حضور شیر بیشۂ اہل سنت اپنے خطوط کے آئینے میں(قسط دوم)
از- نبیرۂ مظہر اعلی حضرت محقق عصر علامہ مفتی محمد فاران رضا خان صاحب حشمتی دامت برکاتہم العالیہ
کچھ وہابیہ، دیوبندیہ نجدیہ سن رہے تھے بول پڑے کہ کسی انسان کی یادگار قائم کرنا بت پرستی ہے۔ دوسری قومیں جو کافرومشرک ہیں وہ اگر اپنے پیشواؤں کی یادگاریں قائم کر کے اپنے کفر و شرک کا ثبوت دیں تو موحد مسلمانوں کو ان کی نقالی کرنا کیوں کر جائز ہو سکتا ہے؟ بس اس سیاہ کار سگ بارگاہ رضوی نے فوراً جواب دیا کہ آیئےتشریف رکھیے! غور سے سنئے۔ اسلام سے یادگاروں کو مٹاتے جائیے۔
صفاومروہ، میلین اخضرین، ان کے درمیان سعی ، حضرت سیدنا اسمٰعیل و حضرت سیدتناہاجرہ علیہ وعلیہا الصلاۃ والسلام کی یادگاریں ہیں۔
زمزم شریف حضرت سیدنا ذبیح اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یادگارہے۔
خود کعبہ معظمہ و حجر اسود شریف حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام اور ان سے بھی بیشتر حضرت سیدنا آدم علیہ الصلاۃ و السلام کی یادگاریں ہیں۔
مقام ابراہیم حضرت سیدنا خلیل جلیل علیہ الصلاۃ و السلام کی یادگار ہے۔
وقوف عرفہ حضرت سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام و حضرت خلیل اللہ علیہ الصلاۃ و السلام کی یادگار ہے ۔
رمی جمعرات و قربانی حضرت خلیل اللہ وحضرت ذبیح اللہ علیہما الصلاۃ والسلام کی بلائے مبین و ذبح عظیم کی یادگار ہے۔
طواف میں رمل واضطباع حضور سید الفاتحین صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم کی فتح مکہ معظمہ کی یادگار ہے۔
بلکہ خود نماز معراج شریف میں فرض ہوئی تو یہ بھی حضوراقدس صاحب التاج والمعراج صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم کے معراج شریف کی یادگار قائم کئے ہوئے ہے۔
بلکہ خود قرآن عظیم حضور اقدس منزل علیہ القرآن صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم پر نزول قرآن پاک کی یادگار قائم فرمائے ہوئے ہے۔
تو آپ کے نزدیک اسلام بت پرستیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے صاحب تسلط سلطان ابن سعود کو اس طرف توجہ دلائیے۔ ان یادگاروں کو اسلام سے مٹائیے، اسلام معاذ اللہ بت پرستیوں سے پاک فرمائیے۔
فھبت الذی کفر۔ واللہ لا یھدی القوم الظالمین
جواب نہ دے پایا اور بھاگ کھڑا ہوا۔
پرسوں سہ شنبہ یکم محرم الحرام ١٣٧١ھ کو طواف بعد الصبح کر کے مقام ابراہیم پر نماز واجب الطواف پڑھ کر برنجی جالیوں کو جس کے اندر مقام ابراہیم علیہ الصلاۃ والتسلیم رکھا ہوا ہے بوسہ دینے لگا۔ ایک بگڑ گیا۔ کہنے لگاتقبل الحدید والحجران ھذا شرک عظیم (لو ہے اور پتھر کو تم چومتے ہو یہ بڑا شرک ہے)
میں نے کہا نحن لا نقبل الحدید و الحجر انما نقبل ما لہ النسبۃ الی حضرت سیدنا ابراہیم الخلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام یعنی ہم لوہے پتھر کو نہیں چومتے ہم تواس نسبت کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ و السلام سے حاصل ہے۔
نجدی بولا:او ھذا المقام ھو معبودک؟ کیا یہ مقام ابراہیم ہی تمہارا معبود ہے؟
میں نے کہا:او ھذا الکعبۃ ھی معبودک؟ کیا یہ کعبہ معظمہ ہی تیرا معبود ہے؟
نجدی بولا: معبودی ھواللہ رب الکعبۃ میرا معبود وہ اللہ ہے جو کعبہ کا رب ہے۔
میں نے کہا معبودنا ھو اللہ رب المقام و رب الکعبۃ و رب الابراہیم ہمارا معبود وہ ہے جو مقام ابراہیم کا رب ہے، جو کعبہ کا رب ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رب ہے۔
نجدی بولا: سلم انت علی ھذا المقام تم سلام کرو اس مقام ابراہیم کو۔
میں نے کہا: فسلم انت علی ھذا الکعبۃ تو اس کعبہ کو سلام کر!
نجدی بولا: تقبل غیر الکعبۃ شرک کعبہ کے سوا کسی کو بوسہ دینا شرک ہے۔
میں نے کہا: فالتقبیل عندکم عبادۃ خاصۃ للمعبود لا تجوز ان تکون غیر المعبود فثبت ان الکعبۃ المعظمۃ معبودکم تو چومنا تم وہابیوں کے نزدیک معبود کی عبادت خاص ہوئی کہ غیر معبود کے لئے جائز نہیں تو ثابت ہوا کہ کعبہ معظمہ ہی تم نجدیوں وہابیوں کا معبود ہے؟
نجدی بولا: لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
میں نے کہا: لا حول ولا قوۃ اللہ باللہ پھر میں نے کہا اسمع کلامی ھل یجوز تقبیل غلاف الکعبتہ الشریفتہ۔میری بات سن کیا کعبہ معظمہ کے غلاف کو چومنا جائز ہے؟
نجدی بولا:نعم ہاں جائز ہے۔
میں نے کہا:(اختصار کے پیش نظر عربی عبارتوں کو نقل نہیں کیا گیا) یعنی دیکھ! کہ غلاف کعبہ کیا چیز ہے وہ روئی وریشم ہے کہ دونوں دھنکے گئے پھر بنے گئے پھر سئیے گئے تو غلاف ہوگیا پھر وہ کعبہ مکرمہ پر ڈالا گیا تو کعبہ معظمہ کی مجاورت سے اس غلاف کو عظمت و بزرگی حاصل ہوئی اور اس کے بعد اس غلاف کو چومنا بھی جائز ہوا تو تعظیم اس نسبت کے لئے ہے جو اس غلاف کو کعبہ مقدسہ سے حاصل ہوئی اور کعبہ خود ایک گھر ہے جس کو حضرت سیدناخلیل علیہ الصلاۃ والسلام نے طائفین وعاکفین وراکعین وساجدین کے لئے بنایا اوریہ مقام جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کعبہ مشرفہ بنانے کے لئے تشریف فرما ہوئے تو ان دونوں کعبہ اور مقام ابراہیم کو حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سے نسبت حاصل ہوئی۔ اور ہم خوب یقین سے جانتے ہیں کہ حجر اسود شریف جنت کے یاقوت میں سے ایک یاقوت ہے نہ کوئی نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان مگر اللہ تعالی کے حکم سے۔
اور ہم حجر اسود کو بوسہ دیتے اور چومتے ہیں کیونکہ ہم کو علم ہے کہ یقیناً حضور سیدنا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس کو بوسہ دیا ہے اور اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ تو اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اس مقام کے لئے بھی اللہ تعالی کے نزدیک شرف و عظمت و بزرگی ہے اور اس کی تعظیم اور اس کو چومنا بھی اللہ تعالی کی عبادت ہے جس طرح حجر اسود کو چومنا اللہ کی عبادت ہے۔ نجدی اس کا کچھ جواب نہیں دے سکا۔
کچھ مصری یمنی حضرات جمع ہوگئے تھے۔ٹوٹی پھوٹی عربی زبان میں میری گفتگو کو سمجھ رہے تھے۔ مرحبامرحبا اور کلمات تحسین کہتے ہوئے مجھ کو اس مجمع سے نکال لائے۔
مسجد سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی زیارت کے لئے حاضر ہوا لیکن افسوس کہ اس کا دروازہ اقدس پتھر چونے سے تیغا کیا ہوا پایا۔ اندر حاضری سے محروم رہا۔ وہاں سے مقام شق القمر کی زیارت کے لئے جانے لگا۔نجدی عسکریوں نے روکا کہنے لگے یہ شرک ہے،شرک ہے، شرک ہے۔یہ پتھر جنہیں تم لوگ چوم ر ہے ہو۔ یہی بت ہیں۔
میں نے کہا: یعنی ہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے موحد ہیں نہ ہم کسی چیز کو اللہ تعالی کا شریک مانتے ہیں اور نہ ہم اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پوجتے ہیں۔ صرف اسی پر عقیدہ رکھتے ہیں ایک طرف ہو کر ۔ہمارا ارادہ یہ ہے کہ وہاں جائیں اور اس مقدس مقام کی زیارت کریں جہاں تشریف فرما ہو کر حضور اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے چاند کے ٹکڑے کئے۔وہاں کی زیارت کر کے واپس آجائیں۔ جب بہت کچھ ان سے کہا تو کہنے لگے بخشش بخشش میں نے کہا نعطیکم البخشش: ہم تم کوبخشش دیں گے۔ کہنے لگے ہر شخص کی طرف سے ایک ایک ریال۔اب میں نے کہا ھل یجوز عندکم الشرک بریال واحد۔ الریال الواحد قیمت الشرک و ثمنہ لدیکم یکون الشرک مباحا ھکذا مذھبکم و ھذا ھوا دینکم فلعنۃ اللہ تعالی شرکم و علی شرککم کیا تمہارے نزدیک ایک ریال میں شرک جائز ہے یہ ایک ایک ریال شرک کی قیمت ہے اور اس کا ثمن تمہارے دھرم میں ایک ریال ہے کہ وہ مل جائے تو شرک مباح ہوجائے۔ ایسا گھنونا تمہارا مذہب ہے اور یہ تمہارا دھرم ہے اللہ تعالی کی لعنت ہو تمہارے شروفتنہ پر اور تمہارے شرک پر۔
وہ نجدی مار پیٹ پر آمادہ ہوگئے۔جو برادران اہلسنت سلمہم ربہم ہمراہ آئے تھے مجھ کو زبردستی وہاں سے ہٹا لائے۔
طواف سے فارغ ہو کر ایک دکان پر باب العمرہ میں ٹھہرے۔ وہاں سے روغن زیتون لینا تھا میرے منھ سے حسب عادت یا رسول اللہ نکلا۔ تین وہابی دکان کے آگے کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ چلانے لگے یہ شرک ہے یا اللہ کہو یا رسول اللہ مت کہو۔ میں نے کہا: ہم یا اللہ بھی کہتے ہیں اور ہم یا رسول اللہ بھی کہتے ہیں یہ دونوں ندائیں ہمارا دین اور ہمارا ایمان ہیں۔
اللہ تعالی ہی دینے والا اور دولت مند بنانے والا ہے اور ہمارے حضور سرورانبیاء صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم اللّٰہ تعالیٰ کے حضور دونوں جہان میں ہمارے وسیلہ ہیں اور یقینا اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کے حضور وسیلہ تلاش کرو تو ہم یا رسول اللہ کہتے ہیں اور اپنے رب کے حضور وسیلہ چاہتے ہیں۔
ان تین میں کا ایک بولا۔تم نے وسیلہ کے معنی نہیں سمجھے اور وسیلہ کوئی مخلوق نہیں جس سے چاہا جائے وسیلہ تو یہی نیک اعمال ہیں۔ نماز ،صبر اور روزہ اور زکوٰۃ اور حج وغیرہ ہا عبادات و طاعات سے۔
میں نے کہا: نیک اعمال سب اعراض ہی ہیں اور یہ تمام افعال صالحہ اللّٰہ تعالی کے نیک بندوں کی ذوات مقدسہ کے ساتھ قائم ہیں اور ان ہی کی ذوات مبارکہ سے اللہ تعالی کی تخلیق اور ان کے کسب سے صادر ہوتے ہیں تو جب صالحین نیکوکاروں کے افعال اللہ تعالی کی بارگاہ قدس میں وسیلہ ہیں تو ذوات صالحین کیونکر اللہ کے دربار میں وسیلہ نہ ہوں گے! اور یقینا اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ وہ مقبول بندے جنہیں یہ کافر پوجتے ہیں وہ آپ ہی اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں ان میں کون زیادہ مقرب ہے اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ اور نیک عملوں پر ہرگز یہ اطلاق نہیں کیا جاتا کہ ان میں سے کون سا زیادہ قریب ہے اور مرجع ضمیر جمع غائب کا اس آیت کریمہ میں صرف حضرات انبیائے کرام وملائیکہ عظام علیہم الصلاۃ والسلام ہیں تو ان حضرات کرام میں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم کے سوا کون اقرب ہے اللہ تعالی کے حضور میں اور حضور والا ہی حضرات انبیائے کرام اور ملائکہ علیہم الصلاۃ والسلام کے وسیلہ ہیں اللہ تعالی کے حضور میں بس ہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے تمام آیات قرآنیہ پر ایمان رکھتے ہیں اور ہم کہتے ہیں یا اللہ اور ہم کہتے ہیں یا رسول اللہ۔
کہنے لگے الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہو۔
میں نے کہا ۔ کہ ہم الصلٰوۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلیٰ آلک یا رسول اللّٰہ بھی کہتے ہیں اور المدد یا رسول اللہ بھی کہتے ہیں اور الغیاث یا رسول اللّٰہ بھی کہتے ہیں اور المستغاث یا رسول اللّٰہ بھی کہتے ہیں اور یوں بھی کہتے ہیں کہ یا رسول اللّٰہ آپ سے شفاعت کے طلب گار ہیں۔
لاجواب ہو کر خبثاء شور مچانے لگے۔
حضور مظہر اعلی حضرت شیر بیشہ سنت کی خداداد صلاحیت، شوکت و عظمت، مثل ذوالفقار حیدری دشمنان خداورسول جل جلالہ وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر شدت وغلظت اور ان سب کی بنا پر چہار دانگ عالم میں شہرت اغیار تو اغیار کچھ اپنوں میں بھی حسد کی وجہ بنی۔ یہی سبب ہے کہ آپ کو بہت القابات کے ساتھ ایک لقب " محسود المعاصرین" سے بھی یاد کیا گیا۔اپنوں کا حسد وہ شئے ہے جس کا انسان چاہ کر بھی مقابلہ نہیں کر پاتا۔ اور اس کا وجود مختلف اجزا میں بکھر جاتا ہے۔ آپ نے کبھی اپنوں کی طعن و تشنیع کا جواب نہ دیا۔ بلکہ ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:
فقیر کے شاگرد فقیر کے مسترشد سلمہم ربہم فقیر کو جو کچھ بھی برا کہیں فقیر تو اپنے آپ کو خوب جانتا ہے کہ فقیر اس سب سے بھی زیادہ برا
ہے۔فقیر ان سب بدگوئیوں کوخلوص قلب کے ساتھ قطعاً معاف کرتا ہے۔ تم سب لوگ بھی ان باتوں کی کچھ پرواہ ہرگزنہ کرو۔
موقع کے لحاظ سے مناسب ہے کہ اس مقام پر حضور محدث اعظم ہند سید محمد صاحب قبلہ اشرفی جیلانی علیہ الرحمتہ والرضوان کا قول نقل کیا جائے۔ آپ فرماتے ہیں:
"مولینا(حضور شیر بیشہ سنت) کا دوسرا پہلویہ ہے کہ ان کو محسن کشوں سے بڑا ساتھ پڑتارہا، مگر صلابت ایمانی کا جبل شامخ اور صبر و رضا کا یہ کوہ گراں کبھی نہ اس سے گھبرایا اور سلف صالحین کا اسوۂ حسنہ بنارہا۔"
اور دوسرے خط میں حضور شیر بیشہ سنت فرماتے ہیں:
"کسی سنی کو مخالف نہ بناؤ۔ نہ کسی مخالف کی مخالفت کا جو سنی ہو مقابلہ کرو بس خدمات سنیت و رضویت کو ہی اپنا نصب العین رکھو۔ خداورسول جل جلالہ و صلی المولی تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم کو غوث پاک و اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہما اپنے فضل و کرم وعون وامداد کے ساتھ دارین میں ہمیشہ ہمارے اور تمہارے ساتھ رہیں گے۔ آمین۔
یہی وجہ ہے کہ شہزادہ حضور محدث اعظم ہند حضرت علامہ سیدمدنی میاں صاحب قبلہ کچھوچھوی دامت فیوضہم المبارکہ یوں نغمہ سرا ہوئے۔
حشمت دین متین دانائے کیف و کم ہوا
پاسبان حق ہوا اسرار کا محرم ہوا
دشمنوں پہ بن کے چمکاذوالفقارحیدری
اور جب اپنوں میں پہنچا پیار کی شبنم ہوا
اور اگر اسی شبنم محبت کو مزید دیکھنا ہے تو حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کے ان جملوں کو دیکھو۔ خود ہی پکار اٹھو گے ع "خدا جانے کہ کتنی خوبیاں تھیں پاک ہستی میں"
جہاں حضرت شیر بیشۂ اہلسنت مظہر اعلیٰ حضرت اشداء علی الکفار کے رنگ میں مشہور تھے وہیں رحماء بینھم کا یہ حال تھا کہ فقیر ایسے ناکارہ پر اتنی رحمت اور اتنی ذرہ نوازی فرمائی"
حضور مظہر اعلیٰ حضرت شیر بیشۂ سنت کی ذات مرجع العلماء و العوام تھی۔ جس کا اندازہ آپ کو فتاویٰ حشمتیہ کے مطالعہ کے بعد خوب خوب ہو جائےگا۔ آپ کی مصروفیات اس قدر تھیں جس کا تجزیہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ چھ چھ ماہ تبلیغ دین حق کی بنا پر گھر سے باہر رہا کر تے تھے۔ اور رنگون وبرما میں وہابیوں کے مولوی عبدالشکور کاکوروی کے فتنے کو دفع کرنے کے لئے مسلسل دو سال سے زائد احقاق حق و ابطال باطل فرما کر واپس ہوئے تھے۔محض ٦١ سالہ زندگی میں ٢ سال شب وروز مسلسل گھر کو چھوڑ کر تبلیغ دین کرنا اسی فکر کا عندیہ تھا۔
پس مردن ہے وعدۂ دیدار
شوق جینے کا کیا کرے کوئی
ایک خط میں اپنی مصروفیات کا یوں ذکر کرتے ہیں:
عزیزی علمبردار سنیت سلمہ ربہ کا ایک طویل و مبسوط خط ساڑھے نو صفحے کا وصول ہوا۔ مجھ جیساکاہل و کمزور وسست و بے فرصت شخص استفتاؤں کے جوابات لکھے یا بدمدمذہبوں بے دینوں کی خباثتوں کا رد کرے یا ضروری خطوط کے جوابات دے یا اپنے شاگردوں مسترشدوں کی ان عنایات کا تحریری شکریہ بجالائے۔بس حضور غوثِ اعظم رضی المولی تعالی عنہ کی سرکار میں وہی عرض کرتا ہوں جو حضور اعلیٰ حضرت رضی المولی تعالیٰ عنہ نے عرض کیا
تو قوت دے میں تنہا کام بسیار
بدن کمزور دل کاہل ہے یا غوث
گھر بار بچوں سے قربت کتنی میسر آتی تھی اس خط سے اندازہ کیجئے:
"عکسری رضا شفاہ ربہ تعالیٰ کو اس وقت بھی شدید بخار ہے۔ یہ بچہ مجھ سے مانوس بھی بہت زیادہ ہے۔ وہابیہ دیوبندیہ خذلھم الواحد القہار نے مجھ پر فیض آباد کچہری میں دفعہ ١٥٣الف دفعہ ٢٩٨ و دفعہ ٥٠٠ کے تحت جو استغاثہ دائر کیا ہے اس کی پیشی سہ شنبہ سوم ذی الحجتہ الحرام ١٣٦٥ مطابق ٢٩ اکتوبر ١٩٤٦ کو مقرر ہے مجبوری ہے ان کو اور سب اہل وعیال سلمہم ربہم کو خدا و رسول جل جلالہ وصلی المولی تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم و حضور سیدنا الغوث الا اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے لطف و کرم و فضل کے سپرد کر کے آج کا دن گزر کر شب کے بارہ بجے کی گاڑی پر بعونہ تعالیٰ و بعون حبیبہ صلی المولی تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم فیض آباد جا رہا ہوں و حسبناربناو نعم الوکیل۔"۔
ایک جانب وقتاً فوقتاً کتب ورسائل کی تالیف و تصنیف و استفتاؤں کے جوابات تو دوسری سمت ہندوستان بھر میں جلسوں جلوسوں اور مناظروں میں وہابیہ دیابنہ کفار پر عتاب پھر کچہریوں میں وہابیہ کی جانب سے دائر مقدمات پر گہری نظر ہے۔ تو مسلمانوں کے فلاح و بہبود کی بھی فکر ہے۔ یہ وہ چند گوشے ہیں جن میں ہر ایک پر اگر سو ڈیڑھ سو سے زائد علماء کو لگایا جائے تو شاید اس کاعشر
عشیرنہ ہو پائے جو تنہا حضور مظہر اعلی حضرت شیر بیشۂ اہلسنت کر گئے۔ باوجود اس کے کہ یہ گوشے حضور شیر بیشۂ اہلسنت کی پوری زندگی کو محیط نہیں بلکہ ان کے علاؤہ بھی آپ بہت سے دینی، مسلکی اور ملی امور میں سرگرم عمل رہے ہیں۔
امام عشق و محبّت سیدنا سرکار اعلی حضرت قدس سرہُ سےاکتساب فیض کرنے والوں میں بہت سے وہ لوگ بھی ہیں جو بعد فراغت یا جوانی کی عمر میں آئے مگر حضور شیربیشۂ اہلسنت زمانہ طالب علمی بچپنے کے دور سے ہی آپ کی قربت و صحبت میں رہے۔ ظاہر ہے گل سے قربت جتنی زائد ہو خوشبو اتنی ہی زیادہ حلول کرے گی۔ بقول حضرت شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمۃ والرضوان
بگفتا من گلے نا چیز بودم
ولیکن مدتے باگل نشستم
جمال ہمنشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
اس اعتبار سے حضور شیر بیشۂ اہلسنت مظہر اعلیٰ حضرت کی ذات بابرکات فضل و کمال میں ممتاز و منفرد نظر آ تی ہے۔ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
حضور مظہر اعلی حضرت شیر بیشۂ اہل سنت فنافی الشیخ کی اس اعلی منزل پر فائز تھے جس کی نظر آپ کو محبوب الہی حضور خواجہ نظام الدین اولیاء رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں حضرت امیر خسرو کی شکل میں نظر آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ بارگاہ اعلی حضرت سے ہزار ہاانعامات خسروانہ واکرامات شاہانہ و ناز برداریوں سے مستفیض و مستفید ہوتے رہے۔
آپ کی ان عظیم قربانیوں اور احقاق حق وابطال باطل اور دین و سنیت پر مرمٹنے کے جذبۂ صادقہ کے پیش نظر اکابر واعاظم اہل سنت نے مظہر اعلیٰ حضرت ونمونہ شدت حضرت عمر( رضی اللہ عنہ) واعلی حضرت (قدس سرہُ) وغیرہ ہما جیسے مبارک القابات سے سرفراز فرمایا۔
آپ کو امام اہل سنت اعلی حضرت قبلہ نے محض ١٩ سال کی عمر میں اپنا جانشین و خلیفہ بنا کر ہلدوانی میں اشرف علی تھانوی کے خلیفہ یاسین خام سرائی سے مقابلہ و مناظرہ کے لئے رخصت فرمایا، تو کہیں، "ولد مرافق وغلیظ المنافق" جیسے القابات کے ساتھ مشرف فرمایا، کہیں اپنا رفیق سفر بنایا۔
انہیں عنایات و نواز شات خسروانہ اور تبلیغ عارفانہ کی بنا پر حضور مفتی اعظم ہند جیسی عظیم المرتبت شخصیت نے بھی خود اپنے مبارک قلم سے آپ کو "مظہر اعلیٰ حضرت" لکھ کرقیامت تک کے تمام حاسدین و معاندین کے منہ میں پتھر دے دیا کہ اے جاہلو! تم اس شیر حق کی عظمت و رفعت کو کیا سمجھو، یہ تمہاری محرومی ہے کہ تم نہ سمجھے، تو نا سمجھوں سے نہ سمجھو۔ ہم جیسے عارفان حق سے سمجھو کہ وہ شیر بیشۂ سنت ہیں، وہ مظہر اعلی حضرت ہیں۔
میرے والد ماجد شہزادہ شیر بیشۂ مفتی اعظم شہر پیلی بھیت شریف حضرت علامہ مولینا مفتی محمد معصوم الرضاخاں صاحب قبلہ مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ حضور شیر بیشۂ سنت نے اپنی زندگی کے آخری عرس رضوی کے موقع پر سخت علیل اور صاحب فراش ہونے کے باوجود اپنے تمام صاحبزادگان کے ہمراہ عرس رضوی میں شرکت کے لئے بریلی شریف جانے کا ارادہ فرمایا۔تو عزیز واقارب وحضرت کے معالجین نے منع کیا کہ آپ کی نقاہت وعلالت کسی طرح سفر کی اجازت نہیں دیتی حضرت نے نمناک آنکھوں کے ساتھ فرمایا نہیں معلوم کہ اب زندگی کے کتنے دن اور باقی ہیں کم از کم اپنی زندگی میں اپنے بچوں کو اپنے مرشد برحق کے آستانہ کی زیارت کرادوں۔ والد صاحب قبلہ فرماتے ہیں بارگاہ اعلی حضرت میں ہم لوگ اس طرح حاضر ہوئے کہ دو لوگ حضرت کو دائیں و بائیں سے پکڑے رہتے اور ہم لوگ حضرت کی انگلیاں پکڑے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ اور پھر صفر المظفر کے بعد وصال سے چار ماہ قبل رمضان المبارک میں بار بار یہی فرماتے تھے کہ اب تو بس یہی تمنا ہے کہ کسی طرح مدینہ طیبہ پہنچ جاؤں،وہاں کی خاک سے شفا حاصل کرآؤں۔ اسی تمنا کی تکمیل کے لئے حضور محبوب ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کو سفر کے اخراجات وضروریات کے تعلق سے یہ خط تحریر فرمایا:
"تکیوں سے ٹیک لگا کر یہ خط بمشکل یہ دعانامہ لکھ رہا ہوں۔ دیوار یا کسی آدمی کا سہارا لے کر نماز کے فرائض وواجبات ادا کرتا ہوں،کمزوری بہت بڑھ گئی ہے۔ حکیم (سید ایوب علی) صاحب شاید پندرہ شوال تک آسکیں۔ تفصیل کرکے لکھوکہ ہوائی جہاز سے اگر حاضری سرکار حرمین طیبین بعونہ تعالیٰ وبعون حبیبہ صلی المولی تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم ارادہ ہو جائے، تو زیادہ سے زیادہ کتنے مصارف ہوں گے اور کم از کم کس تاریخ تک بمبئی پہنچنا ضروری ہوگا کہ پاسپورٹ اور انجکشن اور ٹیکے کے مراحل بھی وہیں بآسانی ہو جائیں یا کوئی صاحب طے
کرادیں۔ کیا کروں۔اب تو یہ تمنا ہے:
وہ سنگ در ہو اور یہ سر ہواور وہ سنگ در
رضا وہ بھی اگر چاہیں تو اب دل میں یہ ٹھانی ہے
وہاں کا جینا تو جینا ہے، اور اسلام وسنیت پر وہاں مرا تو ایسی نعمت ہے، جس پر ہزاروں زندگیاں قربان، رزقنا المولی تعالیٰ ھذہ النعمۃ الکبری بحرمۃ حبیبہ صلی المولی تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
دوسری طرف حضرت مولینا ملک نیاز احمد صاحب علیہ الرحمہ
(داماد حضور شیر بیشۂ سنت )کو یہ تحریر فرماتے ہیں:
ارادہ تھا کہ پانچ ہزار روپیے قرض حسن مل جائیں تو بحری جہازوں کی سیٹیں سب پر ہو چکی ہیں مگر ایک تیماردار مددگار کو ہمراہ لے کر ہوائی جہاز سے حاضر سرکار ہو جاؤں۔مکہ معظمہ میں بیر زمزم شریف کا اور سرکارِ اعظم مدینہ طیبہ نبی اکرم صلی المولی تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم میں بیر حاء شریف کا مبارک پانی خوب پی پی کر وہاں کی مبارک ہواؤں وہاں کی مقدس خاک سے بعونہ تعالیٰ و بعون حبیبہ صلی المولی تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم بہت ہی جلد شفائے تام کامل حاصل کروں،پھر یہاں واپس ہو کر جس قدر بھی جلد سے جلد ہو سکے بفضلہ تعالیٰ وبکرم حبیبہ صلی المولی تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم قرض حسن ادا کروں۔ مگرع.......... "اے بسا آرزو کہ خاک شدہ"
افسوس کہ سید صاحب سلمہ ربہ کو میری شامت معاصی کے سب پانچ ہزار روپے وصول کرنے میں کامیابی نہ ہو سکی۔ اور میں اس شرف سے محروم رہ گیا۔ انا للمولی سبحانہ وتعالی وانا الیہ راجعون۔آہ
جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں
حسرت آتی ہے یہ پہنچا، میں رہا جاتا ہوں
افسوس
قافلے نے سوئے طیبہ کمر آرائی کی
مشکل آساں الہی میر تنہائی کی
صدآہ
پر نہیں جو اڑ کرآؤں یا نبی
زر نہیں جس کو اڑاؤں یا نبی
صلی المولی تبارک وتعالیٰ علیک وعلی آلک واصحابک وابنک الغوث الاعظم واحزابک وبارک وسلم۔
والد صاحب قبلہ بتاتے ہیں کہ جب کہیں سے انتظام نہ ہو سکا تو حضور مشاہد ملت علیہ الرحمۃ الرضوان سے فرمانے لگے کہ بھیا زمین اور جائدادبیچ دو چلو اب مدینہ طیبہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں ہی زندگی کے باقی ایام گزاریں گے، وہی جئیں گے اور وہیں موت کا مزہ چکھ کر اس اصل زندگی سے مل جائیں گے جس پر ہزاروں زندگیاں رشک کریں۔حضور مشاہد ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا "حضرت اور یہ جو آپ کا اتنا عظیم کتب خانہ ہے اس کا کیا ہوگا؟" فرمایا کتابیں علماء میں تقسیم کر دوپھر کچھ یاد آتے ہی تڑپ کر معا فرمایا مگر میرے مرشد برحق امام اہل سنت اعلی حضرت قدس سرہُ کی کتابیں ساتھ رکھ لینا کہ اس میں سب مل جائے گا۔ اتنا فرما کر زار و قطار رونے لگے۔
جامی روداز چشم ما جلوہ نما بہر خدا
جان و دلم ہر دوفدا جاناں توئی جاناں توئی
اور پھر ٨محرم الحرام ١٣٨٠ھ علی الصبح حضور مشاہد ملت کو طلب فرما کر ارشاد فرمایا کہ میرے بعد باقی بچوں کو دین ہی کا خادم بنانا،میرے وصال کے بعد دنیائے وہابیت و دیوبندیت یہ کہنے نہ پائے کہ ایک رضاکا شیر تھا چلا گیا بلکہ کہے کہ ایک گیا تو چھ کو ہم پر مسلط کر گیا۔ اور بہت سی وصیتیں ونصیحتیں کرنے کے بعد آنکھیں بند کر کے خاموشی اختیار فرمائی۔ مگر ہونٹ بدستور ہل رہے تھے۔ حضور مشاہد ملت نے لبوں کے پاس کان کئے تو یسین شریف تلاوت فرما رہے تھے۔ ایک عجیب سماں تھا جس کو بیان کرنے سے زبان و قلم قاصر ہیں۔قریب١٠ بج کر ٢٠ منٹ پر لبوں کی حرکت یکسر موقوف ہوگئی۔شایدوہ یسین شریف کی تکمیل کا وقت تھا۔ حضور مشاہد ملت علیہ الرحمۃ والرضوان نے نبض پر ہاتھ رکھا تو علم وفضل کا وہ آفتاب و ماہتاب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غروب ہو چکا تھا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ہر آنکھ نمناک تھی تو ہر دل غمزدہ تھا۔ بقول حضرت پاسبان ملت علیہ الرحمۃ والرضوان
مسند رازی غزالی آج سونی ہوگئ
ان کی ہر ہر بات کا وہ نکتہ داں جاتا رہا
اہل سنت کا امیر کارواں جاتا رہا
مظہر احمدرضا سوئے جناں جاتا رہا
آپ نے تحریرا وہ نقوش چھوڑے جو تا قیام قیامت اہل سنت کو راہ نجات اور وہابیوں دیوبندیوں مرتدوں پر سنگ وحجرکی برسات کرتے رہیں گے۔
آج بھی آپ کے مزار پاک کے احاطے میں لگی تختی پر نواسئہ حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہُ کا یہ شعر حضور اعلیٰ حضرت قبلہ قدس سرہُ کے روحانی فرزندی کی بارگاہ کے یوں آداب سکھلاتا ہے۔
آنے والےآمگر آ باادب ہوشیار باش
یہ متاع اہلسنت کا مزار پاک ہے ۔
بات بہت طویل ہوگئی۔ باوجود اس کے عنان قلم روکے نہیں رکتا ہے۔ اور کیوں رکے کہ ان جانثاروں کی حیات طیبہ کا بیان بھی عبادت ہے جو اپنی پوری متاع حیات اہل سنت ہی پر خرچ کر گئے اور یہی درس دیتے رہے کہ وہابیوں دیوبندیوں کفار و مرتدین سے منہ موڑ لے ان کفار و مرتدین کا ساتھ چھوڑ کر سچا سنی مسلمان ہولے۔اپنی ہڈی بوٹیوں کو ہمیشہ کے بھڑکتے ہوئے جہنم سے ہمیشہ کے لئے بچالے، کفار و مرتدین کے کفری سائے سے نکل کر مصطفے پیارے صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلی آلہ وسلم کے دامن کرم کے سایۂ رحمت میں پناہ لے۔
پیارے حبیب کو پکار پیارے نبی کا نام لے
دامن مصطفے میں آ پائے رسول تھام لے
دعا ہے کہ مولی تبارک و تعالی اپنے حبیب رؤف و رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم کے صدقے و طفیل اس مجموعہ خطوط کو ہردو خاص و عام میں مقبول فرمائے۔اور ہمیں بزرگان دین کے مسلک و مشرب پر گامزن فرمائے اور جمیع فرقہائے باطلہ وہابیوں، غیرمقلدوں، دیوبندیوں، رافضیوں، نیچریوں، قادیانیوں، صلح کلیوں وغیرہ ہم کے مکر و شرو کیدو فتنوں سے محفوظ و مامون فرمائے۔آمین
فقیر گدائے بارگاہِ مشاہد محمد فاران رضا خاں حشمتی غفرلہ القوی
نائب صدر المدرسین الجامعتہ الحشمتیہ مشاہد نگر ماہم گونڈہ۔
No comments:
Post a Comment