فعل قبیح سے مقارنت کے سبب فعل حسن ہر جگہ قبیح نہیں ہوجاتا
از- امام المتکلمین علامہ نقی علی خان قادری رضی المولیٰ عنہ
فعل حسن مقارنت ومجاورت فعل قبیح سے اگر حسن اس کا اس کے عدم سے مشروط نہیں مذموم و متروک نہیں ہو جاتا ، حدیث ولیمہ میں ( جس میں طعام ولیمہ کو شرالطعام فرمایا) قبول ضیافت کی تاکید ، اور انکار پر اعتراض شدید ہے۔
"ردالمحتار" میں در باب زیارت قبور لکھا ہے:
اور نیز جب عمل سنت پر بدون ارتکاب بدعت ممکن نہ رہے تو سنت کو ترک کریں۔ عبارت "فتح القدیر کا"ماقرددبین السنت والبدعت فترکہ لازم (٣) محمل وہ چیز ہے جو فی نفسہ مثل سور حمار مشتبہ ہو ، نہ یہ کہ جس امر کے سنت و بدعت ہونے میں اختلاف ہو اس کا ترک واجب ہے۔
خود صاحب "فتح القدیر" نے محل اختلاف میں بارہا حکم استحباب کا دیا ، اور ابوالمکارم نے "شرح مختصر وقایہ" (٤) میں ایسے مادے میں بحوالہ امام قاضی خاں فعل کو ترک سے اولی کہا (١)، اور صلات ضحی (کہ سنت و بدعت ہونے میں اختلاف ہے) بایں ہمہ کسی نے ترک اس کا واجب نہ ٹھہرایا، بلکہ خود قائلین بدعت نے استحباب کی تصریح فرمائی ، اور نیز قاضی خاں نے ختم قرآن جماعت تراویح میں اور دعا عندالختم کی بوجہ استحسان متاخرین اجازت دی ، اور ممانعت کی ممانعت کی ( ٣) الی غیر ذلک من الامثلتہ الکثیرت المشہورت.
اصل اس باب میں یہ ہے کہ مستحسن کو مستحسن جانے اور قبیح کی ممانعت کرے ، اگر قادر نہ ہو، اسے مکروہ سمجھے۔ ہاں اگر عوام کسی مستحسن کے ساتھ ارتکاب امرناجائز کا لازم ٹھہرا لیں اور بدون اس کے اصل مستحسن کوعمل ہی میں نہ لائیں، تو بنظر مصلحت حکام شرع کو اصل کی ممانعت و مزاحمت پہنچتی ہے۔ اسی نظر سے بعض علما نے ایسے افعال کی ممانعت کی ہے، لیکن چونکہ اس زمانہ میں خلق کی امور خیر کی طرف رغبت اور دین کی طرف توجہ نہیں، اور مسائل کی تحقیق سے نفرت کلی رکھتے ہیں، نہ کسی سے دریافت کریں، نہ کسی کے کہنے پر عمل کرتے ہیں، ولہٰذا اکثر افعال خرابیوں کے ساتھ واقع ہوتے ہیں، اس کے ساتھ ان کو چھوڑ دینے سے باک نہیں رکھتے، اب اصل کی ممانعت ہی خلاف مصلحت ہے،و لہذا علمائے دین نے ایسے امور کی ممانعت سے بھی( کہ فی نفسہ خیر اور بسبب بعض عوارض خارجیہ کے مکروہ ہوگئے) منع فرمایا،
اور اسی نظر سے "بحر الرائق" میں لکھا :
دیکھو ان اطبائے قلوب نے خلق کے مرض باطنی کو کس طرح تشخیص اور مناسب مرض کے کیسا عمدہ علاج کیا، جزاھم اللہ احسن الجزاء، برخلاف اس کے نئے مذہب کے علما مسائل میں ہر طرح کی شدت کرتے ہیں،اور مستحسنات ائمہ دین ، مستحبات شرع متین کو شرک وبدعت ٹھہراتے ہیں، تمام ہمت ان حضرات کی نیک کاموں کے مٹانے میں (جوفی الجملہ رونق اسلام کے باعث ہیں) مصروف ہے، اس قدر نہیں سمجھتے کہ لوگ انھیں چھوڑ کر کیا کام کریں گے؟ اور جو روپیہ کہ ان کاموں اور انبیاء و اولیاء کے اعتقاد میں صرف کرتے ہیں وہ کس کام میں صرف ہوگا؟ ہم نے تو ان حضرات کے احتساب و نصیحت کا اثر یہی دیکھا ہے کہ مسلمانوں میں ایک نیا اختلاف اور روزمرہ کا جھگڑا فساد پیدا ہوگیا، ایک مذہب کے دو ہوگئے، کوئی کسی کو مشرک و بدعتی ،اور وہ اس کو وہابی گمراہ جہنمی کہتا ہے، کسی نے مجلس میلاد چھوڑ کر مسجد نہیں بنوائی، یا گیارہویں اور فاتحہ کے عوض دو چار طلبہ علم کو ایک وقت روٹی نہ کھلائی، کسی نے وہ روپیہ ناچ رنگ میں صرف کیا، اور جو عیاش نہ تھا اس نے سوائے ڈیوڑھے پر لوگوں کو قرض دیا، سیکڑوں میں دو چار ایسے بھی سہی کہ انہوں نے سال میں ایک دو بار وہابی مولویوں کو دعوت بھی کھلا دی، اپنے واسطے دین کو مٹانا، اور خلق خدا کو بہکانا، کس مذہب و ملت میں روا ہے؟!اگر خست طبع اور نائت صرف کو گوارا نہیں کرتے! اور "لاتصرف" کے سوا تم نے کچھ نہیں پڑھا ہے تو یہ افعال فرض و واجب نہیں! اور نہ تم سے کوئی مواخذہ کرتا ہے! مگر دوسرے کو مانع ہونے، اور اس غرض کے لئے نئے اصول اختراع کرنے، اور نیا مذہب بنانے سے کیا فائدہ؟!۔
معاذاللہ و نائت اور خست اس حدکو پہنچی کہ جس کام میں روپیہ کا خرچ پاتے ہیں اس کے مٹانے میں کس درجہ اصرار فرماتے ہیں!، صرف کرنا تو ایک طرف، دوسروں کو خرچ کرتے دیکھ کر گھبراتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ دنی الطبع، قاسی القلب اس مذہب کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں، صرف کو تو اپنا نفس نہیں چاہتا، لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچنے کا یہ حیلہ خوب ہاتھ آتا ہے کہ "ہم کیا کریں، ہمارے علماء ان امور کو بدعت بتاتے ہیں،ان صاحبوں نے بخل نفس کا نام اتباع سنت رکھا ہے،اور تعظیم و تکریم انبیاء اولیاء سے انکار کو توحید ٹھہرایا ہے۔
(اصول الرشاد شریف، صفحہ ١٤٦)
No comments:
Post a Comment