارشاداتِ اللہ و رسول کو پس پشت ڈال کر اس خبیث مشرک کو بالقوہ نبی بتایا اور اسکی ناپاک زبان کو بہتر از قرآنِ ٹھہرایا والعیاذبالله تعالٰی آخر تھوڑا وقت نہ گزرا کہ آسمان کا تھوکا خبیثوں کے مونھوں میں آیا چہرے سیاہ ہوئے  خَسِرَالدُّنْيَاوَالْاٰخِرَةِ کے مصداق بنے غریب مسلمانوں کے جانوں اور مالوں بلکہ ایمانوں کو تباہ و برباد کرادیا۔ غرض وہی ہوا جو علماء اہلِ سنت نے بتایا اور فرمایا تھا اور کیونکر اس کے خلاف ہوتا کہ انکا فرمان وہ تھا جو قرآن کریم کا ارشاد ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ"اے ایمان والوں اپنے غیروں سے کسی کو رازدار نہ بناؤ وہ تمہاری بدخواہی میں گئی نہ کرینگے ان کی دلی تمنّا ہے تمھارا مشقت میں پڑھنا دشمنی اُن کے مونهوں سے ظاہر ہو چکی ہےاور وہ جو اُن کے سینے میں دبی ہے  اور بڑی ہے بیشک ہم نے تمہارے سامنے نشانیاں صاف بیان فرمادیں اگر تمہیں عقل ہو تو کفار و  مشرکین کے ساتھ موالات و اتحاد کی ہم کو اصلا اجازت نہیں بلکہ اُن کے ساتھ عداوت و سختی کرنے کا ہم کو حکم قطعی ہے مگر اس وقت جہاد سیفی نہیں کہ اس زمانے میں مسلمانانِ ہند کی استطاعت سے باہر اور اس کے شرائط کا کہیں پتہ نہیں۔ 

دوسری قسم جہاد کی جہاد زبانی و قلمی ہے جو بحمدللہ تعالیٰ جو علمائے سنت و اہلسنت نے کیا اور کر رہے ہے اور کرتے رہیں گے اور یہاں اس زمانے میں یہ قلمی و زبانی جہاد بھی بمنزلہ جہاد سیفی ہے۔ تیسری قسم جہاد قلبی ہے یعنی کفار و مشرکین و منافقین مرتدین کو قلب سے برا جاننا اور اُن کو دل سے مبغوض رکھنا اور اُن کو کفار و بدمذہب سمجھنا۔ اور یہ ایمان کا سب سے  نیچا اور ضعیف درجہ ہے۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : جو تم میں کسی منکر کو دیکھےاُسے چاہیے کہ اُس منکر کو اپنے ہاتھ سے مٹائے  اور اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو   اس پر اپنی زبان سے انکار کرے اور اگر اتنی قوت و طاقت بھی نہ ہو تو اسے دل سے برا جانے اور یہ نہایت کمزور ایمان والا ہے۔ اب انسان اس سے بھی گیا گزرا تو سب سے گیا گزرا اور کمزور اور ضعیف ایمان والوں میں بھی اس کا شمار نہ رہا  حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ مسلمانوں سنو اور خوب غور سے سنو آقائے نامدار مدنی تاجدار سرکار ابد قرار ﷺ جہاں بھر کے مسلمانوں کو حکم فرماتے ہیں ؛کیا فاجر کے ذکر سے بچتے ہو لوگ اسے کیونکر پہچانیں گے فاجر کا ذکر کرو اُن کے حالات و عیوب بیان کرو تاکہ لوگ اس سے بچے اور پرہیز کریں۔فاجر کے متعلق مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا منافقین زمانہ مرتدین وہابیہ نيچریہ روافض قادیانی گاندھویہ  وغیرہا  بدمذہب تو فاجر سے بدرجہا بدرجہا بدتر ہیں لہٰذا  بحکمِ رسول ﷺ تمام مسلامانوں پر ضروری ہوا کہ مساجد و مجالس میں بلکہ ہر جگہ  چند برادران اسلام جمع ہو ان بدمذہبوں مرتدوں کے کُفریات و ضلالات سے ایک دوسرے کو آگاہ خبردار کریں اور کبھی اس سے غافل نہ ہو تاکہ برادان اسلام میں سے کوئی شخص ان بدمذہبوں عياروں مکاروں کے دام فریب میں نہ پھنسے اور بھٹکے ہوئے راہِ حق پر آجائے۔ حدیثِ شریف میں ہے رسولِ پاکﷺ ارشاد فرماتے ہیں،

بیشک عرش کے آس پاس اللہ تعالیٰ کے چھ لاکھ  عالم فرشتوں سے آباد ہیں جن کا کام یہ ہے کہ ابو بکر و عمر کے دشمنوں پر لعنت کیا کرتے ہیں رضى الله تعالى عنهما

شرح مقاصد میں ہے  بیشک بدمذہب کا حکم اُس سے بغض اور اس  کی اہانت ہے بہرحال ثابت ہوا بدمذہبوں کی اہانت اور اُن سے بغض رکھنے کو اور ان کے حالات و عیوب کُفریات و ضلالات بیان کرنے کو  مطلقاً بلا قید  مکان و زمان ہم حکم فرمائے گئے اور یہی سنتِ قدیمہ ہے تو معترض جاہل بدمذہب صلح کل والے کا مونھ کالا ہوا اور بحمدللہ تعالیٰ اہلسنت کا تعمیل حکم حضور و پیروی سنت شفیع  یوالمنشور سے مونھ اجالا ہوا و اللہ الحمد۔

اب میں قدر تفصیل سے زمانہ اقدس کے بعض اُن حالات و واقعات کا مختصراً بیان کروں جن میں حضور رحمت عالمﷺ نے کفار و منافقین کے بربادی و ہلاک کی دعا فرمائی اُنہیں قتل و غارت فرمایا اُن کے خانما برباد فرمائے اُن کے اموال مسلمانوں کو تقسیم ہوئے اُنکی عورتیں بچے باندیاں غلام ٹھہرائے گئے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جنگِ  بدر و حنین و غزاوات بتوک و احد وغیرہ  میں کفار واصل جہنّم کیے گئے کشتوں کے پشتے لگائے گئے نعشیں اُن کی سڑ گئی ٹھوکروں سے ٹھکراکر گڑھوں میں ڈال دی گئیں مال اُنکے لوٹے گئے اُنکی عورتیں باندیاں بنائی گئیں آخر یہ سب کس نے کیا اور کس کے حکم سے ہوا اُنہیں رحمت عالم ﷺ نے کیا اور اُنہیں کے حکم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔

عینی شرح بُخاری میں ہے. 

ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسولِ اللہ ﷺ نے بروز جمعہ خطبہ فرمایا تو اس میں نام لے لے کر ارشاد کیا اے فلاں نکل جا تو منافق ہے اے فلاں نکل جا کہ تو منافق ہے پھر حضور ﷺ نے بہت سے لوگوں کو رسوا و ذلیل کرکے مسجد اقدس سے نکال دیا۔


مولانا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرح شفا میں ہے 

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ جو منافقین نکالے گئے ۳۰۰ مرد اور ایک سو ستر ۱۷۰ عورتیں تھیں ۔


مسلمانوں انصاف کرو کہ ان تین سو مردوں اور ایک سو ستر عورتوں کا جو منافق تھے نام لے کر رسوائی و فضیحت و خواری کے ساتھ اپنی بھری ہوئی مجلس سے نکالنے والا کون تھا  یہی رحمت عالم ﷺ ہی تو تھے۔


ایک منافق مر گیا  فرمایا اُسے زمین قبول نہ کریگی چنانچہ لوگ اُسے بار بار زمین میں دباتے تھے اور ہر بار اس کی نعش خبیث زمین سے باہر آجاتی تھی آخر اسی طرح پڑا چھوڑا جانوروں نے کھا لیا۔ ملاحظہ کیجئے یہ فرمانے والا کہ زمین اُسے قبول نہ کریگی۔کون تھا یہی رحمت عالم ﷺ  تو تھے زمین نے کس کے ارشاد کی تعمیل کی اُنہیں رحمت عالم ﷺ کے ارشاد پاک کی۔ایک شخص مرتد ہوکر مشرکین میں جاملا اس کے لیے بھی یہی فرمایا زمین اُسے قبول نہ کریگی مرگیا تو ایسا ہی ہوا  یہاں بھی وہی بات ہے۔اہل فارس کے حق میں فرمایا۔اللھم مذکھم کلّ ممزق۔ الٰہی اُنہیں پھاڑ دے پورا پھاڑنا تھوڑے عرصے میں اُنکی سلطنت تہ و بالا ہو گئی۔ کہئیے اہل فارس کی بربادی کے لیے دعا فرمانے والا کون تھا یہی رحمت مجسّم ﷺ 

حکم بن ابی العاص نے مسخرے پن سے حضور کے رفتار شریف کی نقل کی۔آپ نے ارشاد فرمایا کذالك فكن ایسا تو ہوجا  فوراً اس کے بدن میں  سخت رعشہ ہوگیا کہ ہر وقت کودتا ہی رہتا اور اسی حالت میں واصل جہنّم ہوا۔ فرمائیے کہ وہ کذالك فكن ارشاد کرنے والا کون تھا وہ یہی رحمت والے تھے ﷺ۔ ایک روز عتبہ بن ابی لہب نے یہ کلمات ملعونہ بکے کہ (معاذ اللہ) محمد کے بعد عائشہ سے نکاح کرلےگا۔حضور والا نے فرمایا  الھم سلط علیہ کلباً من کلابك۔اے اللہ اپنے کتوں سے ایک کتا اس عتبہ پر مسلّط فرما۔ عتبہ ایک قافلے کےہمراہ گیا شب کو قافلہ منزل میں ٹھہر کر سو گیا عتبہ قافلے کے بیچ میں سوتا تھا ایک شیر آیا اور سرے سے ایک ایک کو سونگھ سونگھ کر چھوڑتا گیا جب عتبہ کو سونگھا فوراً چیر پھاڑ کر برابر کر دیا۔ ذرا انصاف کیجئے کہ ان کلمات سے عتبہ کے لیے دعائے ہلاک کرنے والا کون تھا یہی سراپا رحمت ہی تو تھے ﷺ۔ اگرچہ ان جیسے واقعات بہت ملیں گے مگر یہاں طوالت کی ضرورت نہیں حیا دارا باانصاف کے لیے اتنا ہی بس ہے ہاں اتنا معلوم ہو گیا کہ کفار اور مدمذہبوں کا رد اور اُن کی اہانت و تذلیل  اور اُن کے لیے دعائے ہدایت اور اُن پر نفرتیں و ملامت اور اُن کے لیے دعائے بربادی  و غارت سب درست ہے۔ کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے یہی سبب ہے کہ روئے زمین پر ہر ملک اور ہر شہر کی ہر مسجد میں ہر جمعہ کو منبر پر حتٰی کہ حرمین طیّبین میں تمام خطیب اپنے خطبوں میں پڑھتے ہیں کہ الھم اھلك الكفرة والمبتدعة والمشركين اے اللہ تمام کافروں اور جملہ بدمذہبوں جیسے وہابی دیوبندی  قادیانی نیچری گاندھوی وغیرہ اور مشرکوں کو ہلاک فرما الھم دمر دیارھم اے اللہ اُن کے گھر ڈھا دے الھم فرق جمعھم اے اللہ اُن کے اجتماع کو متفرق فرما دے اُن کی جماعتوں میں  پھوٹ ڈال دے الھم خرب بلادھم  اے اللہ اُن کے شہروں کو خراب و برباد کردے۔ افسوس ہے کہ معترضین نے کبھی ادھر توجّہ نہ کی کہ خطبۂ جمعہ میں منبر پر وہ بھی ہر جمعہ کو  اور وہ بھی ہر مسجد میں کافروں اور مشرکوں اور تمام بدمذہبوں کو  کوسنا اور ان کے لئے دعائے قہر و عذاب کہاں سے ثابت ہے  خلاصہ یہ کہ  معترضین کا اعتراض تو فی النار و السقر ہو چکا اور اگر توبہ نہ کریں اپنے اسی خیال پر جمے رہیں تو پھر اُن کے لیے بھی وہی ہے کاش  وہ اب بھی توبہ کرلیں  اور کھرے سُنّی بن جائیں۔ والتوفیق  من اللہ سبحانہ تعالیٰ۔

( ملخصاً رسالہ مبارکہ کفیل بخشش حصہ دوم)

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (95)

 مختصر حالات امام المتکلمین علامہ نقی علی خان قادری رضی المولیٰ عنہ


از- سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رضی المولیٰ عنہ


وہ جناب فضائل مآب تاج العلماء راس الفضلاء حامی سنت ماحئ بدعت بقیۃ السلف حجت الخلف رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ وارضاہ و فی اعلی غرف الجنان بواہ سلخ جمادی الآخرہ یا غرۂ رجب ١٣٤٦ھ قدسیہ کو رونق افزائے دار دنیا ہوئے۔ اپنے والد ماجد حضرت مولائے اعظم جر غطمطم فضائل پناہ عارف باللہ صاحب کمالات باہرہ و کرامات ظاہرہ حضرت مولانا مولوی محمد رضا علی خاں صاحب روح اللہ روحہ و نور ضریحہ سے اکتساب علوم فرمایا۔ بحمد اللہ منصف شریف علم کا یایہ ذردۂ علیا کو پہونچایا۔ راست میگویم و یزداں نہ پسند جزراست کہ جو وقت انظار وحدت افکار و فہم صائب و رائے ثاقب حضرت حق جل و علیٰ نے انہیں عطا فرمائی۔ ان دیار و امصار میں اس کی نظیر نظر نہ آئی فراست صادقہ کی یہ حالت تھی کہ جس معاملہ میں جو کچھ فرمایا وہی ظہور میں آیا۔ عقل معاش و معاد دونوں کا بروجہ کمال اجتماع بہت کم سنا، یہاں آنکھوں دیکھا علاوہ بریں سخاوت و شجاعت و علوہمت و کرم و مروت و صدقات خفیہ و مبّرات جلیہ و بلندی اقبال و دبدبہ و جلال و موالات فقرا اور امر دینی میں عدم مبالات باغنیاء حکام سے عزلت رزق موروث پر قناعت و غیر ذالک فضائل جلیلہ و خصائل جمیلہ کا حال وہی کچھ جانتا ہے جس نے اس جناب کی برکت صحبت سے شرف پایا ہے۔ ایں نہ بحریست کہ درکوزۂ تحریر آید۔ مگر سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ اس ذات گرامی صفات کو خالق عز و جل نے حضرت سلطان رسالت علیہ افضل الصلوۃ و التسلیم کی غلامی و خدمت اور حضور اقدس کے اعدا پر غلظت و شدّت کے لئے بنایا تھا۔ بحمد اللہ ان کے بازوئے ہمت و طنطنۂ صولت نے اس شہر کو فتنۂ مخالفین سے یکسر پاک کردیا کوئی  اتنا نہ رہا کہ سر اٹھائے یا آنکھ ملائے۔ یہاں تک کہ ٢٦ شعبان ۱۲۹۳ھ کو مناظرہ دینی کا عام اعلان مسمّٰی بنام تاریخی اصلاح ذاتِ بین طبع کرایا اور سوا مہر سکوت یا عار فرار و غوغائے جہال و عجز و اضطرار کے کچھ جواب نہ پایا فتنہ شش مثل کا شعلہ کہ مدت سے سر بفلک کشیدہ تھا اور تمام اقطار ہند میں اہل علم اس کے اطفا پر عرق ریز و گرویدہ اس جناب کی ادنٰی توجہ میں بحمد اللہ سارے ہندوستان سے ایسا فرو ہوا کہ جب سے کان ٹھنڈے ہیں اہل فتنہ کا بازار سرد ہے۔ خود اس کے نام سے جلتے ہیں۔ مصطفٰی صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم کی یہ خدمت روز ازل سے اس جناب کیلئے ودیعت تھی۔ جبکہ تفصیل رسالہ  تنبیہ الجہال بالہام الباسط المتعال میں مطبوع ہوئی۔ تصانیف شریفہ اس جناب کی سب علوم دین میں ہیں نافع مسلمین ودافع مفسدین والحمد للہ رب العالمین۔  ازانجملہ الکلام الاوضح فی تفسیر سورۃ الم نشرح  کہ مجلد کبیر ہے علوم کثیرہ پر مشتمل۔ وسیلتہ النجاۃ جس کا موضوع ذکرحالالت  سید کائنات ہے ﷺ مجلدوسیط سرورالقلوب فی ذکر المحبوب کی مطبع نولکشور میں چھپی۔ جواہرالبیان فی اسرارالارکان  جس کی خوبی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ذوق ایں  مے تشناسی بخدا تانہ چشی۔ فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ نے صرف اس کے ڈھائی صفحوں کی شرح میں  ایک رسالہ مسمیٰ بہ زواہرالجنان من جواہرالبیان ملقب بنام تاریخی سلطنتہ المصطفیٰ  فی ملکوت کل الوری تالیف کیا۔اصول الرشاد لقمع  مہاتی الفساد جس میں وہ قواعد ایضاح و اثبات فرمائے جن کے بعد نہیں مگر سنت کو قوت اور بدعت نجدیہ کو موت حسرت ہدایتہ البریہ الی الشریعتہ الا احمدیہ کہ دس فرقوں کا رد ہے۔ یہ کتابیں مطبع صبح صادق سیتاپور میں طبع ہوئیں۔ اذاقة الاثام لمانعى عمل المولود والقيام کہ اپنی شان میں اپنا نظیر نہیں رکھتی اور انشاء اللہ العزیز عنقریب شائع ہوگی۔ فضل العلم و العلماء ایک مختصر رسالہ کہ بریلی میں طبع ہوا۔ازالةالاوہام رد نجدیہ تزکیتہ ایقان رد تقویتہ الایمان کہ یہ عشرۂ کاملہ زمانۂ حضرت مصنف قدس سرہ میں تبيیض پاچکا۔الکواکب الزہراء  فی فضائل العلم و آداب العلماء جس کی تخریج احادیث میں فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ نے رسالہ النجوم الثواقب فی تخریج احادیث الکواکب لکھا۔ الروایتہ فی الاخلاق  النبویہ النقادہ التقویہ فی الخصاںٔص النبویہ، لمعتہ النیراس فی آداب الاکل واللباس و التمکن  فی تحقیق مسائل التزین۔احسن الوعاء الآداب الدعاء خیر المخاطبہ  فی المحا سبتہ و المراقبہ ہدایتہ المشتاق الی سیرالانفس والآفاق۔ارشاد الاحباب الی آداب الاحتساب اجمل الفکر  فی مباحث  الذکر۔عین المشاہدہ لحسن المجاہدہ تشوق الادّاةالی طرق حجۃاللہ۔نہایتہ السعادہ فی تحقیق الہمہ والارادہ۔ اقوی الذریعہ الی تحقیق الطریقۃ و الشریعہ ترویج الارواح  فی تفسیرالانشراح ان پندرہ رسائل مابین و جزيرو وسیط کے مسودات موجود ہیں جن کی تبییض کی فرصت حضرت مصنف قدس سرہ نے نہ پائی فقیر غفراللہ تعالیٰ لہ کا قصد ہے کہ اُنھیں صاف کرکے ایک مجلد میں طبع کرائے۔ انشاء اللہ سبحانہ تعالی کہ حلوا بہ تنہا نہ باليست خورد۔ ان کے سوا اور تصانیف شریفہ کے مسودے بستوں میں ملتے ہیں مگر منتشر جن کے اجزا اول آخر یا وسط سے گم ہیں۔ان کے بارے میں حسرت و مجبوری ہے غرض عمر اس جناب کی ترویج دین و ہدایت مسلمین و نکات اعداء حمایت مصطفیٰ ﷺ میں گزری جزاهُ الله من الاسلام والمسلمين خيراجزاء آمین۔ پنجم جمادی الاولی ۱۲۹۴ ہجری کو مارہرہ مطہرہ میں دست حق پرست حضرت آقائے نعمت دریائے رحمت سید الواصلین سند الکاملین قطب ادانہ وامام  زمانہ حضور پُرنور سیدنا و مرشدنا مولانا وماوانا ذخرتی لیومی و غدی حضرت سیدنا سید شاہ آل رسول احمدی تاجدارِ مسند مارہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ وافاض علینا من برکاتہ ونعماہ پر شرفِ بیعت حاصل فرمایا۔ حضور پیر و مرشد برحق نے مثال خلافت و اجازت جمیع سلاسل و سند حدیث عطا فرمائی۔یہ غلام ناکارہ بھی اسی جلسہ میں اس جناب کے طفیل ان برکات سے شرفیاب ہوا۔ ولحمدللہ رب العالمین ۲۶ شوّال ۱۲۹۵ ہجری کو باوجود شدت علالت و قوت ضعف  خود حضور اقدس ﷺ کے خاص طور پر بلانے سے کہ من رانی فی المنام فقُل رانی عزم زیارت و حج مصمم فرمایا یہ غلام اور چند اصحاب و خدام ہمراہ رکاب تھے۔ ہر چند احباب نے عرض کی کہ یہ حالت ہے آئندہ سال پر ملتوی فرمائیے ارشاد کیا مدینہ طیبہ کے قصد سے قدم دروازہ سے باہر رکھ لوں۔ پھر چاہے روح اسی وقت پرواز کر جائے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ تمام مشاہد میں تندرستوں سے کسی بات میں کمی نہ فرمائی بلکہ وہ مرض ہی خود نبی ﷺ کے ایک آبخورہ میں دوا عطا فرمانے سے کہ من رانی فقد رای الحق حد منع پر نہ رہا۔ وہاں حضرت اجمل العلماء  اکمل الفضلاء حضرت مولانا سید احمد زین دحلان شیخ الحرم وغیرہ علمائے مکہ مکرمہ سے مکرر سند حدیث حاصل فرمائی۔ سلخ ذی القعدہ روز پنجشنبہ وقت ظہر ۱۲۹۷ ہجریہ قدسیہ کی اکیاون برس پانچ مہینے کی عمر میں بعارضۂ اسہال دموی شہادت پاکر شبِ جمعہ اپنے حضرت والد ماجد قدس سرہ کے کنار میں جگہ پائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔


روزِ وصال نمازِ صبح پڑھ لی تھی  اور ہنوز وقت ظہر باقی تھا کہ انتقال فرمایا۔ نزاع میں سب حاضرین نے دیکھا کہ آنکھیں بند کئے متواتر سلام فرماتے تھے جب چند انفاس باقی رہے ہاتھوں کو اعضائے وضو پر یوں پھیرا گویا وضو فرماتے ہیں یہاں تک کہ استنشاق بھی فرمایا  سبحان اللہ۔ وہ اپنے طور پر حالتِ بے ہوشی میں نمازِ ظہر بھی ادا فرماگئے جس وقت روح پر فتوح نے جدائی فرمائی۔فقیر سرہانے حاضر تھا۔واللہ العظیم۔ایک نور ملیح علانیہ نظر آیا کہ سينہ سے اٹھکر برق  تابندہ کی طرح چہرہ پر چمکا اور جس طرح لمعان خورشید آئینہ میں جنبش کرتا ہے۔ یہ حالت ہوکر غائب ہو گیا۔  اس کے ساتھ ہی روح بدن میں نہ تھی  پچھلا کلمہ کہ زبان فیض ترجمان سے نکلا لفظ اللہ تھا و بس اور اخیر تحریر کہ دست مبارک سے ہوئی۔ بِسمِ اللہ الرحمٰن الرحیم تھی کہ انتقال سے دو روز پہلے ایک کاغذ پر لکھی تھی بعدہ فقیر نے حضور پیر و مرشد برحق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رویا میں دیکھا کہ حضرت والد  قدس سرہ الماجد کے مرقد پر تشریف لائے غلام نے عرض کی یہاں کہاں۔  ادلفطا ھذا معناہ فرمایا آج سے یا فرمایا اب  سے ہم یہی رہا کرینگے۔ رحمهما الله تعالى رحمۃ واسعة.

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (94)

 ایمان فی الابوین کریمین پر شاندار استدلال

از- علامہ جلال الدین سیوطی رضی المولیٰ عنہ



پہلا مقدمہ یہ کہ احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہے کہ حُضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول میں سے ہر اصل سیدنا آدم علیہ اسلام سے آپ کے والد ماجد سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ تک اپنے اپنے زمانہ میں سب سے بہتر و افضل رہے ہیں اور ہر ایک کے زمانہ میں کوئی دوسرا ان سے بہتر اور افضل نہ تھا۔


دوسرا مقدمہ یہ کہ احادیث و آثار دلالت کرتی ہیں کے روئے مین پر حضرت نوح یا آدم علیہم السلام  کے عہد سے حُضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ تک ،پھر قیام قیامت تک ہمیشہ کچھ لوگ دین فطرت پر رہے اور رہینگے ،تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے توحید کو مانے  اور نمازیں پڑھیں ،انہیں کی وجہ سے زمین قائم ہے،اور اگر وہ نہ ہوتے ،تو زمین بھی ہلاک ہو جاتی ،اور اس پر رہنے والے بھی ہلاک ہو جاتے۔


جب ان دونوں مقدموں کو ملایا جائے ،تو قطعی طور پر نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد میں سے کوئی بھی مشرک نہ تھا ۔اسلئے کے یہ بات ہر ایک کہ لیے ثابت ہے کہ وہ زمانہ میں سب سے بہتر رہا ہے۔لہٰذا وہ حضرات جو دین فطرت پر رہے ہیں،اگر وہ آپ کے اجداد ہیں؟تو یہی ہماری مراد ہے،اور اگر انکے سوا لوگ ہیں،اور (معاذاللہ) وہ اجداد و آباء شرک پر ہیں؟ تو دو باتوں میں ایک بات ضرور لازم آتی ہے۔(۱)یا تو مشرک مسلمان سے بہتر ہوگا حالانکہ یہ بالاجماع باطل ہے۔(۲) یا یہ کے وہ غیران آباء و اجداد  سے بہتر ہونگے حالانکہ یہ بھی احادیث صحیحہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔لہٰذا قطعی طور پر واجب ہے کہ ان آباء و اجداد میں سے کوئی بھی مشرک نہ ہو ،تاکہ روئے زمین پر ہر زمانہ میں وہی سب سے افضل ہوں۔


پہلے مقدمہ کے دلائل:- امام بخاری نے اپنی صحیح میں سیدنا ابوھریرہ رضی المولیٰ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا کہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہر زمانہ میں بہتر لوگوں میں میں منتقل کیا جاتا رہا یہا نتک کہ مجھے اس زمانے میں مبعوث فرمایا گیا،جس میں میں ہوں۔

اور امام بیہقی نے "دلائل النبوۃ"میں حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیشہ لوگوں کے دو گروہ رہے اللہ تعالی نے مجھے ان میں سے بہتر میں رکھا، پھر مجھے والدین کریمین سے تولد کیا گیا لہذا زمانۂ جاہلیت کی کوئی چیز مجھ تک نہ پہنچی۔اور حضرت آدم علیہ السلام سے اپنے ماں باپ تک نکاح سے منتقل ہوا، اور صفاح (بیحیائی) سے میں منتقل نہیں ہوا۔اس لیے میں اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اور تمہارے والدین کے لحاظ سے بھی تم سب سے بہتر ہوں ۔


اور ابونعیم نے "دلائل النبوۃ" میں متعدد اسناد کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ،انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ہمیشہ اصلاب طاہرہ سے ارحام طیبہ میں پاک و صاف اور مہذب منتقل ہوتا رہا جب بھی دو قبیلے بنے میں ان کے بہتر میں رہا۔


اور امام مسلم و ترمذی نے صحت کے ساتھ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ،کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو برگزیدہ فرمایا،اور اولاد اسماعیل علیہ السلام نے بنی کنانہ کو برگزیدہ کیا، اور بنی کنانہ میں قریش کو برگزیدہ کیا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو برگزیدہ کیا ،اور بنی ہاشم میں سے مجھے برگزیدہ فرمایا ۔


اور حافظ ابوالقاسم حمزہ بن یوسف سہمی نے "فضائل عباس" میں حضرت  واثلہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ان لفظوں کے ساتھ نقل کیا کہ بے شک اللہ تعالی نے اولاد آدم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام  کو برگزیدہ کرکے خلیل بنایا،اور اولادِ ابراہیم میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو برگزیدہ کیا،پھر اولاداسماعیل سے نزار کو برگزیدہ کیا،پھر اولاد نزار سے مضر کو برگزیدہ کیا،پھر  مضر سے کنانہ کو برگزیدہ کیا،پھر کنانہ سے قریش کو برگزیدہ کیا،پھر قریش سے بنی ہاشم کو برگزیدہ کیا،پھر بنی ہاشم سے بنی عبدالمطلب کو برگزیدہ کیا، پھر بنی عبدالمطلب سے مجھے برگزیدہ کیا۔" المحب طبری  نے "ذخائر العقبی"میں سے بیان کیا۔

اور ابن سعد نے اپنے "طبقات" میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے' عرب میں سب سے بہتر مضر ہے،اور مضر  میں بہتر اولاد عبدمناف ہے،اور بنی عبدمناف میں بنی ہاشم ہیں اور بنی ہاشم میں بہتر بنی عبدالمطلب ہیں۔خدا کی قسم جب سے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا دو گروہوں میں سے سب سے بہتر گروہ میں مجھے رکھا ۔

اور طبرانی و بیہقی اور ابونعیم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے ،اللہ تعالیٰ نے خلق پیدا فرمائی، اس میں حضرت آدم علیہ السلام کو پسند فرمایا ،اور اولاد آدم میں اہل عرب کو پسند فرمایا، اور اہل عرب میں مضر کو پسند فرمایا،اور مضر میں قریش کو پسند فرمایا ،اور قریش میں بنی ہاشم کو پسند فرمایا،اور بنی ہاشم میں مجھے پسند فرمایا۔لہذا میں بہتروں سے  بہتروں کی طرف منتقل ہوتا رہا۔

اور ترمذی نے نقل کرکے اسے حسن کہا، اور بیہقی نے بھی حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے جسوقت مجھے پیدا فرمایا، تو مجھے اپنی تمام مخلوق سے بہتر بنایا پھر جب قبیلوں  کو پیدا کیا ،تو مجھے ان کے بہتر قبیلہ میں رکھا،اور جب جانوں کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہتر جانوں میں رکھا ،پھر جب گھروں کو پیدا کیا،تو ان کے بہتر گھروں میں مجھے رکھا۔لہذا میں گھر کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں،اور جانوں کے اعتبار سے بھی بہتر ۔

اور طبرانی و بیہقی اور ابونعیم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا انہوں نے کہا  کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا،اللہ تعالی نے مخلوق کو دو قسموں میں تقسیم کیا اور مجھے ان دونوں کی بہتر قسم میں رکھا ۔پھر ان دونوں قسموں کو تین پر تقسیم کیا

تو مجھے ان تینوں کی بہتر میں رکھا،پھر جب ان تینوں کو قبائل بنایا ، تو مجھے ان کے بہتر قبیلہ میں رکھا،پھر جب قبائل کو گھر یعنی خاندان بنایا،مجھے ان کے بہتر گھر میں رکھا۔

اور ابو علی بن شاذان نے جسے المحب الطبری نے" ذخائرالعقبی " میں اور وہ مسند بزار میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ کچھ قریش کے لوگ صفیہ بنت عبدالمطلب کے گھر میں جمع ہوکر فخر کا اظہار،اور جاہلیت کی باتیں کرنے لگے اس پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو تشریف فرما ہیں۔یہ سن کر انہوں نے (بد گوئی کے انداز )میں کہا "بنجر زمین سے کھجور یا کوئی درخت نمودار ہو گیا ہے۔"پھر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے کیا ، تو آپ جلال میں آ گئے،اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو جمع کریں پھر آپ نے منبر پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا، اے لوگو! میں کون ہوں ؟سب نے عرض کیا ،آپ اللہ کے رسول ہیں۔فرمایا میرا نسب بیان کرو؟ سب نے کہا آپ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں۔"آپ نے فرمایا اس قوم کا کیا حال ہے جو میری اصلیت کی تنقیص و تخفیف کرتے ہیں۔خدا کی قسم میں ان سے اصل میں بھی افضل ہوں،اور جگہ اور مقام کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں۔

اور حاکم نے ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تبلیغ فرمائی،تو لوگوں نے رو گردانی کی اور کہا کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی مثال تو ایسی ہے ،جیسے کہ بنجر زمین میں کھجور کا درخت نمودار ہو جائے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غضب کا اظہار فرمایا ،اور کہا بے شک اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا،پھر اسکے دو فرقے کیے, اور مجھے ان میں سے بہتر فرقے میں کیا۔پھر ان کے قبائل بنائے ،پھر مجھے بہتر قبیلہ  میں کیا ،پھر ان کے خاندان بنائے اور مجھے ان کے بہتر خاندان میں کیا ۔اس کے بعد فرمایا میں تم میں قبیلہ کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں اور تم سے خاندان کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں۔


اور طبری نے " الاوسط " میں اور بیہقی نے "الدلائل" میں سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے جبریل بیان کرتے ہیں کہ میں نے روئے زمین کے تمام مشرق و مغرب کو چھان مارا لیکن میں نے کسی کو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل نہ پایا اور نہ کسی نبی کے باپ کو بنی ہاشم سے افضل پایا۔


حضرت حافظ ابن حجر "امالیہ" میں فرماتے ہیں کہ صحت کی تابانیاں ان امتوں کی پیشانیوں پر ظاہر ہیں اور یہ امربدیہی ہیں کہ افضلیت و اسطفا و برگزیدگی اور پسندیدگی اللہ تعالی کی جانب سے ہیں اور اللہ تعالی کے نزدیک افضلیت شرک کے ساتھ نہیں ہوتی ہے ۔


دوسرے مقدمہ کے دلائل

حضرت عبد الرزاق "المصنف" میں بروایت معمر ازا بن جریح،وہ ابن مسیب سے وہ سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم  نے فرمایا کہ ہر زمانہ میں روئے زمین پر ہمیشہ سات مسلمان یا زیادہ ضرور رہے ہیں اگر وہ نہ ہوتے روئے زمین ہلاک و برباد ہو جاتی اور اس پر رہنے والی بھی نہ رہتے۔اس کی سند شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح ہے۔اس کی مثل اس سے پہلے کسی نے نہیں کہا۔لہٰذا اس کا حکم،مرفوع کے حکم میں ہے۔اور ابن منذر نے اپنی تفسیر میں بروایت دبری (ھو اسحاق بن ابراہیم الدبری) از عبدالرزاق،اس کی تخریج کی۔

اور ابن جریر اپنی تفسیر میں شہر بن حوشب سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا چودہ ۱۴ اشخاص زمین پر ایسے ضرور رہتے ہیں جن کی وجہ سے اہل زمین سے بلائیں دور ہوتی ہیں،اور انہیں برکت ملتی ہے،مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ کہ وہ اپنے زمانے میں تنہا تھے۔


ابن منذر نے اپنی تفسیر میں حضرت قتادہ سے اس آیت کریمہ کے تحت قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ (پ ۱- ع ۴)

ہم نے فرمایا تم سب جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہو۔۔۔۔

نقل کرتے ہیں کہ  قتادہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہمیشہ اولیاء کو موجود رکھا ہے،اور جب سے حضرت آدم علیہ السلام کو اتارا کسی وقت بھی زمین کو شیطان کے لیے خالی نہ رکھا ۔ ہر زمانہ میں زمین میں اولیاء رہے اور اس کی طاعت میں مشغول رہے۔


اور حافظ ابو عمر بن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن قاسم نے  حضرت مالک رضی اللہ عنہما سے روایت کی انہوں نے کہا کہ مجھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث پہنچی ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہمیشہ اپنے ولی کو رکھا جب تک اس میں شیطان کا دخل ہے۔

اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے "الزھد" میں اور حضرت خلال نے کتاب " کرامت الاولیاء" میں شخین کی شرط پر سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کی حدیث نقل کی کہ انہوں نے فرمایا حضرت نوح علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سات ایسے شخصوں کو موجود رکھا،جن کی بدولت اہلِ زمین سے اللہ تعالیٰ نے بلاؤں کو دور فرمایا۔" یہ حدیث بھی حکمِ مرفوع میں ہے۔


اور حضرت ازرقی (یعنی امام ابو الولید محمد بن عبدالکریم ازرقی المتوفی ۲۲۳ ھ) رحمہ اللہ نے "تاریخ مکہ" میں زہیر بن محمد سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا روئے زمین پر سات یا اس سے زیادہ مسلمان ہمیشہ رہے ہیں ،اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور اس کے رہنے والے یقیناً ہلاک ہو جاتے۔

اور جندی نے "فضائل مکہ" میں مجاہد سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا کہ ہمیشہ روئے زمین پر سات یا اس سے زیادہ مسلمان رہے ہیں،اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور اس کے رہنے والے یقیناً ہلاک ہو جاتے۔

اور حضرت امام احمد نے "الزھد" میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا حضرت نوح علیہ السلام کے بعد زمین میں ہمیشہ چودہ ۱۴ شخص رہے ہیں جن کی بدولت عذاب دور ہوتا رہا ہے۔

اور الخلال نے کتاب "کرامات الاولیاء " میں زاذان سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا حضرت نوح علیہ السلام کے بعد زمین بارہ ۱۲ يا زیادہ ایسے افراد سے کبھی خالی نہ رہی جن کی بدولت زمین والوں سے عذاب دور ہوتا رہا۔

اور ابن منذر سند صحیح کے ساتھ اپنی تفسیر میں بہ تحت آیت کریمہ :-

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ   الايه (پ۱۳- ع ۱۸)

اے رب مجھے اور میری کچھ اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔۔۔۔۔۔

حضرت ابن جریح رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا،اس دعا کی وجہ سے اولادِ سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام سے کچھ لوگ ہمیشہ فطرت پر رہے ہیں،اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے۔

مذکورہ اخیر کی تینوں حدیثوں میں "نوح علیہ السلام کے بعد" کی قید وارد ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے تمام انسان ہدایت پر تھے۔

بزار نے اپنی مسند میں،اور ابن جریر،ابن منذر،اور ابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے اپنی اپنی تفسیروں میں ،اور حاکم نے "المستدرک"میں  صحت کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ کے تحت 

کانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَٰحِدَةً 

تمام لوگ ایک امت تھے۔

نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت آدم اور حضرت نوح علیہما السلام کے درمیان دس قرن گزرے،وہ سب شریعت حقہ پر تھے،پھر جب اختلاف رونما ہوا ،تو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو معبوث فرمایا۔


(مسالک الحنفا لابویہ المصطفی صفحہ ٤٧)