حدیثِ رُبَیّع پر امام اہل سنت کی تحقیق اور امام الوہابیہ کا زبردست تعاقب
از- نبیرۂ مظہر اعلی حضرت شاہزادۂ حضور معصوم ملت محقق عصر علامہ مفتی محمد فاران رضا خان صاحب حشمتی دامت برکاتہم العالیہ
معجزۃ من معجزات سید المرسلین ، آیت من آیات رب العلمین ، ماحئ شرک و بدعت ، قاطع کفر و ضلالت ، امام اہل سُنت مجدد دین و ملت اعلی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ القوی فرماتے ہیں :
بخاری ومسند احمد وسنن ابی داؤد وترمذی وابن ماجہ میں رُبَیّع بنت معوذ بن عفراء رضی الله تعالٰی عنہما سے ہے رسول الله صلی الله تعالٰی علیہ وسلم میری شادی میں تشریف لائے چھوکر یاں دف بجا کر میرے باپ چچا جو بدر میں شہید ہوئے تھے ان کے اوصاف گاتی تھیں اس میں کوئی بولی ع
وفینا نبی یعلم ما فی غدٍ
ہم میں وہ نبی ہیں جنہیں آئندہ کا حال معلوم ہے
صلی الله تعالٰی علیہ وسلم
اس پر سید عالم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
دعی ھٰذا وقولی بالذی کنت تقولین۔
اسے رہنے دے اورجو کچھ پہلے کہہ رہی تھی وہی کہے جا
اقول:وبالله التوفیق امام الوہابیہ اس حدیث کو شرك فی العلم کی فصل میں لایا.......... تو وہ اس حدیث سے ثابت کرنا چاہتا ہے کہ نبی صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کی طرف آئندہ بات جاننے کی اسناد مطلقًا شرك ہے اگرچہ بعطائے الٰہی جانے کہ اس نے صاف کہہ دیا:
''پھر خواہ یوں سمجھے کہ یہ بات ان کو اپنی ذات سے ہے خواہ الله کے دینے سے ہرطرح شرك ہے۔''
(امام الوہابیہ کی مزید دو عبارات ذکر کرنے کے بعد اعلی حضرت فرماتے ہیں : )
الله الله ،الله کے دئے سے بھی ایسا مرتبہ ماننا اس (امام الوہابیہ )کے نزدیك شرك ہوتو شکایت نہیں کہ اس کے دھرم میں اس کا معبود خود ہی کسی کو آئندہ باتیں جاننے کا مرتبہ دینے پر قادر نہیں کیا اپنا شریك کسی کو بناسکے گا؟
(پھر امام اہل سنت اعلی حضرت ، علم غیب کے اثبات میں قرآن مجید کی دو آیات اور تفسیر اور امام الوہابیہ کا رد کرنے کے بعد فرماتے ہیں: )
اور یہ اس کا قدیم داب ہے کہ دعوٰی کرتے وقت آسمان سے بھی اونچا اُڑے گا اوردلیل لاتے وقت تحت الثّرٰی میں جاچھپے گا اور پیچھا کیجئے تو وہاں سے بھی بھاگ جائے گا،ایسے ہی ناتمام اٹکل بازیوں سے عوام کو چَھلا اور کاغذ کا چہرہ اپنے دل کی طرح سیاہ کیا۔
ثم اقول:اورانصاف کی نگاہ سے دیکھئے تو بحمدلله تعالٰی حدیث نے شرك کا تسمہ بھی لگا نہ رکھا،اورشرك پسند،اوشرك کی حقیقت و شناخت سے غافل! کیا شرك کوئی ایسی ہلکی چیز ہے کہ الله کا رسول اور رسولوں کا سردار صلی الله تعالٰی علیہ وسلم اپنی مجلس میں اپنےحضور اپنی امت کو شرك بکتے کفر بولتے سنے اوریونہی سہل دوحرفوں میں گزار دے کہ اسے رہنے دو وہی پہلی بات کہے جاؤ۔
(امام الوہابیہ کی مزید گستاخانہ عبارات کا رد کرنے کے بعد فرماتے ہیں: )
نہ ان کے کہنے والیوں پر کوئی مواخذہ ہو،ایك آسان سی بات پرقناعت فرمائیں کہ اسے رہنے دو،کیوں نہیں فرماتے کہ اری!تم کفر بك رہی ہو،اری!تقویۃ الایمان کے حکم سے تم مشرکہ ہوگئیں تمہارا دین جاتا رہا تم مرتد ہوئیں از سر نو ایمان لاؤ کلمہ پڑھو نکاح ہوگیا ہے تو تجدید نکاح کرو۔
غرض ایك حرف بھی ایسا نہ فرمایا جس سے شرك ہونا ثابت ہو، کہنے والیوں کو اپنا حال اوراہل مجلس کو اس لفظ کا حکم معلوم ہوحالانکہ وقت حاجت بیانِ حکم فرض ہے اورتاخیر اصلًا روا نہیں،تو خود اس حدیث سے صاف ظاہر ہوا کہ نبی صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کی طرف اطلاع علی الغیب کی نسبت ہرگز شرك نہیں۔
رہا ممانعت فرمانا،وہ بھی یہ بتائےکہ انبیائے کرام وخود سید الانام علیہ وعلیہم افضل الصلٰوۃ والسلام کی جناب میں اس کا اعتقاد فی نفسہٖ باطل ہے،یہ منہ دھو رکھئے منعِ لفظ ، بطلانِ معنٰی ہی میں منحصر نہیں بَلکہ اس کے لیے وجوہ ہیں اورعقل ونقل کا قاعدہ مسلمہ ہے کہ
اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال(جب احتمال آجائے تو استدلال باطل ہوجاتاہے )
(اب ترتیب وار قول حضور صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہٖ وسلم “دعی ھٰذا وقولی بالذی کنت تقولین “ کے معانی و مفاہیم کو ارشاد الساری،لمعات ومرقات وغیرہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں : )
اولًا: ممکن ہے کہ لہو ولعب کے وقت اپنی نعت اوروہ بھی زنانے گانے اوروہ بھی دف بجانے میں پسند نہ فرمائی،لہذا ارشادہوا:”اسے رہنے دور اور وہی پہلے گیت گاؤ”۔ارشاد الساری،لمعات ومرقات وغیرہ میں اس احتمال کی تصریح ہے۔
ثانیًا اقول:ممکن کہ مجلس عورتوں،کنیزوں،کم فہم لوگوں کی تھی ان میں منع فرمایا کہ توہُّم ذاتیت کا سدباب ہو،شرح حکیم ہے اورامام الوہابیہ کی مت اوندھی جو متحمل ذو وجوہ بات جس میں برے پہلو کی طرف لے جانے کا احتمال ہوچھوکریوں کو منع کی جائے دانشمند مردوں کے لیے اس کی ممانعت بدرجہ اولٰی جانتاہے
حالانکہ معاملہ صاف الٹا ہے ایسی بات سے کم علموں کم فہموں کو روکتے ہیں کہ غلط نہ سمجھ بیٹھیں،عاقلوں دانشمندوں کو منع کیا ضرور کہ ان سے اندیشہ نہیں۔
( یعنی امام اہل سنت اس قول کی دوسری توجیہہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ بات جس میں بُرے پہلو کا خفیف سا احتمال ہو کم فہموں کو اس بات سے منع فرمایا جاتا ہے نہ اس لئے کہ وہ بات عیاذاً باللہ شرک ہے جیسا کہ امام الوہابیہ کی اوندھی عقل نے سمجھا ، بلکہ اس لئے کہ کم عقل غلط نہ سمجھ لیں اپنی اسی توجیہہ پر دلیل پیش کرتے ہوئے آگے فرماتے ہیں :)
صحیح مسلم ومسند احمد وسنن ابی داؤد وسنن نسائی میں عدی بن حاتم رضی الله تعالٰی عنہ سے ہے ایك شخص نے حضور اقدس صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کے سامنے خطبہ پڑھا اور اس میں یہ لفظ کہے:
ومن یطع الله ورسولہ،فقد رشد ومن یعصہما فقد غوٰی۔
جس نے الله ورسول کی اطاعت کی اس نے راہ پائی اورجس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا
سید عالم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
بئس الخطیب انت،قل ومن یعص الله ورسولہ،فقد غوٰی۔
کیا براہ خطیب ہے تُو،یوں کہہ کہ جس نے الله ورسول کی نا فرمانی کی وہ گمراہ ہوا
امام قاضی عیاض وغیرہ ایك جماعت علماء کا ارشاد ہے:
انما انکر علیہ تشریکہ فی الضمیر المقتضی للتسویۃ وامرہ بالعطف تعظیمالله تعالٰی بتقدیمہ اسمہ۔
یعنی سید عالم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے اس خطیب کا الله و رسول کو ایك ضمیر تثنیہ میں جمع کرنا
کہ جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی کو پسند نہ فرمایا اس میں برابری کا وہم نہ ہوجائے اورحکم دیا کہ یوں کہے کہ جس نے الله ورسول کی نافرمانی کی جس میں الله عزوجل کا نام اقدس نام پاك رسول سے تعظیمًا مقدم رہے
حالانکہ حدیث شریف میں ہے خود حضوراقدس صلی الله تعالٰی علیہ وسلم خطبے میں یوں فرمایا کرتے:
من یطع الله ورسولہ فقد رشد ومن یعصمھا فانہ لایضر الا نفسہ۔
ابو داؤد عن عبدالله بن مسعود رضی الله تعالٰی عنہ بسند صحیحٍ۔
جس نے الله ورسول کی اطاعت کی وہ راہ یاب ہوا اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔(ابو داؤد نے عبدالله بن مسعود رضی الله تعالٰی عنہ سے سند حسن کے ساتھ روایت کیا۔ت)
نیزابن شہاب زہری نے حضور اقدس صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کاخطبہ جمعہ روایت کیا اس میں بعینہٖ وہی الفاظ ہیں کہ:
ومن یعصمھا فقد غوٰی۔رواہ ایضًا عنہ مرسلًا۔
جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی گمراہ ہوا۔
حدیث آئندہ سے بتوفیق الله تعالٰی اس فقیر کی عمدہ تائید وتقریر ہوتی ہے فانتظر۔
ثالثًا: وجہ ممانعت علم غیب کی اسناد مطلق بے ذکر تعلیم الٰہی عزوجل ہے۔شیخ محقق رحمہ الله تعالٰی نے لمعات میں اس طرف ایمافرمایا۔
اقول:اوروہ بے شك وجیہ ہے جس طرح بغیر الله عزوجل کی مشیت کو ملائے یوں کہنا کہ میں یوں کروں گا،مکروہ ہے۔
قال الله تعالٰی:
" وَلَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا الّا ان یشاء اللہُ ۔
ہرگز نہ کہنا کسی چیز کو کہ میں کل ایسا کرنے والا ہوں مگر یہ کہ خدا چاہے۔
علم غیب بالذات ، الله عزوجل کے لئے خاص ہے کفاراپنے معبودان باطل وغیرہم کےلئے مانتے تھے لہذا مخلوق کو"عالم الغیب" کہنا مکروہ،اوریوں کوئی حرج نہیں کہ الله تعالٰی کے بتائے سے امور غیب پر انہیں اطلاع ہے۔
یہ دوسرا احتمال ہے کہ علماء نے اس حدیث میں ذکر فرمایا اس تقدیر پر بھی ممانعت ادب کلام کی طرف ناظر ہے نہ یہ کہ انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کو بتعلیم الٰہی غیب پر اطلاع کا عقیدہ ممنوع ہی ہوشرك تو درکنا جو اس طاغی کا مقصود ہے ۔ھکذا ینبغی التحقیق والله تعالٰی ولی التوفیق۔
( ان تین توجیہات کو ذکر کرنے کے بعد امام اہل سنت اعلی حضرت قبلہ اپنے موقف پر حدیث پاک سے استدلال قائم کرتے ہوئے علمِ غیبِ مصطفےٰ علیہ التحیۃ والثناء کا اثبات وہ بھی اشعار ہی میں وہ بھی صحابئ رسول کی زبانی وہ بھی حضور کے سامنے ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : )
محمد بن اسحٰق تابعی ثقہ امام السیروالمغازی نے ابو وجزہ یزید بن عبید سعدی سے روایت کی،
جب(غزوئہ حنین میں) مشرکین بھاگ گئے مالك بن عوف(کہ اس لڑائی میں سردارکفار ہوازن تھے)بھاگ کر طائف میں پناہ گزیں ہوئے رحمت عالم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:اگر وہ ایمان لاکر حاضرہو تو ہم اس کے اہل ومال اسے واپس دیں۔
یہ خبر مالك بن عوف کو پہنچی،خدمت اقدس میں حاضر ہوئے جبکہ کہ حضور مقام جعرانہ سے نہضت فرماچکے تھے ،سید اکرم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے ان کےاہل ومال واپس دئے اورسو اونٹ اپنے خزانۂ کرم سےعطاکئے،”فقال مالك بن عوف رضی الله تعالٰی عنہ یخاطب رسول الله صلی الله تعالٰی علیہ وسلم من قصیدۃ”
(تو مالك بن عوف رضی الله تعالٰی عنہ رسول الله صلی الله تعالٰی علیہ وسلم سے اپنے قصیدہ سے مخاطب ہوئےت)
ماان رایتُ ولا سمعتُ بواحدٍ
فی الناس کلھم کمثل محمدٖ
اوفٰی واعطٰی للجزیل لمجتدٍ
ومتٰی تشاء یخبرك عما فی غدٖ
یعنی میں نے تمام جہان کے لوگوں میں محمد صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کے مثل نہ کوئی دیکھا نہ سنا،سب سے زیادہ وفا فرمانے والے اورسب سے فزوں تر سائلِ نفع کو کثیر عطابخشنے والے اورجب تو چاہے تجھے کل کی خبر بتادیں۔صلی الله تعالٰی علیہ وسلم۔
سید عالم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں ان کی قوم ہوا زن اورقبائل ثمالہ وسلمہ وفہم پر سردارفرمایا۔
معافی نے کتاب الجلیس والانیس میں بطریق حرمازی ابوعبیدہ رضی الله تعالٰی عنہ سے روایت کی،مالك بن عوف رضی الله تعالٰی عنہ رئیس ہوازن ، اسلام لاکر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اورحضور پُرنور صلی الله تعالٰی علیہ وسلم کو اپنا وہ قصیدہ نعتیہ سنایا(جس میں اسی مضمون کے شعر ذکر کئے)”فقال لہ خیرًا وکساہ حلّۃ “ حضور اقدس صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے ان کے حق میں کلمہ خیر فرمایا اور انہیں خلعت پہنایا۔ ذکرھما الحافظ فی الاصابۃ
( پھر امام اہل سنت اس حدیث پاک کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : )
اقول:رضوان الٰہی کے بے شمار باران یارانِ مصطفی صلی الله تعالٰی علیہ وسلم پر برسیں یوں نہ کہا کہ “متی یشاء” جب وہ چاہیں تجھے غیب کی خبر دے دیں۔اس میں اس صورت پر بھی صادق آسکنے کا احتمال رہتا،جب بتانے والے کو کوئی اختیار نہ دیا جائے بَلکہ سال دو سال میں ایك آدھ بات پر اطلاع عطا ہو ایسا جاننے والا بھی تو ریہ وایہام کے طور پر کہہ سکتاہے کہ جب چاہوں گا تمہیں غیب کی خبر دے دوں گا کہ وہ اس وقت چاہے گا جب اسے اتفاق سے کوئی خبر ملے گی تو شرطیہ سچا ہے بَلکہ یوں فرمایا کہ جب تُو چاہے وہ تجھے غیب کی خبر دے دیں گے،یہاں سائل مطلق مخاطب ہے کسے باشد نہ وہ معین نہ ا سکے پوچھنے کا وقت محدود نہ غدٍ معرفہ بَلکہ نکرہ غیر مخصوص،تو حاصل یہ ٹھہرے گا کہ جو شخص چاہے جس وقت چاہے جس آئندہ بات کو چاہے حضور بتادیں گے،یہ اسی کی شان ہوسکتی ہے جو بالفعل تما م آئندہ باتوں کو جانتاہو یا اطلاع غیب اس کے ارادہ وخواہش پر کردی گئی ہو کہ جب چاہے معلوم کرلے ورنہ یہ اطلاق ہرگز صادق نہیں آسکتا ۔
( اس تشریح کے بعد امام اہل سنت اسی پہلی حدیث کی طرف عود کرتے ہیں اور فرماتے ہیں )
حدیث دکھا کر اتنا پوچھئے کہ کیوں صاحب! وہاں تو حضور اقدس صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے غضب فرمایا نہ حکم شرك لگایا مگرانصار کی چھوکریوں کو اتنا ارشادہوا کہ اسے رہنے دو۔
یہاں جو یہ مرد عاقل یہ صحابی فاضل نعت حضور میں اس سے بھی زیادہ عظیم بات کررہے ہیں اورحدیث فرماتی ہے کہ حضور منع نہیں کرتے بَلکہ اورانعام واکرام بخشتے ہیں۔یہ شرك وہابیت پر کیسی آفت ہے،اب یاد کر وہ اپنی اوندھی مت الٹی کھوپڑی
''چہ جائکہ عاقل مرد کہے یا سن کر پسند کرے''۔
کچھ یہ بھی سُوجھا کہ کہنے والے کون تھے اورسن کر پسند کرنیوالے کون ۔
" بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبٰطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ؕ وَلَکُمُ الْوَیۡلُ مِمَّا تَصِفُوۡنَ “
بَلکہ ہم حق کو باطل پر پھینك مارتے ہیں تو وہ اس کا بھیجہ نکال دیتاہے تو جبھی وہ مٹ کر رہ جاتاہے،اورتمہاری خرابی ہے ان باتوں سے جو بناتے ہو۔(ت)
و صلی الله تعالٰی علٰی خیر خلقہ محمد واٰلہٖ وصحبہٖ اجمعین،اٰمین !
مرتب :
فقیر سگ بارگاہ مشاہد
محمد فاران رضا خان حشمتی غفرلہ القوی
آستانہ عالیہ حشمتیہ حشمت نگر پیلی بھیت شریف
۱۸ صفر المظفر ۱۴۴۳ مطابق ۲۶ ستمبر ۲۰۲۱
No comments:
Post a Comment