سیف فقیہ الباسل (قسط سوم)
از-جانشین مظہر اعلی حضرت حضرت علامہ محمد مشاہد رضا خان حشمتی علیہ الرحمہ
کہاں ہے وہ تیس کروڑ پر گھمنڈ کرنے والا جس کے ذہن میں تعداد کی زیادتی پر خباثت بھری ہے۔ مرتدین سے اتحاد باطل کی دعوت دینے والا بتائے کہ کۓ کروڑ تھے مومنین میدان بدر میں جنہیں اللہ رب العزت جل جلالہ نے فتح سے سرفراز فرمایا،اتحاد باطل کی دعوت دینے والا تاریخ کے اس واقعہ سے سبق حاصل کرے کہ خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) کے دور خلافت میں ایک امام کا مسئلہ پیش آیا کہ وہ ہر نماز میں سورہ "عبس وتولی ان جاء ہ الا عمی "(ترجمہ: تیوری چڑھائی اور منہ پھیرا اس پر یہ کہ ان کے پاس نابینا (عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ) حاضر ہوئے) کی ہی تلاوت کرتا تھا۔حضرت سیدنا فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) نے اس گاؤں میں جاکر اس امام سے پوچھا کہ نماز میں کونسی سورت تلاوت کرتے ہو؟اس نے کہا میں "سورہ عبس وتولی" پڑھتا ہوں۔امیر المومنین نے پوچھا صرف یہی سورت کیوں پڑھتے ہو ؟ اس نے کہا مجھے یہ سورت پڑھنے میں مزہ آتا ہے۔اتنا سننا تھا کہ امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم
(رضی اللہ تعالی عنہ) کے تیور بدل گئے، جلال میں چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا: یہ بارگاہ رسالت پناہ سے تمہارے دل میں عناد ہے۔تمہارے اس فعل سے منافقت ظاہر ہے اور صرف اس سورت کے پڑھنے پر اس کو قتل کر دیا۔بظاہر وہ امام جو مسلمان تھا کلمہ اسلام پڑھنے والا، نماز پڑھنے والا ،احکام شریعت پر عمل کرنے والا اور کوئی کفر نہ کیا تھا۔صرف اس کے اس بیان پر کہ اس سورت کو پڑھنے میں مزہ آتا ہے ،اس کے دل کا عناد ظاہر ہوا اور ایسا عناد جو محمد مصطفی علیہ التحیۃ والثناء میں اہانت آمیز تھا،صرف اس بنیاد پر کلمہ پڑھنے والا نہ دیکھا،پڑھنانہ دیکھا،اسلامی صورت نہ دیکھی، مسلمانوں کا امام ہونا نہ دیکھا، احکامات اسلامی کا ماننا اور اس پر عمل کرنا نہ دیکھا، دل کا چور پکڑا گیا، جس دل میں عظمت مصطفی و محبت رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نہ ہو منافقت ہے۔ اس کو فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) نے قتل کر کے واصل جہنم کردیا۔تمام نجدیوں، وہابیوں اور دیوبندیوں کے امام ابن تیمیہ کی کتاب میں بھی حضرت فاروق اعظم (رضی اللہ تعالی عنہ) کا اس امام کو قتل کرنے کا واقعہ موجود ہے۔
ہر صاحب علم و انصاف پر جو تاریخ وسیر سے واقف ہے، خوب روشن ہے کہ حضرت مولائے کائنات علی مرتضیٰ شیر خدا (کرم اللہ وجہہ الکریم) نے وہ خوارج جو پانچوں وقت نماز پڑھتے تھے، قرآن کی تلاوت کرتے تھے،تہجد گزار تھے، عبادت کرنے والے تھے، روزہ رکھتے تھے، داڑھی والے تھے، تمام احکام اسلامی کے ماننے والے تھے، کسی چیز کا خیال نہ فرمایا،ان کے ساتھ یارانہ نہ کیا، دوستانہ نہ منایا، بلکہ جنگ ہزوان (ایک شہر ہے)میں پانچ ہزار خارجیوں کو قتل کردیا اور جب ان خارجیوں نے قرآن کو نیزہ پر اٹھایا اور قرآن کی امان مانگی تو مجاہدین کی پیش قدمی رک گئی۔حضرت مولائے کائنات (رضی اللہ تعالی عنہ) نے پوچھا کیا وجہ ہے کہ جنگ آگے نہیں بڑھ رہی ہے، جہاد کیوں موقوف ہوا؟تو مجاہدین نے جواب دیا کہ یروشلم کے کفار بھی امان مانگتے تو ان کو امان دی جاتی،یہ تو مسلمان ہیں کلمہ پڑھنے والے ہیں، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، اور دیگر احکام اسلامی ادا کرنے والے ہیں، قرآن پڑھنے والے، قرآن کو سینے سے لگانے والے ، قرآن کو نیزوں پر بلند کر کے قرآن عظیم کی امان مانگ رہے ہیں،تو انہیں کیوں نہ امان دی جائے گی۔اس وجہ سے جنگ موقوف کر دی گئی ہے۔ تو حضرت مولائے کائنات مصطفی پیارے صلی اللہ علیہ وسلم کے ضیغم دلیر امیرالمومنین مولی علی (کرم اللہ وجہ الکریم) کو جلال آ گیا اور فرمایا اقتلوھم فانھم مشرکون قتل کرو یہ سب مشرک ہیں۔ پانچ ہزار قتل ہوئے اور باقی کثیر جماعت نے توبہ کی۔ان کی قبلہ روئی، کلمہ گوئی کا کچھ بھی لحاظ نہ فرمایا۔تلوار کے گھاٹ جہنم پہنچا دئیے۔
اب بتائے وہ سنی عالم کہلانے والا تیس کروڑ آبادی پر گھمنڈ و غرور کرنے والا جن کی عقل پر پردے پڑے ہوئے ہیں،دل کی آنکھیں کھولے کہ ایسے ایسے لوگوں کے ساتھ حضرت مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اتحاد نہ کیا ۔
اگر تعداد کی زیادتی پر ہی کامیابی موقوف ہوتی تو بتاؤ کہ کے کروڑ کا لشکر تھا کہ جب غازی اسلام محمود غزنوی ظلم و استبداد اور باطل پرستی کی سرکوبی کے لیے میدان کار زار میں آئے،علم توحید بلند فرمایا، عدل و انصاف و ایمان کی روشنی سے ایک عالم کو جگمگا دیا اور باشندگان ہند پرچم توحید کے تلے ایمان کی چاشنی پاکر امن و امان کی سانس لے رہے تھے۔جب باطل پرستوں کا ہر طرف دور دورہ تھا، جب راجاؤں، جاگیرداروں اور اونچی برادریت پر گھمنڈ کرنے والوں کا ظلم و ستم اس حد تک بڑھا کہ نیچی برداریوں کو اچھوتوں اور
ہریجن کو غلام بے دام بناتے،ایک دھرم ہونے کے باوجود بھی اپنے صنم خانوں میں نہ آنے دیتے تھے۔مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے جاتے تھے۔انسانیت سے ہٹ کر جانوروں کی طرح سلوک کیا جاتا تھا۔ظلم و بربریت کا بازار گرم تھا۔امن و عدل و انصاف کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔جمہوری قدروں کا یکسر نشان مٹا دیا گیا تھا ان پچھڑی ذاتوں کا
ہر یجنوں اور کمزور غریب طبقے پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔تو اس کرب کو محسوس کرکے غازی محمود غزنوی نے اس ظلم و استبداد کے خلاف عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے امن و ایمان کے پرچم لہرانے کے لئے محاذ آرائیاں کیں۔اور جس طرف بھی گئے پرچم عدل و انصاف و ایمان بلند فرمایا۔شمع ایمان کی روشنی سے لوگوں کے قلوب کو چین و اطمینان نصیب ہوا، تو کے کروڑ کا سہارا لے کر آئے تھے۔ حضرت سیدی سالارسا ہو اور سید سالار مسعود غازی اجمیر شریف وقنوج ہوتے ہوئے سترکھ اور بہرائچ میں پرچم لہرائے۔ایمان وامان کی دولت سے لوگوں کو سرفراز فرمایا، توکے کروڑ کا لشکر لے کر آئے تھے۔محمد بن قاسم اور طارق بن زیاد وغیرہ (مولائے کریم جل وعلا ان کی قبروں پر رحمتوں کے پھول برسائے) جب ہند و سندھ پر ظلم و جبر و استبداد کے خلاف عدل و انصاف وایمان کی شمع لے کر آئے تو کے کروڑ تھے۔جنہوں نے اپنی قوت ایمانی و عشق رسول علیہ الصلوۃ والتسلیم میں سرشار ہو کر بساط عالم کا نقشہ بدل دیا۔
تاریخ کا رخ موڑتے ہوئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا اور لوگ تلوار کے خوف سے مسلمان ہوئے۔یہ سراسر حقائق کے خلاف ہے۔البتہ تلوار، تبلیغ عدل و انصاف کا وسیلہ تھی۔حالانکہ جب بھی عساکر مسلمین نے ایسی معرکہ آرائیاں کی ہیں اور طاغوتیت کے بطلان کے لیے عدل و انصاف اور اسلام کی روشنی سے عالم کو منور کر کے لوگوں کو اطمینان و چین سے زندگی بسر کرنے کے لئے کامیابی دنیا و آخرت کے لیے اور رضائے مولیٰ(جل وعلا) کے لیے قتال و جہاد کیا ہے تو یہ احکامات جاری ہوتے تھے۔بت خانوں اور کلیساؤں کو نہ توڑا جائے گا۔ان کے پجاریوں،راہبوں پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا۔عورتوں، بچوں اور بوڑھوں سے قطعاً باز پرس نہ کی جائے گی اور غیر مسلم ذمی کفار چاہے مشرکین ہوں، یہودی ہوں، عیسائی وغیرہ ہوں ان کے بارے میں حدیث شریف میں فرمایا کہ ان غیر مسلموں کے خون، مال، یعنی جان و مال، تمہاری جان ومال کی طرح ہیں۔یعنی جیسے اپنی جان و مال کی حفاظت کرو گے ویسے ہی ان غیر مسلموں کی جان ومال کی، عزت و آبرو کی حفاظت کرنی ہوگی۔اور ان ذمی غیر مسلموں کے متعلق میں تم سے میدان قیامت میں باز پرس کروں ہوگا۔سلاطین اسلام نے جو غیر مسلموں کے ساتھ عدل و انصاف کیا ہے وہ ایک ہندو حاکم بھی ہندوؤں کے ساتھ نہیں کر سکتا ہے۔صرف اس کا تفصیلی جائزہ لکھا جائے تو ایک کتاب ہو جائے۔ البتہ مسلمان اپنے دین مذہب کے خلاف نہ گئے اور نہ اس کی مخالفت کی۔عیسائی، یہودی، ہندو وغیرہم اپنے اپنے دھرم پر عمل کرتے رہے اور مسلمان اپنے مذہب پر عمل کرتے رہے۔نہ کسی کابت خانہ توڑا گیا، نہ کسی کا کلیساوہیکل توڑا گیا۔ثبوت کے لیے کتب تواریخ میں سیکڑوں واقعات موجود ہیں۔ اور کیا یہ روشن گواہیاں کافی نہیں؟اتحاد باطل وہ قومی یکجہتی سے ملکی و قومی امن و ترقیوں کا خواب دیکھنے والا، اپنے کو سنی عالم کہلانے والی تاریخ کے ان روشن اوراق کا مطالعہ کرے اور اپنی ذہن کی گندگی کا علاج کرے۔اور مذہب اسلام پر تلوار کے خوف کا الزام دینے والے یہ بھی دیکھیں کہ آج جو اپنا کلمہ پڑھتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، حج بھی کرتے ہیں، زکوۃ بھی دیتے ہیں، ظاہراً اسلامی صورت ہے،احکام اسلامی ادا کرتے ہیں، جیسے قادیانی، رافضی، وہابی، دیوبندی، نجدی وغیرہم کو ہم مسلمان نہیں جانتے اور ان کو اپنی مساجد میں آنے سے روکتے ہیں،اپنے قبرستان میں ان کے مردے دفن نہیں ہونے دیتے، ان سے میل جول، ان کے ساتھ کھانے پینے کو روا نہیں جانتے،ان سے شادی بیاہ، ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے، نہ ان کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیتے ہیں،اور ان سے دور رہنے کا حکم دیتے ہیں، جبکہ ہندوؤں کے یہاں کھانے پینے سے پرہیز کا حکم نہیں دیتے۔مگر یہ کلمہ، نماز، روزہ، اور ظاہراً احکامِ اسلامی ادا کرنے والوں کو حدیث و قرآن اور فرمودات ائمہ کرام کی روشنی میں ان کو مساجد میں آنے سے روکتے ہیں۔ اور ترک موالات کا حکم دیتے ہیں کیا یہ شواہد کافی نہیں؟ہندوستان یادیگر ممالک میں نہ اسلامی حکومت ہے نہ اسلامی شریعت نافذ ہے۔پھر بھی لوگ مشرف با سلام ہو رہے ہیں نہ کوئی تلوار چل رہی ہے، نہ جہاد ہو رہا ہے۔ہاں! یہ ضرور ہے کہ مسلمان اپنے دین و مذہب کے خلاف نہ گئے اور نہ کبھی اس کی مخالفت کی۔ جیسے مرتد اکبر بادشاہ نے قشقے لگائے،پوجا کی، ہولی کھیلی جس سے مسلمانوں نے اجتناب کیا لکم دینکم پر عمل کیا تو کون سا جرم کیا۔تحریک خلافت میں اسی توحید وکلمہ کی بنیاد پر صرف بے دینوں،مرتدوں کا اتحاد نہیں ہوا بلکہ مشرکین کے ساتھ بھی اتحاد کے گانے بجائے گئے۔
واقعات ماضیہ ایک کتاب چاہتے ہیں "مشتے نمونہ از خروارے"اس تحریک کا مقصد غیر ملکیوں یعنی انگریزوں کے سرمائے کا بائیکاٹ اور انگریزوں کی ملازمت حرام۔پھر اس کے نتائج کیا ہوئے ہیں کہ ہر طرف سے مسلمانوں پر بربادی و ہلاکت کے طوفان رونما ہوئے،ظلم و بربریت کا یہاں تک مظاہرہ ہوا کہ جان و مال، عزت و آبرو برباد ہوئی۔اور مسلمانوں کے ہاتھ تباہی کے سوا کچھ نہ آیا اور مسلمان مصائب اٹھا کر ہوش میں آئے۔خلافت کمیٹی سے بیزار ہوئے اور خلافت کمیٹی بھی ہلاکت کمیٹی ہوکر فنا کے گھاٹ اتر گئی۔ نہ اتحاد باقی رہا، نہ امن و امان قائم رہا۔ نہ ان کے شیطانی خواب شرمندہ تعبیر ہوئے۔جس کی قدرے تفصیل حضرت مفتی شریف الحق صاحب امجدی زیدت فیوضہم المبارکہ (علیہ الرحمہ) کے رسالے "اشک رواں" میں اور دیگر کتب سابقہ میں دیکھیں۔اب بھی وہ سنی عالم کہلانے والا آنکھیں کھولے، مرتدین، بددین،منافقین سے اتحار کر کے کیا حاصل ہوا؟ اور اب کیا حاصل کرے گا؟
ایک جاہل دنیاوی مفاد پرست مقرر جو ترک موالات کیا ہے، جانتا ہی نہیں۔ مسائل شرع کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر مرتدین سے دورونفور کا یہی حکم ہوگا تو کوئی بس کنڈکڑ اگروہابی ہے اس سے ٹکٹ لے لیا تو وہ
وہابی ہو گیا،ریلوے بلنگ پر اگر وہابی ٹکٹ دینے والا ہے اس سے ٹکٹ لے تو وہ وہابی ہو گیا،کرانہ کی دکان پر جائے اگر وہ وہابی ہے تو اس سے سودا خرید لیا وہابی ہوگیا، کوئی مریض کسی حکیم وڈاکٹر جو وہابی ہے اس سے دوا لے لی وہ وہابی ہوگیا، بازار میں کوئی دکاندار وہابی ہو اس سودا خریدا وہابی ہو گیا، کوئی ٹیکسی یا رکشے والا وہابی ہو تو اس بیٹھاہوا وہابی ہو گیا، بس یاریل اور کسی سواری پر جس سیٹ پر بیٹھا بغل میں کوئی وہابی بیٹھ گیا تو وہ وہابی ہو گیا،کچہری میں کوئی وکیل یا جج وہابی ہے اس سے مقدمہ میں وکالت یا فیصلہ لیا تو وہ وہابی ہو گیا،حکومت کے دفاتر میں گورنمنٹ کے عمال سے معاملات کے لیے ملاقات کی وہابی ہو گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کی اپنی تقریروں میں بکواس کرتا ہے۔بتاو۔۔۔۔۔۔ یہ ترک موالات کا مذاق نہیں تو کیا ہے اور شرع اسلام کا مذاق اڑاتا ہے یا نہیں۔۔۔۔۔؟ترک موالات بامرتدین قطعی یقینی مسئلہ ہے اور ان امور کو ترک موالات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ یہ چیزیں یا تو ضروریات میں داخل ہیں یا حوائج میں شامل یا معاملات میں داخل، موالات قلبی کفر ہے اور ظاہری طور پر شادی بیاہ میں بلانا اشد حرام ہے۔
اس نادان کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ کسی بڑی شخصیت کا قول وعمل خلاف شرع حجت نہیں، بلکہ اگر وہ شخصیت مسلم ہے تو اس کے اس خلاف شرع قول و فعل کی تاویل توجیہ کی جائے گی۔یہ الحاق ہے یا یہ عمل و قول حالت سکروجذب کا ہے۔کیا عارف کے کلام میں یہ نہ آیا کہ اس مضمون کو قدرے تفصیل سے متصلب فی الدین برادری دینی انصار جامی صاحب رضوی کو لکھ چوکا ہوں۔
No comments:
Post a Comment