async='async' crossorigin='anonymous' src='https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-6267723828905762'/> MASLAK E ALAHAZRAT ZINDABAAD: Mahnama Hashmat Ziya Urdu (94)

Saturday, June 11, 2022

Mahnama Hashmat Ziya Urdu (94)

 ایمان فی الابوین کریمین پر شاندار استدلال

از- علامہ جلال الدین سیوطی رضی المولیٰ عنہ



پہلا مقدمہ یہ کہ احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہے کہ حُضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول میں سے ہر اصل سیدنا آدم علیہ اسلام سے آپ کے والد ماجد سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ تک اپنے اپنے زمانہ میں سب سے بہتر و افضل رہے ہیں اور ہر ایک کے زمانہ میں کوئی دوسرا ان سے بہتر اور افضل نہ تھا۔


دوسرا مقدمہ یہ کہ احادیث و آثار دلالت کرتی ہیں کے روئے مین پر حضرت نوح یا آدم علیہم السلام  کے عہد سے حُضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ تک ،پھر قیام قیامت تک ہمیشہ کچھ لوگ دین فطرت پر رہے اور رہینگے ،تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے توحید کو مانے  اور نمازیں پڑھیں ،انہیں کی وجہ سے زمین قائم ہے،اور اگر وہ نہ ہوتے ،تو زمین بھی ہلاک ہو جاتی ،اور اس پر رہنے والے بھی ہلاک ہو جاتے۔


جب ان دونوں مقدموں کو ملایا جائے ،تو قطعی طور پر نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد میں سے کوئی بھی مشرک نہ تھا ۔اسلئے کے یہ بات ہر ایک کہ لیے ثابت ہے کہ وہ زمانہ میں سب سے بہتر رہا ہے۔لہٰذا وہ حضرات جو دین فطرت پر رہے ہیں،اگر وہ آپ کے اجداد ہیں؟تو یہی ہماری مراد ہے،اور اگر انکے سوا لوگ ہیں،اور (معاذاللہ) وہ اجداد و آباء شرک پر ہیں؟ تو دو باتوں میں ایک بات ضرور لازم آتی ہے۔(۱)یا تو مشرک مسلمان سے بہتر ہوگا حالانکہ یہ بالاجماع باطل ہے۔(۲) یا یہ کے وہ غیران آباء و اجداد  سے بہتر ہونگے حالانکہ یہ بھی احادیث صحیحہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔لہٰذا قطعی طور پر واجب ہے کہ ان آباء و اجداد میں سے کوئی بھی مشرک نہ ہو ،تاکہ روئے زمین پر ہر زمانہ میں وہی سب سے افضل ہوں۔


پہلے مقدمہ کے دلائل:- امام بخاری نے اپنی صحیح میں سیدنا ابوھریرہ رضی المولیٰ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا کہ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہر زمانہ میں بہتر لوگوں میں میں منتقل کیا جاتا رہا یہا نتک کہ مجھے اس زمانے میں مبعوث فرمایا گیا،جس میں میں ہوں۔

اور امام بیہقی نے "دلائل النبوۃ"میں حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمیشہ لوگوں کے دو گروہ رہے اللہ تعالی نے مجھے ان میں سے بہتر میں رکھا، پھر مجھے والدین کریمین سے تولد کیا گیا لہذا زمانۂ جاہلیت کی کوئی چیز مجھ تک نہ پہنچی۔اور حضرت آدم علیہ السلام سے اپنے ماں باپ تک نکاح سے منتقل ہوا، اور صفاح (بیحیائی) سے میں منتقل نہیں ہوا۔اس لیے میں اپنی ذات کے اعتبار سے بھی اور تمہارے والدین کے لحاظ سے بھی تم سب سے بہتر ہوں ۔


اور ابونعیم نے "دلائل النبوۃ" میں متعدد اسناد کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ،انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ہمیشہ اصلاب طاہرہ سے ارحام طیبہ میں پاک و صاف اور مہذب منتقل ہوتا رہا جب بھی دو قبیلے بنے میں ان کے بہتر میں رہا۔


اور امام مسلم و ترمذی نے صحت کے ساتھ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ،کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ نے اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو برگزیدہ فرمایا،اور اولاد اسماعیل علیہ السلام نے بنی کنانہ کو برگزیدہ کیا، اور بنی کنانہ میں قریش کو برگزیدہ کیا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو برگزیدہ کیا ،اور بنی ہاشم میں سے مجھے برگزیدہ فرمایا ۔


اور حافظ ابوالقاسم حمزہ بن یوسف سہمی نے "فضائل عباس" میں حضرت  واثلہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ان لفظوں کے ساتھ نقل کیا کہ بے شک اللہ تعالی نے اولاد آدم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام  کو برگزیدہ کرکے خلیل بنایا،اور اولادِ ابراہیم میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو برگزیدہ کیا،پھر اولاداسماعیل سے نزار کو برگزیدہ کیا،پھر اولاد نزار سے مضر کو برگزیدہ کیا،پھر  مضر سے کنانہ کو برگزیدہ کیا،پھر کنانہ سے قریش کو برگزیدہ کیا،پھر قریش سے بنی ہاشم کو برگزیدہ کیا،پھر بنی ہاشم سے بنی عبدالمطلب کو برگزیدہ کیا، پھر بنی عبدالمطلب سے مجھے برگزیدہ کیا۔" المحب طبری  نے "ذخائر العقبی"میں سے بیان کیا۔

اور ابن سعد نے اپنے "طبقات" میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے' عرب میں سب سے بہتر مضر ہے،اور مضر  میں بہتر اولاد عبدمناف ہے،اور بنی عبدمناف میں بنی ہاشم ہیں اور بنی ہاشم میں بہتر بنی عبدالمطلب ہیں۔خدا کی قسم جب سے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا دو گروہوں میں سے سب سے بہتر گروہ میں مجھے رکھا ۔

اور طبرانی و بیہقی اور ابونعیم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے ،اللہ تعالیٰ نے خلق پیدا فرمائی، اس میں حضرت آدم علیہ السلام کو پسند فرمایا ،اور اولاد آدم میں اہل عرب کو پسند فرمایا، اور اہل عرب میں مضر کو پسند فرمایا،اور مضر میں قریش کو پسند فرمایا ،اور قریش میں بنی ہاشم کو پسند فرمایا،اور بنی ہاشم میں مجھے پسند فرمایا۔لہذا میں بہتروں سے  بہتروں کی طرف منتقل ہوتا رہا۔

اور ترمذی نے نقل کرکے اسے حسن کہا، اور بیہقی نے بھی حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے جسوقت مجھے پیدا فرمایا، تو مجھے اپنی تمام مخلوق سے بہتر بنایا پھر جب قبیلوں  کو پیدا کیا ،تو مجھے ان کے بہتر قبیلہ میں رکھا،اور جب جانوں کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہتر جانوں میں رکھا ،پھر جب گھروں کو پیدا کیا،تو ان کے بہتر گھروں میں مجھے رکھا۔لہذا میں گھر کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں،اور جانوں کے اعتبار سے بھی بہتر ۔

اور طبرانی و بیہقی اور ابونعیم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا انہوں نے کہا  کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا،اللہ تعالی نے مخلوق کو دو قسموں میں تقسیم کیا اور مجھے ان دونوں کی بہتر قسم میں رکھا ۔پھر ان دونوں قسموں کو تین پر تقسیم کیا

تو مجھے ان تینوں کی بہتر میں رکھا،پھر جب ان تینوں کو قبائل بنایا ، تو مجھے ان کے بہتر قبیلہ میں رکھا،پھر جب قبائل کو گھر یعنی خاندان بنایا،مجھے ان کے بہتر گھر میں رکھا۔

اور ابو علی بن شاذان نے جسے المحب الطبری نے" ذخائرالعقبی " میں اور وہ مسند بزار میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ کچھ قریش کے لوگ صفیہ بنت عبدالمطلب کے گھر میں جمع ہوکر فخر کا اظہار،اور جاہلیت کی باتیں کرنے لگے اس پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو تشریف فرما ہیں۔یہ سن کر انہوں نے (بد گوئی کے انداز )میں کہا "بنجر زمین سے کھجور یا کوئی درخت نمودار ہو گیا ہے۔"پھر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے کیا ، تو آپ جلال میں آ گئے،اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ لوگوں کو جمع کریں پھر آپ نے منبر پر تشریف فرما ہو کر ارشاد فرمایا، اے لوگو! میں کون ہوں ؟سب نے عرض کیا ،آپ اللہ کے رسول ہیں۔فرمایا میرا نسب بیان کرو؟ سب نے کہا آپ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں۔"آپ نے فرمایا اس قوم کا کیا حال ہے جو میری اصلیت کی تنقیص و تخفیف کرتے ہیں۔خدا کی قسم میں ان سے اصل میں بھی افضل ہوں،اور جگہ اور مقام کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں۔

اور حاکم نے ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تبلیغ فرمائی،تو لوگوں نے رو گردانی کی اور کہا کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی مثال تو ایسی ہے ،جیسے کہ بنجر زمین میں کھجور کا درخت نمودار ہو جائے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غضب کا اظہار فرمایا ،اور کہا بے شک اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا،پھر اسکے دو فرقے کیے, اور مجھے ان میں سے بہتر فرقے میں کیا۔پھر ان کے قبائل بنائے ،پھر مجھے بہتر قبیلہ  میں کیا ،پھر ان کے خاندان بنائے اور مجھے ان کے بہتر خاندان میں کیا ۔اس کے بعد فرمایا میں تم میں قبیلہ کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں اور تم سے خاندان کے لحاظ سے بھی بہتر ہوں۔


اور طبری نے " الاوسط " میں اور بیہقی نے "الدلائل" میں سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے جبریل بیان کرتے ہیں کہ میں نے روئے زمین کے تمام مشرق و مغرب کو چھان مارا لیکن میں نے کسی کو بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل نہ پایا اور نہ کسی نبی کے باپ کو بنی ہاشم سے افضل پایا۔


حضرت حافظ ابن حجر "امالیہ" میں فرماتے ہیں کہ صحت کی تابانیاں ان امتوں کی پیشانیوں پر ظاہر ہیں اور یہ امربدیہی ہیں کہ افضلیت و اسطفا و برگزیدگی اور پسندیدگی اللہ تعالی کی جانب سے ہیں اور اللہ تعالی کے نزدیک افضلیت شرک کے ساتھ نہیں ہوتی ہے ۔


دوسرے مقدمہ کے دلائل

حضرت عبد الرزاق "المصنف" میں بروایت معمر ازا بن جریح،وہ ابن مسیب سے وہ سیدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم  نے فرمایا کہ ہر زمانہ میں روئے زمین پر ہمیشہ سات مسلمان یا زیادہ ضرور رہے ہیں اگر وہ نہ ہوتے روئے زمین ہلاک و برباد ہو جاتی اور اس پر رہنے والی بھی نہ رہتے۔اس کی سند شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح ہے۔اس کی مثل اس سے پہلے کسی نے نہیں کہا۔لہٰذا اس کا حکم،مرفوع کے حکم میں ہے۔اور ابن منذر نے اپنی تفسیر میں بروایت دبری (ھو اسحاق بن ابراہیم الدبری) از عبدالرزاق،اس کی تخریج کی۔

اور ابن جریر اپنی تفسیر میں شہر بن حوشب سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا چودہ ۱۴ اشخاص زمین پر ایسے ضرور رہتے ہیں جن کی وجہ سے اہل زمین سے بلائیں دور ہوتی ہیں،اور انہیں برکت ملتی ہے،مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ کہ وہ اپنے زمانے میں تنہا تھے۔


ابن منذر نے اپنی تفسیر میں حضرت قتادہ سے اس آیت کریمہ کے تحت قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ (پ ۱- ع ۴)

ہم نے فرمایا تم سب جنت سے اتر جاؤ پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہو۔۔۔۔

نقل کرتے ہیں کہ  قتادہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہمیشہ اولیاء کو موجود رکھا ہے،اور جب سے حضرت آدم علیہ السلام کو اتارا کسی وقت بھی زمین کو شیطان کے لیے خالی نہ رکھا ۔ ہر زمانہ میں زمین میں اولیاء رہے اور اس کی طاعت میں مشغول رہے۔


اور حافظ ابو عمر بن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن قاسم نے  حضرت مالک رضی اللہ عنہما سے روایت کی انہوں نے کہا کہ مجھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث پہنچی ہے کہ انہوں نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہمیشہ اپنے ولی کو رکھا جب تک اس میں شیطان کا دخل ہے۔

اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے "الزھد" میں اور حضرت خلال نے کتاب " کرامت الاولیاء" میں شخین کی شرط پر سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما کی حدیث نقل کی کہ انہوں نے فرمایا حضرت نوح علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سات ایسے شخصوں کو موجود رکھا،جن کی بدولت اہلِ زمین سے اللہ تعالیٰ نے بلاؤں کو دور فرمایا۔" یہ حدیث بھی حکمِ مرفوع میں ہے۔


اور حضرت ازرقی (یعنی امام ابو الولید محمد بن عبدالکریم ازرقی المتوفی ۲۲۳ ھ) رحمہ اللہ نے "تاریخ مکہ" میں زہیر بن محمد سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا روئے زمین پر سات یا اس سے زیادہ مسلمان ہمیشہ رہے ہیں ،اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور اس کے رہنے والے یقیناً ہلاک ہو جاتے۔

اور جندی نے "فضائل مکہ" میں مجاہد سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا کہ ہمیشہ روئے زمین پر سات یا اس سے زیادہ مسلمان رہے ہیں،اگر وہ نہ ہوتے تو زمین اور اس کے رہنے والے یقیناً ہلاک ہو جاتے۔

اور حضرت امام احمد نے "الزھد" میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا حضرت نوح علیہ السلام کے بعد زمین میں ہمیشہ چودہ ۱۴ شخص رہے ہیں جن کی بدولت عذاب دور ہوتا رہا ہے۔

اور الخلال نے کتاب "کرامات الاولیاء " میں زاذان سے نقل کیا کہ انہوں نے کہا حضرت نوح علیہ السلام کے بعد زمین بارہ ۱۲ يا زیادہ ایسے افراد سے کبھی خالی نہ رہی جن کی بدولت زمین والوں سے عذاب دور ہوتا رہا۔

اور ابن منذر سند صحیح کے ساتھ اپنی تفسیر میں بہ تحت آیت کریمہ :-

رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ   الايه (پ۱۳- ع ۱۸)

اے رب مجھے اور میری کچھ اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا۔۔۔۔۔۔

حضرت ابن جریح رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا،اس دعا کی وجہ سے اولادِ سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام سے کچھ لوگ ہمیشہ فطرت پر رہے ہیں،اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے۔

مذکورہ اخیر کی تینوں حدیثوں میں "نوح علیہ السلام کے بعد" کی قید وارد ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام سے پہلے تمام انسان ہدایت پر تھے۔

بزار نے اپنی مسند میں،اور ابن جریر،ابن منذر،اور ابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے اپنی اپنی تفسیروں میں ،اور حاکم نے "المستدرک"میں  صحت کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کریمہ کے تحت 

کانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَٰحِدَةً 

تمام لوگ ایک امت تھے۔

نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت آدم اور حضرت نوح علیہما السلام کے درمیان دس قرن گزرے،وہ سب شریعت حقہ پر تھے،پھر جب اختلاف رونما ہوا ،تو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو معبوث فرمایا۔


(مسالک الحنفا لابویہ المصطفی صفحہ ٤٧)

No comments:

Post a Comment