مرحمت باری تعالیٰ پر اعتراض کا رد بلیغ
از : خلیفۂ اعلی حضرت صدرالافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ
اعتراض : اگر وہ بخشش و رحم کرنے والا ہے تو اس نے اپنی مخلوق میں انسانوں کے آرام کے واسطے دوسرے جانداروں کو مار ،سخت ایذا دینا اور ذبح کرا کر گوشت کھانے کی اجازت کیوں دی؟کیا وے (وہ) ذی روح بےگناہ اور خدا کے بنائے ہوئے نہیں ہیں؟
جواب: ایسے اعتراض پنڈت صاحب کی علم و لیاقت کا نمونہ ہیں۔ اس اعتراض کا حاصل یہ ہے کہ اپنے بنائے ہوئے اور ذی روح کو ذبح کرنے اور ایذا دینے کی اجازت دینا رحم کے خلاف ہے۔ یہ اعتراض اس قابلیت سے کیا گیا ہے کہ اس کی زد خود پنڈت جی پر پڑتی ہے کیوں کہ اگر ایذاء دینے کی اجازت دینا رحم کے خلاف ہے تو جانوروں سے خدمتیں لینا اور ان کی آزادی کو آسائش کے لیے برباد کرنا،ہل جتوانا،بوجھ لادنا،سواری لینا،سردی اور بارش کے وقت میں دق کرنا،منزلوں لیے پھرنا۔ تھک جائیں تو مار مار کر لہولہان کرنا،ان کے بچے کا حق دودھ ان سے چھین لینا،ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں کی گردنوں میں رسیاں ڈال کر ان سے علیحدہ کرنا،ان کی قدرتی غذا چھیننے کے لیے انہیں ترسانا،ادھر بچہ چلاتا ہے ادھر ماں بیکرار ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھنا اور ذرا پرواہ نہ کرنا،ان سب باتوں کی اجازت آپ کے پرمیشور نے دی ہے؟ تو بقول آپ کے وہ رحم والا نہیں۔ اگر نہیں دی ہے تو آپ کے یہ سب افعال ناجائز ہیں۔ دودھ، دہی،گھی سب آپ کے قاعدے پر حرام، سواری،زراعت،بار برداری میں ان سے کام لینا سب ناجائز لیکن کیا پنڈت جی نے يا ان کے کسی اور ہم خیال نے کسی رشی منی نے کبھی ان ناجائز مظالم کے ترک کا عملی ثبوت دیا ہے؟ اور ان کو دنیا سے نیست و نابود کرنے کی کوشش کی ہے؟ لیکن عمل پنڈت صاحب کی تکذیب کرتا ہے ۔ آپ کا گھی،دودھ استعمال کرنا،جانوروں سے سواری،باربرداری کی خدمتں لینا ثابت کرتا ہے کہ آپ اپنے پرمیشور کو رحم والا نہیں مانتے۔
پرندوں میں شکرہ،باز،شاہین وغیرہ کچھ تو ایسے ہیں کے ان کے پاس آلاتِ شکار موجود ہیں اور کچھ کبوتر کی طرح ایسے بےبس اور کمزور ہیں کے وہ اپنی حفاظت کا بھی کوئی سامان اپنے پاس نہیں رکھتے۔ اور اسی طرح چوپایوں میں شیر کے پاس تو شکار کرنے کے آلات ہیں لیکن دوسرے جانوروں کے پاس اپنی حفاظت کرنے کے لیے کوئی بھی چیز نہیں۔ یہ سب خدا ہی کے بنائے ہوئے ہیں یا کسی اور کے؟ گوشت خور جانوروں کی غذا اس نے مقرر کی ہے یا کسی دوسرے نے؟ آلات صید اس نے عنایت فرمائے یا کسی اور نے،قتل و شکار پر ان کی زندگی کا مدار اس نے مقرر فرمایا يا نہیں؟ اب پنڈت صاحب یہ بتائے یہ رحم کے خلاف ہے اور ان کا ایشور رحم کا دشمن ہے یا اس کو رحم کے خلاف کہنا ہی نادانی یا بےادبی ہے۔
اس اعتراض کے ضمن میں پنڈت جی کے قلم سے ایک لفظ بےگناہ کا بھی نکل گیا ہے جو پنڈت صاحب شوق اعتراض میں لکھ گئے ہیں لیکن انہیں خبر نہیں کے اس لفظ نے ان کے مذہب کا ہی خاتمہ کر دیا۔ اصول تناسخ کی بنیاد پر تو کوئی جانور بےگناہ ہو ہی نہیں سکتا،جانور کو جون ہی اس کو کسی نہ کسی گناہ کی پاداش میں ملتی ہے۔علاوہ بریں بےگناہ کو ایذاء پہنچنا،یہ بھی اصول تناسخ کے خلاف ہے جو کوئی تکلیف کسی کو پہنچتی ہے باقاعدہ نتائج ضرور کسی خطا ،قصور کا بدلا ہوتی ہے اب تو پنڈت صاحب کو اعتراض نہ کرنا چاہیے جو کوئی جانور ذبح ہوتا ہے وہ ضرور کسی نہ کسی گناہ کی پاداش میں ذبح ہوتا ہےاور اس کے لیے ذبح ہونا باقاعدۂ تناسخ ضروری ہے۔
البتہ اگر دنیا کی قومیں گوشت خوری چھوڑ دیں اور ذبح کا دستور جہاں سے ناپید ہو جائے تو پنڈت جی کا ایشور اس طریقے کی سزا کسی کو نہ دے سکے گا جو با قاعدۂ تناسخ اس پر لازمی اور ضروری تھی ۔ ایشور کی وہ مجبوری قابل رحم ہوگی۔ ہندوستان کے مسلمان اس وقت گائے کا ذبیحہ ترک کرنے کی فکر میں ہیں۔ آریوں کو بہت جلد اعلان کر دینا چاہیے کہ مسلمان ایسا ہر گز نا کرے،ورنہ ایشور کو ناگفتہ بہ مصیبت کا سامنا ہوگا اور اس کا قانونِ سزا نکمّا ہو کر رہ جائےگا۔جرائم پیشہ جیو کی چڑ بن جائے گی اور وید کے ایشور کو بہ مجبوری معطل ہونا پڑ جائے گا۔ پنڈت جی نے جو یہ لکھا ہے کے کیا وے (وہ) خدا کے بنائے ہوئے نہیں اس سے پنڈت جی کا یہ مدعا ہے کے اپنے بنائے ہوئے کے ساتھ ضرور بنانے والے کو ایسا محبت کا تعلق ہو جاتا ہے کے وہ اس کا ذبح ہونا گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے اگر وہ ذبح کی اجازت دے تو یہ رحم کے خلاف ہے۔
میں یہ دریافت کرتا ہوں کہ اپنے بنائے ہوئے کے ساتھ جو محبت ہوئی وہ اس بات کو تو گوارا نہیں کرتی کے ذبح کی اجازت دی جائے لیکن یہ گوارا کر لیتی ہے کے اپنے آپ کو اس پر فنا کر دیا جائے،جس کے لیے یہ بھی گوارا نہیں کے دوسرا ایذا اس کی جان لینے کے لئے خود آمادہ ہو جانا تو اعلیٰ درجہ کی بے رحمی ہے اور پرلے سرے کا ظلم عظیم ہوگا،تو کیا پنڈت صاحب کے نزدیک موت خدا کے اختیار سے باہر ہے۔خدا کے اختیار سے باہر کوئی چیز ہے کہ بغیر اس کے قصد و ارادے کے واقعہ ہو جاتی ہے؟ یا کوئی دوسرا فنا کر دیتا ہے؟ اور ایشور اپنی بنائی ہوئی مخلوق کی موت کے صدمے اٹھایا کرتا ہے۔ ایسا مجبور اگر ہے تو اس کو پرمیشور کہنا اور کارسازعالم اور سرو سکتیمان و قادر مطلق اعتقاد کرنا بالکل باطل و غلط ہے۔
یہ وہ اشکال ہے جس کا پنڈت صاحب کے پاس جواب نہیں۔اعتراض کے شوق میں ایسی ایسی لغو و باطل باتیں کہنا پنڈت صاحب کی قابلیت کا نتیجہ ہے اور اس پر اپنے آپ کو محقق ہونے کا دعویٰ بھی ہے۔تعصب کا جوش جو پنڈت صاحب کے سینے میں بھرا ہوا تھا اس نے مجبور کیا کہ پنڈت صاحب قرآن شریف پر اعتراض کرنے کے لیے باطل و غلط اور لغو و رکیک باتیں لکھ کر شیخی مارنے پر تل گئے اور قرآن پاک کی روشن تعلیم سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔چشم بینا اور نظر انصاف ہو تو انسان قرآن پاک دیکھنے کے بعد اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے اور اپنی درستی و اصلاح کے علاج اس میں تلاش کر کے سعادت دارین کے منازل تک پہنچتا ہے لیکن نظر عداوت خوبیوں کو دیکھنے سے مجبور ہے،اس کو ہر کمال عیب ہی معلوم ہوتا ہے۔
اللہم ارنا الحق حقاوالباطل باطلا
(احقاق حق،صفحہ ١٢)