سوانح اعلیٰحضرت بقلم مظہر اعلیٰحضرت
از:- خلیفہ و مظہر اعلی حضرت شیر بیشۂ اہلسنت علامہ حشمت علی خان قادری رضوی رضی المولیٰ عنہ
منقبت اعلی حضرت بزبان مظہر اعلی حضرت
واہ کیا علم ہے اے حضرتِ اعلی تیرا
بج رہا ہے عرب و ہند میں ڈنکا تیرا
اندھی آنکھوں کو نظر کیا ترا پایہ آئے
جھومتے ہیں علما عتبۂِ علیا تیرا
سایۂِ مصطفوی حضرتِ غوث الثقلین
سایۂِ غوثِ وریٰ سایۂِ والا تیرا
چلتے ہیں ہاتھ میں تھامے ہوئے ناقے کے مہار
کعبے والوں سے کوئی پوچھ لے رتبہ تیرا
آئینہ ہے تو جمالِ نبوی کا پیارے
پرتوِ حسنِ نبی جلوۂ زیبا تیرا
کیوں دبیں کس سے دبیں جو ہیں ترے در کے غلام
غوثِ اعظم کی حفاظت میں ہے بندہ تیرا
جگمگا اٹھی ترے نور سے بزمِ اسلام
قادری چاند وہ پیارا ہے اجالا تیرا
چمنِ طیبہ کی خوشبوئیں ہیں گلشن میں ترے
گلِ باغِ نبوی واہ مکنا تیرا
ہو مبارک تجھے دیدار نبی کا پیارے
محوِ دیدارِ رضا واہ نصیبا تیرا
غوثِ اعظم پہ فدا تو ہوا جان و دل سے
غوثِ اعظم ہے ترا چاہنے والا تیرا
مر گیا کفر ہوا کفر کا ہر بچہ یتیم
پرتوِ حملۂِ فاروق ہے حملہ تیرا
کفر کے قلعے گرے کفر کے جگرے بھی پھٹے
نفخۂ صور پھنکا، یا لگا نعرہ تیرا
سر نگوں ہو گئے کفار کے فوراً آقا!
جب کبھی اٹھ گیا ہے حیدری نیزہ تیرا
کہہ دو اعدا سے کہ جانوں کی منائیں اب خیر!
برق ہے خنجر خونخوار ہے خامہ تیرا
تو گیا خدمتِ احمد میں پر اعدا تیرے
ہیں تڑپتے بھلا کیا اچھا ہوا مارا تیرا
اپنی رحمت سے اسے کر لے قبول اے پیارے
نذر میں لایا ہے چادر یہ کمینا تیرا
میرے آقا میرے داتا مجھے تکڑا مل جائے
دیر سے آس لگائے ہے یہ شیدا تیرا
اس عبیدِ رضوی پر بھی کرم کی ہو نظر
بد سہی چور سہی ہے تو وہ کتا تیرا
حضور شیر بیشۂِ سنت مظہرِ اعلی حضرت رضی الله عنہ نے امامِ اہلِ سنت اعلی حضرت فاضلِ بریلوی رضی اللہ عنہ کی جو سوانح تحریر فرمائی تھی نہیں معلوم کتنی طویل، کتنے صفحات پر تھی۔ ہاں قسط وار کچھ ماہناموں میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے جتنے حصے میسر آئے شامل کر دئیے۔ لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا
سوانح امام اہلِ سنت مجدد دین و ملت
از قلمِ مبارک حضور مظہرِ اعلی حضرت شیر بیشۂ اہل سنت رضی الله عنہ
بفضلہ تعالی و بکرمِ حبیبہ صلی الله علیہ و علی آلہ وسلم ہر قرن ہر زمانے میں حضرات علمائے اہل سنت دامت برکاتہم القدسیہ وہابیہ ملاعنہ کے عقائدِ کفر و ضلال پر برابر امام الوہابیہ اسمعیل دہلوی علیہ ما علیہ کے وقت ہی سے شرعی رد و طرد فرماتے رہے۔ لیکن دیوبندی ملعونوں کے کفر و ارتداد پر مکۂ معظمہ و مدینۂ طیبہ کی مہریں لانے کا کام رہ گیا تھا۔ دین پاک کی یہ مبارک خدمت تقسیمِ ازل میں حضور پُر نور امامِ اہلِ سنت مجدد اعظمِ دین و ملت محی سنت طاہرہ صاحب حجۃ قاہرہ آیت من آیات الله الظاہرہ معجزۃ من معجزات المصطفویۃ الباہرہ مرشد برحق سیدنا اعلی حضرت عظیم البرکۃ رفیع الدرجۃ مولٰینا مولوی مفتی حاجی و قاری شاہ عبد المصطفی محمد احمد رضا خان صاحب قبلہ قادری برکاتی فاضل بریلوی رضی الله عنہ کی مبارک تقدیر میں لکھ دی گئی تھی۔
حضور پُر نور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ کی مقدس زندگی کے مبارک کارناموں پر ایک نظر ڈالنے سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ خدائے پاک جل جلالہ نے اپنے اس خاص بندے کو اپنے دینِ پاک کی حمایت ہی کے لیے پیدا فرمایا تھا۔ اسلام کی تجدید و تبلیغ اور سنیت کی حفاظت و حمایت و نصرت ہی حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ کی زندگی تھی۔ حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ نے پاک مبارک دینِ اسلام کی تجدید کے فرضِ منصبی کو جس خوبی سے ادا فرمایا وہ آج بھی حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ کی تصنیفاتِ مبارکہ سے ظاہر ہے۔ جس کی تعداد بفضلہ تعالی ایک ہزار سے بھی بہت زائد ہے۔ سنت نبویہ یہ علی صاحبہا و آلہ الصلوۃ والتحیۃ کے ایسے متبع کے بڑے بڑے زبردست علمائے اہل سنت کی باریک بین و دوربین نگاہوں میں بھی حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ ، کے افعال و اقوال و احوال غرض اٹھنے بیٹھنے ، چلنے پھرنے ، کھانے پینے، سونے جاگنے وغیرہ کسی بات میں کوئی ادا سنتِ مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کے خلاف دکھائی نہ دی۔ فضل و کمال کے ساتھ ہر ایک علم میں خدا و رسول جل جلالہ و صلی الله تعالی علیہ و علی آلہ و سلم نے اپنے دینِ متین کے اس مجدد کو وہ بلند مرتبہ عطا فرمایا جس کے سامنے عرب و عجم حل وحرم کے اکابر علماء و افاضل فقہاء نے سر جھکا دئیے۔
چلتے ہیں ہاتھ میں تھامے ہوئے ناقہ کے مہار
کعبے والوں سے کوئی پوچھ لے رتبہ تیرا
ابھی حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ کی عمر شریف تیرہ ہی برس ہوئی تھی کہ اسی سن میں علم تفسیر ، علم حدیث ، علم فقہ ، علم اصول وغیرہا جمل علوم دینیہ کا کامل عبور حاصل کر کے دارالافتائے بریلی شریف میں مسند افتاء پر پونے چودہ برس کی ننھی سی عمر میں جلوہ گر ہوگئے ۔ اسی وقت سے سوا چون برس کی طویل مدت میں کوئی گھڑی ایسی نظر نہیں آتی جو دینِ پاک کی خدمت سے خالی گزری ہو۔ وہ حضرات جو اپنے زمانے کے استاذالعلماء کہلاتے ہیں اپنے عصر کے صدر الشریعہ مشہور ہیں وہ لوگ جن کو محدث اعظم ہند و صدرالافاضل کہا جاتا ہے نیز وہ اکابر و اعاظم علمائے اہل سنت دامت برکاتہم جو بفضلہ تعالیٰ و بکرمِ حبیبہ صلی الله علیہ و علی آلہ وسلم آج مرجع اہل سنت ہیں۔ وہ جن کے تلامذہ بعونہ تعالی و بعونہ حبیبہ صلی الله علیہ و علی آلہ وسلم *کیف ملیٰ علما* کے مصداق ہیں یہ تمام حضرات بھی حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ کی کتبِ مبارکہ ہمیشہ دیکھتے ہیں۔ اور اپنے اپنے ظرف کے لائق ان سے علمی و روحانی فیوض و برکات حاصل کرتے رہتے ہیں ۔ ذالک فضل الله یوتیه من یشاء والله ذوالفضل العظیم۔
حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ نے اپنی ساری مبارک زندگی اسلام و سنیت کے احیا و نصرت و تجدید و حمایت پر قربان کر دی۔ اور ہر طرح کے کفار و مرتدین مشرکین مبتد عین کی طرف سے ہونے والے حملوں کے دنداں شکن رد فرمائیے۔
یقیناََ حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ خدائے پاک جلہ جلالہ کے ان مبارک بندوں میں ہیں جن کا فیض دنیا سے ان کے پردہ فرمانے کے بعد بھی خدا اور رسول جلہ جلالہ صلی الله علیہ و علی آلہ وسلم جاری رکھتے ہیں۔ جن لوگوں کو حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ کی ذاتِ با برکات سے اسلام و سنیت کی طرف سچی ہدایت نصیب ہوئی ہے ان نفوس قدسیہ کو شمار کرنا یقیناً دشوار ہے۔ پھر جن صاحبوں کو حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ کی کتب مبارکہ سے یا حضور کے شاگردوں سے یا حضور کے خلفاء سے ہدایت حاصل ہوئی ہے اور حاصل ہو رہی ہے اور حاصل ہوتی رہے گی ان کی تعداد کا اندازہ کرنا بھی انسانی طاقت سے باہر ہے۔
اور ابھی قیامت تک حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ ، کی با برکت تصنیفاتِ مقدسہ سے جس قدر لوگ مستفیض ہو کر اسلام و سنیت کی دولتِ بے بہا حاصل کریں گے ان کا حساب تو الله تبارک و تعالی پھر اس کا محبوب صلی الله علیہ و علی آلہ وسلم ہی جانتا ہے۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد ولئ حمد و رضا
حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ کے جو محاسن و فضائل بچپن میں ظاہر ہوئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ذاتِ مبارکہ کو آپ کے بچپن ہی سے حضور رسول مختار صلی الله علیہ و علی آلہ وسلم نے برگزیدہ و مقبول فرما لیا تھا۔ چھ برس کی عمر شریف تھی جب کہ محفل مبارک میں حضور اقدس سیدِ عالم صلی الله علیہ و علی آلہ وسلم کا میلاد مبارک بیان فرمایا۔ آٹھ برس کی سن میں ہدایۃ النحو پڑھتے تھے۔ اسی وقت ہدایۃ النحو کی شرح عربی زبان میں لکھ ڈالی۔
اسی زمانے میں خواب دیکھا کہ ایک نہایت عالیشان محل ہے جس کی دربانی حضرت مولٰینا کافی رحمۃ الله علیہ کر رہے ہیں۔ مولیٰنا علیہ الرحمہ نے حضور اعلی حضرت رضی الله عنہ سے فرمایا : یا احمد رضا ان رسول الله تعالی علیه و علی آله وسلم فی ھذہ الدار فادخل وزرہ صلی ﷲ علیہ وسلم یعنی اے احمد رضا بے شک رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس مکان میں تشریف فرما ہیں ۔ تم اندر حاضر ہو کر حضور صلی الله علیہ و علی آلہ وسلم کے دیدار کے شرف حاصل کرو۔ حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ مکان میں حاضر ہوئے ۔ دیکھا کہ حضور محبوبِ خدا صلی الله تعالی علیہ و علی آلہ وسلم اپنی والدہ مشفقہ حضرت سیدتنا آمنہ خاتون رضی الله عنہ عنہا کی آغوش مبارک میں اپنی شان طفلی میں تشریف فرما ہیں۔ اپنی سرکار کے غلام خاص کو ملاحظہ فرما کر اپنی والدہ مکرمہ رضی الله عنہا سے فرماتے ہیں کہ میرا احمد رضا آ گیا۔ حضور اعلی حضرت رضی الله عنہ اپنے مولی و آقا صلی الله تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کی سرکار میں صلاۃ و سلام بصد تعظیم و احترام عرض کر کے واپس ہوتے ہیں۔ ڈیوڑھی پر پہنچ کر حضرت مولیٰنا کافی رحمۃ الله علیہ سے فرماتے ہیں *یا کافی اقدزرت رسول الله صلی الله تعالی علیہ و علی آلہ وسلم* یعنی اے کافی بے شک حضور آقائے دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے دیدار کا شرف حاصل کیا؟
چھ برس کی عمر میں معلوم کر لیا تھا کہ بغداد شریف کس سمت میں ہے ۔ اس وقت سے دمِ آخر تک کسی وقت بھی اس جانب پاؤں نہ پھیلایا۔ فقیر حقیر غفرلہ،ربہ، القوی کی نظروں کا دیکھا ہوا واقعہ ہے کہ ایک صاحب کا عریضہ حضور اعلی حضرت رضی الله عنہ کی خدمت میں آیا اس (عریضہ) کے پڑھ کر سنانے کا مجھ گنہگار گدائے کوئے رضوی کو حکم ہوا۔ ان صاحب نے القاب میں حضور اعلی حضرت رضی الله عنہ کو حافظ بھی لکھ دیا تھا۔ ان کو سن کر چشمانِ مبارک میں آنسو بھر آئے۔ اور فرمانے لگے کہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ میرا حشر ان لوگوں میں نہ ہو جن کے حق میں قرآن عظیم فرماتا ہے *یحبون ان یحمدو ابمالم یفعلو* یعنی جب ان لوگوں کی تعریف میں ایسی خوبیاں بیان کی جاتی ہے جو ان کے اندر نہیں تو وہ لوگ اپنی ایسی تعریف پسند کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ٢٩ شعبان ١٣٣٧ھ کو ہوا تھا۔ دوسرے ہی دن سے قرآن پاک حفظ کرنا شروع فرما دیا۔ ہر روز ایک پارہ حفظ کرکے تراویح میں سنا دیتے یہاں تک کہ رمضان شریف کی ستائسویں تاریخ کو مغرب سے پہلے حفظِ قرآن شریف پورا کرلیا۔ اور صرف ایک مہینے کی مدت میں حافظ ہو گئے۔ رمضان المبارک کی انتیسویں شب کو تراویح میں قرآن عظیم تلاوت کر کے ختم کر دیا۔
بڑی خوبی تو یہ تھی کہ ہر روز ایک پارہ زبانی حفظ کر لینے کے باوجود مختلف فتاوی مبارکہ لکھنے مسائلِ شریعت و احکام خدا اور رسول جل جلالہ و صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم فرمانے وقت پر مسند نشین ہدایت و ارشاد ہو کر الله عزوجل اور اس کے محبوب صلی الله تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامینِ مقدسہ سنانے وغیرہ روزانہ کے مشاغلِ دینیہ میں کسی طرح کا کوئی فرق نہیں پڑا۔
علوم مروجہ درسیہ جن کو سند یافتہ علما حاصل کرتے ہیں ان کا تو پوچھنا ہی کیا۔ وہ علوم غریبہ و فنونِ عجیبہ جن کو علمائے زمانہ نے کانوں سے سنا بھی نہیں ان علوم و فنونِ نادرہ میں جب کبھی حضور اعلی حضرت رضی الله عنہ کا قلم اٹھ گیا ہے تو تحقیاتِ رفیعہ و تدقیقاتِ بدیعہ کے دریائے ذخار موجیں مرنے لگے ہیں۔ اور ثابت ہو گیا ہے کہ دینِ اسلام و ملتِ حقہ کے اس پیارے مجدد رضی الله عنہ نے بکثرت علوم و فنون کو تو از سرِ نو تازہ و زندہ فرما دیاہے۔
حق بات تو یہ ہے کہ جو ذاتِ قدسی صفات حضور محبوبِ خدا صلی الله تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کہ حامد و ممدوح ہو اس کے فضائلِ باہرہ اور فواضلِ ظاہرہ کما حقہا مجھ جیسے گنہگار سے کیونکر ممکن ہے۔ اہل سنت تو بحمدہ تعالی حدیث شریف کے فرمان کے مطابق اسلام کے سچے راستے پر ہیں ہی، وہ اپنے پیشوائے مذہب اپنے دینی امام کے کی جس قدر مدح و توصیف کریں تھوڑی ہے۔لیکن بد مذہب بے دین لوگ بھی حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ ، کے فضل بے مثال اور بے مثل کمال کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ آج دنیا میں مشرکین کفار مرتدین اشرار ، گمراہانِ فجار کا کوئی ایک بھی ایسا فرقہ نہیں جس کے رد میں حضور اعلی حضرت رضی الله عنہ کی متعدد تصنیفاتِ مبارکہ نہیں۔ نجدی ، ندوی، دہریئے ، فلاسفہ ، آریہ سماجی، یہود و نصاری، ہنود ، مجوس ، قادیانی ،نیچری ، وہابی، دیوبندی، رافضی، خارجی ، گاندھوی وغیرہم آج بے دینوں کی جس قدر فتنہ گر پارٹیاں ہیں ان سب کے خود ساختہ اصول باطل اعتقادات کو خود انھیں کے مسلمات اور انھیں کے گڑھے ہوئے قواعد سے اس طرح توڑ پھوڑ کر ان کے دھوئیں بکھیر دیئے ہیں کہ تلاش و تفحص کے بعد بھی ان کا کوئی ایک ذرہ سلامت نہیں مل سکتا۔
اتنا ہی نہیں بلکہ معاذاللّٰه قیامت تک جس قدر باطل فرقے خدا نہ کرے نئے پیدا ہوں تو ان سب مردود و ملعون فرقوں کے رد و طرد و اماتت اور اسلام و سنیت کی نصرت و حمایت کے لیے پہلے ہی سے زبردست اصول اور لا جواب قواعد مرتب فرمادئیے ہیں۔
اللّٰه اکبر ! ان کی قدر تو علمِ دین رکھنے والے مسلمانانِ اہلِ سنت ہی جان سکتے ہیں۔ حضور اعلی حضرت رضی الله عنہ ، اپنی ساری عمر دنیا کو اس مضمون کا اعلان فرماتے رہے کہ دیکھو ایمان تین چیزوں کا نام ہے۔
نمبر 1 : دنیا بھر کی ہر ایک لائق محبت مستحق تعظیم چیز سے زیادہ اللّٰه و رسول جل جلالہ و صلی الله تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کی محبت و تعظیم ہے۔
نمبر 2 : انہیں کی رضا کے لیے ان کے دوستوں سے دوستی و محبت۔
نمبر 3 : انہیں کی خوشی کے لیے ان کے دشمنوں سے دشمنی و نفرت۔
اگر ان تینوں باتوں میں سے ایک بات بھی تمھارے دل میں کامل نہیں تو تمھارا ایمان کامل نہیں۔ اور اصل بات بھی یہی ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ انھیں تین فقروں میں حضور اعلی حضرت رضی الله عنہ کی مبارک زندگی کا پورا خلاصہ آ گیا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ حضور امامِ اہلِ سنت رضی اللّٰه عنہ اپنی ساری عمر شریف بھر اپنے مبارک قلم اپنی پاک زبان سے یہی فرماتے رہے یہی لکھتے رہے ، یہی چھاپ چھاپ کر شائع فرماتے رہے گویا حضور پُر نور حضور اعلی حضرت رضی الله عنہ کے مواعظ مبارکہ جملہ تحریراتِ قدسیہ جمیع تصنیفات مقدسہ سب کے سب انھیں تین فقروں کی شرح اور تفسیر ہیں۔ اور کیوں نہ ہو کہ تمام آیاتِ قرآنیہ کا خلاصہ اور جمیع احادیثِ نبویہ علی صاحبہاو آلہ الصلاۃ والتحیۃ کا عطر یہی تین باتیں ہیں۔
کفار وہابیہ ، مرتدینِ دیوبندیہ کے رد میں حضور پُر نور اعلی حضرت قبلہ رضی اللّٰه عنہ کے سینکڑوں زبردست رسائل مبارکہ ہیں جو سب کے سب بحمدہِ تبارک و تعالی آج تک لا جواب ہیں۔ اور بڑے چھوٹے سارے کے سارے وہابیہ دیوبندیہ ان کے حضور مبہوت و عاجز و لاجواب ہیں ۔ وللّٰه الحمد۔ لیکن ان تصانیف مبارکہ میں کتاب مستطاب مسمیٰ بنام تاریخی حسام الحرمین علیٰ منحرالکفر و المین۔
نہایت بلند پایہ عالیشان اور بابرکت تصنیف منیف ہے۔ یہی وہ مقدس فتوی ہے جو حضور اعلی حضرت رضی اللّٰه عنہ نے مکہ معظمہ و مدینہ طیبہ میں مرتب فرمایا ہے۔ وہ مقدس کتاب ہے جس میں مکہ معظمہ مدینہ طیبہ کے اکابر علمائے کرام و اعاظم مفتیان عظام نے حضور اعلی حضرت قبلہ رضی اللّٰه عنہ کو اپنا سردار اس صدی کا مجدد اور امام لکھا ۔اور بالاتفاق فتوے دئیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ، قاسم نانوتوی ، رشید احمد گنگوہی ، خلیل احمد انبہٹی ، اشرفعلی تھانوی اپنے اقوالِ خبیثہ و عقائد کفریہ کے سبب جو ان خبثاء کی تحریرات میں موجود ہیں بحکم شریعت مطہرہ قطعاً یقیناً اجماعاً کافر و مرتد ہیں۔ ایسے کہ جو لوگ ان میں سے کسی کے عقیدۂ کفریہ قطعیہ پر یقینی اطلاع رکھتے ہوئے بھی مسلمان جانے یا اس کو کافر و مرتد نہ مانے یا اس کے کافر و مرتد ہونے میں شک رکھے یا اس کو کافر و مرتد کہنے میں توقف کرے وہ بھی شرعاً کافر و مرتد ہے ۔ والعیاذ باللّٰه سبحٰنہ تعالیٰ۔
جب یہ الٰہی تلوارِ محمدی ، شمشیرِ آبدار چمکتی ، جگمگاتی ہوئی دیوبندی مرتدوں کے سروں پر چمکی تو اس کی پہلی ہی چمک میں بے دینوں کی آنکھیں چوندھیا گئیں۔ اس کے ایک ہی وار میں دیوبندیوں مرتدوں کے جگر پھٹ گئے ، دل الٹ گئے ، کفر و ارتداد کے سر کٹ گئے ، خدا و رسول جل جلالہ و صلی الله تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کے دشمنوں کے مونھوں میں قہرِ الہی کے پتھر پٹ گئے ، اہل باطل کے گھر لعنتِ خداوندی سے پٹ گئے ، حق و حقانیت کے آفتابِ عالمتاب کے جہان افروز جلوے سے کفر و باطل کے کالے کالے بادل پھٹ گئے ، نورِ اسلام کے مقابل سے ارتداد بے دینی کے اندھیرے ہٹ گئے ، جہنم میں اپنا گھر بنانے کے لیے بے دینوں کے جمگھٹ گئے ، اہل ایمان بڑھے ، بے ایمان گھٹ گئے ۔ ولله الحمد۔
ایک بار حضرت صدرالافاضل مولیٰنا نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ نے خدمت اقدس میں عرض کی کہ حضور کی نصانیفِ مبارکہ میں وہابیہ ، دیوبندیہ غیر مقلدین وغیرہم مرتدین کا اس قدر درشت گوئی و سخت کلامی کے ساتھ رد ہوا کرتا ہے کہ آج کل جو مدعیانِ تہذیب ہیں وہ چند سطر دیکھتے ہی ان کو پھینک دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کتابوں میں تو گالیاں بھری ہوئی ہیں۔ اور اس طرح وہ حضور کے دلائل و براہین کو بھی نہیں دیکھتے ۔ اور ہدایت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اگر حضور نرمی و شیریں زبانی و خوش بیانی کے ساتھ وہابیوں دیوبندیوں غیر مقلدوں وغیرہم پر رد فرمائیں تو وہ اپنی نئی روشنی والے جو اخلاق و تہذیب کے مدعی ہیں وہ بھی حضور کی مبارک تصانیف کے مطالعے سے مشرف ہوں۔ اور حضور کے لاجواب دلائل اور زبردست براہین دیکھ کر ہدایت یاب ہو جائیں۔
صدرالافاضل صاحب فرماتے ہیں کہ میرے اس عرض پر حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ آب دیدہ ہو گئے ۔ اور ارشاد فرمایا کہ مولانا! تمنا تو یہ تھی کہ احمد رضا کے ہاتھ میں تلوار ہوتی اور احمد رضا کے آقا و مولی صلی اللّٰه تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخیاں کرنے والے خبثاء کی گردنیں ہوتیں۔ اور اپنے ہاتھ سے حضور سرکارِ رسالت علیہ و علی آلہ الصلاۃ والتحیۃ کی توہینوں و تنقیصوں کا سدِ باب کرتا۔ اب تلوار سے کام لینا تو اپنے اختیار میں نہیں قلم اللّٰه تبارک و تعالی نے عطا فرمایا ہے تو میں قلم سے ان بے دینوں کا سختی و شدت کے ساتھ اس لئے رد کرتا ہوں کہ حضور اقدس سیدِ عالم صلی اللّٰه تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کی شانِ رفیع میں بد زبانی کرنے والوں کو اپنا سخت و شدید رد سن کر ناگواری ہو۔ اور انھیں غصہ آئے اور غیظ و غضب میں مبتلا ہو کر وہ احمد رضا کو گالیاں دینے لگ جائیں اور احمد رضا کے آقا و مولی صلی اللّٰه تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کی شانِ اقدس میں گالیاں بکنا بھول جائیں اور احمد رضا کے اب و اجداد کی عزت و آبرو جو حضور اقدس صلی الله تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کی پیاری عظمت جلیلہ مبارک عزت جمیلہ کے لیے سپر ہو جائے ، عزت و عظمت سرکارِ رسالت علیہ و علی آلہ الصلاۃ والتحیۃ پر اسی قربان نثار ہونے ہی کا صدقہ ہے کہ سرکارِ مکہ معظمہ و سرکارِ مدینہ طیبہ کی حاضری کے موقع پر اسلام کے اس پیارے مجدد سنیت کے اس پیارے محی کو حضور سیدنا محمد رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالی علیہ و علی آلہ وسلم نے وہ رفیع و جلیل بے مثیل و بےعدیل عزت و عظمت عطا فرمائی جس کی نظیر دیکھنے سننے میں نہ آئی۔
علوم و افضال و کمالات میں بے مثلی کے ساتھ تقویٰ و طہارت کی دولتِ جزیلہ و نعمت جلیلہ بھی حضور اعلی حضرت قبلہ رضی الله عنہ ، کو ان کے مالک و مولی صلی اللّٰه تعالی علیہ و علی آلہ وسلم نے بچپنے سے عطا فرمادی تھی۔
یہ بھی حضورِ اقدس سید المعصومین صلی اللّٰه تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کے ظلِ اکمل پرتو اعظم ہونے کی شان ہے۔ حضور اقدس نبی امی صلی اللّٰه تعالی علیہ و علی آلہ وسلم کے صدقے میں۔
باقی باقی
(مکتوبات مظہر اعلی حضرت،جلد ثالث، صفحہ ٢٣)
No comments:
Post a Comment