***٢***
مزارات طیبہ کا بوسہ لینا
از:-اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ
مزارات اولیائے کرام علیہم رحمۃ المنعام کے چومنے کو کفر یا شرک کہنا کیسا ہے؟
الجواب
فی الواقع بوسہ قبر میں علماء مختلف ہیں ، اور تحقیق یہ ہے کہ وہ ایک امر ہے کہ دو چیزوں داعی ومانع کے درمیان دائر، داعی محبت ہے او رمانع ادب ، تو جسے غلبہ محبت ہو اس پر مواخذہ نہیں کہ اکابر صحابہ رضی ﷲ تعالٰی عنہم سے ثابت ہے۔ اور عوام کے لیے منع ہی احوط ہے، ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ مزارِ اکابر سے کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے کھڑا ہو، پھر تقبیل کی کیا سبیل! عالمِ مدینہ علامہ سید نورالدین سمہودی قدس سرہ خلاصۃ الوفاء شریف میں جدارِ مزار انور کے لمس وتقبیل وطواف سے ممانعت کے اقوال نقل کرکے فرماتے ہیں:
فی کتاب العلل والمسؤلات لعبد ﷲ بن احمد بن حنبل سألت ابی عن الرجل یمس منبر النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ علٰی الہٖ وسلم تبرک بمسہ وتقبیلہ ویفعل بالقبر مثل ذٰلک جاء ثواب ﷲ تعالٰی فقال لاباس بہ
یعنی امام احمد بن حنبل کے صاحبزادہ امام عبدﷲ فرماتے ہیں: میں نے اپنے باپ سے پوچھا کوئی شخص نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے منبر کوچھوئے او ربوسہ دے۔ اور ثواب الہٰی کی امید پر ایساہی قبر شریف کے ساتھ کرے، فرمایا، اس میں کچھ حرج نہیں۔
امام اجل تقی الملّۃ والدین علی بن عبد الکافی سبکی قدس سرہ الملکی شفاءُ السقام ، پھر سیدنورالدین خلاصۃ الوفاء میں بروایۃ یحٰیی بن الحسن عن عمر بن خالد عن ابی بناتۃ عن کثیر بن یزید عن المطلب بن عبدﷲ بن حنطب ذکر فرماتے ہیں کہ مروان نے ایک صاحب کو دیکھا کہ مزار اعطر سید اطہر صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے لپٹے ہوئے ہیں اور قبر شریف پر اپنا مُنہ رکھے ہیں، مروان نے ان کی گردن پکڑ کرکہا جانتے ہو یہ تم کیا کررہے ہو، انھوں نے ا س کی طرف منہ کیا اور فرمایا:
نَعم اِنِّی لَمْ اٰتِ الْحَجَرَ انما جَئْتُ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم سَمِعْتُ رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقول لاَتَبْکُوْا عَلَی الدِّیْنِ اِذِا وَلِیَہۤ اَھْلُہ وَلٰکِنْ اَبْکُوْا عَلَی الدِّیْنِ اِذَا وَلِیْہ غَیْرُ اَھْلَہٖ
ہاں میں کسی پتھرکے پاس نہ آیا میں رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے حضور حاضر ہواہوں ، میں نے رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے سنا، دین پر نہ رو جب اس کا والی اس کااہل ہو، ہاں دین پر رو جب نا اہل اس کا والی ہو۔
سید قدس سرہ فرماتے ہیں :
رواہ احمد بسند حسن
امام احمد نے یہ حدیث بسند حسن روایت فرمائی۔ نیز فرماتے ہیں:
روی ابن عساکر جید عن ابی الدرداء رضی ﷲ تعالٰی عنہ ان بلا لارای النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم وھو یقول لہ ماھذہ الجفوۃ یابلال اما اٰن لک ان تزورنی فانتبہ حزینا خائفا فرکب راحلتہ وقصد المدینۃ فاتی قبر رسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فجعل یبکی عندہ ویمرغ وجہہ علیہ
یعنی ابن عساکر نے بسند صحیح ابود رداء ضی ﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا کہ حضرت بلال رضی ﷲ تعالٰی عنہ شام کو چلے گئے تھے ایک رات خواب دیکھا کہ حضورا قدس صلی ﷲ علیہ وسلم ان سے فرماتے ہیں: اے بلال !یہ کیا جفا ہے کیا وہ وقت نہ آیا کہ ہماری زیارت کو حاضر ہو؟ بلال رضی ﷲ تعالٰی عنہ غمگین اور ڈرتے ہوئے جاگے اور بقصد زیارت اقدس سوار ہوئے، مزارِ پر انوار پرحاضرہو کر رونا شروع کیا اور منہ قبر شریف پر ملتے تھے۔
امام حافظ عبدالغنی وغیر ہ اکابر فرماتے ہیں :
لیس الاعتماد فی السفر للزیارۃ علی مجرد منامہ بل علٰی فعلہ ذٰلک والصحابۃ متوفرون ولاتخفی عنھم ھذہ القصۃ
یعنی زیارت اقدس کے لیے شدالرحال کرنے میں ہم فقط خواب پر اعتماد نہیں کرتے بلکہ اس پرکہ بلال رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے یہ کیا اور صحابہ رضی ﷲ تعالٰی عنہم بکثرت موجود تھے اور انھیں معلوم ہوا اور کسی نے اس پر انکار نہیں فرمایا۔
عالمِ مدینہ (سیدنورالدین سمہودی علیہ الرحمۃ ) فرماتے ہیں:
ذکر الخطیب بن حملۃ ان بلالا رضی ﷲ تعالٰی عنہ وضع خدیہ علی القبر الشریف وان ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما کا ن یضع یدہ الیمنی علیہ ثم قال ولا شک ان الاستغراق فی المحبۃ یحمل علی الاذن فی ذلک والقصد بہ التعظیم والناس تختلف مراتبھم کما فی الحٰیوۃ فمنھم من لا یملک نفسہ بل یباد رالیہ ومنھم من فیہ اناۃ فیتا خر اھ ونقل عن ابن ابی الصیف والمحب الطبری جواز تقبیل قبور الصالحین وعن اسمٰعیل التیمی قال کان ا بن المنکدریصیبہ الصمات فکان یقوم فیضع خدہ علٰی قبرالنبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم فعوتب فی ذلک فقال انہ یستشفی بقبر النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم
یعنی خطیب بن حملہ نے ذکر کیاکہ بلال رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے قبر انور پر اپنے دونوں رخسارے رکھے اورابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما اپنا دہنا ہاتھ اس پر رکھتے، پھر کہا شک نہیں کہ محبت میں استغراق ا س میں اذن پر باعث ہوتا ہے اور اس سے مقصود تعظیم ہے، او رلوگوں کے مرتبے مختلف ہیں ، جیسے زندگی میں، تو کوئی بے اختیار انہ اس کی طرف سبقت کرتا ہے اور کسی میں تحمل ہے وہ پیچھے رہتا ہے، او رابن ابی الصیف اور امام محب طبری سے نقل کیا کہ مزارات اولیاء کو بوسہ دینا جائز ہے۔ اوراسمٰعیل تیمی سے نقل کیا کہ المنکدر تابعی کو ایک مرض لاحق ہوتاکہ کلام دشوار ہوجاتاوہ کھڑے ہوتے اور اپنا رخسار قبر انور سید اطہر صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم پر رکھتے، کسی نے اس پر اعتراض کیا، فرمایا میں نبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے مزاراقدس سے شفا حاصل کرتاہوں۔
علامہ شیخ عبدالقادر فاکہی مکی رحمۃ ﷲ تعالٰی کتاب مستطاب حسن التوسل فی زیارۃ افضل الرسل میں فرماتے ہیں:
تمریغ الوجہ والخد واللحیۃ بتراب الحفرۃ الشریفۃ واعتابھا فی زمن الخلوۃٰ المامون فیھا توھم عامی محذور اشرعیا بسببہ، امر محبوب، حسن لطلابھا، وامرہ لاباس بہ فیھا یظھر لکن لمن کان لہ فی ذلک قصد صالح وحملہ علیہ فرط الشوق والحب الطافح
یعنی خلوت میں جہاں اس کا اندیشہ نہ ہو کہ کسی جاہل کا وہم اس کے سبب کسی ناجائز شرعی کی طرف جائے گا، ایسے وقت بارگاہ اقدس کی مٹی او رآستانہ پراپنا منہ اور رخسارہ اور داڑھی رگڑنا مستحب او رمستحسن ہے جس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا، مگر اس کے لیے جس کی نیت اچھی ہو او رافراط شوق او رغلبہ محبت اسے اس پر باعث ہو۔
پھر فرماتے ہیں :
علا انی اتحفک بامریلوح لک منہ المعنی بان الشیخ الامام السبکی وضع حروجہ علی بساط دارالحدیث التی مسھا قدم النووی لینا ل برکۃ قدمہ وینوہ بمزید عظمتہ کما اشار الٰی ذلک بقول وفی دارالحدیث لطیف معنی الی بسط لہ اصبو واوی لعلی ان قال بحروجھی مکانا مسہ قدم النووی وبان شیخنا تاج العارفین امام السنۃ خاتمۃ المجتہدین کان یمرغ وجہہ ولحیتہ علی عتبۃ البیت الحرام بحجر اسمٰعیل
یعنی علاوہ بریں میں تجھے یہاں ایک ایسا تحفہ دیتاہوں جس سے معنی تجھ پر ظاہر ہوجائیں وہ یہ کہ امام اجل تقی الملّۃ و الدین سبکی دارالحدیث کے اس بچھونے پرجس پر امام نووی قدس ﷲ سرہ العزیز قدم مبارک رکھتے تھے ان کے قدم کی برکت لیتے اور ان کی زیارت تعظیم کے شہرہ دینے کو اپنا چہرہ اس پر ملا کرتے تھے جیساکہ خو د فرماتے ہیں کہ دارالحدیث میں ایک لطیف معنی ہیں جن کے ظاہر کرنے کا مجھے عشق ہے کہ شاید میرا چہرہ پہنچ جائے اس جگہ پر جس کوقدم نووی نے چھوا تھا۔ اور ہمارے شیخ تاج العارفین امام سنت خاتمہ المجتہدین آستانہ بیت الحرام حطیم شریف پر جہاں سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کا مزار کریم ہے اپنا چہرہ اور داڑھی ملاکر تے تھے۔
بالجملہ یہ کوئی امر ایسا نہیں جس پر انکار واجب کہ اکابر صحابہ رضی ﷲ تعالٰی عنہم او راجملہ ائمہ رحمہم ﷲ تعالٰی سے ثابت ہے تو اس پر شورش کی کوئی وجہ نہیں، اگر چہ ہمارے نزدیک عوام کو اس سے بچنے ہی میں احتیاط ہے۔
امام علامہ عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں فرماتے ہیں:
المسئلۃ متی امکن تخریجھا علی قول من الاقوال فی مذھبنا او مذھب غیرنا ، فلیست بمنکر یجب انکارہ والنھی عنہ وانما المنکر ماوقع الاجماع علٰی حرمتہ والنھی عنہ
جب کسی مسئلہ کا ہمارے مذہب یا دیگر ائمہ کے مذہب پر جواز نکل سکتا ہو تو وہ ایسا گناہ نہیں کہ اس پرانکار اور اس سے منع کرنا واجب ہو۔ ہاں گناہ وہ ہے کہ وہ اس کے حرام ہونے اور اس کے منع ہونے پر اجماع ہو۔ وﷲ تعالٰی اعلم۔
(فتاویٰ رضویہ شریف، جلد ٩، صفحہ ٥٢٨)