رد صلحکیت
از-خلیفۂ اعلی حضرت ، مداح الحبیب ، حضرت علامہ مولانا مفتی الشاہ محمد جمیل الرحمٰن خانصاحب قبلہ قادری رضوی بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان
حضور پر نور ﷺ کے ان اخلاق کریمانہ و اوصاف رحیمانہ کو پیش کرکے بعض بے عقل جاہل بد مذہب صلح کل اہلسنت پر مونھ مارتے ہیں کہ حضور نے تو کفار کے ساتھ اس قدر تکلیفیں اٹھا کر اتنی زحمتیں برداشت فرما کر بھی یہ کیا اور تم کفار و مشرکین و منافقین و مرتدین کی اہانتیں اور ان کا رد کرتے ہو آہ ان جاہلوں کو کیا معلوم کہ حضور نے جہاں وہ اخلاق برتے وہاں کفار و منافقین ناہنجار کو ان کے بدکردار کا مزا بھی چکایا انہیں قتل فرمایا۔
منافقین کے گھر جلانے کا حکم دیا اپنی مسجد شریف سے مجمع عام میں نام لےکر اُخْرُجْ یَا فَلَانُ فَاِنَّكَ مُنَافِقٌ فرماکر نہایت خزی و ذلت و رسوائی و فضیحت کے ساتھ نکال دیا اور اَللّٰھُمَّ مَزَّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ دعائے قہر فرما کر برباد فرمادیا۔
بات یہ ہے کہ حضور نے جو کچھ فرمایا محض اللہ کے لیے فرمایا اپنے نفس شریف کے لیے کچھ نہ کیا اگر ایسی جگہ حضور انہیں قتل فرماتے یا ان کے لیے دعائے قہر و ضرر کرتے تو بد باطنوں کو اِلزام رکھ سکنے کا موقع ہوتا کہ حضور نے اپنے نفس کریم کے لئے یہ کچھ کیا۔ پھر یہ کہ جیسی مصلحت وقت ہوتی حضور مختار کلﷺ ویسا فرماتے کہ آپ دانائے غیوب واقف اسرار مطلوب ہیں آپ پر خوب ظاہر و روشن تھا کہ اس شخص کے لیے ہدایت یوں ہوگی کہ اس کے ساتھ نرمی و ملاطفت برتی جائے تو حضور اس کے ساتھ نرمی و ملاطفت برتتے اور جسے سختی سے ہدایت ہونا خیال فرماتے اس کے ساتھ سختی فرماتے۔ نیز یہ کہ حکیم مطلق عز جلالہ نے بھی مصالح وقت سے احکام نازل فرمائے ابتداءً بجائے دعوت و ارشاد حق لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنٌ" پر عمل رہا کفار ناہنجار حبیب و محبوب پر سخت جفائیں کرتے اور حضور صبر و تحمّل فرماتے ادھر سے جو رو جفا تھی ادھر سے عفو و عطا اور یہ سب اُسی کی مرضی سے تھا کہ حضور کو صفح و اعراض درگزر اور روگردانی ہی کا حکم تھا کہ ارشاد ہوا فَاصْفَحِ الصَّفْح الْجَمِیْلَ" یعنی اچھی طرح درگزامر فرماؤ۔ اور فَصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرْوَاَعْرِضٔ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ" یعنی ظاہر کرو جس بات کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے اور مشرکین سے مونھ پھیر لو۔پھر حضور کو حکم ہوا کہ سمجھانے اور خوبی کے ساتھ دلیل قائم فرمانے سے دین کی طرف بلاؤ اُدْعُ اِلَیٰ سَبِیْلِ رَبِّكَ بِاالْحِکْمَةِ وَلْمَوْعِظَةِالْحَسَنَةِ" یعنی اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحتوں سے بلاؤ پھر حضور کو رب العزة نے اجازت فرمائی کہ تم ابتدا بقتال نہ فرماؤ بلکہ فَاِنْ قَاتَلُوْكُمْ فَقْتُلُوْهُمْ یعنی اگر کفار و مشرکین تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل کرو پھر بعض اوقات ابتدائے قتال کا حکم ہوا ارشاد فرمایا گیا فَاِذَاانْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْهحُرُمُ"فَقْتُلُواالْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوْهُمْ یعنی عزت والے مہینے نکل جائیں تو مشرکوں کو قتل کرو جس طرح تم ان کو پاؤ پھر سب مکانوں اور سب زمانوں میں مطلقاً ابتدا بقتال کا حکم ہو گیا کہ فرمایا گیا وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَ يَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٌ لِلّٰه" یعنی ان کفار و مشرکین کو قتل کرو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور سارا دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے اور فرمایا گیا وَقَاتَلُو الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمَ الْاٰخِرْ" ان سے لڑو جو اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے یہاں تک کہ کفار و مشرکین منافقین سب کے متعلق نہایت تصریح سے حکم فرمایا يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ" اے نبی جہاد فرماؤ کافروں اور منافقوں سے اور اُن کے ساتھ سختی سے پیش آؤ اور اُن کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ کیا ہی بری پھرنے کی جگہ ہے۔ بہرحال پچھلے تمام احکام اوقات معینہ کے لیے رہے مگر یہ حکم جہاد اگلے احکام کا ناسخ ہوا
پھر تو نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے کفار و منافقین کے ساتھ سختی کرنے اور ان کے قتل فرمانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا جیسا کہ فتوح الشام وغیرہ سے ظاہر ہے یہاں تک کہ کفار و منافقین کے ساتھ سختی اور جہاد کا سلسلہ تابعین اور تبع تابعین ائمہ عظام و فقہائے کرام و سلاطین اسلام میں حسب استطاعت چلا آیا احکم الحاکمین نے قرآنِ مبین میں جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ فرما کر کفار و منافقین پر ہمیشہ کے لیے جہاد کا حکم دیا اور ہر وقت وہ جہاد مسلمانوں پر فرض رہا اور ہے مگر حسب استطاعت کہ لَايُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْساًاِلِّا وُسْعَهَا" اللہ تعالیٰ کسی کو وسعت سے زیادہ مکلف نہیں فرماتا۔
جہاد کئی قسم ہے اوّل جہاد سیفی یعنی تلوار سے اگر طاقت و استطاعت ہو اور اس کے تمام شرائط پائے جائیں بلا وجود شرائط و استطاعت نام جہاد لینا قلوب کفار سے جہاد کی ہیبت گرانا اور غریب مسلمانوں کو ہلاکت میں ڈالنا ہے مولی تعالیٰ فرماتا ہے لَاتُلْقُوْا بِاَیديْكُمْ اِلَى التَّهْکلةِ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ مگر زمانہ حال میں فرقہ گاندھویہ کے مصنوعی پانچ سو یا سات سو علماء نے خلافِ قرآن و حدیث بلا وجود شرائط حکومت نصارے کے ساتھ جہاد سیفی کا حکم نکالا علماء اہلِ سنت نے لاکھ سمجھایا اللہ و رسول کے احکام کا ذخیرہ دکھایا فقہائے کرام کا خزانہ پیش فرمایا مگر مشرکین کی سلامی گاندھی کی غلامی نے اُن کو ایسا اندھا بنایا کہ ارشاداتِ اللہ و رسول کو پس پشت ڈال کر اس خبیث مشرک کو بالقوہ نبی بتایا اور اسکی ناپاک زبان کو بہتر از قرآنِ ٹھہرایا والعیاذبالله تعالٰی آخر تھوڑا وقت نہ گزرا کہ آسمان کا تھوکا خبیثوں کے مونھوں میں آیا چہرے سیاہ ہوئے خَسِرَالدُّنْيَاوَالْاٰخِرَةِ کے مصداق بنے غریب مسلمانوں کے جانوں اور مالوں بلکہ ایمانوں کو تباہ و برباد کرادیا۔ غرض وہی ہوا جو علماء اہلِ سنت نے بتایا اور فرمایا تھا اور کیونکر اس کے خلاف ہوتا کہ انکا فرمان وہ تھا جو قرآن کریم کا ارشاد ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ"اے ایمان والوں اپنے غیروں سے کسی کو رازدار نہ بناؤ وہ تمہاری بدخواہی میں گئی نہ کرینگے ان کی دلی تمنّا ہے تمھارا مشقت میں پڑھنا دشمنی اُن کے مونهوں سے ظاہر ہو چکی ہےاور وہ جو اُن کے سینے میں دبی ہے اور بڑی ہے بیشک ہم نے تمہارے سامنے نشانیاں صاف بیان فرمادیں اگر تمہیں عقل ہو تو کفار و مشرکین کے ساتھ موالات و اتحاد کی ہم کو اصلا اجازت نہیں بلکہ اُن کے ساتھ عداوت و سختی کرنے کا ہم کو حکم قطعی ہے مگر اس وقت جہاد سیفی نہیں کہ اس زمانے میں مسلمانانِ ہند کی استطاعت سے باہر اور اس کے شرائط کا کہیں پتہ نہیں۔
دوسری قسم جہاد کی جہاد زبانی و قلمی ہے جو بحمدللہ تعالیٰ جو علمائے سنت و اہلسنت نے کیا اور کر رہے ہے اور کرتے رہیں گے اور یہاں اس زمانے میں یہ قلمی و زبانی جہاد بھی بمنزلہ جہاد سیفی ہے۔ تیسری قسم جہاد قلبی ہے یعنی کفار و مشرکین و منافقین مرتدین کو قلب سے برا جاننا اور اُن کو دل سے مبغوض رکھنا اور اُن کو کفار و بدمذہب سمجھنا۔ اور یہ ایمان کا سب سے نیچا اور ضعیف درجہ ہے۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں : جو تم میں کسی منکر کو دیکھےاُسے چاہیے کہ اُس منکر کو اپنے ہاتھ سے مٹائے اور اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اس پر اپنی زبان سے انکار کرے اور اگر اتنی قوت و طاقت بھی نہ ہو تو اسے دل سے برا جانے اور یہ نہایت کمزور ایمان والا ہے۔ اب انسان اس سے بھی گیا گزرا تو سب سے گیا گزرا اور کمزور اور ضعیف ایمان والوں میں بھی اس کا شمار نہ رہا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ مسلمانوں سنو اور خوب غور سے سنو آقائے نامدار مدنی تاجدار سرکار ابد قرار ﷺ جہاں بھر کے مسلمانوں کو حکم فرماتے ہیں ؛کیا فاجر کے ذکر سے بچتے ہو لوگ اسے کیونکر پہچانیں گے فاجر کا ذکر کرو اُن کے حالات و عیوب بیان کرو تاکہ لوگ اس سے بچے اور پرہیز کریں۔فاجر کے متعلق مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا منافقین زمانہ مرتدین وہابیہ نيچریہ روافض قادیانی گاندھویہ وغیرہا بدمذہب تو فاجر سے بدرجہا بدرجہا بدتر ہیں لہٰذا بحکمِ رسول ﷺ تمام مسلامانوں پر ضروری ہوا کہ مساجد و مجالس میں بلکہ ہر جگہ چند برادران اسلام جمع ہو ان بدمذہبوں مرتدوں کے کُفریات و ضلالات سے ایک دوسرے کو آگاہ خبردار کریں اور کبھی اس سے غافل نہ ہو تاکہ برادان اسلام میں سے کوئی شخص ان بدمذہبوں عياروں مکاروں کے دام فریب میں نہ پھنسے اور بھٹکے ہوئے راہِ حق پر آجائے۔ حدیثِ شریف میں ہے رسولِ پاکﷺ ارشاد فرماتے ہیں،
بیشک عرش کے آس پاس اللہ تعالیٰ کے چھ لاکھ عالم فرشتوں سے آباد ہیں جن کا کام یہ ہے کہ ابو بکر و عمر کے دشمنوں پر لعنت کیا کرتے ہیں رضى الله تعالى عنهما
شرح مقاصد میں ہے بیشک بدمذہب کا حکم اُس سے بغض اور اس کی اہانت ہے بہرحال ثابت ہوا بدمذہبوں کی اہانت اور اُن سے بغض رکھنے کو اور ان کے حالات و عیوب کُفریات و ضلالات بیان کرنے کو مطلقاً بلا قید مکان و زمان ہم حکم فرمائے گئے اور یہی سنتِ قدیمہ ہے تو معترض جاہل بدمذہب صلح کل والے کا مونھ کالا ہوا اور بحمدللہ تعالیٰ اہلسنت کا تعمیل حکم حضور و پیروی سنت شفیع یوالمنشور سے مونھ اجالا ہوا و اللہ الحمد۔
اب میں قدر تفصیل سے زمانہ اقدس کے بعض اُن حالات و واقعات کا مختصراً بیان کروں جن میں حضور رحمت عالمﷺ نے کفار و منافقین کے بربادی و ہلاک کی دعا فرمائی اُنہیں قتل و غارت فرمایا اُن کے خانما برباد فرمائے اُن کے اموال مسلمانوں کو تقسیم ہوئے اُنکی عورتیں بچے باندیاں غلام ٹھہرائے گئے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جنگِ بدر و حنین و غزاوات بتوک و احد وغیرہ میں کفار واصل جہنّم کیے گئے کشتوں کے پشتے لگائے گئے نعشیں اُن کی سڑ گئی ٹھوکروں سے ٹھکراکر گڑھوں میں ڈال دی گئیں مال اُنکے لوٹے گئے اُنکی عورتیں باندیاں بنائی گئیں آخر یہ سب کس نے کیا اور کس کے حکم سے ہوا اُنہیں رحمت عالم ﷺ نے کیا اور اُنہیں کے حکم سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
عینی شرح بُخاری میں ہے.
ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسولِ اللہ ﷺ نے بروز جمعہ خطبہ فرمایا تو اس میں نام لے لے کر ارشاد کیا اے فلاں نکل جا تو منافق ہے اے فلاں نکل جا کہ تو منافق ہے پھر حضور ﷺ نے بہت سے لوگوں کو رسوا و ذلیل کرکے مسجد اقدس سے نکال دیا۔
مولانا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرح شفا میں ہے
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ جو منافقین نکالے گئے ۳۰۰ مرد اور ایک سو ستر ۱۷۰ عورتیں تھیں ۔
مسلمانوں انصاف کرو کہ ان تین سو مردوں اور ایک سو ستر عورتوں کا جو منافق تھے نام لے کر رسوائی و فضیحت و خواری کے ساتھ اپنی بھری ہوئی مجلس سے نکالنے والا کون تھا یہی رحمت عالم ﷺ ہی تو تھے۔
ایک منافق مر گیا فرمایا اُسے زمین قبول نہ کریگی چنانچہ لوگ اُسے بار بار زمین میں دباتے تھے اور ہر بار اس کی نعش خبیث زمین سے باہر آجاتی تھی آخر اسی طرح پڑا چھوڑا جانوروں نے کھا لیا۔ ملاحظہ کیجئے یہ فرمانے والا کہ زمین اُسے قبول نہ کریگی۔کون تھا یہی رحمت عالم ﷺ تو تھے زمین نے کس کے ارشاد کی تعمیل کی اُنہیں رحمت عالم ﷺ کے ارشاد پاک کی۔ایک شخص مرتد ہوکر مشرکین میں جاملا اس کے لیے بھی یہی فرمایا زمین اُسے قبول نہ کریگی مرگیا تو ایسا ہی ہوا یہاں بھی وہی بات ہے۔اہل فارس کے حق میں فرمایا۔اللھم مذکھم کلّ ممزق۔ الٰہی اُنہیں پھاڑ دے پورا پھاڑنا تھوڑے عرصے میں اُنکی سلطنت تہ و بالا ہو گئی۔ کہئیے اہل فارس کی بربادی کے لیے دعا فرمانے والا کون تھا یہی رحمت مجسّم ﷺ
حکم بن ابی العاص نے مسخرے پن سے حضور کے رفتار شریف کی نقل کی۔آپ نے ارشاد فرمایا کذالك فكن ایسا تو ہوجا فوراً اس کے بدن میں سخت رعشہ ہوگیا کہ ہر وقت کودتا ہی رہتا اور اسی حالت میں واصل جہنّم ہوا۔ فرمائیے کہ وہ کذالك فكن ارشاد کرنے والا کون تھا وہ یہی رحمت والے تھے ﷺ۔ ایک روز عتبہ بن ابی لہب نے یہ کلمات ملعونہ بکے کہ (معاذ اللہ) محمد کے بعد عائشہ سے نکاح کرلےگا۔حضور والا نے فرمایا الھم سلط علیہ کلباً من کلابك۔اے اللہ اپنے کتوں سے ایک کتا اس عتبہ پر مسلّط فرما۔ عتبہ ایک قافلے کےہمراہ گیا شب کو قافلہ منزل میں ٹھہر کر سو گیا عتبہ قافلے کے بیچ میں سوتا تھا ایک شیر آیا اور سرے سے ایک ایک کو سونگھ سونگھ کر چھوڑتا گیا جب عتبہ کو سونگھا فوراً چیر پھاڑ کر برابر کر دیا۔ ذرا انصاف کیجئے کہ ان کلمات سے عتبہ کے لیے دعائے ہلاک کرنے والا کون تھا یہی سراپا رحمت ہی تو تھے ﷺ۔ اگرچہ ان جیسے واقعات بہت ملیں گے مگر یہاں طوالت کی ضرورت نہیں حیا دارا باانصاف کے لیے اتنا ہی بس ہے ہاں اتنا معلوم ہو گیا کہ کفار اور مدمذہبوں کا رد اور اُن کی اہانت و تذلیل اور اُن کے لیے دعائے ہدایت اور اُن پر نفرتیں و ملامت اور اُن کے لیے دعائے بربادی و غارت سب درست ہے۔ کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہے یہی سبب ہے کہ روئے زمین پر ہر ملک اور ہر شہر کی ہر مسجد میں ہر جمعہ کو منبر پر حتٰی کہ حرمین طیّبین میں تمام خطیب اپنے خطبوں میں پڑھتے ہیں کہ الھم اھلك الكفرة والمبتدعة والمشركين اے اللہ تمام کافروں اور جملہ بدمذہبوں جیسے وہابی دیوبندی قادیانی نیچری گاندھوی وغیرہ اور مشرکوں کو ہلاک فرما الھم دمر دیارھم اے اللہ اُن کے گھر ڈھا دے الھم فرق جمعھم اے اللہ اُن کے اجتماع کو متفرق فرما دے اُن کی جماعتوں میں پھوٹ ڈال دے الھم خرب بلادھم اے اللہ اُن کے شہروں کو خراب و برباد کردے۔ افسوس ہے کہ معترضین نے کبھی ادھر توجّہ نہ کی کہ خطبۂ جمعہ میں منبر پر وہ بھی ہر جمعہ کو اور وہ بھی ہر مسجد میں کافروں اور مشرکوں اور تمام بدمذہبوں کو کوسنا اور ان کے لئے دعائے قہر و عذاب کہاں سے ثابت ہے خلاصہ یہ کہ معترضین کا اعتراض تو فی النار و السقر ہو چکا اور اگر توبہ نہ کریں اپنے اسی خیال پر جمے رہیں تو پھر اُن کے لیے بھی وہی ہے کاش وہ اب بھی توبہ کرلیں اور کھرے سُنّی بن جائیں۔ والتوفیق من اللہ سبحانہ تعالیٰ۔
( ملخصاً رسالہ مبارکہ کفیل بخشش حصہ دوم)
No comments:
Post a Comment